چھوٹے قد کے بڑے لوگ
اونچی اونچی عمارتوں سے بنی اس ریاست میںچھوٹے قد کے لوگ رہتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک لمبے قد کا آدمی بھی رہتا ہے۔ جس کے قد و قامت کی بابت چھوٹے قد کے آدمی اسے بے وقوف کہتے ہیں۔ اس کے نظریات کی بنا پر اسے بد صورت ، قلاش اور چڑچڑا آدمی بھی کہتے ہیں۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتا کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس کے ارد گرد اندھے اور بہرے لوگوں کا سیلاب ہے۔ وہ نہ تو اس کے درد کی داستاں سن سکتے ہیں اور نہ اس کے پہلو کے زخم دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے ارد گرد ہر وقت ان لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ وہ اس بھیڑ کو چیرتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے۔ لیکن نہ تو ان بلند و بالا عمارتوں کی قطاریں ختم ہوتی ہیں نہ ان لوگوں کا ہجوم۔۔ مسلسل چلتے چلتے اس کے پیروں میں آبلے پڑ جاتے ہیں ان آبلوں سے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے لیکن وہ ان آبلوں سے قطع نظر چلتا جاتا ہے۔وہ جہاں بھی پاؤں رکھتا ہے مفلسی کے کانٹے بکھرے ہوتے ہیں پھر بھی وہ چلتا رہتا ہے۔
ان چھوٹے آدمیوں نے آلائش، آسائش اور نمائش کے لبادے اوڑھے ہوئے ہیں۔ ان کی آستینیں لٹک رہی ہیں۔ وہ دامن گھسیٹ کر چلتے ہیں۔ لیکن یہ کیا اس لمبے آدمی نے تو تنگ دستی اور بے بسی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ اس کا لباس کس قدر تنگ ہے۔ یہ اپنی ایک آستین کھینچتا ہے تو دوسرا بازو ننگا ہو جاتا ہے۔ اس کا پائجامہ پنڈلیوں تک ہے اور کرتا گھٹنوں سے اوپر تک۔ یہ اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ان لوگوں کی طرف دیکھتا ہے تو وہ چندھیانے لگتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں دولت کی چمک ہے۔ اس چمک کو یہ کیسے دیکھ سکتا ہے۔ اگر یہ اس چمک کو دیکھے گا تو اس کی آنکھیں بھی ان کی طرح چمک اٹھیں گی پھر اس کا قد چھوٹا ہونا شروع ہو جائے گا۔
پر اسے اس چھوٹے قد سے کس قدر نفرت ہے۔ ہر شام ان لوگوں کی انجمن سجتی ہے جس میں ان کے قہقہے بلند ہوتے ہیں۔ انہی قہقہوں میں اس آدمی کی سسکیاں دب جاتی ہیں۔ یہ لوگ ساری رات جاگتے ہیںاور ان کے ضمیر بے حسی کی خواب گاہوں میں سوتے ہیں۔ وہ حقیقت سے لا تعلق اس انجمن سے فرار چاہتا ہے۔ اس کا ضمیر انتشار کا شکار ہے۔ اس انجمن کے کیف کی تہوں میں بے کیفی چھپی ہے۔ وہ اس بے کیفی سے بے زار ہے۔ اس انجمن سے غفلت کے ترانے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ ترانے اس کے دل کو بے حضور کر دیں گے۔ اس کی تگ و دو کو بے معنی کر دیں گے۔ بے لگام خواہشیں اس کے تنگ دامن کو کھینچ رہی ہیں۔ اس کے اندیشے بڑھ رہے ہیں۔ وہ یہ سب نہیں ہونے دے گا۔ وہ اس انجمن سے بھاگ جاتا ہے۔ وہ بلند عمارتوں کے وسط میں الجھنوں کی تیلیوں سے بنی ہوئی اپنی چھوٹی سی کٹیا میں جا کر چھپ جاتا ہے ۔ وہ اپنے کان بند کر لیتا ہے۔
اچانک اسے معاشرتی ، سماجی،مذہبی اور اجتماعی قدروں کے نالے سنائی دیتے ہیں۔ چھوٹے قد کے آدمیوں نے انھیں مقید کر رکھا ہے۔ منفی اور پست اقدار پہرہ دے رہی ہیں۔ وہانہیںبازیاب کرالیناچاہتا ہے۔ پراس کی کیفیت مجمورکی سی ہے۔رات کے پچھلے ان عمارتوں کے بیچ تاریک گلیوں میں برہنہ اجسام نظرآتے ہیں وہ موسم کی سختی کو جھیلنے سے قاصر ہیں۔اس لمبے قد کے آدمی کو محسوس ہو رہا ہے جیسے ان برہنہ اجسام میںاس کی روح ہے۔وہ جاڑے کی سختی اور تپتی دھوپ میں جھلستے ہیں۔ وہ ان برہنہ اجسام کو ڈھانپنا چاہتا ہے ۔پر کیسے؟ ان کے لباس بڑی عمارتوں میں رہنے والے چھوٹے قد کے آدمیوں کی خواب گاہوں کے قالین کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
وہ ان اجسام کی تکلیف کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔ وہ ان کے حصے کی خوشیوں و غم کے قالب میں ڈھلتے دیکھتا ہے۔ اسے گھٹن محسوسہوتی ہے۔ وہ پھر اپنی کٹیا کی طرف بھاگ جاتا ہے۔راستے میں اسے کچھ لوگ نظر آتے ہیں۔ ان کے جسم تو ڈھکے ہوتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ اور آنکھیں آسمان کی طرف اٹھی ہوتی ہیں۔ ان سب کے ماتھوں پر شکست و ریخت تحریر ہے۔ ان کے پیٹ اندر کو دھنس گئے ہیں۔
وہ سوچتا ہے ’’شاید یہ سب اس خالق کو پکار رہے ہیں جو ان کے رزق کا کفیل ہے پھر یہ بھوکے کیوں ہیں؟؟
کیا وہ اپنے وعدیسے دستبردارہوگیا ہے؟؟نہیں۔۔۔۔۔ایساہرگزنہیں۔۔۔ اگرایسا ہوتا تو یہ رزق کے چشمے کیونکر جاری ہوتے۔۔۔ پر یہ چشمے ان لوگوں کو نظر کیوں نہیں آ رہے؟؟۔۔۔
کیا ان کے ساتھ ان کے دماغ بھی اپاہج ہو گئے ہیں؟؟ کیا یہ بھی حلال اور حرام کا فرق بھول گئے ہیں؟؟ جیسے وہ چھوٹے قد کے لوگ بھول گئے تھے۔۔‘‘
وہ ان لوگوں کے قریب جاتا ہے۔وہ دیکھتا ہے کہ یہ لوگ حقیقی رزاق کو نہیں بلکہ اس ریاست کی سب سے اونچی عمارت میں رہنے والے اس زمینی خدا کو پکار رہے ہیں جس نے ان کے حصے کا رزق اپنے پالتو کتوں کے آگے پھینک دیا ہے۔پھر اپنے کتوں کا جھوٹا ان لوگوں کے آگے پھینکتا ہے۔ اور یہ ایک دوسرے پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ ان کے قد چھوٹے ہوتے جاتے ہیںاور زمینی خدا اس عمل سے حظ اٹھاتا ہے۔
وہ ان لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر گھبرا جاتا ہے۔ وہ چلاتا ہے انھیں مخاطب کرتا ہے پر وہ اس کی آواز نہیں سنتے۔
اس کی گھبراہٹ بڑھنے لگتی ہے۔ وہ پھر بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔ بھاگتے بھاگتے اس کا لباس تار تار ہو جاتا ہے۔ اس کا برہنہ پیٹ اندر کو دھنسنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی بے کلی میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اس کی سانسیں اکھڑنے لگی ہیں۔
وہ ڈر کا پیکر بنتا جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے’’ کہیں تقدیر مجھے بے حسی کے قالب میں نہ ڈھال دے۔ کہیں میں بھی ان استحصال زدہ لوگوں کا حصہ نہ بن جاؤں،میری ہمت دم توڑ رہی ہے۔ مجھے تکان محسوس ہو رہی ہے۔ کیا میں ان لوگوں کی طرح بے راہروی کا شکار ہو رہا ہوں؟ کیا میری انسانیت کے نقوش مبہم ہو رہے ہیں؟کیا میں اس تلخ احساس کا عادی ہو رہا ہوں؟کیا میرے ارادے برف کی سل کی طرح پگھلنے لگے ہیں؟۔۔۔اف۔۔ میرے قدم لڑکھڑانے لگے ہیں۔ یہ کیا؟؟ میرا دامن آلودہ ہو گیا اور مجھے خبر نہ تک نہ ہوئی۔ کیا میں غفلت کا شکار ہو رہا ہوں؟مجھے میرا وجود مٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔۔‘‘
اس کی بے خوفی خوف کا روپ دھارنے لگی۔ اسے اپنی بے بسی کا ادراک ہو رہا ہے۔ وہ اپنی کٹیا کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس نے دیکھا اس کی کٹیا کی چھت پر تقدیر بیٹھی ہے جو اسے ترساں و پریشاں دیکھ کر خوشی کا اظہار کر رہی ہے۔ وہ لب بستہ اسے دیکھ رہا ہے اس کے پیٹ میں آگ لگنے لگی ہے۔
سامنے گداگزی کا جوہڑ ہے جس کا کھارا پانی میٹھا شربت لگتا ہے۔ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے اس نیاس گداگری کو منہ لگا لیا ہے۔ اس کے پیٹ کی آگ بجھ چکی ہے اس کی کٹیا بلند ہوتی جا رہی ۃے۔ لس کی آستینیں لمبی ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کا دامن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی روح شکست وریخت کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ احساس کا دم گھٹ رہا ہے۔ اس کا ضمیر اونگھنے لگا ہے۔ اس کے لمبے قد کا سایہ ان چھوٹے قد کے آدمیوں کے پر پیچ دھندلکوں میں ضم ہوتا جا رہا ہے۔