{بخیہ گر}
متواتر استعمال سے میری قمیض کا کپڑا گھس چکا تھا۔ رنگ بھی پھیکا پڑ گیا تھا۔ قمیض کی بغلیں اکثر پھٹ جاتیں تھیں۔ جس کے نیچے میل سے اٹی بنیان جو کہ میری کفایت شعاری کا ثبوت تھی منہ چڑانے لگتی۔ ایسے میں واسکٹ پہن کر بھرم برقرار رکھا جاتا۔
اس بار میں بخیہ لگوانے کے لیے بخیہ گر کے پاس گیا۔ گھر سے نکلتے وقت طاق کے ساتھ لگے ایک زنگ آلودہ کیل نے میرے دامن کو شرمسار کر دیا تھا جس کی وجہ سے مجھے بخیہ گر کے پاس جانا پڑا کیونکہ معاملہ اس بار نازک تھا۔ دامن بالکل سامنے سے چاک ہوا۔ نہ تو واسکٹ اس کا بھرم رکھ سکی نہ میری کفایت شعاری مجھے بخیہ لگوانے سے باز رکھ سکی۔
بخیہ گر کو میں ایک محلے دار کے طور پر جانتا تھا۔ جو ایک سڑیل اور لالچی بخیہ گر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ وہ گلی کی نکڑ پر ایک بوریہ بچھا کر بیٹھتا تھا۔ اس کے سڑیل مزاج ‘ لالچ اور چڑچڑے پنے کی وجہ سے اس کے بیٹے نے اسے گھر سے نکال دیا تھا۔ اتنا تو سُنا تھا پر اس سے آگے اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ البتہ کچھ برسوں سے اس کی رہائش ہمارے محلے میں تھی۔ اس کی جھونپڑی بیگم بلقیس کی کوٹھی کی بغل میں تھی۔ وہ جگہ میرے لیے ناقابلِ گزر تھی کیونکہ جھونپڑی کے مقابل روش سے اس پار ایک خالی پلاٹ تھا جس کے مالک نے اس کی بھرائی کے لیے اہل محلہ کو دعوت دے رکھی تھی کہ وہ اپنے گھر کی گندگی ( کوڑا کرکٹ) اسی پلاٹ کی نـذر کریں۔ مجھے بدبو اور گندگی سے کراہت ہوتی تھی اس لیے اگر کبھی اس طرف سے گزرنا بھی پڑتا تو میں متبادل راستہ اختیار کرتا تھا۔
اس بخیہ گر کے علاوہ اس علاقے میں اور کوئی بخیہ گر تھا بھی نہیں اور وہ بخیہ گر بھی گلی کی نکڑ پر بیٹھا ہر آنے جانے والے کے لباس کا تجزیہ کرتا رہتا اور اپنی کاریگری کے حساب سے ہر گُزرنے والے کی حیثیت کا اندازہ لگاتا رہتا۔ حالانکہ اس کی بوڑھی آنکھیں ایک شیشے والی پرانی عینک کے اوپر سے لوگوں کے لباس کا تجزیہ کرنے سے قاصر تھیں۔ جب اس کے پاس کوئی گاہک کسی کپڑے کی سلائی درست کروانے یا کسی پرانے بوسیدہ لباس کی مرمت کروانے آتا تو وہ اس لباس کو پکڑ کر اس کی ہر سمت سے کوئی نہ کوئی نقص نکال لیتا تھا۔
’’ یہاں سلائی ہوگی۔۔۔ یہاں بھی سلائی ہوگی۔۔۔ اس جگہ سے رفو کرنا پڑے گا۔۔۔یہاں بھی بخیہ لگانا پڑے گا۔۔‘‘
ساتھ ہی ایک سنگترے کی جھاڑی تھی اس کی سب سے نچلی شاخ پر بلبل کا گھونسلہ تھا ‘ بچے گھونسلے سے نکل کر شاخوں کی طرف جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ اپنی صندوقچی سے قمیض کے رنگ کی نلکی تلاش رہا تھا اور بار بار ان نومولود پنکھوں والے بچوں دیکھ رہا تھا۔ میں نے اسے اس غرض سے مخاطب کیا کہ اس کی توجہ انہی بچوں کی طرف رہے کیا معلوم وہ میری قمیض کے زیادہ نقص نہ نکالے۔
’’ دیکھو تو بچے گھونسلے سے نکلنے کے لیے کتنے اتاولے ہو رہے ہیں ‘‘
میں نے ذرا بے تکلفانہ انداز میں کہا ۔ اس نے بس سر ہلا دیا جو پہلے بھی ضعف کی وجہ سے مسلسل ہل رہا تھا ۔ اس کے بعد وہ صندقچی کے نیچے سے لکڑی کا فریم نکالنے لگا۔ وہاں چھوٹے بڑے کئی فریم تھے ان میں سے کچھ ٹوٹے ہوئے بھی تھے لیکن کپڑے اور سٹیل کی تاروں سے بڑی عمدگی سے جوڑے گئے تھے۔ بخیہ گر نے اپنی عینک ناک پر ٹکائی قمیض کے دامن کو فریم میں لگا کر رفو کرنے لگا۔
میں نے دو ایک بار سوچا کہ کچھ بات کروں اتنی طویل خاموشی سہنا میرے لیے سہل نہ تھا ۔ لیکن اپنی گھسی پھٹی آستینیں چڑھا کر وہ خود ہی مخاطب ہوا۔۔۔
’’ان چوزوں کو دیکھ کر مجھے اپنے بچے یاد آ گئے۔ میں بھی متجسس تھا کہ اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھوں لیکن اس کی سڑیل شکل کے رعب نے مجھے لب بستہ رکھا ۔ اب بات ا س نے خود چھیڑی تو میں نے بھی موقعے کا فائدہ اٹھایا۔۔
’’ آپ کے بچے کہاں ہیں؟۔۔‘‘
بخیہ گر ٹھٹھک گیا۔ سوئی میں دھاگا ڈالنے لگا۔ مجھے لگا شاید میں نے جلد بازی کر دی۔ میں خاموش ہو گیا، اس کے بعد اس نے پھر رفو کرنا شروع کر دیا۔۔
’’میرا اچھا خاصا کاروبار تھا۔ میری اپنی دکانیں تھیں، میں خود درزی تھا اور میرے بیسیوں شاگرد بھی تھے۔ میری گھر والی بڑی نیک عورت تھی۔ تم کبھی اس طرف آے تو تمہیں اس سے ملواؤں گا۔ میرے بچوں کو بھی ان چوزوں کی طرح اڑنے کا بہت شوق تھا، وہ جوان ہونے لگے اور میں بوڑھا۔۔ ان کی شادیاں کیں، گھر میں پرائی بیٹیوں نے آتے ساتھ ہم دونوں کو پرایا کر دیا۔۔۔‘‘
’’جو کچھ تھا بیچ کر وہ شہر روانا ہو گئے۔۔ میرے دم میں جب تک ہمت تھی میں کماتا رہا اور بخت بھری آخری دم تک میری خدمت میں جٹی رہی۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری عمریں ڈھلنے لگیں۔۔ پھر ایک روز گھر بھی قرض کی نذر ہو گیا۔۔‘‘
بخیہ گر اپنی پگڑی کے پلو سے بوڑھی آنکھوں کی نمی جذب کرنے لگا۔ میری سانسیں کھنچنے لگیں، مجھ میں جتنی سکت تھی جمع کر کے آگے بڑھا۔۔ بخیہ گر کے بوڑھے، سوکھے ، لٹکے ہوئے کندھوں پر ہاتھ رکھا۔۔
’’ صبر کیجیے ۔۔ اﷲ پر بھروسہ رکھیے۔۔‘‘
اس کے علاوہ میں اور کہہ بھی کیا سکتا تھا۔۔ یہ خاموش طبع چڑچڑا آدمی ناریل کی طرح باہر سے سخت اور اندر سے کتنا نرم تھا، اس کی اس نرمی نے میرے دل میں بھی کہیں کوئی نرم گوشہ پیدا کر دیا تھا۔
اس کے بعد بخیہ گر نے بخیہ لگانا چھوڑ دیا۔ سوئی اس کی انگلی میں چبھ گئی تھی لیکن ہڈیوں کے ساتھ چپکے ہوئے ماس سے خون کہاں نکلنا تھا۔ دامن رفو کر کے لگے ہاتھ اس نے پھٹی ہوئی اندرونی جیب کو پیوند بھی لگا دیا تھا۔ لیکن بازوؤں کے نیچے ابھی بھی دو سوراخ موجود تھے ۔دھاگہ ختم ہونے پر بخیہ گر نے متفکر ہو کر کہا۔۔
’’او میّاں! اس رنگ کا دھاگہ ختم ہو گیا۔ میری جھونپڑی یہیں پاس ہی ہے۔ تم جا کر دوسری صندوقچی لے آو تو یہاں بھی بخیہ لگا دوں۔ ‘‘
میں نے دھاگے کا ختم ہونا غنیمت جانا، جان چھڑانے کی غرض سے بولا۔۔
’’بس رہنے دیں ، باقی پھر کبھی کروا لوں گا‘‘
’’نہیں بابو جی۔۔ تم افسر آدمی ہو ۔۔ دفتر میں کوئی دیکھے گا تو کیا سوچے گا۔۔ وضع داری کا خیال تو رکھنا پڑتا ہے نا‘‘
میں بھی سمجھ گیا کہ بوڑھا ٹاٹ کی انگھیاڑ پر ریشم کا بخیہ لگانا چاہتا ہے اور جیب کا یہ حال تھا کہ یاروں کی تو فقط مونچھیں ہی مونچھیں ہیں۔ سورج سر پر آ چکا تھا میں نے سوچا یہ بیل مندھے چڑھتی نظر نہیں آتی،جھونپڑی جانے میں ہی مصلحت ہے ۔
بہر کیف چلا گیا، سرکنڈوں سے بنی ہوئی اس جھونپڑی کے وسط میں ایک لکڑی کا ستون تھا۔اندر دو چارپائیاں اس ترتیب سے رکھی تھیں کہ درمیان سے آسانی سے گزرا جا سکتا تھا۔ ایک نکڑ میں مٹی کا ٹیلہ میز کا کام دے رہا تھا جس پر مصالحے کی چھوٹی بڑی مختلف ڈبیاں رکھی تھیں۔ اسی نکڑ میں اوپر سرکنڈوں سے بنی ہوئی تختی اس ادا سے جڑی تھی کہ لکڑی کی تختی کا گمان ہوتا تھا۔ اس تختی پر قرآنِ پاک رکھا تھا۔ دوسری نکڑ میںغالباً زمین پر خس و خاشاک کی بنی ہوئی مسند تھی جس پر ایک صندوقچی ، ایک گدی اور میل سے اٹی پرانی سلائی مشین رکھی تھی۔
بخت بھری چارپائی پر پڑی کھجور کے پتوں سے بنا دستی پنکھا ہاتھ میں لیے آہستہ آہستہ بڑبڑا رہی تھی۔ اس کی سوکھی چمڑی اس کی بوڑھی ہڈیوںسے چپکی ہوئی تھی اور دھوپ سرکنڈوں سے بنے ہوئے آدھے ادھورے چھپر کو چیر کر اس بوڑھی چمڑی کو پگھلا رہی تھی۔ اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں ابھی بھی کسی خود غرض، نافرمان اولاد کی جویاں تھیں۔ایک لحظہ تو مجھے یوں محسوس ہوا گویا میری ماں اس بے بسی کے روپ میں میرے سامنے آ کر بیٹھ گئی ہے۔ جذبات کی رو میں میری آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ بخیہ گر نے وہاں بھیج کر مجھے ایک ایسی حقیقت سے آشنا کیا جو بے حس انسان کے مردہ ضمیر پر ایک گہری چوٹ تھی۔
اپنی ماں کو میں اسی حالت میں گاؤں چھوڑ آیا تھا۔ کچھ عرصہ مجھے چٹھی ملتی رہی اور پھر ایک دن ایک ایسا خط آیا جس نے میرے خوابیدہ ضمیر کو جھنجوڑ کر پھر ابدی نیند سُلا دیا تھا ۔ اس کے بعد میں کبھی گاؤں نہ گیا تھا۔ کیونکہ بوڑھی بے رونق آنکھیں جو میرا انتظار کرتی تھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی تھیں۔
بہر کیف میں اپنے جذبات پر ضبط کر کے جھونپڑی میں داخل ہوا۔ بخت بھری کو میری موجودگی کا پہلے سے احساس تھا۔ اس سے پہلے میں کچھ کہتا، اس کی کانپتی ہوئی بوڑھی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔۔
’’صندوقچی لینے آئے ہو؟۔۔ ایک تو یہ مُوا شکورا بھی نا۔۔ بارہا کہا کہ بیچارے گاہکوں کو اس جلتی دھوپ میں ادھر کا دھکہ نہ دیا کر۔ دونوں صندوقچیاں ساتھ رکھا کر۔ پر وہ میری بات سنتا ہی کب ہے۔۔‘‘
کچھ دیر بڑبڑانے کے بعد اس نے صندوقچی کی طرف اشارہ کیا۔
’’وہ پڑی ہے صندوقچی۔۔ اُٹھا لے۔۔ اور سُن آج کچھ معاوضہ دے دینا، بھوک سے پیٹ چپک گیا ہے۔۔‘‘
میں نے جھٹ سے صندوقچی اٹھائی اور بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا بخیہ گر کے پاس پہنچا۔ میرا پورا وجود پسینے میں ڈوب چکا تھا۔ میری بے مہر آنکھیں پوری طرح بھیگ چکی تھیں۔ دل میں عجب سی چبھن ہونے لگی جیسے ایک بخیے نے میرے دامن ِدل پر لگے ہزار زخموں کو اُدھیڑ دیا ہو۔۔۔۔
سنگترے کی جھاڑی پر گھونسلہ ابھی موجود تھا۔ بلبل کے بچے گھونسلے کی گود میں ویرانی ڈال کر جا چکے تھے۔۔۔
٭٭٭