شہزادہ بہلول کی پیدائش پر پورے ملک میں خوشیاں منائی گئی تھیں— یہ جشن ایک ہفتہ جاری رہا تھا۔ شہزادہ بہلول کا باپ ملک سمارا کا بادشاہ تھا۔ اس ملک پر کئی صدیوں سے ان کا خاندان حکومت کرتا چلا آ رہا تھا۔
یہ بادشاہ کی پہلی نرینہ اولاد تھی، اس لیے ملک کے طول و عرض میں بھرپور انداز میں جشن منایا گیا ۔ ایک ہفتہ تک ملک کے ہر شہر میں غریبوں، فقیروں اور یتیموں کے لیے لنگر کا انتظام کیا گیا۔ محلات میں چراغاں اور رقص و سرور کی کی خصوصی محفلوں کا انعقاد کیا گیا— اس خوشی میں بادشاہ نے بذاتِ خود زندگی میں پہلی دفعہ درباریوں کے سامنے رقص کیا۔
پورے ملک میں عام شہریوں کیلئے میلوں ٹھیلوں کا انتظام کیا گیا جس میں کرتب دکھانے کیلئے بازیگر اور جادوگر دور دراز کے ملکوں سے منگوائے گئے تھے۔
شہزادے کا نام شہر کے ایک درویش بہلول کے نام پر رکھا گیا ۔ بادشاہ کے بقول شہزادے کی پیدائش اسی درویش کی دعائوں کی مرہونِ منت تھی۔
بہلول تھوڑا بڑا ہوا تو اس نے خوب رنگ و روپ نکالا— گوری رنگت، بھرے بھرے گال، ستواں ناک اور فراخ پیشانی۔ سب سے زیادہ خوبصورت تو اس کی آنکھیں تھیں۔ اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی جو ہرایک کو بے اختیار اپنی جانب کھینچ لیتی تھی۔
بہلول کے بعد بادشاہ کے ہاں اور بھی کئی بیٹے پیدا ہوئے لیکن اسے سب سے زیادہ پیار بہلول سے تھا۔ وہ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ اس کی کوئی بات نہیں ٹالتا تھا۔ وہ اس کی تربیت مستقبل کے ولی عہد اور بادشاہ کے طور پر کر رہا تھا۔
بہلول کچھ بڑا ہوا تو اسے رموزِ بادشاہی اور اصولِ دنیا داری سکھانے کے لیے ایک مشہور اتالیق مقرر کیا گیا لیکن جلد ہی اسے اتالیق کی باتوں سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگی تھی۔
وہ تھوڑا بڑا ہوا تو بادشاہ نے اسے باقاعدہ ولی عہد مقرر کر دیا اور اس کے لیے ایک حفاظتی دستہ تعینات کر دیا۔ وہ اکثر اس حفاظتی دستے کو غچہ دے کر تنہا ہی محل سے باہر نکل جایا کرتا تھا۔ وہ اس درویش کے پاس جاتا تھا جس نے اس کے پیدا ہونے کی دعا کی تھی۔ وہی درویش جس کے نام پر اس کا نام ’’بہلول‘‘ رکھا گیا تھا۔ وہ دو طرح کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ایک طرف اتالیق کی دنیا داری کی باتیں جبکہ دوسری طرف درویش کی دنیا بیزار باتیں۔
بہلول کو درویش کی باتوں میں زیادہ کشش معلوم ہوتی تھی جبکہ اتالیق کی باتوں سے وہ اکثر بیزار ہو جایا کرتا تھا۔ اکتاہٹ میں وہ اکثرایسے چبھتے ہوئے سوالات کرنے لگتا تھا جن کے موزوں جوابات اتالیق کےپاس نہیں ہوتے تھے۔
اتالیق اس کے بیزار رویے کی شکایت بارہا بادشاہ سے کر چکا تھا، ’’بادشاہ سلامت! ولی عہدِ معظم تعلیم میں کم ہی دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ اکثر چبھتے ہوئے طنزیہ سوالات کرتے رہتے ہیں۔‘‘
بادشاہ نے توجہ سے اس کی بات سنی۔ وہ قدرے پریشان ہو گیا تھا۔
اتالیق نے کچھ توقف سے کہا، ’’ سنا ہے کہ ولی عہدِ معظم اکثر کسی درویش کے پاس جاتے ہیں۔ ان کے ذہن پر میری باتوں سے زیادہ اس درویش کی دنیا بیزار باتوں کا اثر ہے۔‘‘
بادشاہ بھی کئی دفعہ اس کی سرزنش کر چکا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اتالیق درست کہہ رہا ہے۔ اس نے بہلول کو بلایا اور پیار سے سمجھایا، ’’بیٹا! تم سلطنت کے مستقبل کے بادشاہ ہو۔ حکومت چلانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اس کے لیے عیاری، چالاکی اور منافقت کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی کہ رحمدلی، سخاوت اور بہادری کی— یہ چیزیں تمہیں ایک قابل اتالیق ہی سکھا سکتا ہے، کوئی درویش نہیں۔‘‘
بہلول سر جھکائے اپنے باپ کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔ باپ کے خاموش ہونے پر اس نے سر اٹھایا اور مودبانہ انداز میں کہا، ’’بادشاہ سلامت! آپ کو میرے درویش کے پاس جانے پر اعتراض ہے لیکن آپ بھی تو اس کے پاس جاتے رہتے ہیں۔ آپ اس کی دعائیں لیتے ہیں — باتیں سنتے ہیں۔‘‘
بادشاہ مسکرایا، ’’ولی عہد! بادشاہ کی درویشی بھی عیاری ہوتی ہے اور درویشوں کے پاس جانا بھی شاطرانہ چال— ابھی تم چھوٹے ہو، یہ باتیں تمہاری فہم و فراست سے ماورا ہیں۔ میں نے ایسی باتیں سکھانے کے لیے ہی تو اتنا لائق اتالیق رکھا ہے۔‘‘
وہ سر جھکائے بادشاہ کی باتیں سن رہا تھا لیکن اس کا دل ان باتوں کو تسلیم نہیں کر رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بہت سے سوالات تھے لیکن وہ بادشاہ سے مزید بحث نہیں کرنا چاہتا تھا۔
بہلول اور اتالیق کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جاری تھا۔ بظاہر وہ اس کی باتیں توجہ سے سنتا رہتا تھا— اب زیادہ تند و تیز سوالات کی یلغار بھی نہیں کرتا تھا لیکن اس دوران اپنے دماغ کے تمام راستے بندکر لیتا تھا— اب بادشاہ اور اتالیق دونوں اس کی کارکردگی سے مطمئن تھے۔ اس نے منافقت سیکھ لی تھی—وہ دل کی بات کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا۔
شاید اتالیق اسے سمجھ گیا تھا۔ اس کی خاموشی کو پہچان چکا تھا۔ اس لیے اس کے مسلسل چپ رہنے پر اکتاہٹ کا اظہار کرنے لگا تھا۔ اس نے ایک دن بہلول سے کہا، ’’شہزادہ معظم! ہر چیز پر سوال اٹھایا کریں۔ کسی چیز پر سوال اٹھانے سے ہی اصل حقیقت آشکار ہوتی ہے۔‘‘
بہلول نے اس بات پر صرف اثبات میں سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا تھا۔
ایک دفعہ آدھی رات کو محل میں ہڑبونگ مچ گئی۔ ہر طرف شور شرابے اور رونے چیخنے کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔ بادشاہ نے اسے اور دوسرے بہن بھائیوں کو ایک محفوظ کمرے میں بند کیا اور خود تلوار لے کر محل سرا سے نکل گیا۔ صبح تک محل میں خوفناک آوازیں گونجتی رہیں۔ بادشاہ سلامت صبح صادق کے وقت واپس آیا تھا— ان کے ہاتھ میں خون آلود تلوار دبی ہوئی تھی جس سے ابھی تک خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔
بادشاہ اسے محفوظ کمرے سے نکال کر محل میں لے آیا اور اسے صرف اتنا بتایا کہ رات کو بغاوت ہو گئی تھی جسے کامیابی سے کچل دیا گیا تھا۔
بہلول کو بعد میں پتہ چلا کہ اس کے چچا اور چچا زاد بھائیوں نے بادشاہ کے خلاف بغاوت کی تھی۔ وہ اسے مار کر خود اقتدار پر قبصہ کرنا چاہتے تھے۔ اس سازش میں بہت سے خواجہ سرا اور درباری بھی ان کے ساتھ تھے لیکن یہ بغاوت ناکام ہو گئی ، کچھ باغی قتل ہو گئے تھے جبکہ باقیوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اگلے دن سارے گرفتار کر لیے جانے والے باغیوں کو دربار میں پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے ان کے لیے موت کی سزا تجویز کر دی۔ باغیوں کے چہرے خوف سے زرد پڑ گئے تھے — دو معصوم شکل خواجہ سرائوں نے تو بلند آواز میں پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا تھا۔
بہلول اس فیصلے پر آزردہ تھا۔رات کو تنہائی میں اس نے بادشاہ سے گزارش کی، ’’ابا حضور! یہ سب ہمارے اپنے ہیں، خون کا رشتہ ہے ان سے ہمارا— ان کو معاف کر دیں۔‘‘
دونوں باپ بیٹا تنہائی میں محوِ گفتگو تھے۔ چراغ کی ہلکی روشنی میں کسی کے تاثرات کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ بادشاہ نے سر اٹھایا اور کہا، ’’بیٹا! تم ابھی بہت چھوٹے ہو— کم سن ہو— ناتجربہ کار ہو— اقتدار کا کھیل بہت بے رحم اور سفاک ہوتاہے۔ اس میں رحم کی گنجائش بالکل نہیں ہوتی۔ اگر تم رحم کرو گے تو خود مارے جائو گے کیونکہ تمہارا مقابل رحم کی خوبی سے عاری ہوتا ہے۔ اس کھیل میں کوئی رشتہ دار نہیں ہوتااور نہ ہی کوئی اپنا ہوتاہے۔ سارے رشتے مفادات کے رشتے ہوتے ہیں۔ بیٹا! تخت ایک ہے اور طلبگار ہزاروں۔ ہر طلبگار کو قبر میں دھکیل دینے کے بعد ہی تخت محفوظ ہوتا ہے۔ جب تک تخت کا ایک طلبگار بھی سلطنت میں موجود ہو، تخت محفوظ نہیں ہوتا۔‘‘
بہلول بادشاہ کی بات سن کر خاموش ہو گیا تھا۔ اسے تخت و تاج سے گھن آنے لگی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ بھی اس کھیل کا حصہ ہو گا—
چراغ کی ملگجی روشنی میں اس کا باپ اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات کو بھانپ نہیں سکا تھا۔
بہلول دو دنیائوں کا مسافر تھا۔ وہ بادشاہ سے چھپ چھپا کر گاہے گاہے درویش کے حجرے میں جایا کرتا تھا۔ درویش کی باتیں اسے فلسفے کی عجیب و غریب دنیا میں لے جایا کرتی تھیں— دوسری طرف اتالیق کی باتیں تھیں جو اسے دولت اور اقتدار حاصل کرنے اور اسے تادمِ آخر برقرار رکھنے کے طور طریقوں سے آگاہ کرتی تھیں۔
جنگی ماہر اسے تلوار بازی، نیزی بازی اور دیگر جنگی امور کی تربیت دے رہے تھے۔
اتالیق اس پر حکومت چلانے کے نت نئے طریقے، چالاکیاں، سیاستیں اور بہروپ عیاں کر رہا تھا۔ آج بھی وہ دونوں پائیں باغ میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ اتالیق اسے امورِ حکومت کے بارے میں بتا رہا تھا، ’’شہزادہ حضور! اکثر بادشاہ عیش و عشرت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ شراب و شباب ان کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے لیکن عوام کے سامنے منافقت کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ پردے کے پیچھے وہ بہت بڑے عیاش، گناہ گار اور مے نوش ہوتے ہیں مگر جب باہر نکلتے ہیں تو مذہب کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ان کا نورانی روپ دیکھ کر ہر آدمی انہیں نیک، پاک اور متقی شخص سمجھنے لگتا ہے۔‘‘
بہلول مسکرایا، ’’استادِ محترم! میں جانتا ہوں۔ ابا حضور بھی یہی شوق و شغل کرتے رہتے ہیں۔ وہ بڑھاپے میں بھی جوان ہیں۔‘‘
اتالیق اس کی بات سن کر زیرِ لب مسکرایا اور بولا، ’’عام رعایا میں مذہب اور مذہبی پیشوائوں کا بہت اثر ورسوخ ہوتا ہے۔ مذہبی پیشوائوں کو تحفے تحائف دیتے رہنے چاہئیں— ان کی چھوٹی موٹی ضرورتوں کا بھی خیال رکھنا دانش مندی ہوتی ہے۔ اگر یہ لوگ آپ سے خوش ہوں تو منبر پر عام رعایا کے سامنے آپ کی حکومت کو مقدس ثابت کرتے رہیں گے، آپ کی حکومت کو اللہ کی رحمت کا نام دیں گے اور جب بھی عوام میں کوئی سرپھرا بغاوت کے راستے پر چل نکلتا ہے تو یہی مذہبی پیشوا اس کو باز رکھتے ہیں— باز نہ رہے تو اس پر مذہبی توہین کا الزام لگا کر عوام الناس کے ہاتھوں مروا دیتے ہیں۔ خس کم جہاں پاک۔‘‘
بہلول بڑی توجہ سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ بولا، ’’ہاں! میں اس منافقت کو بخوبی سمجھتا ہوں۔ میں نے بادشاہ سلامت کو گھر میں کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا لیکن رعایا کے سامنے وہ نماز پڑھتے ہیں، ذکر و تسبیح کرتے ہیں اور لوگوں کو نماز کی ترغیب بھی دیتے رہتے ہیں۔‘‘
آج موسم بے حد خوش گوار تھا— ہلکی ہلکی بوندا بوندی ہو رہی تھی۔ وہ دونوں چلتے چلتے آموں کے جھنڈ میں داخل ہو گئے۔ اتالیق بولا، ’’کبھی کبھی صدقہ خیرات کرنا، لنگر کا اہتمام کرنا اور غریبوں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ کر تحفے تحائف بانٹنا بادشاہ کے لیے ضروری ہوتا ہے — بادشاہ نے اپنی جیب سے تو دینا نہیں ہوتا— انھی لوگوں سے لیے ہوئے پیسے میں سے کچھ پیسے لوٹانے ہوتے ہیں ،اس سے سخاوت کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔‘‘
بہلول بادشاہوں کی منافقت کو بخوبی سمجھ چکا تھا۔ جوں جوں بادشاہی کے رموز اس پر کھل رہے تھے، توں توں تخت اور کارِ بادشاہی سے اسے نفرت ہوتی جا رہی تھی۔ عدم رغبتی کے باوجود وہ اتالیق کی باتوں پر پوری توجہ دے رہا تھا— اسے سمجھ آ گئی تھی کہ درویشی اختیار کرنے کے لیے ان عیارانہ چالوں کو سمجھنا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔
کچھ غریب اور مجبور لڑکیاں بادشاہ کے حرم میں داخل کی گئی تھیں۔ اکثر ان کی سسکیاں سنائی دیتی رہتی تھیں۔ بہلول نے جب سے یہ سسکیاں سنی تھیں ، وہ بے چین رہنے لگا تھا— اکثر اسے وہم ہو جاتا تھا کہ محل کے باغ سے سسکیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں لیکن جب وہ وہاں پہنچتا تو اسے کوئی بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ آن کی آن میں سسکیوں کی ابھرنے والی آوازیں بھی معدوم ہو جاتی تھیں۔
آج رات بھی اسے پائیں باغ سے سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ وہ گھبرا کر باغ میں پہنچا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ ہلکی ہلکی چاندنی میں شجر اداس دکھائی دے رہے تھے۔ اس کی بے چینی بڑھ گئی۔ اس نے محافظ کو ساتھ لیا اور درویش کے پاس پہنچ گیا۔ رات کے اس وقت ولی عہد کو سامنے دیکھ کر درویش پہلے تو حیران ہوا پھر مسکر کر بولا، ‘‘شہزادے! بے چینی سے گھبرایا نہیں کرتے۔ یہ تو انسان کی زندگی کو رواں دواں رکھتی ہے۔‘‘
بہلول نے کہا، ’’حضرت! کارِ شاہی سے میری نفرت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ محل مجھے قید خانے سے زیادہ بھیانک اور کریہہ لگنے لگا ہے۔ کیا بادشاہ بن کر بندہ عدل و انصاف کر سکتا ہے؟ کیا بادشاہی میں انسان کو سکون اور اطمینانِ قلب نصیب ہو سکتا ہے؟‘‘
درویش نے جواب دیا، ’’عدل کیا جا سکتا ہے لیکن ایک بادشاہ کے لیے انصاف کی راہ پر چلنا بے حد دشوار کام ہوتا ہے— رعایا کے ساتھ عدل کرو گے تو طاقت ور درباری اور امراء ناراض ہو جائیں گے— محلاتی سازشیں پھوٹ پڑیں گی— اگر درباریوں اور امراء کو راضی کرتے ہوئے رعایا سے بے انصافی کرو گے تو رعایا باغی ہو جائے گی۔ سب کو قابو میں رکھنے کے لیے عدل و انصاف سے کہیں زیادہ جبر و ظلم اور طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔‘‘
درویش کا ڈیرہ ایک اجڑے ہوئے مکان میں تھا۔ آس پاس کوئی مکان یا آبادی نہیں تھی۔ ہر طرف مکمل اور گہری خاموشی کا تسلط قائم تھا۔ بہلول نے اس سے کہا، ’’حضرت! آپ کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ آپ کی رسائی درباروں تک رہی ہے۔‘‘
وہ مسکرایا، ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے کافی عرصہ محلاتی غلام گردشوں میں گزارا ہے۔‘‘
بہلول نے دلچسپی سے پوچھا، ’’پھر تم نے فقر کیوں اختیار کر لیا؟‘‘
اس بات پر درویش کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور گزر گیا۔ وہ اپنے ماضی کی بھول بھلیوں میں چکرانے لگا۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد لمبی سانس پھیپھڑوں میں اتار کر بولا، ’’میں ایک شہزادے کا اتالیق تھا ۔ اس کے ساتھ خوبصورت محل میں شان و شوکت کے ساتھ رہتا تھا۔ بادشاہ نے شہزادے کے لیے یہ محل دریا کے کنارے پر بڑے شوق اور محنت سے بنوایا تھا۔ محل میں ہر طرف سنگِ مر مر نصب تھا۔ دیواروں پر خوبصورت نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔‘‘ درویش آنکھیں موندے دل ہی دل میں کچھ بڑبڑاتا رہا۔ کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی تھی۔ پھر وہ افسردگی سے بولا،’’ ایک دن دریا میں پانی کی سطح بلند ہونے لگی ۔ خبریں آئیں کہ سیلاب آنے والا ہے۔ شہزادے کی بے چینی میں اضافہ ہو گیا۔ وہ بار بار حسرت سے محل کو دیکھ رہا تھا جو کچھ دنوں بعد ڈوبنے والاتھا۔ پھر ایک دن سیلاب آگیا۔ شہزادہ اپنے محل کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا رہا۔ میں نے اس کے بعد شہزادے کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں دیکھی۔‘‘
چراغ کی مدھم روشنی میں اس کی آنکھوں میں ماضی کی پرچھائیاں رقص کرتی دکھائی دے رہی تھیں۔ اس نے ایک سرد آہ بھری اور کہا، ’’جس کے پاس جتنی زیادہ دولت ہوتی ہے، اسے اس کی حفاظت بھی اتنی ہی زیادہ محنت اور طاقت سے کرنی پڑتی ہے— شہزادے کے محل کے ساتھ ہی ایک فقیر کی جھونپڑی تھی۔ وہ سیلاب کی وجہ سے بالکل پریشان نہیں تھا— اس کے پاس تھا ہی کیا جس کے ڈوبنے کا اسے غم ہوتا۔ اس نے اپنا سامان کندھےپر رکھا اور ایک طرف کو چل دیا۔ اس دن مجھے محسوس ہوا کہ محل کے مقابلے میں جھونپڑی کا مالک ہونا کتنا آسان اور اچھا تھا۔اس دن مجھے دولت اور محلات سے نفرت ہو گئی۔‘‘
بہلول کےذہن میں اب فقر واضح ہوا تھا— اسے اپنے باپ کا چہرہ نظر آنے لگا جو اقتدار رکھنے کے باوجود ہر وقت پریشانیوں کی آماجگاہ بنا رہتا تھا کہ کہیں یہ بادشاہت ہاتھوں سے نکل ہی نہ جائے— کوئی شب خون ہی نہ مار دے— کہیں بغاوت کا علم ہی بلند نہ ہو جائے۔
وہ درویش کے گھر کے کھلے صحن میں بیٹھے تھے۔ گھر کی دیوار گری ہوئی تھی۔ کوئی دروازہ نہیں تھا جسے بند کرنے یا کھولنے کا اہتمام کیا جاتا ہو۔ بادشاہ نے اسے کئی مرتبہ اچھا گھر بنوا کر دینے کی پیشکش کی تھی لیکن اس نے ہر بار ٹھکرا دیا تھا۔
ولی عہد نے ادھر اُدھر دیکھا، ’’حضرت! مکان کی تھوڑی بہت مرمت ہی کروا لی جائے تو مکان بہتر حالت میں آ سکتا ہے۔‘‘
ایک پھیکی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی، ’’ہر چیز نے فنا ہو جانا ہے۔ یہ مکان پہلے بہت اچھی حالت میں ہوا کرتا تھا۔ میں یہاں اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ ماں بوڑھی ہوئی تو زیادہ وہم کا شکار ہو گئی۔ وہ بار بار مجھے باہر بھیجا کرتی تھی کہ بیٹا! دیکھ آئو، کہیں دروازہ کھلا تو نہیں رہ گیا، ماحول بہت خراب ہے۔ آج کل حالات کا کچھ پتہ نہیں چلتا— مجھے پتہ ہوتا تھا کہ دروازہ بند ہے لیکن ماں کا دل رکھنے کے لیے بار بار دروازہ دیکھنے چلا جاتا تھا۔ نہ اسے کبھی جھڑکا، نہ باہر جانے سے انکار کیا اور نہ دل پر کوئی ملال لیا۔ بس، جب ماں نے حکم دیا، میں نے تعمیل کر دی۔ ایک دن گھر کی دیوار گر گئی تو میرے ساتھ ساتھ ماں بھی دروازے کی فکر سے آزاد ہو گئی۔ تب سمجھ میں آیا کہ گھر میں کچھ ہے ہی نہیں، جس کے چوری ہونے کا احتمال ہو۔‘‘
مکان کی خستہ حالی ہر طرف سے عیاں تھی۔ دیوار کے ساتھ اکلوتے کمرے کی چھت بھی گری ہوئی تھی۔ بہلول نے پوچھ ہی لیا، ’’چھت بھی گری ہوئی ہے۔ اس کا تو کچھ کر لیں۔‘‘
ایک تبسم اس کے چہرے پر ابھرا۔ وہ بولا،’’ ماں کو چھت کی بھی فکر لاحق رہتی تھی کہ یہ کمزور ہے، کہیں گر ہی نہ جائے، بارش میں ٹپکنے ہی نہ لگ جائے۔ پھر ایک دن چھت گر گئی۔ میں چارپائیاں صحن میں لے آیا۔ تب چھت کا خوف بھی دل سے جاتا رہا۔میں نے اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کیا۔‘‘
درویش کی ہر بات بہلول کے ذہن میں سچ بن کر اتر رہی تھی۔
رات کافی گزر گئی تھی لیکن اس کی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہیں تھا۔ مدھم ہوتے چراغ کی روشنی میں دونوں ہیولوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ شہزادے نے خاموشی کو توڑا اور کہا، ’’حضرت! دنیا داری اور فقر میں فرق کیا ہے؟ کیا دنیا کو چھوڑ دینا فقر ہے؟‘‘
درویش نے مدھم ہوتے چراغ کی لو کو کچھ اور اونچا کیا تو روشنی زیادہ ہو گئی۔ اب اس کا چہرہ واضح نظر آنے لگا تھا۔ وہ بولا، ’’فقر ہی اصل دنیا داری ہے— فقر نام ہے اپنی زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے کا— روٹی، کپڑا اور مکان— جبکہ اپنی ضرورت سے زیادہ جمع کرنے کا نام دنیا داری ہے۔ ہوس ہے۔ لالچ ہے۔ جو چیز آپ کے لیے ضروری نہیں ہے، وہ کسی دوسرے کو دے دیں۔ کسی اور کی ضرورت پوری ہو جائے گی۔ بس اسی کو فقر کہتے ہیں۔‘‘ وہ کچھ دیر زمین پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچتا رہا جیسے کوئی حساب کر رہا ہو، پھر اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری، چند گھونٹ پانی پیا اور بولا، ’’اصل فقر تو میں نے جانوروں سے سیکھا ہے— کیڑے مکوڑے اپنا پیٹ بھرنے کے بعد باقی خوراک دوسروں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ شیر جیسا درندہ بھی اپنی بھوک مٹانےکے بعد باقی ماس دوسروں کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن انسان سب سے ظالم درندہ ہے — اپنا پیٹ بھرنے کے بعد باقی بچ جانے والا مال کسی کیلئے نہیں چھوڑتا بلکہ ذخیرہ کر لیتا ہے— پھر اس ذخیرے پر بھی قناعت نہیں کرتا— دوسروں کے حلق سے نوالے کھینچنے لگتا ہے۔‘‘
باتوں باتوں میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا تھا۔ صبح قریب تھی۔
کہیں دور سے آذان کی صدا سنائی دی۔ دونوں نے وضو کیا، نماز ادا کی اور بہلول اجازت لے کر محل کی طرف روانہ ہو گیا۔
اب بہلول کو محل میں گھٹن محسوس ہوتی تھی— ہر بندہ سہما سہما لگتا تھا— ہر کوئی ایک انجانے خوف کا شکار تھا— کسی چیز کے کھو جانے کا خوف—
ایک دن بادشاہ کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔ اس کی زندگی کے لالے پڑ گئے۔ طبیبوں کو بلایا گیا۔ کچھ دن بعد اس کی طبیعت سنبھل گئی لیکن بادشاہ اب پریشان رہنے لگا تھا۔ ایک دن اس نے ولی عہد کو کچھ نصیحتیں کرنے کے لیے تنہائی میں بلوایا اور کہا، ’’بیٹا! زندگی موت کا کچھ پتہ نہیں۔ مستقبل میں تم نے ہی ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ آج میں تمہیں کچھ باتیں بتانا چاہتا ہوں۔‘‘
بہلول بادشاہ کی بات سن کر رنجیدہ ہو گیا تھا۔ بولا، ’’بادشاہ سلامت! ایسی باتیں نہ کریں۔ اللہ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔‘‘
بادشاہ نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا، ’’بیٹا کارِ بادشاہی میں کسی پر اعتبار نہ کرنا۔ اپنے قریبی دوستوں سے بھی محتاط رہنا۔ ہماری فوج اگرچہ مضبوط ہے لیکن ملک خراسان ہمارے ملک سے کہیں بڑاہے۔ اس کی فوج بھی بڑی ہے۔ ہم اپنی بقا کے لیے ہر سال شاہِ خراسان کو خراج دیتے ہیں۔ ہم یہ خراج کچھ تو عوام پر ٹیکس لگا کر وصول کرتے ہیں اور کچھ اپنے سے کمزور ملکوں سے خراج کی شکل میں وصول کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل تمہیں وزیرِ مالیات بتا دے گا۔‘‘ولی عہد نے کوئی سوال نہیں کیا۔ بس خاموشی سے اثبات میں سر ہلاتا رہا۔
بادشاہ پھر گویا ہوا، ’’ہم عوام سے ٹیکس کی صورت میں جو رقم وصول کرتے ہیں، اس میں امراء اور درباریوں کو بھی حصہ دینا ہوتا ہے۔ اپنی عیاشی بھی کرنی ہوتی ہے۔ محل کے اخراجات بھی پورے کرنے ہوتے ہیں۔ اس لیے عوام کے لیے پیسہ بہت تھوڑا بچتا ہے۔‘‘
ولی عہد نے پہلی دفعہ لب کشائی کی، ’’ابا حضور! اصولی طور پر ہمیں زیادہ پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا چاہیے۔‘‘
بادشاہ بولا، ’’خزانہ اتنی اجازت نہیں دیتا۔ ہاں! غربت کی وجہ سے عوام بغاوت کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے دانشور رکھے ہوئے ہیں جو عوام کو فریب دیتے ہیں، جھوٹی تسلیوں اور دلاسوں پر خوش رکھتے ہیں۔ تم نے ان کا بھی خیال رکھنا ہے۔‘‘
شہزادہ بادشاہ کی باتوں سے اکتا گیا تھا۔ لیکن اس نے اپنی بیزاری کو اپنے چہرے سے عیاں نہیں ہونے دیا تھا۔ اس نے تھکاوٹ کا بہانہ کر کے بادشاہ سے اجازت لی اور اپنے کمرے میں آ گیا۔
محل میں سارے معاملات حسبِ معمول چل رہے تھے۔ کوئی خاص بات نہیں تھی۔
اچانک ایک رات ہر طرف تلواروں کی جھنکار اور شور شرابے کی آوازیں گونج اٹھیں۔ محافظ نے شہزادے کو آ کر بتایا کہ بادشاہ کے خلاف بغاوت ہو گئی ہے۔
شہزادہ ساری رات پریشان رہا۔ صبح اس پر صورتِ حال واضح ہو گئی۔ اسے پتا چلا کہ امیر الامراء نے بغاوت کی تھی جسے بادشاہ کی فوج نے ناکام بنا دیا تھا۔
پھر دن چڑھے ولی عہد کی آنکھوں کے سامنے پکڑے گئے باغیوں کے سر قلم کیے گئے۔ ہر طرف خون ہی خون پھیلا ہوا تھا۔ اس واقعہ کے بعد بہلول زیادہ پریشان رہنے لگا تھا۔ اس کا محل میں دم گھٹنے لگتا تو وہ کھلی فضا میں، جنگل میں، باغ میں نکل کھڑا ہوتا تھا۔
خوف سے اس کی راتوں کی نیند بالکل اڑ چکی تھی۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ ایک دن وہ بادشاہ کے سامنے پیش ہوا اور کہا، ’’ابا حضور! میں ولی عہدی سے دستبردار ہونا چاہتا ہوں۔ میں اس گھٹن ، نفرت اور خون سے لتھڑے ہوئے ماحول میں زندگی نہیں گزار سکتا۔‘‘
بادشاہ نے اس کی بات توجہ سے سنی۔ اسے حیرانی نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ ارد گرد سے شہزادے کے متعلق سن گن لیتا رہتا تھا۔اسے معلوم تھا کہ شہزادہ درویشی کی طرف مائل ہے۔ اسے درویش سے اس کی ملاقاتوں کا علم تھا۔ اتمامِ حجت کے طور پر اس نے شہزادے کو سمجھانے، دنیا کی اونچ نیچ سے آشنا کرنے اور راہِ راست پر لانے کی کوشش کی، ’’بیٹے! تمام دنیا ہی ہمارے محل جیسی ہے۔ کہیں کم تو کہیں زیادہ، قتل و غارت ہوتی رہتی ہے۔ میں اقتدار بچانے کے لیے، امراء اقتدار لینے کے لیے، غریب روٹی کے لیے اور امیر دولت کے لیے خون بہاتے رہتے ہیں۔‘‘
ولی عہد افسردگی سے بولا، ’’ابا حضور! میری راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ دل اذیت کے احساس سے بھر چکا ہے۔ مجھے اس اذیت سے نجات چاہیے۔ اس ہوس بھری دنیا سے فقر کی مختصر سی دنیا بہت بہتر ہے۔ وہاں سکون ہی سکون ہے۔‘‘
بادشاہ نے ایک طویل سانس حلق میں اُتاری، آنکھوں میں آنے والے آنسوئوں کو بمشکل روکا، اور بیٹے کو جانے کی اجازت دے دی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کا بیٹا محل سے نکل کر درویش کی جھونپڑی کا رخ کرے گا۔