اک خواب کہ جو آنکھ بھگونے کے لئے ہے
اک یاد کہ سینے میں چبھونے کے لئے ہے
اک زخم کہ سب زخم بھلا ڈالے ہیں جس نے
اک غم کہ جو ، تا عمر بلونے کے لئے ہے
اک روح کہ سونا ہے مگر مَیل بھری بھی
اک آگ اسی مَیل کو دھونے کے لئے ہے
آنکھوں میں ابھی دھول سی لمحوں کی جمی ہے
دل میں کوئی سیلاب سا رونے کے لئے ہے
دل کو تو بہت پہلے سے دھڑکا سا لگا تھا
پانا ترا شاید تجھے کھونے کے لئے ہے
کشتی کا یہ ہچکولہ ،۔ یہ ۔۔ملّاح کا۔ چکّر
کشتی کو نہیں، مجھ کو ڈبونے کے لئے ہے
تقدیر سے لڑ سکتا ہے کوئی کہاں حیدر
وہ حادثہ ہونا ہے جو ہونے کے لئے ہے
٭٭٭