{سماوا}
دو ہفتوں کا چاند اپنے حسن پر اترا رہا تھا۔ موتیے کی خوشبو سے معطر پر نم فضا چاندنی کی ٹھنڈک کے ساتھ مل کر رات کو سحر انگیز بنا رہی تھی۔ گلاب اور موتیے کے پھولوں میں گھرا ایک چھوٹا سا گھر گاؤں کے ایک سرے پہ تھا ۔ صحن قدرے مختصر مگر صاف ستھرا۔ گھر کی دیواریں خوبصورت بیلوں سے ڈھکی رہتیں۔ صحن کے وسط میں ایک رنگیں کھاٹ بھی تھاجس پہ اکثر سفید چادر بچھی رہتی۔
ایک نازک اندام لڑکی ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی تھی۔ اس کا سفید آنچل ہوا سے لہرا رہا تھا۔ کچھ دیر وہ لڑکی آنکھیں بند کر کے کھڑی رہی پھر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کھاٹ کے اوپر آ کر بیٹھ گئی۔
اسے دیکھ کر لگا جیسے صحن میں رقص کرتی چاندنی نے اترا کر لڑکی کا روپ دھار لیا ہو۔ پھر سیاہ، تھوڑے تھوڑے گھنگریالے لیکن قدرے لمبے بال جو ابھی تک گیلے تھے لیٹتے ہوئے تکیے پر بکھیر دیئے۔ اس کی نگاہیں چاند میں کچھ تلاش رہی تھیں۔ ایک جگنو کہیں سے بھٹک کر اس کی نگاہوں اور چاند کے درمیان حائل ہو گیا۔ پھر اس نے الٹی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی۔
جب زندگی کے سمندر میں محبت جیسا نازک جذبہ جوشیلے خون سے ٹکراتا ہے تو ان دونوں کے امتزاج سے بغاوت کے بھنور پیدا ہوتے ہیں۔
چاند ڈھل چکا تھا۔ سورج کی ابتدائی ٹھنڈی کرنوںکے پڑتے ہی کلیاں مسکرانے لگیں۔ ان کی پتیوں کے سروں پر شبنم کے قطرے گویا ہیرے کے تاج تھے جو رات کی ٹھنڈک نے پچھلے پہر ان ننھی ننھی شہزادیوں کے حسن کی نذر کیے تھے۔ بھنورے پھولوں کا طواف کرنے لگے ، رنگ برنگی تتلیاں منڈلانے لگیں۔ جیسے یہ سب مل کر صبح کا سلام کہہ رہے ہوں۔ سیڑھیوں سے ایک ادھیڑ عمر آدمی اترا۔
’’اٹھو سماوا۔۔ صبح ہو چکی‘‘
سماوا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ دوپٹے کو سمبھالتے ہوئے مدھم سی آواز میں بولی
’’سلام ابّا جان‘‘
سلام کا جواب دے کر وہ فکر مندانہ انداز میں کہنے گا۔۔
’’نمازِ فجر قضا کر دی۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘
سماوا نے ڈرتے ڈرتے اثبات میں سر ہلایا
’’جی‘‘
وہ برآمدے سے گزر کر نکڑ والے کمرے میں چلا گیا۔ سماوا کافی دیر وہیں بیٹھی سوچتی رہی ۔ ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ پہلے پہل وہ بہت شوخ چنچل اور بے باک تھی۔ لیکن اب اس کی بے باکی بغاوت کا روپ دھارنے پر اتر آئی تھی جس کے خوف سے وہ دبتی جا رہی تھی۔ اس کی گفتار محدود ہوتی جا رہی تھی۔
کچھ دن اسی طرح گزر گئے۔ سماوا کی سوچ، عادات اور مزاج میں غیر معمولی بدلاؤ آنے لگا۔ایک روز اس کے والد اپنی بیوی کے ساتھ صحن میں اسی کھاٹ پربیٹھ کر چائے پی رہے تھے۔ چہرے سے نقاہت عیاں ہو رہی تھی۔ قدرے دھیمے لہجے میں بیوی کو مخاطب کیا۔
’’سماوا کو سمجھاؤ تو بہتر ہوگا۔ میں باپ ہوں اس کا، جو فیصلہ بھی کروں گا سوچ سمجھ کر کروں گا جو اس کے حق میں بہتر ہوگا۔‘‘
شاہدہ خاموش رہی وہ پھر کہنے لگا
’’بچی ہے ابھی۔اسے کیا سمجھ۔۔ تم سمجھاؤ گی تو سمجھ جائے گی‘‘
اب کے شاہدہ بھی بول اٹھیں۔۔
’’بس کریں حبیب اﷲ صاحب۔۔ ہلکم ڈالنے کا کیا فائدہ۔۔جوان اولاد ہے بغاوت پر اتر آئی تو؟‘‘
حبیب اﷲ بھی تنک کر بولے۔۔
’’بغاوت کی تو نہیں نا؟‘‘
’’تو کیا ہانڈی چوراہے پر پھوٹے گی تب مانیں گے؟‘‘
شاہدہ کی بات سن کر حبیب اﷲ جھنجھلا سے گئے۔۔
’’تو کیا کروں؟؟‘‘
شاہدہ بی بھی کب سے اسی گھڑی کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔۔
’’یوں کہیے نا۔۔ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔۔ میں تو کہتی ہوں چپ چاپ عزت کی چادر اوڑھا کر بیاہ دیں‘‘
شاہدہ کی بات سن کر وہ تحیّر میں مبتلا ہو گیا۔ صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہو گئی، شاہدہ اس کی طرف جواب سننے کی غرض سے دیکھتی رہی۔آخر تنگ آکر بول پڑی۔۔
’’کوئی سلطنت تعمیر کرنے کا سوچ رہے؟‘‘
حبیب اﷲ نے خلافِ عادت اس کے طنز کا محاسبہ نہیں کیا بلکہ رضامندی کا اعلان کیا۔۔
’’ٹھیک ہے اگر تم ماں بیٹی نے مجھے زمانے میں ہلکا کرنا ہی ہے تو کرو تیاری۔۔مارے باندھے کا سودا ہے کرتا ہوں کچھ‘‘
شاہدہ اٹھتے ہوئے ایک اور ضرب لگا گئیں۔۔
’’اور آپ کر بھی کیا سکتے ہیں حبیب اﷲ صاحب۔۔ہلکا بھاری ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔۔ ویسے بھی تیر کمان سے نکل چکا ہے‘‘
شاہدہ کی بات سن کر حبیب اﷲ کے تو جیسے منہ میں دہی جم گیا۔ چاہتے تھے منہ توڑ جواب دیں پر لاگ پیدا ہونے سے ڈرتے تھے۔ سماوا بھی اپنے ہی گاؤں کے ایک لڑکے سے راز و نیاز کر کے فیصلہ کر چکی تھی کہ ٹکا روٹی اب لے چاہے تب۔سماوا حبیب اﷲ کی اکلوتی بیٹی تھی اور پھر گاؤں میں اس کی بڑی عزت تھی۔
رخصتی کے بعد ابتدا میں تو سماوا کو وہی سب ملا جو اس نے چاہا۔ اِدھر لب ہلے نہیں اُدھر حکم کی تعمیل ہو گئی۔اس کی کبھی کوئی خواہش رد نہیں ہوئی اور ہوتی بھی کیسے بہرام اپنے خاندان کا اکلوتا وارث تھا۔ پھر اسے خاندان کا وارث بھی تو چاہیے تھا جو اسے سماوا سے ملنا تھا۔ بیٹے کی خواہش اسے وراثت میں ملی تھی۔
ایک سال بعد اﷲ نے نعمت سے نوازا۔ بیٹی پیدا ہونے پر سماوا بہت خوش تھی لیکن بہرام کی خواہش تشنہ کام ہی رہی ۔ بیٹی کے پیدا ہوتے ہی سارا پیار چمپت ہو گیا۔ ۹ برس گزر گئے بیٹی کے بعد کوئی اولاد نہ ہوئی۔مایوسی بڑھنے لگی تو رویہ بھی تلخ ہوتا گیا۔ تلخی در تلخی ان کے رشتے کی مٹھاس میں گھلنے لگی۔وہ آئے روز تین پانچ کرتا سماوا کی آبرو اتارنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے خاندان کا نشان مٹنے والا تھا پر اس میں سماوا کا جرم کیا تھا۔ لیکن وہ تو جیسے دھتورا کھائے پھرتا تھا۔ سماوا کی زبان میں بھی کھجلی ہونے لگی روز روز کی کھٹ پھٹ سے تنگ آ کر ایسا برسی کہ بہرام نے تین دن تک گھر کا رخ نہ کیا۔آس پڑوس سے پتا چلا کہ جواریوں کے اڈے پر ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔بری صحبت کے ساتھ ساتھ نشے کی لت بھی لگ گئی۔ زمین جائیداد اس کی لپیٹ میں آ چکے تھے اب اس نے سماوا کے گھر کا رخ کر لیا تھا۔ کبھی جھگڑے کر کے تو کبھی ٹسوے بہا کے ، آہستہ آہستہ اس نے گھر کا سارا سامان اڑا لیا۔ کبھی کبھی وہ سوچتی ماں باپ کی بات مان لیتی تو زندگی آج اس قدر دشوار نہ ہوتی۔ اگر کبھی باپ کے گھر جانے کا اردہ کر بھی لیتی تو لاج کے مارے ترک کرنا پڑتا۔
ایک دن وہ اپنی بیٹی کو قرآن پڑھا رہی تھی۔ اس روز دونوں ماں بیٹی کا فاقہ تھا۔ گھر میں کچھ کھانے کو نہ تھا۔ ادھر بہرام جب جوّے میں سب کچھ ہار چکا تو بیٹی کو داؤپہ لگا دیا۔ سماوا کو خبر ہوئی تو اس کا دل بارے بانٹ ہو گیا۔بیٹی کو سینے سے لگا کر اپنے زخموں کو سہلانے لگی۔بھوک پیاس برداشت کی پر اپنی خود داری کبھی نہ بیچی۔ مرتی کیا نہ کرتی، چاک اترا پھر نہیں چڑھتا۔ایک غلطی وہ کر چکی تھی جس کا مداوا ابھی تک نہ ہو سکا۔ بہرام نے جو سبز باغ دکھائے تھے سب ہوا ہو گئے۔
آج اسے اپنا اور اپنی بیٹی کا کوئی پاسدار نظر نہیں آیا۔ ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرنے والی آج جی بھر کے روئی۔ اس نے بیٹی کو جی بھر کے پیار کیا۔ اسے نہلا کر چٹیا بنا ئی بالکل ویسے ہی جیسے بچپن میں سماوا کی ماں اس کی بنایا کرتی تھی۔ اسے دیکھ کر اسے اپنا بچپن یاد آ گیا ۔
’’ کتنا فرق ہے اس کے اور میرے بچپن میں۔ ‘‘
اچانک وہ اٹھی اور کبھی نہ گھر سے نکلنے والی حیا کی دیوی بنا برقے کے ۱۰ برس بعد گھر سے باہر نکل گئی۔ وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے تیز تیز چل رہی تھی۔ گاؤں کی حدود سے نکل کر نہر کے کنارے پہنچی۔ نہر کے کنارے کنارے کچھ پرانے سوکھے درخت تھے جن کی ڈالیوں پر پرندے جھول رہے تھے۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی دھوپ اور ٹھنڈی ہوا۔۔ نہر کا گدلا پانی اتنے برسوں سے مسلسل چل رہا تھا۔ اس کے پانی میں سماوا کو عجب سی کشش محسوس ہوئی۔
بہرام کو جوّا کھیلتے کھیلتے اچانک دھچکہ سا لگا۔ ایک دم اس کی سانسیں کھنچنے لگیں۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ ارد گرد کے ماحول سے اسے وحشت ہونے لگی۔ تاش کے پتے وہیں پھینک کر کھڑا ہو گیا ۔ کچھ دیر بکھرے پتّوں اور ان کے ارد گرد جمع جواریوں کو پاگلوں کی طرح دیکھتا رہا اسے گھٹن ہونے لگی وہ گھر کی طرف دوڑنے لگا آج اس کے گھر کا سفر تو جیسے تاڑ کا پیڑ بن گیا۔ گھر پہنچا تو بیوی اور بچی کو غیر موجود پا کر اس کے بچے کھچے حواس بھی جاتے رہے۔ کھیتوں کو چیرتا ہوا نہر کے کنارے پہنچا۔ وہاں پہنچ کر کچی روش پر اسے قدموں کے نشان نظر آئے۔ وہ انہی نشانوں کا تعاقب کرنے لگا۔ چند قدم آگے جا کر وہ نشان بھی ختم ہو گئے۔ وہ بے اختیار چلانے لگا۔۔
’’سماوا۔۔ اسرا۔۔ سماوا۔۔‘‘
وہ نہر کے کنارے کنارے جنوب کی طرف دوڑ رہا تھا۔ شام ہو چکی تھی سورج ڈھل چکا تھا ، کہیں کہیں آسمان پر تارے نظر آ رہے تھے۔ پرندوں کا شور ختم ہو چکا تھا لیکن نہر یونہی خاموشی سے بہہ رہی تھی۔
آگے جا کر پل پر کچھ آدمیوں کا ہجوم نطر آیا۔ بہرام اس ہجوم میں گھس گیا۔ مچھیروں نے نہر سے دو لاشیں نکالی تھیں۔ اس نے آگے جا کر ان لاشوں کو دیکھا۔ پھر گھبرا کر جنوب کی سمت نہر کے کنارے کنارے بھاگنا شروع کر دیا۔
آسمان میں تارے مدھم تھے، چاند عروج پر تھا اور چاندنی اترا رہی تھی۔ کچھ آگے جا کر بہرام رک گیا۔ زور زور سے قہقہے لگانے لگا اس کی نظر نہر کے پانی میں چاند کے عکس پر پڑی، اس نے پتھر اٹھا کر عکس پر پھینک دیا۔ پھر قہقہے لگاتا ہوا نہر کے کنارے دوڑنے لگا۔
٭٭٭