موسم کی بے مہر فضا میں گرتے ہیں
سوکھے پتے سرد ہوا میں گرتے ہیں
رہتی ہے پرواز کی خوش فہمی اُن کو
جو اپنے اندر کے خلا میں گرتے ہیں
گرتے ہیں تو گرتے ہی جاتے ہیں پھر
اہلِ ستم جب مکروریا میں گرتے ہیں
گیت سناتے ہیں جھرنے کے گرنے کا
حرف جو خاموشی کی صدا میں گرتے ہیں
تم نے وہ منظر ہی کب دیکھے ہیں، جب
درد سمندر، دل دریا میں گرتے ہیں
یا آنکھوں میں خاک برستی تھی حیدر
یا اب پیہم اَشک دُعا میں گرتے ہیں
٭٭٭