{شکست کی دراڑیں}
محبت اﷲ پاک کے پسندیدہ اور پاکیزہ جذبات میں سے ایک ہے ۔جسے عطا ٰ ہوجائے اس کے نہاں خانہ کی تاریکیاںمٹ جاتی ہیں ۔اہلِ نظر کی آنکھوں کی بینائی کسی پُر تاثیر چہرے کی رعنائی کو دل میں اُتارتی ہے تو دلبری پیدا ہوتی ہے۔ لیکن جب کوئی دل کسی دِلبر کو مہمان کر لیتا ہے تو پھر خلوت میں جلوت کے مزے ہوتے ہیں۔ پھر کبھی فراق و ہجر کی لزتیں اور کبھی وصل کا انتظار ۔ ۔۔
قطرے سے قلزم تک کی مسافت کو ایک جست میں طے کرنے والا یہ جذبہ اگر راستہ بھٹک جائے تو مُراد کی حُدود میں داخل ہونا حسرت بن جاتا ہے۔ محبت اگر ُحسن کے آستاں پہ جھُک جائے پھر ساری عُمروہاں سے اُٹھ نہیں سکتی۔
سماج نام کی ایک نگری تھی۔ جذبات اُس نگری کے باسی تھے۔اُس نگری میں رکھ رکھاؤ اورالتفات کی دیواروں سے بنے ہوئے گھر تھے۔ اُنھیں دیواروں میں سے ایک دیوار کے سائے میں محبت رہتی تھی۔وفا کی گلیوں میں اُسے معصُوم نام سے جانا جاتا تھا۔ ایک روز وفا نے ایک محفل سجائی۔ محفل میں رعنائی کی موجودگی اِس بات کا احساس دلانے لگی کہ حُسن کی آمدہے۔
اتّفاق سے مُحبت بھی وہاں موجود تھی۔جب اُن کی ملاقات ہوئی رعنائی نے راگ الاپنے شروع کر دیئے۔ رسم و راہ کو اٹکھیلیاں سوجھیں ۔ وہ موقع ملتے ہی حسن اورمحبت کے پہلو میں جا بیٹھی۔ حُسن نے آرزوئے وصل، وفاؤں کی آس، رفاقت کی تمنّا اور چند مشروط وعدے محبت کو دیئے اور بدلے میں محبت کو اپنا غلام کر لیا۔ لیکن محبت حُسن کو اپنا صاحبِ حال سمجھ بیٹھی۔
پھر راز و نیاز کا سلسلہ چل نکلا۔ حُسن کے جلوؤں سے محبت کی بینائی جاتی رہی۔ رُسوائی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ محبت اندھی ہو گئی اور رُسوائی نے ہوا کے کندھوں پر سوار ہو کر سماج میں سرگوشیاں شروع کر دیں ۔ محبت کے اندھاہونے کا یہ اعلان سود و زیاں بھی سُن رہے تھے۔ انھوں نے محبت کے کان بھرناشروع کردیئے۔ اُدھر غیرت کو بھی خبر ہو گئی۔ غرور نے جب یہ اعلان سُنا تو وہ حُسن کے سر پر منڈلانے لگا۔
حُسن نے محبت کی گلیاں چھوڑ دیں۔محبت حُسن کے تعاقب میں شرم و حیا کی دہلیز پار کر گئی۔ لیکن غیرت محبت کے راستے میں حائل ہو گئی۔ بینائی جانے کی وجہ سے محبت کو نہ غیرت نظر آئی نہ سود و زیاں ۔ غیرت نے اُس کے پر کاٹ دیئے اور اُسے ہجر کے زیور پہنا کر تنہائی کے پنجرے میں قید کر دیا ۔ ہجر نے محبت کو زخمی کر دیا۔ اُس کے بعد کئی دنوں تک آہیں اور نالے محبت کے پنجرے کے گِرد مندلاتے رہتے۔ آہیں آسمان کی طرف اُٹھتیں ،بیکار سمجھ کر واپس بھیج دی جاتیں۔ محبت کی صدائیں قید خانے کی دیواروں سے ٹکراتیں اور بکھر جاتیں۔ پھر فراق بھی قید خانے میں آباد ہو گیا۔ کُچھ روز یہی سلسلہ چلتا رہا۔
ایک روز سماج کی گلیوں میں بغاوت آوارہ گردی کر رہی تھی۔ اُس کی نظر تنہائی کے قید خانے سے اُٹھنے والی آہوں اور فریادوں پر پڑی۔ وہ سمجھ گئی یہاں محبت کا بسیرا ہے۔ اُس نے وہاں جا کر محبت کا ہاتھ پکڑ لیا اور محبت نے روایتی بندھن کا قفص توڑ کر بنا پنکھوں کے اُڑنا شروع کر دیا۔ بغاوت محبت کو حسن کے آستاں تک لے گئی۔ لیکن رقابت محبت سے پہلے پہنچ چکی تھی۔ اُس نے حُسن کے دروازے بند کر دیئے۔
پھر چوکھٹ پر بے وفائی کے کانٹے بچھا دیئے۔ ان کانٹوں نے محبت کے دامن کو چاک چاک کر دیا۔ نصیب نے محبت کو نارسائی کالبادہ اُڑھا کر واپس بھیج دیا۔ نارسائی کے اس لبادے نے ہجر کے زخموں کو نا سُور کر دیا۔ اور ان سے بہنے والے خون نے محبت کے دریدہ دامن کو داغدار کر دیا۔ ان داغوں کو چھپانے کے لیے محبت نہاں خانے میں جا کر چھُپ گئی۔ پھر حُسن کی محفلوں میں رقابتیں یہ ذکر چھیڑا کرتیں۔۔۔
’’وہاں ایک ویران محل ہے۔ جس کی دیواروں میں شکست کی دراڑیں ہیں۔ جس کے کواڑوں پر یادوں کے قفل آویزاں ہیں۔اُس کا نام دل ہے۔ سُنا ہے اس محل میں ناکام محبت رہتی ہے۔‘‘
٭٭٭