عنایا تھکے ہارے قدموں سے گھر میں داخل ہوئ تو اندر ایک اور طوفان اس کا منتظر تھا۔
لو، آ گئ وہ ، پھپھو نے عنایا کی طرف اشارہ کرتے ہوۓکہا
کہاں ہے میرا بیٹا؟ بول کہاں ہے یاسر، پھپھو عنایا کی طرف لپکیں اور اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
عنایا پھپھو کا یہ روپ دیکھ کر حیران رہ گئ۔
کک کیا مطلب، یاسر ابھی تک گھر نہیں پہنچا۔ عنایا نے گھبراتے ہوۓکہا
وہی تو میں پوچھ رہی ہوں کہاں ہے وہ۔ کیا کیا ہے تو نے اس کے ساتھ۔ بول ، پھپھو چلائیں۔
پھپھو مجھے نہیں پتا کچھ بھی۔ عنایا نے فکر مندی سے کہا۔
جھوٹ مت بولو، ختم کرو اپنے اس ڈرامے کو جو اتنے دن سے تم نے لگایا ہوا ہے۔ بس مجھے میرا بیٹا چاہیے۔ ہم آج ہی چلے جائیں گے یہاں سے بس تم مجھے بتا دو یاسر کہاں ہے۔ دیکھو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ پھپھو نے عنایا کے آگے ہاتھ جوڑے۔
عنایا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ امی نے عنایا کو جلدی سے کمرے میں بھیجا اور پھپھو کو سنبھالنے لگیں۔
عنایا، یاسر کہاں ہے۔ ثمن بھی عنایا کے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوئ۔
آپی مجھے کچھ نہیں پتا۔ عنایا بری طرح رو رہی تھی۔ روتے روتے اس نے آج کالج میں پیش آنے والا سارا واقعہ ثمن کوسنایا۔
___________________________
کاشان نے کالج میں، ہسپتالوں میں، رشتے داروں کے، سب جگہ پتا کروایا مگر یاسر کا کچھ پتا نہیں تھا۔ شام کے چھ بج رہےتھے۔ پھپھو کو بار بار بےہوشی کے دورے پڑ رہے تھے۔
____ ______ ____--------_____
عنایا نے فیصل کا نمبر ڈائل کیا۔
زہے نصیب آج میری بیوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فیصل ابھی بول ہی رہا تھا
مجھے تم سے ملنا ہے۔ عنایا نے فیصل کی بات کاٹ کر کہا۔
رئیلی؟؟؟ تت تم مجھ سے ملنا چاہتی ہو ؟؟ فیصل نے حیرانی اور خوشی سے پوچھا۔
یقین کرو عنایا آج میں بہت خوش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصل بول رہا تھا۔ مگر عنایا نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ڈرائیور بھیجو۔
اوکے اوکے، میں خود تمہیں لینے آ رہا ہوں۔ فیصل خوشی سے پاگل ہو رہا تھا۔
کچھ ہی دیر میں فیصل کی کار عنایا کے گھر کے سامنے تھی۔
فیصل کی کال آئ۔ آ جاؤ مسز فیصل، آپ کے شوہر آپ کی آمد کے منتظر ہیں۔ فیصل نے خوشی سے بھر پور لہجے میں کہا۔
بس ویٹ، دو منٹ، عنایا نے کہا۔
عنایا کچن میں گئ۔ وہاں سے تیز دھار چھری اٹھائی اور اپنے بیگ میں ڈال لی۔ گھر میں کسی کو بنا بتاۓ وہ فیصل کی کار میں اس کے ساتھ چلی گئ
عنایا کچن میں گئ۔ وہاں سے تیز دھار چھری اٹھائی اور اپنے بیگ میں ڈال لی۔ گھر میں کسی کو بنا بتاۓ وہ فیصل کی کار میں اس کے ساتھ چلی گئ۔
سارے راستے فیصل اسے اپنی محبت اور چاہت کا یقین دلاتا رہا۔ اس سے معافی مانگتا رہا۔ پتہ نہیں کیا کیا بولتا رہا مگر عنایا اپنی سوچوں میں گم تھی۔ اس نے اپنے بیگ کو بہت مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔
کار گھر کے پاس پہنچی تو چوکیدار نے گیٹ کھولا۔ گھر میں قدم قدم پر باڈی گاڑڈز موجود تھے۔ چھتوں پر سنائپرز تعینات تھے۔ سی سی ٹی کیمرے اور کونے میں کھڑا ایک باڈی گاڑڈ جو بل ڈوگ کی زنجیر تھامے کھڑا تھا۔ عنایا کی گرفت اپنے بیگ پر مزید مضبوط ہو گئ۔ اس کو سرد موسم میں بھی پسینہ آنے لگا۔
عنایا تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئ کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ فیصل ہنسنے لگا۔ ارے خیریت ہے؟ میری شیرنی بہت جلدی میں ہے۔
عنایا نے کوئ جواب نہ دیا ۔اور تیز تیز قدم بڑھاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
____________________________
رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ عنایا اطمینان سے آتش دان سے بیٹھی کافی پی رہی تھی۔ فیصل بیٹھا ہوا عنایا کا بدلا یوا رویہ نوٹ کر رہا تھا۔ مگر اسے خوشی تھی کہ عنایا اس کے گھر میں اپنی مرضی اور خوشی سے آئ ہے۔
فیصل، عنایا نے فیصل کو پکارا۔
جی جان فیصل، فیصل جلدی سے بولا۔
مجھے کچھ کہنا ہے۔ عنایا نے کہا
تو کہو نا۔ میں بھی تمہیں سننا چاہتا ہوں۔ فیصل عنایا کے ہاتھوں کو چومتا ہوا بولا
یہاں نہیں، ایسی جگہ جہاں صرف میں اور تم ہوں۔ میں اپنی محبت کا اظہار کسی ایسی جگہ کرنا چاہتی ہوں جہاں صرف میں اور تم ہوں۔ عنایا سکون سے بولی۔
فیصل نے حیرت سے عنایا کو دیکھا
_____________________
رات کے نو بجے کار ایک ویران راستے سے گزر رہی تھی۔
پتا ہے عنایا، میں آج بہت بہت خوش ہوں۔ مجھے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن تمہیں ضرور پا لوں گا۔ میرا بس نہیں چل ریا کہ تمہارے لیے کیا کر گزروں، تمہارا ساتھ میرے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصل مسلسل بول رہا تھا۔
گاڑی روکو، عنایا نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
فیصل نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی۔ مسکرا کر عنایا کا ہاتھ تھام کر بولا۔ اگلا حکم
عنایا نے آہستگی سے ہاتھ چھڑایا۔ دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ فیصل بھی باہر نکلا۔
یہ ایک گھنا جنگل تھا۔ دور دور تک کوئ نہیں تھا۔ گھپ اندھیرا تھا۔ گاڑی کی ہیڈ لائٹس روشن ہونے کی وجہ سے کچھ دور تک روشنی پھیلی ہوئ تھی۔
آؤ فیصل میں تم سے اپنی محبت کا اظہار کروں۔ اس لمحے کو تم ہمیشہ یاد رکھو گے۔ عنایا سکون سے بولی اور فیصل کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
فیصل جو اب تک عنایا کا بدلا ہوا روپ دیکھ کر حیرت میں مبتلا تھا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا اور عنایا کو گلے سے لگانے لگا۔ اسی لمحے عنایا نے چھری فیصل کے پیٹ میں گھونپ دی۔
آآآآآ۔ فیصل کی زوردار چیخ پورے جنگل میں گونجی۔ فیصل خون میں لت پت زمین پر گرا۔ فیصل کے جسم سے خون نکل کر تیزی سے زمین پر پھیل رہا تھا۔
آآآآآ۔ فیصل کی زوردار چیخ پورے جنگل میں گونجی۔ فیصل خون میں لت پت زمین پر گرا۔ فیصل کے جسم سے خون نکل کر تیزی سے زمین پر پھیل رہا تھا۔
عنایا یہ ممنظر دیکھ کر سہم گئ تھی۔ فیصل زمین پر داد سے تڑپ رہا تھا۔ فیصل کے خون کے چھینٹے عنایا کے کپڑوں پر پڑے تھے۔ عنایا کے ہاتھوں پر بھی فیصل کا خون لگا ہوا تھا۔ عنایا کو اور کچھ سمجھ نہ آیا۔ اس نے ایک طرف کو بھاگنا شروع کر دیا۔ وہ تیزی سے وہاں سے بھاگ رہی تھی کا اچانک سامنے سے آنے والی کار سے ٹکرا گئی۔
_________________________
اوہ نو شٹ یار، کار سے عادل اور تانیہ باہر نکلے۔
یہ کیا کیا تانیہ تم نے، عادل نے پریشان ہو کے پوچھا۔
مم مجھے کیا پتا تھا کہ یہ لڑکی پاگلوں کی طرح بھاگ رہی ہو گی۔ تانیہ نے گھبراتے ہوۓکہا
اسی لیے کہہ رہا تھا کہ صبح ڈرائیونگ سکھا دوں گا بٹ نہیں۔ تمہیں بھی رات کے وقت ہی گاڑی مارنے کا شوق تھا۔ اب بھگتو۔ عادل نے غصے سے کہا۔
بس تم اب شروع ہو جاۓ۔ میں نے جان کر تھوڑی نہ مارا۔ تانیہ نے گھبراتے ہوۓکہا۔
تانیہ نے عنایا کی نبض چیک کی۔ یہ صرف بے ہوش ہوئ ہے۔ چلو ہاسپٹل لے چلیں۔ تانیہ نے کہا۔
ہاں ہاں بالکل، اس کے بعد تھانے چلیں گے۔ بے وقوف۔ عادل نے غصے سے کہا۔
پھر اب ؟؟ تانیہ نے گھبراتے ہوۓکہا
اب کیا، گاڑی میں ڈالو، گھر لے جا کر ہوش میں لاکر معافی مانگ کر گیبھیج دیں گے اسے۔ مجھے ہاسپٹل، تھانے کے چکروں میں نہیں پڑنا۔ عادل نے کہا۔
___________________________
عادل اور تانیہ اور ان کی پانچ سالہ بیٹی زویا کراچی میں رہتے تھے۔ عادل اسلام آباد میں جاب کرتا تھا۔ دس دن کی چھٹی پر کراچی آیا تو بیگم کی فرمائش پر اسے ڈرائیونگ سکھانے نکل پڑا۔ گاڑی کی سپیڈ کم ہونے کی وجہ سے عنایا کو چوٹ نہیں لگی۔ صرف ڈر اور خوف کی وجہ سے وہ بےہوش ہو گئی تھی۔
____________________________
رات کے دو بجے دروازے پر زوردار دستک ہوئی۔ آنے والا دروازہ توڑنا چاہتا تھا۔ کاشان نے دروازہ کھولا۔ آگے سعد پولیس کے ساتھ کھڑا تھا۔
عنایا کہاں ہے، بول کہاں چھپایا ہے اسے۔ سعد نے کاشان کا گریبان پکڑا ہوا تھا۔
امی، ابا اور ثمن بھی شور سن کر باہر آ گۓ۔
دیکھو بیٹا، ہم خود بہت پریشان ہیں۔ عنایا کا کچھ پتا نہیں۔ ابا نے بےبسی سے کہا۔
دیکھیں جی، آپ کی بیٹی قتل کر کے بھاگی ہے۔ وارنٹ گرفتاری ہیں ہمادے پاس اس کے۔ انسپکٹر صاحب بولے
قق قق قتل ۔ نہیں نہیں میری بیٹی قتل نہیں کر سکتی۔ وہ وہ تو بہت معصوم ہے۔ میں جانتی ہوں اپنی بیٹی کو ، عنایا نہیں مار سکتی کسی کو۔ اماں چلاتے چلاتے رونے لگیں۔
تلاشی لو گھر کی۔ انسپکٹر نے اہلکاروں کو اشارہ کرتے ہوۓکہا
گھر کی تلاشی لینے پر عنایا نہ ملی تو پولیس والے کاشان کو پکڑ کر لے گئے۔
____________________________
عنایا کو ہوش آیا تو وہ ایک کمرے میں بیڈ پر تھی۔ تانیہ بیٹھی عنایا کو دیکھ رہی تھی۔
ہیلو، تانیہ نے عنایا کی آنکھون کے آگے ہاتھ لہراتے ہوۓ کہا۔
تم کون ہو، کہاں رہتی ہو، گھر کہاں ہے تمہارا، اتنی رات کو جنگل میں کیوں بھاگ رہی تھی؟؟؟ تانیہ نے ایک ہی سانس میں سارے سوالات کر ڈالے۔
عنایا سوچ میں پڑ گئ۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ ان لوگوں کو حقیقت بتا دے گی کہ وہ فیصل کو مار کر بھاگ رہی تھی تو یہ لوگ اسے پولیس کے حوالے کر دیں گے۔ پھانسی سے بچ بھی گئ تو فیصل کے گروپ کے لوگ اسے مار دیں گے۔ اس کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا، یادداشت چلے جانے کا ڈرامہ کرنا۔
مجھے کچھ نہیں یاد، عنایا نے سر پکڑتے ہوۓکہا
-----__________---------_ ______
تین دن بعد
___________________________
آپ کے patient کو ہوش آ رہا ہے اور وہ کسی عنایا کا نام لے رہے ہیں۔
نرس نے سعد کو اطلاع دی۔
کیا میں فیصل سے مل سکتا ہوں، سعد نے جلدی سے پوچھا
جی ہم نے انہیں ICU سے روم میں شفٹ کر دیا ہے۔ آپ مل سکتے ہیں۔ نرس نے جواب دیا
سعد تیزی سے روم کی طرف بھاگا۔
عنایا، عنایا، فیصل مسلسل عنایا کا نام لے رہا تھا۔
فیصل، تم ٹھیک ہو نا؟ سعد نے فیصل کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ پوچھا۔
ﻋﻨﺎﯾﺎ ، ﻋﻨﺎﯾﺎ ، ﻓﯿﺼﻞ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﻓﯿﺼﻞ ، ﺗﻢ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﻧﺎ ؟ ﺳﻌﺪ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﺮﺗﮯ ﮨﻮﮰ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔
سعد، عنایا کہاں ہے ؟ فیصل نے درد سے کراہتے ہوۓکہا
فکر نہ کر فیصل، ایک بار پتہ چل جاۓ اس کا تو دیکھ، کیا حشر ____ سعد بولا۔
نہیں سعد پلیز، وہ میری زندگی ہے، جان ہے وہ میری، مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب وہ میری ضد سے میری محبت بن گئ۔ پلیز سعد، مجھے اس سے ملوا دو پلیز، میں مر جاؤں گا اس کے بنا، میں نہیں رہ سکتا، فیصل آج بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔
سعد کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ فکر نہ کر فیصل، مل جاۓ گی بھابھی۔ پولیس اور ہمارے گروپ کے آدمی اسے جگہ جگہ تلاش کر رہے ہیں۔ سعد نے تسلی دیتے ہوۓکہا۔
سعد، وہ کب آۓ گی۔ بس ایک بار مجھے اس سے ملوا دے۔ چلو، میں بھی اسے ڈھونڈنے نکلتا ہوں، فیصل اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔
فیصل، میرے بھائی، تو آرام کر، مجھ پہ یقین کر، بہت جلد بھابھی تیرے سامنے ہوں گی۔ سعد نے فیصل کو لٹاتے ہوۓکہا۔
سعد کا موبائل بجنے لگا۔
ہاں عمر بول، سعد نے کال اٹینڈ کرتے ہوۓکہا۔
کیا، عنایا بھابھی مل گئیں۔ سعد نے خوشی کا اظہار کیا۔
فیصل ایک دم بیڈ سے اترنے لگا۔ سعد نے اسے زبردستی بیڈ پر لٹایا۔
___________________________
پولیس نے عادل کے گھر چھاپا مار کر عنایا کو گرفتار کر لیا تھا۔ ثمن جیل میں عنایا سے ملنے آئ۔
کیوں کیا عنایا تم نے ایسا، ثمن نے بھرائ آواز میں پوچھا۔
آپی اس نے یاسر کو، یاسر کو _____ عنایا کپکپاتے لہجے میں بول رہی تھی۔
پاگل لڑکی، کاش تم تھوڑا سا صبر کر لیتی۔ ثمن، عنایا کی بات کاٹ کر بولی۔ جانتی ہو، اس دن تمہارے جانے کے بعد یاسر آیا تھا۔ پھپھو کو ساتھ لے کر واپس انگلینڈ چلا گیا وہ۔ تمہارے بارے میں ایسی باتیں بول کر گیا وہ کہ تم سن لیتی تو شاید فیصل کی جگہ یاسر کو مارتی۔
ثمن کی باتوں نے عنایا کو شرمندہ کر دیا۔
___________________________
دو دن بعد
___________________________
چلو بی بی تمہاری ضمانت ہو گئی ہے۔ عنایا کو اطلاع دی گئی
عنایا باہر نکلی تو فیصل کو سامنے مسکراتے دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئی۔
___________________________
عنایا کرسی پر بیٹھی تھی اور فیصل اس کے قدموں میں بیٹھا تھا۔ آج فیصل کی آنکھیں نم تھیں۔
بیت برا ہوں نا میں عنایا، فیصل نے بھرائ آواز میں پوچھا
عنایا چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
اب بھی یقین نہیں ہے نا مجھ پر، فیصل کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
عنایا، بہت دکھ دیے نا میں نے تمہیں۔ زبردستی نکاح۔ زبردستی حق جتانا، زبردستی پاس بلانا، مگر اب اور نہیں۔ میں نے جان لیا ہے کہ محبت میں زبردستی نہیں ہوتی۔ تم کہو تو بہت جلد میں تمہیں آزاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل کے رونے میں شدت آ گئی۔
فیصل پلیز، عنایا نے فیصل کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیے۔ عنایا جو کب سے ضبط کیے بیٹھی تھی۔ فیصل کے گلے لگ کر رونے لگی
___________________________
عنایا کا گھر آ گیا تھا۔ عنایا اترنا چاہتی تھی مگر دروازہ لاک تھا۔
عنایا نے فیصل کی طرف دیکھا۔ جو آنکھوں میں چاہت کے رنگ بھرے اسی کو دیکھ رہا تھا۔
دروازہ کھولو، عنایا نے نظریں جھکا کر کہا۔
ایک شرط پر، فیصل نے دلکش مسکراہٹ سجاۓ کہا۔
کیا، عنایا نے سوالیہ نظروں سے پوچھا
رخصتی کی ڈیٹ بتاؤ، فیصل ایک خمار سےبولا
فیصل للل لللل لل، عنایا نے فیصل کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔
گاڑی میں دونوں کے جاندار قہقہے گونج اٹھے۔
ختم شد