اس دربار میں لازم تھا اپنے سر کو خم کرتے
ورنہ کم از کم ۔اپنی آواز ہی۔ مدھم کرتے
اس کی انا تسکین نہیں پاتی خالی لفظوں سے
شاید کچھ ہوجاتا اثر، تم گریۂ پیہم کرتے
سیکھ لیا ہے آخر ہم نے عشق میں خوش خوش رہنا
درد کو اپنی دوا بناتے،۔۔زخم کو مرہم کرتے
کام ہمارے حصے کے سب کرگیا قیس دوانہ
کونسا ایسا کام تھا باقی جس کو اب ہم کرتے
ہر جانے وا لے کو دیکھ کے رکھ لیا دل پر پتھر
کس کس کو روتے آخر،کس کس کا ماتم کرتے
دل تو ہمارا۔ جیسے پتھر سے بھی سخت ہوا تھا
پتھر پانی ہو گیا،سوکھی آنکھوں کو نم کرتے
بن جاتا تریاق اسی کا زہر اگر تم حیدر
کوئی آیت پیار کی پڑھتے اور اس پر دَم کرتے
٭٭٭