{سعادت مندی}
شازی تاشی اور سیمی۔۔۔ وہ تینوں کی شادی کر چُکا تھا اور چوتھی کی چند ہی مہینوں میں کرنے والا تھا۔ آنکھیں اندر کو دھنستی جا رہی تھیں ۔ آنکھوں کی چمک جو کبھی ایک نظر میں دو چار لوگوں کو اپنا کر لیتی تھیں ، گہرے حلکوں کی سیاہی میں کہیں گُم ہو گئی تھی۔ سُرخی مائل رخسار جنہیں دیکھ کر لوگ گمان کرتے تھے کہ کہیں یہ بیٹی تو نہیں ، ان پر ہڈّیاں اُبھر آئی تھیں۔ اور وہ اندر کو پچکنے لگے تھے۔ وہ کڑیل جوان جسے پہلے پہل اس کے حُسن، صحت اور ڈیل ڈول کی وجہ سے لوگ پری وش کہا کرتے تھے، سوکھے پھول کی طرح سُکڑ گیا تھا۔
شانو کی شادی کی تاریخ طے ہو چُکی تھی۔ شیدے کو اجازت نہ تھی کہ وہ ایک آدھ گھنٹہ کوئی کتاب اُٹھاکر دیکھ سکے ۔
بہن کی شادی کی ذمہ داریاں اس کے کندھوں پر تھیں ۔ وہ کُچھ دیر اپنے کالجی دوستوں کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ ابھی اسے بہن کے سُسرالیوں کی آئے روز آمد کے لوازمات مہیّا کرنے تھے۔
اس دیہات نماشہر میں چھوٹی سی پبلک لائبریری تھی ۔ اسے لائبریری جانے کا بڑا چاؤ تھا۔ جب وہ کالجی لڑکوں کو لائبریری کی طرف جاتا دیکھتا تو اس کا وجود کسی گُم شُدہ جذبے سے تھر تھرانے لگتا۔ جب وہ کالج جاتا تھا تو اسے کتاب سے فرار کا کس قدر چاؤ تھا۔ لیکن اب وہ مُعاملاتِ زندگی سے اس قدر بیزار ہو چکا تھا کہ حالات کے دائرے سے نکل کر بھاگ جانا چاہتا تھا۔
اس بات کا اس نے کئی بار ارادہ بھی کیا لیکن ذمہ داریوں کا خیال اس کے ارادوں کو ناکام کر دیتا۔ وہ مُسلسل مطالعہ سے اُکتا جاتا تھا۔ لیکن جب اس نے کتاب سے روحانی تعلق بنا لیا تو فرقت نے بھی سر اُٹھا لیا۔ جب تک وہ اپنے حالات اور ذمہ داریوں سے قطع نظر کتاب سے جُڑا رہا اسے ندامت اور رسوائی کا باعث سمجھا گیا، مصائب کا مؤجب سمجھا گیا۔ مرتے مرتے اس کا باپ اسے روایات اور ذمہ داریوں کے زیور پہنا کر مشقّت کے زندان میں مقید کر گیا۔
اس وقت وہ بی۔اے کا طالب علم تھا۔ ذمہ داریوں کے باوصف اس نے کتاب سے قطع تعلق ہونا قبول نہیں کیا۔ پھر ایک روز اسی کتاب نے وعید سنا دی اور اسے کتاب کے اس رشتے پر ذمہ داریوں کو ترجیح دینی پڑی۔
مارچ کا پہلا ہفتہ بارشوں کا سلسلہ رہا۔ برہنہ ویران درختوں کی شاخوں پر کونپلیں پھوٹنے لگیں ۔ آج شام ہونے سے قبل اسے فرنیچر کا کام شروع کروانا تھا۔ شانو کے سُسرالیوں کا مطالبہ تھا کہ فرنیچر عُجلت میں نہ بنوایا جائے اور لکڑی بھی عُمدہ استعمال ہو۔ اس کے لیے اس نے چوہدری عابد سے کیکر کی لکڑی مانگ لی تھی۔ جس کے بدلے میں اسے چوہدری کے کھیتوں میں ہل چلانے تھے۔ اور پھر چوہدری اسے سال بھرکے لیے گہیوں بھی تو دیتا تھا۔
دو مردوں، تین بچّوں اور تین عورتوں پر مشتمل بڑا کنبہ اور ایک بیچارا شیدا۔ دوپہر تک تو وہ کیکر کے درخت کاٹتا رہا۔ پھر اکیلے بیل گاڑی پر لاد کر بڑھئی کی دُکان تک پہنچایا۔
کلہاڑا چلاتے چلاتے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے تھے۔ ریڑھ کی ہڈی تو جیسے ابھی ٹوٹی کہ ابھی۔۔ درد کے مارے کُبڑے کی طرح جُھک کر چلنے لگا۔ گھر پہنچ کر اس نے سوتی کپڑے کی میلی کُچیلی پگڑی اُتار کر چارپائی کی پائنتی پر پھینک دی۔ پگڑی اُتری تو بال بھی نظر آنے لگے۔ بال گرنے کے باعث وہ آدھی عمر سے پہلے بوڑھا لگنے لگا تھا۔ اس کا بھاری جسم بھی تو سُکڑتا جا رہا تھا۔
آج وہ معمول سے آدھ گھنٹہ پہلے گھر گیا تھا۔ اس کے پاؤں میں ٹیسیں اُٹھنے لگیں ، تکان کی وجہ سے کھڑا ہونا دو بھر ہو گیا تھا۔ جھٹ سے چار پائی پر لیٹ گیا۔ لیکن وہ بہت دیر تک لیٹ نہیں سکتا تھا۔ ابھی بہت سے کام باقی تھے۔ اور پھر چاچا کے خیال کے مطابق ایسے لیٹے رہنے سے سُستی غالب آ جاتی ہے۔ کبھی کبھی شیدا چاچا کی آنکھ بچا کر ایسے ہی چارپائی پر لیٹ جاتا جلد ہی اُنگھنے لگتا۔ ۔۔
یہ خیال کرنے سے کہ وہ بی۔اے پاس ہے وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں وہ اپنے آپ کو روک نہ سکتا تھا۔ لیکن چاچا کو تو بہت سا اناج چاہئے تھا۔ پورے کُنبے کا پیٹ پالنے کے لیے پیسہ چاہئے تھا۔ ان کی نظر میں بی۔اے کی یہ سند تو محض ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا جو جلا کر بھی کُچھ کام نہیں آ سکتا تھا۔ شیدے نے کتنی بار اپنی تعلیم جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن سعادت مندی نے اس کے اس خیال کو جرم بنا دیا تھا۔ امّاں بھی تو کہتی رہتی تھی کہ تیری یہ پڑھائی ہمارے کسی کام نہیں آنی۔ نوکریاںہم غریبوں کی قسمت میں کہاں۔
وہ تو بڑے گھروں کی وراثت ہے۔ کبھی کبھی تو شیدے کو امّاں کی یہ باتیں سچ لگتی تھیں۔ بی۔اے کے بعد تین چار سال نوکری کے لیے دھکے کھاتا رہا پر قسمت کا دروازہ غریبوں کے لیے کب کھلتا ہے۔ اُسے نوکری کا کچھ خاص اشتیاق بھی نہیں تھا، اس کو تو بس کتاب سے لگاؤ تھا۔ لیکن چاچا کو اس سے کیا۔ انہیں ہر سال اناج مل جاتا تھا۔ کام کی کثرت کی وجہ سے کھایا پیا شیدے کے جسم پر نظر نہیں آتا تھا۔
’’امّاں تو فرطِ شفقت سے ڈانٹتی ہے‘‘
شیدا سوچتا تھا۔۔۔
’’اور چاچا کے طعنوں کے آگے دن بھر کی تھکن معمُولی ہے۔ چاچی کے کوسنے الگ لیکن بھائی جب ڈانٹنا شروع کرتا ہے تو سیدھا دل پر چوٹ لگی ہے۔ ان سب کو بھلا کس نے حق دیا ہے کہ میری جان عذاب کریں۔‘‘
ڈھلتے سورج اور بڑھتے سائے کا منظر شیدے کو بہت رومانی لگتا تھا۔ ایسے میں اسے کتاب کا ساتھ بہت پسند تھا۔
شیدے نے ایک بار پھر لیٹنے کے چاؤ سے پاؤں اوپر کئے۔ عین اسی وقت چاچا کے کھانسنے کی آواز آئی۔ شیدے نے کپڑا پائنتی سے اٹھا کر کندھے پر ڈالا ، اُٹھ کھڑا ہوا۔ جلدی سے ڈھارے کی اُوڑھ بڑھا۔ چارے کی ایک گٹھڑی اُٹھائی، بوجھ تلے اس کی گردن پچکنے لگی۔ اب اس میں چلنے کی تاب نہ تھی۔ گٹھڑی بھینس کے آگے ڈالنے سے پہلے ہی گر گئی ، شیدے نے جھک کر دونوں ہاتھ اپنی کمر پر رکھ لیے۔ چاچا اور چاچی دونوں ڈھارے میں وارد ہوئے۔ چاچا کے ہاتھ میں حقّہ تھا۔ اس نے حقّے کا کش لگایا کھانستے ہوئے بولا۔۔
’’شیدے۔ ۔ بیلوں کو پانی پلایا کیا؟‘‘
شیدے نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا
’’جی چاچا جی ۔۔ پلا دیا۔‘‘
پھر فوراً اپنے بیان کی تردید کر دی۔۔
’’نہیں نہیں ۔۔ وہ میں ابھی آیا تھا، یاد نہیں رہا‘‘
’’تو پھر یہاں کیا کر رہا ہے انگریج کی اولاد؟‘‘
شیدا کبھی کبھار کُرتے کے نیچے پتلون پہن لیتا تھا جو شاید طالب علمی کے زمانے سے اس کے پاس تھی اسی نسبت سے چاچا اسے انگریج کی اولاد کہتا تھا۔ شیدے نے عاجز ہو کر جواب دیا
’’ابھی پلاتا ہوں جی‘‘
وہ بالٹی اُٹھانے کی غرض سے جھُکا ، چاچے نے پھر مخاطب کیا
’’یہ سوتی کُرتا کِس خوشی میں پہنا ہے؟ نیا کُرتا ابھی سے کام کاج میں خراب کر دے گا تو شادی پر تیرا باپ قبر سے اُٹھ کر آئے گا جو نیا کرتا دلوائے گا؟‘‘
شیدا ہر بات سہہ لیتا لیکن جب چاچا باپ کی بات کرتا تو اس کا دل پھٹنے کو آتا۔ وہ پلکوں کی نمی کو جذب کر لیتا آنسو نہ گرنے دیتا۔ چاچا اور چاچی دونوں بڑبڑاتے ہوئے واپس چلے گئے۔ اس سے پہلے کہ شیدا بالٹی اُٹھاتا، حمیدہ نے اپنے نازک ہاتھ آگے بڑھا کر بالٹی اُتھا لی۔ شیدے کو پتا بھی نہ چلا وہ آگئی تھی۔ شیدا نظریں چراتا ہوا چھپر کی طرف بڑھا گویا حمیدہ کی موجودگی سے فرار چاہتا ہو۔ حمیدہ نے آگے بڑھ کر شیدے کی آستین سے پکڑ کر کھینچا۔۔
’’کیوں جی ۔۔ میں کوئی غیر ہوں؟ تیرے ابّا ہمارا نکاح پڑھا کے گئے تھے۔ اب کیا میرا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ ذرا سا تیرا ہاتھ بٹا دوں؟ دیکھو تو کیسی حالت ہو گئی ہے۔۔ تیرے کُنبے کو تیری فکر نہ سہی مجھے تو ہے‘‘
شیدے نے ہاتھ جھٹک کر کہا۔۔
’’اگر تجھے میری اتنی فکر ہوتی تو تم میرے کنبے کو میرا نہیں اپنا کہتی‘‘
حمیدہ نے بالٹی میں پانی بھرنا شروع کیا ، نلکا چلاتے چلاتے بڑبڑانے لگی ۔۔
’’کیسا کنبہ۔۔ یہ لوگ تو پہلے ہی تیرا خون چوس چوس کر تجھے مریل بنا چکے ہیں۔ خدا جانے کب جان چھوڑیں گے تمہاری۔ تین بہنوں کو تو بیاہ چکے ہو ، تم شادی نہیں کر سکتے‘‘
بالٹی پانی سے بھر چکی تھی ۔ حمیدہ نے ذرا توقف کے بعد پھر مخاطب کیا۔۔
’’نہ تُو مجھے یہ بتا۔۔ اگر شانو کے بیاہ سے پہلے ہماری شادی ہو جاتی تو کیا حرج تھا، وہ بھاگی جا رہی تھی کہیں؟‘‘
حمیدہ آج بے لگام بولتی گئی اور شیدے کو بھی سارا غصہ اسی پر آتا تھا۔ غصّے میں حمیدہ کے منہ پر چپت رسید کر دی
’’بے حیا۔۔ بے غیرت۔۔ تو بھی کچھ کم نہیں۔۔ تجھے بھی اپنا مطلب ہے۔ خبر دار ا۔۔ آئندہ میری بہن کا اس طرح ذکر کیا تو۔۔۔‘‘
شیدے کے لہجے میں جو تلخی تھی اس نے سیدھا حمیدہ کے دل پر ضرب لگائی۔ شیدے کی سرد مہری کی وجہ سے وہ کب کی اسے چھوڑ چکی ہوتی لیکن اس نے ہمیشہ شیدے کا ساتھ دیا۔ آج اسے عمر بھر کی ریاضت کا کچھ ایسا صلہ ملا کہ وہ پل بھر میں اسے ہمیشہ کے لیے تنہا کر کے چلی گئی۔ شیدا نادم ہوا پر چاہ کر بھی اسے منانے اس کے پیچھے نہ جا سکا۔
مال مویشیوں کا کام ختم کر کے وہ آرام کرنے کی غرض سے گھر میں داخل ہواہی تھا کہ باہر سے چاچا نے آواز دی ۔ شیدا لڑکھڑاتا ہوا باہر گیا۔ پاس والے گاؤں کے نمبردار جو کہ چاچا کا عزیز دوست تھا۔ اس نے اپنے بچے کو حال ہی میں سکول میں داخل کرویا تھا۔ بچے کی پڑھائی بہتر بنانے کے لیے چاچا کی خدمت میں حاضر ہوا ، اپنا رشتہ جتلایا اور شیدے کو اپنے بیٹے کا استاد ٹھہرا دیا۔ چاچا جی جو ہمیشہ کسی نہ کسی غرض سے اس کے آگے ہاتھ پھیلاتا تھا ،آج وہ خود چل کر چاچا کے دروازے پر آیا تھا چاچا انکار کیسے کرتا ۔ شیدے نے اپنے حوصلے جمع کیے اس سے پہلے کہ وہ انکار کرتا چچا نے حامی بھر لی۔
اب وہ ہر روز نمبر دار کے بیٹے کو پڑھانے جائے گا اب اگر بہن کی شادی میں کوئی کمی رہتی ہے تو اس میں شیدے کا کیا قصور ہے؟۔ لیکن یہ کوئی سننے کو تیار نہیں کہ اس میں شیدے کی کیا مجبوری ہے۔ سب جرم تو شیدے کا ہے۔ اب اگر شانو کا جہیز وقت پر تیار نہیں ہوتا تو شیدے کو کوسا جائے گا۔
اس وقت شیدے کو اپنا سکول کا زمانہ یاد آگیا۔ کس طرح وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جھول جھول کر الف،بے کے ہجوں سے الفاظ بنایا اور گایا کرتا تھا۔ شیشم کے پتوں سے روشنی چھن چھن کر ننھے منھے بچوں کے معصوم چہروں پر پڑتی تو وہ چمک اُٹھتے۔ سبق یاد کر کے وہ قاعدے سر پر رکھ کر ناچنے لگ جاتے۔ اس وقت ذمہ داریوں کی گٹھڑی ان کے سر پر نہیں ہوتی تھی۔
شیدے کا معمول اب بدل چکا تھا۔ گھر کے کاموں سے فرصت پا کر وہ کھیتوں میں چلا جاتا۔ پھر گاؤں کے بھٹے پر کام کرنے چلا جاتا۔ عصر کے وقت نمبر دار کے گھر پہنچ جاتا۔ شام ہونے سے پہلے گھر واپس آ جاتا۔ شیدے کا کام بڑھ گیا، معمول بدل گیا لیکن حیرت کی بات تھی کہ اب نہ اسے تکان محسوس ہوتی نہ کسی کی ڈانٹ دل پر چوٹ کرتی۔ طعنے اور کوسنے اس کی طبیعت پر کچھ خاص اثر انداز نہ ہوتے۔ آج کوئی اس کی طبیعت میں اس غیر معمولی تبدیلی کا سبب پوچھتا تو وہ خفیف سا مسکرا دیتا۔ نمبر دار نے اسے اپنے بچے کی معلمی کا عہدہ دے کر گویا ایک بے جان جسم میں زندگی بھر دی۔
شانو کو رخصت کرنے کے بعد شیدے کو ایسے محسوس ہو رہا تھا گویا اس نے اپنے کندھوں سے ذمہ داریوں کا بوجھ اتار کر پھینک دیا ہو۔ شانو کی رخصتی بڑے دھوم دھام سے ہوئی۔ اس کے سُسرالیوں اور براتیوں کے لیے وسیع ضیافت کا احتمام کیا گیا۔ سب گھر والے جلدی سو گئے شیدا رات گئے تک سب کچھ سمیٹتا رہا۔ دوسرے دن امّاں ذرا دیر سے اُٹھی۔ چاچی نے برتن مانجے ، چاچا ابھی بھی اپنے بستر پر دراز تھا ۔ شیدا پہلے ناشتہ بنانے میں امّاں کا ہاتھ بٹاتا تھا آج وہ گھر نہیں آیا۔ چاچا نے لیٹے لیٹے شیدے کو آواز دی، چاچی نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا۔۔
’’شیدے کی رات ابھی ختم نہیں ہوئی‘‘
امّاں بھی آج شیدے کے حق میں بول ہی پڑی۔۔
’’آج تو سونے دے بیچارے کو، شادی والا گھر تھا۔ ہم سب سو گئے اور وہ رات بھر سب سمیٹتا رہا‘‘
سب گھر والے اُٹھ گئے، شیدا ابھی تک سو رہا تھا۔ سب نے ناشتہ بھی کر لیا۔ ڈھارے سے مویشیوں کے بھوک سے بلبلانے کی آواز غیر متوقع تھی۔ چاچا کو غصہ آگیا، اس نے ٹھان لی ڈھارے میں جا کر شیدے پر برس پڑے گا۔ چاچے نے دھوتی سنبھالی بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا ڈھارے میں پہنچا، شیدے کی چارپائی ابھی تک چھپر کے ساتھ ویسے ہی لٹکی ہوئی تھی۔ جیسے شادی سے قبل شیدے نے لٹکائی تھی۔۔۔۔۔
بس اڈے سے نکل چکی تھی، اس کی چھت پہ کتابوں کی ایک گٹھڑی پڑی تھی۔ وہی گٹھڑی جو کچھ سال پہلے شیدے کی سعادت مندی کے بوجھ کے نیچے کہیں دب گئی تھی۔
٭٭٭