چاہت میں دنیا داری کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر عشاق اس قدر دل برداشتہ ہیں کہ وہ کفن بر دوش قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں کہ نہ جانے کس گھڑی اجل کی طرف سے بلا کشانِ محبت کے بلاوے کا وقت آ جائے۔ جب سے محبتوں میں ہوس کے پروردہ لوگوں نے گلشن کو بے رنگ کر کے اپنا جعلی رنگ جمانا شرع کر دیا ہے اہلِ درد کا کلیجہ منہہ کو آنے لگا ہے۔ کئی پُرانے دِل پھینک مفلس و قلاش آرام طلب اور جام طلب عشاق اگرچہ ڈیڑھ اینٹ کا مندر بنائے اپنی انا کو کُچل کر تپسیا میں انہماک کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس کے باوجود اپنی علاحدہ انجمن خیال سجائے نئے جال لیے اپنے ماضی کو بھول کر اپنے حال کی بہتری کے لیے ٹاؤن ہال کی دیوار کے سائے میں لیٹے بے حال دکھائی دیتے ہیں۔ چاہِ زنخداں کی چاہ میں سرگرداں عشاق پر جب آستین کے سانپ اور سانپ تلے کے بچھو عرصۂ حیات تنگ کر دیتے ہیں تو وہ آنکھیں بند کر کے، مُٹھیاں بھینچ کر اور کمر کھول کر دشت خار کے کولمبس بن کر چاہِ یوسف کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں جہاں ان کے ساتا روہن اور سفہا انھیں اُسی طرح کسی تاریک کنویں میں گرا کر اپنی راہ لیتے ہیں جس طرح پورن بھگت کو سیال کوٹ کے کنویں میں پھینکا گیا تھا۔ اس کے بعد ان پر جب بُرا وقت آتا ہے تو یہ نہ تین میں رہتے ہیں اور نہ تیرہ میں۔ چور محل کے مکینوں کو ہمیشہ سے یہ شکوہ رہا ہے کہ ان کی قسمت میں تخت کے بجائے تختہ ہی لکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سفلہ اور کینہ پرور حاسد صبح و مسا ان کا تختہ اُلٹنے کی فکر میں سر گرداں رہتے ہیں۔ گھاسف بقال اور رمنو بھی عجب کندۂ ناتراش ہیں رنگ بدلنے میں تو انھوں نے گرگٹ کو بھی مات دے دی ہے۔ کبھی یہ عالمی کلاسیک پر ہاتھ صاف کرتے ہیں تو کبھی تاریخ، ادب، طب اور فلسفے کو تختۂ مشق بنا کر اپنی جہالت کا اثبات کرتے ہیں۔ اُن کی دیکھا دیکھی کئی شیخ چِلّی قماش کے مسخرے موری کی اینٹیں لیے اِن پر اور اِن کے ساتھیوں پر ٹُوٹ پڑتے ہیں اور ان جو فروش گندم نما مُوذیوں کا دھڑن تختہ کر دیتے ہیں۔ پرانے زمانے میں خالِ رُخِ یار پر جان دینے والے خال خال دکھائی دیتے تھے لیکن اب تو عشاق غول در غول ٹڈی دَل کے مانند چاروں طرف سے اُمڈ آئے ہیں اور اُمیدوں کی فصل کو غارت کرنے پر تُل گئے ہیں۔ ان کے عزیز و اقارب میں ایسے عقرب پل رہے ہیں جن کی نیش زنی کے باعث چاہت میں ان کی سب مشقت اور ریاضت اکارت چلی جاتی ہے۔ دنیا دار اور ہوس پرست عشاق محبت میں اس قدر گُم سُم رہتے ہیں کہ ہر وقت خلا میں گھُورتے رہتے ہیں اور ان کو خلال کرنے کی فرصت نہیں ملتی۔ عشق کی رقابت اور حسد پر مبنی کشاکش کے باعث دو جنونی عشاق کے لیے حلال مرغی بھی حرام ہو جاتی ہے۔ گینڈے کی کھال رکھنے والے رمنو قماش کے ہوس پرست عشاق پر سنگِ ملامت بے اثر ثابت ہوتے ہیں اور وہ اپنے خچر اور استر نیلام کر کے مُردوں سے شرط باندھ کر لمبی تان کر سوتے رہتے ہیں۔ جب اُن کی آنکھیں مُند جاتی ہیں تو ان کے فگار جسم اور تار تار لباس کے عیوب کو کفن بھی نہیں ڈھانپ سکتا بل کہ اس کے لیے ملخ و مُور کے جبڑوں کی احتیاج ہوتی ہے۔ اس حالتِ زار کو دیکھ کر نوواردانِ دشتِ محبت کے دِل کے تار بجنے لگتے ہیں اور چشم کا زار رونا دیکھ کر ان کے دِل میں نئی اُمنگ اور جذبوں میں من موہنی ترنگ جنم لیتی ہے۔ ان پر یہ راز کھُل جاتا ہے کہ ہوس کی اساس پر استوار چاہت میں اب تو یہی انداز پیرہن ہو گا کہ ہوس پرست عشاق کی زبان پر ہمہ وقت کفن کفن ہو گا۔
قحط الرجال کے موجودہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ماحول میں لوٹے، لُٹیروں اور فصلی بٹیروں کو اس بات پر حیرت ہے کہ اس دھُوپ بھری دنیا میں بڑے بڑے جال لیے چار سُو وہ انبوہِ عاشقاں اُمڈ آیا ہے کہ کہیں بھی تِل دھرنے کو جگہ نہیں مِلتی۔ بو الہوس عشاق کی فکری تہی دامنی اور ذہنی افلاس کا یہ حال ہے کہ یہ کسی دوشیزہ کے عام سے چہرے کے تِل پر سب کچھ نثار کر دیتے ہیں۔ محض ایک تِل کی دل کشی سے مسحور ہو کر وہ مسبی جیسی ایک کالی کلوٹی طوائف، بھیں گی رقاصہ، بے سُری مغنیہ یا ڈھڈو کُٹنی کو بھی دِل دینے پر تُل جاتے ہیں۔ اس قماش کے کور مغز اور بے بصر مسخرے دِل پھینک عشاق جب سیلِ حوادث کی بلا خیز اور متلاطم موجوں کی زد میں آتے ہیں تو یہی تِل والی سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا محبوبہ اپنے بے بصر عشاق کا تیل نکال کر ان بے صبر اور عقل کے اندھوں کو اِسی میں تَل کر لذتِ ایذا حاصل کرتی ہے اور جب حالات کے کولھو میں مسلسل پِسنے کے بعد یہ کھوکھلے ہو جاتے ہیں تو یہ بات زبان زدِ عام ہو جاتی ہے کہ اِن تِلوں میں تیل عنقا ہے۔ جب سے کولھو اور کولھو کے بیل شہروں سے بارہ پتھر ہوئے ہیں تیل اور تیل کی دھار دیکھنے والے تیل شناس بھی رفو چکر ہو گئے ہیں۔ نئے دور کی مسبی قماش کی طوائف اور رقاصہ کسی محفل میں اپنی اُچھل کود کے منظر دکھانے کے لیے اب نو من تیل کی شرط رکھنے کے بجائے منھ مانگے دام اور ساتھ ہی بُرج الضعیفہ میں عشرت کدے کی ملکیت کی خواہاں دکھائی دیتی ہے۔ اپنی کردار کُشی، محسن کشی اور پیمان شکنی کی باتیں سُن کر عشاق تِلملا کر رہ جاتے ہیں۔ ان کی عقل پر ایسے پتھر پڑتے ہیں کہ اپنی پتھرائی ہوئی نیم باز کر گسی آنکھوں سے خزاں کے سیکڑوں مناظر دیکھ کر بھی ہر بو الہوس طلوع صبحِ عیاراں کا شدت سے منتظر رہتا ہے۔ زمانے کے انداز کیا بدلے کہ ساتھ ہی آہنگ اور ساز بھی مکمل طور پر بدل گئے۔ مُلکوں مُلکوں ڈھونڈنے سے بھی بے لوث سخی اور وسیع النظر فیاض رئیس کہیں نہ ملیں گے جب کہ راہ چلتے ایک نہیں بل کہ ہزاروں خسیس راہ روکے کھڑے ہوں گے۔ اب نہ تو گھوڑے رہے نہ سائیس، نہ سخاوت باقی ہے نہ ہی سخی رئیس، نہ کہیں تانگے دکھائی دیتے ہیں اور نہ کوچوان۔ ہر جگہ بڑی تعداد میں ہیچمدان جمع ہیں جو خود کو تیس مار خان سمجھ کر رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں۔ ایسے بونے نہایت ڈھٹائی سے خود کو باون گزا ثابت کرنے پر ڈٹ جاتے ہیں کہ چشم فلک دنگ رہ جاتی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے عروج کے جدید دور میں مواصلات کی محیر العقول ترقی نے ازمنہ قدیم سے وابستہ متعدد یادوں کو ذہن سے محو کر دیا ہے۔ جن گزر گاہوں پر پہلے تانگے چلتے تھے اب وہاں بالائی سڑکوں پر اورنج ٹرینیں اور میٹرو بسیں فراٹے بھرتی نظر آتی ہیں جب کے نیچے شیر شاہ سوری کے زمانے کی پُرانی اُکھڑی اور ٹُوٹی سڑکوں پر پا پیادہ چلنے والے لوگ، موٹریں، موٹر سائیکل، بائیسیکل، رکشے اور کاریں چل رہی ہیں اور بے کار لوگ اس جہاں کے کارِ دراز میں اُلجھے ہر گڑھے اور گہری کھائی سے بچ کر نکلتے ہوئے اپنی اُکھڑی سانسیں بحال کرنے کی سعیِ رائیگاں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ کتب بینی صدیوں سے فروغِ علم و ادب میں اہم کردار ادا کر رہی ہے مگر نئے دور میں کتب بینی کی چاہت کو بھی دنیا داری نے نگل لیا ہے۔ وہ دن گئے جب مورخ، فلسفی، محقق، نقاد اور علم و ادب کے شائقین کتب خانوں میں بیٹھ کر دادِ تحقیق دیتے تھے۔ آج نئی ترجیحات ہیں اور نت نئے موضوعات سامنے آ رہے ہیں۔ آج وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے علم کے شیدائی کسی انٹر نیٹ کیفے کا رُخ کرتے ہیں یا اپنے موبائل فون پر برقی کتب اور اخبارات و جرائد پر ایک اُچٹتی سی نگاہ ڈال کر ویب کیم کے ذریعے گھنٹوں اپنے حبیب کے سامنے بیٹھ کر بے مقصد گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں۔ انٹر نیٹ پر محنت، وقت اور سرمائے کا ناقابل تلافی زیاں ان کی زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر دیتا ہے۔ بصیرت، دانائی اور بینائی کو جبری رخصت پر بھیج کر جب یہ بے نیلِ مرام گھر لوٹتے ہیں تو پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ ان کے ورثا اور آبا نے دانہ دانہ جمع کر کے ان کی خاطر جو خرمن جمع کیا، اُسے طیور آوارہ اور چڑیاں چُگ گئیں اور اُمیدوں کے ساری فصل ہی اکارت چلی گئی۔ اپنے والدین کی محنت کو غارت کرنے کے باوجود یہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور روم کو جلتا دیکھ کر نیرو کی طرح چین کی بانسری بجا کر دیپک راگ الاپتے ہیں۔
تیتر، تلیر اور تلور کا گوشت کھانے کے رسیا جنسی جنونی جب تِل، ابرو، چاہ زنخداں اور مژگاں کی تپش کی تاب نہیں لاتے تو تلنگانہ میں مقیم رمنو جیسے عطائیوں کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں جا کر یہ راز کھلتا ہے کہ یہ سب مریض تِلّی اور پتِے کے مرض میں مبتلا ہیں اور ان کا لبلبہ تیزابی محلول سے لبا لب بھر چکا ہے اور ان کی جان لبوں پر آ گئی ہے جس کے نتیجے میں حالات کے ستم نے انھیں پانی کا بلبلہ بنا دیا ہے۔ اب یہ بلبل اپنا آشیانہ چمن سے بہت دُور بنائے گا جہاں فصلی بٹیروں کی یلغار اور کُوڑے کے ڈھیر سے مفادات کے استخواں چُننے والے سگانِ راہ کی بھر مار نہ ہو گی۔ تلنگانہ کا عطائی رمنو یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ان ہوس پرست عشاق کو قدرتِ کاملہ کی طرف سے ہوش و خرد اور احساس و ادراک کی دولت عطا نہیں ہوئی۔ اپنے ذہنی افلاس کے باعث یہ ہر حق گو کی زبان کاٹنے اور روح قبض کرنے کے متمنی رہتے ہیں۔ جلنے اور کُڑھنے کی وجہ سے یہ قبض کے روگ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تلنگانہ کا عطائی رمنو ان کور مغزوں کے مرض کی شدت کو سمجھ لیتا ہے اور جب وہ انھیں مسہل پلانے اور ان کے فسد کا قصد کرتا ہے تو حسد کے مارے ہوئے ان عشقی ٹڈوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے اور انہیں اپنے جسد خاکی سے کلاغی روح پرواز کرتی محسوس ہوتی ہے۔ اس وقت یہ آہیں بھرتے ہیں کہ تِل والی اڑیل چڑیل مسبی اور ڈائن تفوسی نے تو ان کا پتا صاف کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اب وہ اِن جنسی جنونی کٹنیوں سے علاحدہ ہو کر مکافاتِ عمل کا سامان کرنے کے لیے بے بسی کے عالم میں دماغی خلل سے نڈھال ہو کر فاؤنٹین ہاؤس جانے والی بس پر سوار ہونے کے لیے گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اگلے برس جب خرابات آرزو پر ہجر و فراق کا غم برس جا تا ہے تو برص کا مرض انھیں دبوچ لیتا ہے۔ بے لگام خواہشات، منہہ زور تمنائیں ہوس پر ست عشاق کو وادیِ جمال میں مستانہ وار گھومنے پر آمادہ کرتی ہیں لیکن پاسبانِ عقل یہی سمجھاتا ہے کہ اس دشتِ خار میں سنبھل کر پاؤں رکھنا کہیں سب بد نام نہ ہو جائیں۔ حالات ایسا گمبھیر رخ اختیار کرتے ہیں کہ رو سیاہیاں اور ذلتیں ان کے رستے میں بچھ جاتی ہیں۔ اس کے بعد جگ ہنسائی کے خوف سے کوچۂ محبوب سے شرم ناک ہزیمت اور عبرت ناک پسپائی کو نوشتۂ تقدیر سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔ رمنو، زادو اور گھاسو کا خیال تھا کہ علمِ بشریات اور حیاتیات کے ماہرین کی رائے میں دنیا بھر میں زاغ و زغن کے آشیانوں میں بے شمار فریب خوردہ بُوم پروان چڑھتے ہیں۔ ڈُوم قماش کے یہ متفنی شُوم رنگ، خوشبو، سُر، لے، حسن، ناز و ادا اور رقص کو دیکھ کر جھُوم اُٹھتے ہیں۔ قحبہ خانوں، چنڈو خانوں، طاؤس و رباب اور رقص و سرود کی محفلوں میں جس بے دریغ انداز میں یہ پیسے لُٹاتے ہیں، اُس کی ہر طرف دھُوم مچ جاتی ہے۔
رمنو کا خیال تھا کہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس وسیع و عریض کائنات میں دنیا داری کا امورِ خانہ داری کے گورکھ دھندوں سے گہرا تعلق ہے۔ بعض لوگ کارِ جہاں کے دراز سلسلے اور بڑھتی ہوئی دنیا داری کو سادیت پسندی کے مہلک مرض میں مبتلا ذہنی مریضوں کی تیمار داری کی ایک صورت سے تعبیر کرتے ہیں جب کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عیال داری کے جھنجھٹ کے اسیر رمنو جیسے کٹھور جنسی جنونی کچھ وقت دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو کر لب و رخسار اور چاہ زنخداں سے سیراب ہونے کی تمنا میں خجل ہو رہے ہیں۔ چاہت جب دنیا داری سے آلودہ ہو کر راحت کی ہوس میں مبتلا ہو جائے توسرابوں کے عذابوں کے سوا کچھ باقی نہیں بچتا۔ ترقی پذیر ممالک میں توہم پرستی اور تشکیک اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہاں چاہت کے متوالے جنم پتری، جنتر منتر، کالے اور سفید جادو، ٹونے ٹوٹکے، گنڈے، دھاگے، رمل، نجوم اور عملیات پر اندھا دھند بھروسا کرتے ہیں اور خود اعتمادی سے محروم متلون مزاج عشاق کا یہی خیال ہے کہ گردشِ ایام کے باعث جب شام و سحر کے سفینے غرقاب ہونے لگیں تو وہ ان گوسفندان کے سہارے پار اُتر سکتے ہیں۔ گردش حالات کی اس بو العجبی کے بارے میں کیا کہا جائے کہ زادو لُدھیک اور رمنو جیسے ابلہ خود کو اپنے زمانے کے بہت بڑے سائیکک سمجھنے لگے۔ یہ دونوں متفنی سائنسی علوم بالخصوص نفسیات کی معمولی شُد بُد بھی نہیں رکھتے، اس کے باوجود نہایت بے شرمی، ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ گھنٹوں ان ادق موضوعات پر ہنہناتا رہتے ہیں۔ اِن کالی بھیڑوں کے قریبی اجلاف و ارزال نے یہ بے پر کی اُڑائی ہے کہ مافوق الفطرت عناصر جن میں دیو، آسیب، بھُوت، بد روحیں، آدم خور اور چڑیلیں شامل ہیں، سب کے سب اِن جعل سازوں کے قابو میں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زادو لُدھیک، تفوسی، مسبی، رمنو اور جھابو بد روحوں، مافوق الفطرت عناصر کو اپنا آلۂ کار بنا کر اپنے مخالفین اور ناقدین کی لُٹیا ڈبونے میں کبھی تامل نہیں کرتے۔ کالا باغ میں جنم لینے والے یہ بد اعمال اور جفا کار ناقص عامل رمل، نجوم اور کئی رنگوں کے جادو کے ذریعے سادہ لوح لوگوں کو ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ اِن کا شکار بننے والوں کا داغ داغ دل وقتی طور پر تو باغ باغ ہو جاتا ہے لیکن جب زندگی کی حقیقی معنویت کے مظہر تلخ نتائج سامنے آتے ہیں تو ان شقی القلب آدم خوروں اور خونخوار درندوں کے ستم سہنے کے بعد ان کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ چکا ہوتا ہے۔ ہپناٹزم کے عمل سے نکلنے کے بعد جب ان کی آنکھ کھُلتی ہے تو یہ راز کھُلتا ہے کہ آس کا گلشن تو یاس کے کنکروں سے اَٹ چُکا ہے اور ان کا جگر لخت لخت ہو چکا ہے۔ اِن نا ہنجار لُٹیروں کا یہ دعویٰ ہے کہ ماضی بعید میں کشتۂ تیغِ ستم بننے والے سب مجرم، جنسی جنونی، قاتل، قزاق، اُچکے، ڈاکو، رجلے، خجلے، بھگتے، ڈُوم، ڈھاری، بھانڈ، بھڑوے، مسخرے، لُچے اور شہدے اُن کے عقیدت مند، ہم پیشہ، ہم مشرب و ہم راز ہیں اور اُن کے ساتھ قلبی وابستگی رکھتے ہیں۔ ماضی کے رسوائے زمانہ درندوں کی بد روحیں اکثر اُن کے پاس آتی ہیں، اُن سے ہم کلام ہوتی ہیں اور پھر دِل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچ جاتے ہیں۔ غر مختتم حراستوں، بے قاعدہ ملاقاتوں اور بے ترتیب ضیافتوں کے بعد اظہار و ابلاغ کے متعدد نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں، یہ سب اِن ناگوں اور ناگنوں کے محرم راز بن جاتے ہیں اور سب ایک دوسرے کو اپنے دِلِ صد چاک کے راز بتا کر تزکیۂ نفس کی صورت تلاش کر لیتے ہیں۔ ۱۸۸۸ء کے برطانوی اُجرتی بد معاش اور سفاک قاتل جیک دی رِپر اور ممبئی کے نواح میں ۱۹۶۰ء کے عشرے میں بہیمانہ جرائم اور قتل و غارت کی وارداتوں کے سرغنہ رامن راگھو کو یہ اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔ روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں مد فون اس کے ایک رسوائے زمانہ گُرور اسپوٹین کا اس گروہ کے ہاں مستقل قیام رہتا ہے۔ راسپوٹین (۱۸۶۹ تا ۱۹۱۶) کے ساتھ اِنھوں نے جنس و جنون، شراب و شباب اور ہوس پر مبنی ایک ایسا تعلق بنا رکھا تھا کہ ذہنی، جنسی اور دوسرے متعدد قبیح اور اخلاق باختہ امراض کے سب روگ اسی ناتے سے پھُوٹتے تھے۔ ہوس اور جنسی جنون کے سب ہتھکنڈے ان ننگ انسانیت درندوں نے راسپوٹین ہی سے سیکھے تھے۔ راسپوٹین کے بتائے ہوئے حربوں سے یہ سب اپنے جنسی جنون اور ہوس کو اس قدر بڑھاتے تھے کہ توبہ ہی بھلی۔ برطانیہ کے علاقے یارک شائر میں واقع کر کلیز پر یاری کی ایک بوسیدہ قبر میں گزشتہ چھے سو سال سے دنیا بھر کے قاتلوں، دہشت گردوں اور ڈاکوؤں کا سردار رابن ہُڈ ردائے ذلت اوڑھے آسودۂ خاک ہے۔ اُسے بھی مسبی، تفوسی، رمنو اور زادو لُدھیک اپنے سائیکک حربوں سے اکثر اپنے ہاں بُلا لیتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ اِن کی گاڑھی چھنتی ہے اور جب یہ مخبوط الحواس جنسی جنونی مِل بیٹھتے ہیں تو ان کی خوب گزرتی ہے۔ ماضی کی ہر طوائف، پیروں میں گھُنگرو باندھ کر اور گڑوی بجا کر ناچنے والی رقاصہ، نائکہ، اور کٹنی سے ان کے گہرے مراسم ہیں۔ آبرو ریزی، قتل و غارت، اغوا، دہشت گردی، بھتہ خوری، تاوان، اور لُوٹ مار کے گھناؤنے دھندوں کے سلسلے میں یہ بد قماش رابن ہُڈ کو اپنا گُرو تسلیم کرتے ہیں۔ اپنے ایک سٹھیائے ہوئے خبطی پڑوسی گھاسف بقال اور رمنو کا میں پہلے ہی ذکر کر چُکا ہوں، اِن بد طینت درندوں کی طبیعت بھی طُرفہ تماشا ہے۔ ہوس کے مستقل اور متصل سلسلوں کے اسیر اِن مے کشوں کو حالات نے تسمہ کش بنا دیا۔ ان کے بارے میں بھانت بھانت کے تبصرے زبان زدِ عام ہیں اور کوئی بھی با شعور شخص انھیں اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتا۔ مشکوک نسب کے اِن ابلیس نژاد سفہا کو دیکھ کر ہر شخص لاحول پڑھتا ہے اور جھٹ پٹ اِن مُوذیوں سے اپنے بچاؤ کی فکر کرتا ہے۔ یہ مخبوط الحواس، فاتر العقل جنسی جنونی جب سے یورپ کی یاترا کر کے لوٹے ہیں، یہ خود کو اپنے دیس میں اجنبی اور جلاوطن سمجھنے لگے ہیں۔ اپنی نادانی کو ہمہ دانی سے تعبیر کر کے اپنے منھ میاں مٹھو بننا اور خود ستائی سے اہلِ کمال کو ستانا ان جہلا کا وتیرہ بن چکا ہے۔ دنیا کے تمام علوم و فنون اور معاشرتی زندگی کے ہر موضوع پریہ حیلہ جُو جب اپنے کفن کی دھجیاں اُڑا کر ہنہناتے ہیں تو سننے والوں کا دِل گھبراتا ہے۔ اس بات کا اُنھیں شدید قلق ہے کہ معاشرتی زندگی میں جنس و جنوں، رند، ساقی، مے، خُم، مے خانے، قحبہ خانے، چنڈو خانے، قمار خانے، رقص و سرود اور محبت کے افسانہ و افسوں پر عائد قدغنوں کے باعث اللے تللے کرنے اور گُل چھرے اُڑانے کے مواقع اب بہت کم ہو گئے ہیں۔ اِن کی لاف زنی کا یہ حال ہے کہ یہ سب اپنے تئیں عصرِ حاضر کے سب سے بڑے سائیکک بن بیٹھے ہیں۔ اِن مفت خور، لیموں نچوڑ اور ہڈ حرام جنسی جنونیوں کی ہڈ بیتی سن کر ہنسے ہنستے سب سامعین کے پیٹ میں بل پڑنے لگتے ہیں۔ گھاسف بقال، رمنو اور زادو جب شُترِ بے مہار بن کر اپنا بھاڑ جیسا منہہ کھولتے ہیں تو اِن کے حلق سے دہکتے ہوئے انگارے اور خذف ریزے گرنے لگتے ہیں۔ اِس کی کٹ حُجتی اور خار ہذیانیِ گفتار کے انداز دیکھ کر سامعین کو اپنا پھٹتا ہوا سر یاد آتا ہے۔ اِن سب کینہ پرور حاسدوں کا اصرار ہے کہ زمانہ ساز لوگوں نے اہلِ جور سے ساز باز کر کے اِک گونہ بے خودی کی تمنا کرنے والے مے خواروں اور عشاق کو اس طرح اُلّو بنا رکھا ہے کہ زندگی سرابوں اور عتابوں کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ چند روز قبل میں اسی شہر میں مقیم اپنے ایک ممتاز نقاد اور محقق دوست کی دعوت پر ساجھووال میں اِن کے گھر گیا، ابھی دم ہی نہ لے پایا تھا کہ رمنو اور زادو دُم ہلاتے ہوئے بلائے نا گہانی کی صورت میں وہاں آ پہنچے۔ یہ بِن بُلائے مہمان میرے میزبان کی طرف سے دی جانے والی پُر تکلف ضیافت میں پیش کیے گئے کھانوں کو ڈکار کر بہت خوش تھے۔ اس موقع پر رمنو اور ناصف بقال دونوں کہنے لگے کہ آج کا دور جدت کا دور ہے ہم پُرانے اور فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام کے سخت خلاف ہیں۔ ناصف بقال نے اپنے دوست رمنو کی تائید کی اور کہا کہ وہ بھی نو دولتیوں کے جبر کا منھ توڑ جواب دینا چاہتا تھا لیکن مرتا کیا نہ کرتا گردن توڑ بخار میں مبتلا ہو جانے کے باعث بندھ ہوا ارادہ توڑ دیا اور کچھ نہ لکھ سکا۔ اب میں نے بے سر و پا قدیم اور متروک اور بیزار کُن اور شیطان کی آنت سے بھی طویل داستانوں کا جواب لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگلے وقتوں کی داستانوں کی سب سے پہلی قدیم کتاب جو میں نے ایک کتب خانے سے مطالعے کی آڑ میں ہتھیا لی اور اپنے گُدڑی میں چھُپا لی اس پر ’’داستان امیر حمزہ‘‘ لکھا تھا۔ طویل عرصہ گزر گیا اب میری تخلیق ’’داستانِ فقیر ہمزہ‘‘ اسی داستان کے ردِ عمل کے طور پر اس کے پیچھے آئی ہے۔ اگلے زمانے کے لوگ جو لکھ گئے ان کا جواب لکھ کر ان کا تعاقب کروں گا۔ ان سب پر دریدا کا فلسفہ ’’مصنف کی موت‘‘ لاگو کروں گا کہ اگلے زمانے سے پچھلے زمانے بہ ہر حال بہتر ہیں۔ میرا پیشہ سو پشت سے بھیک مانگنا اور ٹھگی ہے اس لیے میں کسی امیر کی داستان نہیں پڑھ سکتا تھا۔ اپنے زمانے کے ایک بدنام سائیکک کی حیثیت سے میں نے جدے دیت، مابعد جدے دیت، ساختیات، پسِ ساختیات، ردِ تشکیل کے ہر موضوع کو اپنی ذاتی چھلنی میں کھنگالا ہے۔ اس داستان میں ماضی بعید کے وہ کردار جو کردار و اخلاق سے عاری تھے حرص و ہوس کی آری لیے شاخ تمنا کی قطع و برید میں مصروف نظر آئیں گے۔ میرے چربہ ساز، سارق اور کفن دُزد نے رفیقوں نے اپنے ذہنی افلاس اور فکری لُوٹ کھسُوٹ کو چھُپانے کے لیے ٹُوٹے پھُوٹے لفظوں کو جھُوٹ مُوٹ کی کہانی کا رُوپ دے کر من گھڑت چٹکلوں سے اسے دو آتشہ کرنے کے لیے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا چُن کر جو قصہ جوڑا ہے وہ اس نے خود اپنا ہی سر پھوڑا ہے۔ اس مسودے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کفن دُزد نے جو دُور کی کوڑی لانے کی سعیِ رائیگاں کی ہے وہی اُسے ذہن و ذکاوت اور ذوقِ سلیم کے اعتبار سے کوڑی کوڑی کا محتاج ثابت کرتی ہے۔ آئیے کچھ فارغ وقت اس ابلہ کی بے سروپا باتیں سُن کر گزاریں:
’’یہ کیا کہ سب پہ عیاں من کی حاجتیں کرنی
بقال تجھ کو نہ آئیں عداوتیں کرنی
جون کا مہینہ تھا، سورج سوا نیزے پر آ گیا تھا، گرمی زوروں پر تھی۔ آنکھوں میں تیز دھُوپ کے نیزے گڑے تھے لیکن میں اور میرے ساتھی فاقہ کشی سے مجبور نفس کشی، چِلّہ کشی، تپسیا اور گیان کی خاطر کڑی آزمائش کی گھڑی میں پاؤں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں کڑے پہن کر گھڑی دو گھڑی کے لیے اپنے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ جب ہم تھر کے بے آب و گیاہ صحرا میں پہنچے تو یہاں کی قیامت خیز گرمی نے جسم کو جھُلسا کر قلب اور روح کو آتش فشاں میں بدل دیا۔ ہم سب کی چوٹی سے ایڑی تک پسینا بہہ رہا تھا۔ گرمی کی شدت اور شعاع کی حدت ہم سب کو پانی پانی کر گئی۔ شعاع، مسبی، تفوسی اور شگن میری پالتو کتیاؤں کے نام ہیں جو ہر وقت دُم ہلاتی میرے تلوے چاٹتی رہتی ہے۔ سفر کی تھکن، جسم کی جلن ہجر و فراق کی تڑپ اور بھُوک سے بے حال جب میں اپنی کُٹیا میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ بڑی تعداد میں جنگلی حیات جن میں کر گس، بُوم، چُغد، خار پُشت، چمگادڑ، بِجُو، کنڈیالے چُوہے، بچھو، سانپ اور اژدہا ہمارے منتظر تھے اور کورنش بجا لانے کے لیے بے تاب تھے۔ ہم سب نے طبلہ اور سارنگی بجا کر ردِ بلا کی صورت تلاش کر لی۔ زادو لُدھیک تو اپنی داشتاؤں ظِلو اور کنزو کے ساتھر نگ رلیاں منانے میں مصروف ہو گیا اور جنگل میں منگل کی کیفیت میں مستی کے عالم میں بندِ قبا سے بے نیاز شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے شراب و شباب کے نشے سے دِل بہلانے لگا۔ میں بھی ان کا شریک محفل رہا لیکن جلد ہی ان سے علاحدہ ہو کر گیان کی تڑپ لیے ماہیِ بے آب کے مانند تڑپتا ہوا اپنی دھن میں مگن رقصِ بسمل دیکھنے لگا۔ میں بے ضمیری کی چادر بچھا کر اور بے حسی کی گلیم اوڑھ کر جب بے غیرتی کے تکیے پر سر رکھ کر اوندھے منہہ لیٹا تو میری آنکھ لگ گئی۔ عالمِ خواب و اضطراب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ہر طرف اندھیرا تھا اور مجھے سخت خجالت نے گھیرا تھا۔ دُور کُوڑے کا ایک ڈھیر تھا جو حدِ نگاہ تک پھیلا ہوا تھا۔ کوڑے کے اس ڈھیر کی بُلندی کے سامنے پہاڑ بھی ہیچ تھے۔ یہاں سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے۔ نظامت پر مامور ایک ابلیس نژاد درندے، بے وقعت بھڑوے اور بے ضمیر مسخرے نے چلّا کر یہ اعلان کیا کہ جلد ہی کُوڑے کے اس ڈھیر پر ذلتِ عام اور فنائے مدام کا دربار سجایا جائے گا۔ ماضی کے تمام رسوائے زمانہ تلنگے، لُچے، رذیل، ڈُوم، ڈھاری، بھانڈ، بد معاش، قاتل، ڈاکو، بھڑوے، مسخرے، شہدے، سفہا، اجلاف و ارذال، وضیع، خسیس، سفلہ، ابلہ، اُچکے، مشکوک نسب کے جرائم پیشہ، رسہ گیر، بھتہ خور، بھڑوے، بھگتے اور اُٹھائی گیرے ہاویہ سے یہاں اکٹھے ہوں گے اور اپنے دِلِ شکستہ کا حال بیان کریں گے۔ یہ اعلان سنتے ہی اس قماش کے سب درندے رفتہ رفتہ یہاں اکٹھے ہونے لگے۔ کُوڑے کے ڈھیر سے کچھ فاصلے پر بڑے بڑے تنور بنائے گئے تھے جن میں آگ بھڑک رہی تھی۔ دربار میں آنے والے سب لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں بڑے بڑے بانس تھام رکھے تھے جن پر خاص کپڑا بندھا تھا جس میں آگ لگی تھی اور شعلے بلند ہو رہے تھے۔ ان تمام لوگوں کے کریہہ جسم اور چہرے کا گوشت تنوروں کی آگ سے کباب کی طرح جل بھُن چُکا تھا۔ شدید تپش کے باعث ہڈیاں پگھل رہی تھیں، اس کے با وجود یہ سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور تھے۔ کُوڑے کے اس ڈھیر پر ہی ایک سٹیج بنایا گیا تھا جس کے نیچے بنائے گئے بڑے بڑے تنوروں سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔ مہا بد معاشوں کی جگ ہنسائی کی خاطر ایک دستہ سٹیج کے قریب کھڑا تھا۔ اس دستے میں آدم خور، بھُوت، دیو، ڈائنیں اور چڑیلیں شامل تھیں۔ غیر حفاظتی دستے میں شامل مافوق الفطرت مخلوق جب منہہ کھولتی تو انگارے جھڑنے لگتے اور ان کی ناک سے مسلسل دھواں اور لاوا نکل رہا تھا۔ سٹیج پر آنے والے ہر مہمان پر یہ حفاظتی دستہ انگارے نچھاور کرتا۔ ان مہمانوں کے کشتۂ ستم بھی بڑی تعداد میں کُوڑے کے ڈھیر پر جمع تھے اور ضعیفی کے باعث کھانس رہے تھے۔ وہ آنے والے سب نئے مہمانوں پر نفرین اور مغلظات کی بو چھاڑ کر دیتے اور کھانستے کھانستے بلغم ان مہمانوں کے چہرے پر پھینک رہے تھے۔
اچانک پُورا پِنڈال گالیوں کی آواز سے گُونج اُٹھا۔ اس قدر شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سات فٹ لمبا ایک ضعیف شخص جس کے سر پلکوں اور بھووں کے بال سفید ہو چُکے تھے، سٹیج کی طرف بڑھا۔ اس نے زرہ بکتر، ڈھال اور میان میں تلوار سجا رکھی تھی۔ اس کی پشت پر بندھی ترکش نوک دار تیز تیروں سے بھری تھی۔ اگرچہ اس کے قویٰ مضمحل ہو چُکے تھے اور عناصر میں اعتدال بھی عنقا تھا اور اس کی کتاب زیست کے تمام ابواب ختم ہونے والے تھے اس کے باوجود اس کا سڈول جسم، لمبے ہاتھ، کرگسی آنکھیں، میلے دانت، سر پر گنجِ قہر، چھاج جیسے کان، تنی ہوئی گردن اور موٹے ہونٹ دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا تھا کہ یہ ماضی کا کوئی بڑا شیخ چلّی یا تیس مار خان ہے۔ بعض لوگ اسے بھڑوا، خبیث اور خر دجال کہہ کر دل کی بھڑاس نکال رہے تھے۔ اس کے مظالم کا نشانہ بننے والے الم نصیبوں کا ایک ٹولہ جن کے جسم فگار تھے اور بھینگی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھیں آگے بڑھا۔ ان میں سے ایک گلا پھاڑ کر چلاتا ’’خر‘‘ اس کے باقی ساتھی بھی چیخ کر جواب دیتے ’’اماں‘‘ ۔ اس طرح منہہ پھٹ افراد کی نعرہ بازی جاری تھی۔ کُوڑے کے ڈھیر اور اُس کے گرد و نواح کی متعفن اور مسموم فضا خر۔۔ اماں، خر۔۔ اماں کے زمیں شگاف نعروں سے گُونج اُٹھی لیکن یہ دو افراد سب کچھ جان کر بھی خراماں خراماں چلے آ رہے تھے۔ دُور درختوں کے جھُنڈ میں ڈار سے بچھڑی ایک کُونج کُرلا رہی تھی جو چاہت میں دنیا داری کے ستم سہہ کر جاں بہ لب دکھائی دیتی تھی۔ ایک بے حدحسین و جمیل نو جوان لڑکا اس کا ہاتھ تھامے چلا آ رہا تھا۔ بُوڑھا اس نوجوان کے قندھاری انار جیسے سرخ عارض کو دیکھ کر مسکراتا اور ہنہناتا اور انھیں مسلسل سہلاتا ہوا اکڑ کر چلتا ہوا سٹیج کی طرف جا رہا تھا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ بُوڑھا اس حسین نوجواں کے عارض کو دیکھ کر جیتا ہے اور عارضی ہی اس کی زندگانی ہے۔ اس نوجوان کی رفاقت کے بغیر بُوڑھے کے لیے ایک پل گُزارنا بھی مشکل ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ نفرتوں اور حقارتوں کی تیر اندازی دیکھ کر حسینوں کے قدم رُک جاتے ہیں لیکن وہ بُوڑھا بڑی گرم جوشی سے اپنے نوجوان ساتھی کے ہاتھ تھام کر آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ دونوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بے مہریِ عالم اور گردشِ ایام کے شاکی بن کر نکہتِ گُل کے پاس پہنچتے ہیں لیکن یہ دیکھ کر اُن کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ جاتی ہیں کہ سب پھولوں کے گریباں چاک ہیں اور طلوع صبح عیاراں کی وجہ سے بہار میں بھی رنگِ چمن شعلہ شعلہ دکھائی دیتا ہے۔ عالمِ پیری میں سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے والا شخص رابن ہُڈ تھا اور اس کے ساتھ پیمانِ وفا باندھنے والے نو جوان کا نام لِٹل جان تھا۔ اس ضعیف، لاغر اور پر اسرار ڈاکو اور اس کے حسین نوجوان ساتھی کو دیکھ کر رنگو رذیل بولا:
’’بہ ظاہر تو رابن ہُڈ اور لٹل جان کی جوڑی بھی محمود اور ایاز جیسی ہے۔ ان کی چاہت اور اپنائیت میں گہری مماثلت دکھائی دیتی ہے۔‘‘
’’توبہ توبہ ! کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی؟‘‘ گھونسہ بیابانی غرایا ’’محمود ایک عادل، فاتح اور بہادر بادشاہ تھا جب کہ رابن ہُڈ ایک شکست خوردہ مجرم، سفاک قاتل اور بُزدل ڈاکو تھا۔ محمود نے ایاز کے ساتھ خلوص، دردمندی اور وفا کی اساس پر محبت کا قصر تعمیر کیا۔ رابن ہُڈ نے لٹل جان کو ہوس، جنون اور جفا کے سب افسانوں کا موضوع بنایا۔ رابن ہُڈ کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کے باعث راج محل بھی چور محل دکھائی دیتے تھے۔‘‘