صالح آباد کا پرانا نام اکثر لوگ بھول چکے تھے۔ اب یہ شہر صالح آباد، یعنی نیک اور صالح لوگوں کے رہنے کی جگہ کہلاتا تھا۔ حاکمِ شہر کی شہرت بھی ایک صالح اور نیک آدمی کی تھی۔ حاکمِ شہر بننے کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ صالح، نیک اور دیانت دار شخص ہو۔ شہر میں ایک مفتی کی سربراہی میں سزا و جزا کا محکمہ قائم تھا جو گناہوں کی روک تھام کیلئے کام کیا کرتا تھا۔
گناہ اور ثواب کا فلسفہ بھی عجیب ہے۔ ہر ایک کا وجود دوسرے کے لیے لازم ہے۔ گناہ کی غیر موجودگی میں ثواب کے فلسفے کو نہ تو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
گناہ و ثواب کا ایک فلسفہ مفتی صاحب بیان کرتے تھے جبکہ دوسرا فلسفہ نجم الدین پیش کیا کرتا تھا۔
نجم الدین اس شہر کا سب سے پرانا بلکہ اکلوتا مے خوار تھا۔ اسے محکمہ سزا و جزا نے بہت سزائیں دیں، کوڑے مارے، نظر بند کیا، پابندِ سلاسل رکھا، تضحیک کی، تماشا بنایا مگر وہ مے کشی سے باز نہ آیا۔ مفتی نے اس پر کئی بار فتوے لگائے لیکن اس کے پایہءِ استقلال میں رتی بھر جنبش بھی نہ آئی۔
بظاہر وہ صالح آباد کا واحد بادہ خوار تھا جو سزائوں کے بعد بھی بچا ہوا تھا، لیکن اور بھی بہت سے بادہ کش تھے جو رات کے اندھیرے میں اس کے پاس آیا کرتے تھے۔ خاص طور پر اماوس کی چاند راتوں میں جب گھپ اندھیرے کا راج ہوتا— شہر کے محافظ سو چکے ہوتے اور کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا تھا، سب مے کش نجم الدین کے پاس مجتمع ہوا کرتے تھے۔
نجم الدین بہت نرم دل انسان تھا۔ وہ کسی کو مایوس نہیں کرتا تھا۔ ہر آنے والے مہمان کی خاطر داری کرتا تھا۔ وہ ان چند گھونٹ کو ترسے ہوئے مے کشوں کا حوصلہ بڑھاتا تھا، ’’اگر شوقِ گناہ ہے تو گناہ کا بوجھ اٹھانے کی ہمت بھی دل میں پیدا کرو۔‘‘
نجم الدین کے بے ضابطہ مے کدے کا سب سے پرانا ساتھی کامل بھی اکثر رات کے اندھیرے میں اپنی پیاس بجھانے آ یا کرتا تھا— کامل کافی عرصہ چھپ چھپا کر پیتا رہا لیکن ایک دن وہ پکڑا گیا اور چند کوڑے بھی نہ سہہ سکا۔ اس نے فوراً مے نوشی سے توبہ کرتے ہوئے تائب ہونے کا اعلان کر دیا۔ خوف نے اسے کچھ عرصہ کے لیے مے کشی سے روکے رکھا— کوڑوں نے اسے شراب پینے سے دور رکھا لیکن اس کے جسم سے لطف و سرور نہ نکال سکے— پھر اسی لطف و سرور کی تلاش اسے دوبارہ نجم الدین کے پاس لے آئی تھی۔ وہ اکثر رات کو جنگل والے ٹھکانے پر آتا اور اپنی پیاس بجھا کر واپس چلا جاتا تھا۔
ایک رات کامل آیا تو بہت اداس اور خاموش تھا۔ اس نے معمول سے کچھ زیادہ ہی پی لی تھی— چاندنی رات تھی— ہر سو خاموشی طاری تھی۔
نجم الدین نے پوچھا، ’’کامل! کیا بات ہے؟ آج پریشان لگ رہے ہو۔ گھر میں کوئی مسئلہ ہے کیا؟‘‘
کامل نے شراب کے چند گھونٹ حلق سے اُتارے اور کہا، ’’میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر شراب پینے آ تو جاتا ہوں لیکن مے کشی کے بعد مجھے بہت ندامت محسوس ہوتی ہے۔ جب تک لطف و سرور ذہن پر چھایا رہتا ہے، گناہ کا احساس نہیں ہوتا مگر جب بدن ٹوٹنے لگتا ہے تو احساسِ گناہ بہت بڑھ جاتا ہے۔‘‘
بات کرتے ہوئے اسے ہچکی لگ گئی، چند آنسو اس کی آنکھوں سے نکلے اور نرم مٹی میں جذب ہو گئے—
نجم الدین نے اسے تسلی دی، اس کے آنسو پونچھے اور جام بھر دیا۔ وہ غٹا غٹ سارا جام خالی کر گیا۔
نجم الدین مسکرایا، ’’ابھی تمہاری ندامت ختم ہو گئی ہو گی— نشہ جب تک پورا نہ ہو، ندامت کا احساس باقی رہتا ہے۔‘‘
کامل دوسرا جام چڑھانے کے بعد کچھ مطمئن سا دکھائی دینے لگا تھا۔ بولا، ’’نجم الدین! تم اتنی مے نوشی کرتے ہو۔ اتنا گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہو لیکن پھر بھی میں نے ہمیشہ تمہارے چہرے پر سکون اور خوشی دیکھی ہے۔ تمہارے چہرے پر کبھی ندامت کا عکس نہیں دیکھا۔‘‘
یہ سن کر نجم الدین کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہو گئی۔ ہاتھ لہرا کر بولا، ’’میں یہ نہیں کہتا کہ میں گناہ گار نہیں ہوں۔ نہ میں یہ کہتا ہوں کہ شراب پینا گناہ نہیں ہے۔ لیکن میں پھر بھی مطمئن ہوں کہ میرے اس گناہ سے تکلیف صرف میرے جسم کو ہوتی ہے۔ میرا جسم گھلتا ہے۔ میرا یہ گناہ کسی اور کو تکلیف دینے کا سبب نہیں بنتا۔‘‘
کچھ دیر خاموشی چھا گئی۔ گہری خاموشی— جنگل مکمل پرسکون ہو گیا تھا۔
کامل نے اس گہری خاموشی کا طلسم توڑا، ’’مجھے تمہارے اس گناہ و ثواب کے فلسفے کی سمجھ نہیں آئی۔‘‘
نجم الدین نے جواب دیا، ’’ہاں! میں کسی کا خون نہیں پیتا— کسی کا حق نہیں کھاتا — کسی کی محنت پر قبضہ نہیں جماتا— کسی کا دل نہیں دکھاتا اور نہ ہی کسی کو اپنے ہاتھ، زبان اور عمل سے تکلیف پہنچاتا ہوں۔ ہاں! میں اپنا جسم ضرور جلاتا ہوں، کسی کا گھر نہیں جلاتا۔‘‘
نجم الدین نے ایک جام اپنے لیے بھرا اور ایک اسے بھر دیا۔ ہلکی ہلکی ہوا چلنے لگی تھی — درختوں کی سرسراہٹ سے پیدا ہونے والی موسیقی نے ماحول میں کیف و سرور بھر دیا تھا۔ چاروں طرف پھیلی ہوئی ہلکی ہلکی چاندنی کے نور نے ماحول کو خواب ناک بنا دیا تھا۔
کامل نے اس بارے میں پھر کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ لگتا تھا کہ وہ نجم الدین کے فلسفے سے مطمئن ہو گیا تھا۔
کامل نے ادھر اُدھر دیکھا۔ گویا یہ تسلی کرنا چاہتا ہو کہ کوئی ان کو پیتے پلاتے ہوئے دیکھ تونہیں رہا۔ پھر بولا، ’’میں تمہاری طرف آتے ہوئے شہر کے محافظوں سے بہت ڈرتا ہوں۔ ایک دفعہ انہوں نے روک کر پوچھا بھی تھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ میں نے تمہارا نام لیا تو وہ مسکرا کر خاموش ہو گئے اور مجھے جانے دیا۔‘‘
جنگل کے اس حصے میں جہاں دونوں بیٹھے ہوئے تھے، مکمل خاموشی تھی ۔زیادہ تر جانور جنگل کے گھنے حصے میں رات کا یہ پہر گزارتے تھے۔ کبھی کوئی ہرن کلانچیں بھرتا ہوا نزدیک سے گزرتا تو خشک پتوں کی چرچراہٹ فضا میں عجیب سا تاثر پیدا کر دیتی تھی۔
کامل نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا، ’’مجھے تو ان محافظوں سے بہت ڈر لگتا ہے— آج کل محکمہ سزا و جزا بھی بہت سختی کر رہا ہے— دو دن پہلے نماز نہ پڑھنے پرایک شخص کو کوڑوں کی سزا دی گئی ہے۔‘‘
نجم الدین نے ایک گہری سانس لی اور کہا، ’’میں تو بے خوف ہو گیا ہوں۔ مجھے سزا دینے والے اب خود تھک گئے ہیں۔ اور ہاں! ان محافظوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب میرے دوست ہیں۔‘‘
اس نے تجسس سے پوچھا، ’’ہائیں؟ کیا سچ کہہ رہے ہو؟ یہ تمہارے دوست کیسے بنے؟‘‘
نجم الدین نے کہا، ’’ان کی آنکھوں میں بھی خواہشیں سر ابھارتی رہتی ہیں۔ سرور کی طلب جاگتی رہتی ہے۔ میں نے ان کی آنکھیں پڑھ لیں۔ مجھے گزرتے دیکھ کر ان کے لبوں پر ایک خاموش سی التجا ابھر آتی تھی۔ میں نے انہیں جام کی پیشکش کی۔ وہ سزا سے ڈرتے تھے۔ اس لیے ہچکچانے لگے۔ پھر دو محافظوں نے ہمت کی اور میرے یار بن گئے، یعنی مے کش بن گئے۔ سرور کی خواہش سزا پر غالب آ گئی تھی۔ بس پھر کیا تھا، ان دونوں کی دیکھا دیکھی اور محافظ بھی میرے یار بنتے گئے۔ پینے لگے۔ جینے لگے۔ قافلے اسی طرح بنا کرتے ہیں۔ بغاوت تو اسی طرح ہوا کرتی ہے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔‘‘
وہ دونوں تین تین جام لڑھکا چکے تھے لیکن طلب ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ جنگل، تنہائی، دور تک پھیلا ہوا آسماں — اس پر بکھری ہوئی چاند کی روشنی نے سرور کو دوبالا کر دیا تھا۔ دونوں کی محویت دور کہیں سے آتے قدموں کی چاپ سے ٹوٹ گئی۔
قدموں کی چاپ میں ایک ترتیب تھی۔ ٹھہرائو تھا۔ چاند کی روشنی میں دور ہی سے دو محافظ آتے ہوئے نظر آئے۔ انہیں آتا دیکھ کر نجم الدین دو جام بھرنے لگا اور بولا، ’’دیکھو! میرے دونوں ساتھی ادھر آ نکلے ہیں۔‘‘
محافظ کامل کو دیکھ کر ٹھٹکے لیکن نجم الدین نے آنکھ کے اشارے سے انہیں بتا دیا کہ یہ اپنا ہی بندہ ہے۔ مے خوار ہے۔ پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
دونوں محافظ غٹا غٹ جام چڑھا گئے۔ لگتا تھا کئی دنوں کے پیاسے تھے۔
نجم الدین نے ایک محافظ سے پوچھا، ’’کافی دنوں سے میں شہر میں نہیں گیا۔ سنائو! آج کل کیا حالات ہیں شہر کے؟‘‘
محافظ بولا، ’’میرا ایک دوست ابھی محکمہ سزا و جزا میں ڈیوٹی کر کے آیا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ آج کل بہت زیادہ سختی ہے۔ شہر میں سخت خوف کی فضا طاری ہے۔‘‘
نجم الدین نے حیرانی سے دریافت کیا، ’’وہ کیوں؟‘‘
محافظ نے کہا، ’’کچھ دن پہلے میرے پڑوسی سلامت درزی کا بیٹا ایک لڑکی کے ساتھ باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ محکمہ سزا و جزا نے انہیں پکڑ لیا، کوڑے مارے اور دونوں کو قید خانے میں بند کر دیا۔دونوں ابھی تک پابندِ سلاسل ہیں— کل ہی شرقی دروازے کے قریب ایک شخص کو نماز نہ پڑھنے کے جرم میں کوڑوں کی سزا دی گئی ہے۔‘‘
نجم الدین اور کامل یہ باتیں سن کر خوف زدہ ہو گئے۔ نجم الدین نے ایک جام اپنے اور کامل کے لیے تیار کیا، ایک ایک جام محافظوں کو تھمایا۔ چند گھونٹ بھرنے کے بعد نجم الدین اور کامل کا خوف کچھ کم ہوا۔ وہ پرسکون ہو گئے۔
محافظ نے گھونٹ حلق سے اُتارا، ’’تمہارا دوست ناصر— وہ لمبے قد والا — وہ بھی کئی دنوں سے قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہا ہے۔‘‘
نجم الدین پریشانی سے بولا، ’’وہ کیوں؟‘‘
محافظ بولا، ’’نہ ماننے کے جرم میں۔‘‘
نجم الدین چونکا، ’’میں کچھ سمجھا نہیں۔‘‘
محافظ نے بتایا، ’’مفتی صاحب خطبہ دے رہے تھےکہ یہ غربت اور امارت خدا کی تقسیم ہے۔ خدا کی مرضی ہے کہ وہ کسی کو بہت زیادہ مال و دولت سے نواز دےاور کسی کو دو نوالوں کا محتاج کر دے۔ یہ سنتے ہی ناصر کھڑا ہو گیا اوربولا کہ مفتی صاحب! آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ یہ غربت اور امارت خدا کی نہیں، بلکہ انسان کی پیدا کردہ ہے۔ یہ سننا تھا کہ مفتی صاحب بپھر گئے اور اسے پکڑوا کر قید خانے میں ڈال دیا۔‘‘
نجم الدین کو ناصر کے بارے جان کر بہت افسوس ہوا۔ دونوں بچپن کے دوست تھے — محکمہ سزا و جزا بننے سے پہلے اکٹھے مے خانے جایا کرتے تھے۔ بعد میں وہ توبہ تائب ہو گیا تھا۔ باقاعدگی سے مسجد جاکر نماز پڑھنے لگا تھا۔ آج اسے صرف مفتی کا بیان کردہ فلسفہ نہ ماننے پر قید کی سزا دے دی گئی تھی۔
باتوں اور مے کشی کے سرور میں انہیں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا تھا۔ احساس ہی نہ ہوا کہ کب مہیب رات گزر گئی اور سورج کی زرد روپہلی کرنیں زمین کا ماتھا چومنے آ گئیں۔ جنگل میں کرنوں کا استقبال کیا جانے لگا تھا۔
پرندوں کے غول رزق کی تلاش میں نکل رہے تھے۔ سورج کی کرنوں نے جنگل کی پراسراریت کا طلسم ختم کر دیا تھا۔
سورج کی روپہلی کرنیں اور صبح کا اجالا— جس پر شاعروں نے نظمیں کہی تھیں، جسے ظلم کے خاتمے کا استعارہ قرار دیا تھا، نے کامل کو پریشان کر دیا تھا۔
اسے وہ سیاہ رات قبول تھی جس میں دوستوں کا ساتھ قائم تھا۔ جدائی نہیں تھی— خوف نہیں تھا— سرور ہی سرور تھا— کیف تھا—
اس کی محویت اس وقت ٹوٹی جب ایک ہرن کلانچیں بھرتا ہوا اس کے سامنے سے گزرا اور جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ ہرن کو دیکھ کر اس نے ایک سرد آہ بھری اور کہا، ’’ہم سے تو یہ ہرن اچھا ہے جس کے لیے نہ کوئی محکمہ سزا و جزا ہے، نہ کوئی محافظ اور نہ بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدوری پر نکلنا پڑتا ہے۔‘‘
کامل نے دوستوں سے رخصت لی اور بوجھل قدموں سے شہر کو چل پڑا۔ اس نے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے دھندے پر جانا تھا۔
کہنے کی حد تک محکمہ سزا و جزا کے قیام کے بعد گناہوں میں کافی کمی واقع ہو گئی تھی۔ شراب پینے، نماز نہ پڑھنے، روزہ نہ رکھنے، فحاشی اور بے حیائی پر سخت سزائیں مقرر تھیں۔ نماز کے وقت اگر کسی تاجر کی دکان کھلی ہوتی تو اس کا مال ضبط کر لیا جاتا تھا۔ روزہ نہ رکھنے پر ایک مہینہ قید کی سزا تھی لیکن پھر بھی دیواروں کے پیچھے گناہ کا کھیل چوری چھپے جاری تھا۔
امیرِ شہر، درباری، سرکاری حکام اور بڑے تاجروں کی ایک الگ دنیا قائم تھی جو غریبوں سے جدا تھی۔ جس طرح ان کا رہن سہن، کھانا پینا اور رہائشیں غریبوں سے جدا تھیں، اس طرح ان کا سزا و جزا کا نظریہ بھی غریبوں سے مختلف تھا— یہ لوگوں کے سامنے نماز پڑھا کرتے ، روزے رکھتے اور اچھی اچھی باتیں کرتے تھے لیکن شام ڈھلتے ہی دیواروں کے عقب میں اپنی دنیا سجا لیتے تھے جو گناہوں سے اٹی ہوئی تھی۔
رات ہوتے ہی محلات میں حسینائوں کی آمد شروع ہو جایا کرتی تھی۔ حسینائیں مکمل اور باپردہ لباس میں آیا کرتی تھیں تاکہ راستے میں ان پر کسی غریب کی گناہ آلود نظر نہ پڑے۔ لوگ ان کی آمد و رفت کے کھیل کو بخوبی جانتے تھے، لیکن خوف سے بڑوں کا نام نہیں لیتے تھے۔ اگر کوئی غلطی سے اس پر آواز بلند کرتا تو اسے کسی نہ کسی حیلے اگلے دن سزا بھگتنا پڑتی تھی۔ سرکار کے درباری اکثر حسینائوں کی آمد کی توجیہہ پیش کیا کرتے تھے ،’’یہ بے چاری عورتیں سائل ہیں جو اکثر رات کے اندھیرے میں اس لیے محلات میں آتی ہیں کہ دن میں کوئی ان کی مجبوری نہ دیکھ سکے۔‘‘
ہر کوئی جانتا تھا کہ یہ جھوٹ ہے مگرکسی میں یہ دم نہ تھا کہ وہ اس جھوٹ کو ماننے سے انکار کرتا یا اس سرکاری بیان سے اختلاف کرتا۔
رات کا اندھیرا چھاتے ہی جب سرکاری محافظ بو سونگھ رہے ہوتے تھے کہ شہر میں کوئی محرم اور نامحرم کہیں اکٹھے تو نہیں بیٹھے ہوئے، اس وقت محلات میں شراب و شباب کی محفلیں عروج پر ہوتی تھیں۔
کچھ سرپھرے لوگ اس بات کی شکایت لے کر مفتیءِ شہر کے پاس گئے تو اس نے جواب دیا، ’’کارِ حکومت کوئی آسان کام نہیں ہے۔ منشیوں اور درباریوں کو ہمیشہ شراب و شباب کی ضرورت رہتی ہے۔‘‘
کچھ لوگوں نے کہا، ’’حضور! محنت اور مشقت تو غریب بھی کیا کرتے ہیں۔ پھر ان کے لیے بھی یہ چیزیں بہت ضروری ہیں۔‘‘
مفتی نے مسکرا کر کہا، ’’غریب ذہنی سے زیادہ جسمانی کام کرتا ہے۔ وہ تھک ہار کر گھر جاتا ہے۔ اسے اس کام سے زیادہ نیند اور آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
حاکم سے کون بحث کر سکتا ہے؟ —
طاقت ہی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے جسے صالح آباد کے غریب باسیوں نے مان رکھا تھا۔
شہر میں شاید ملاوٹ کو سرے سے گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ لوگ ملاوٹ والی چیزیں کھانے پر مجبور تھے۔ کبھی کبھی چھوٹے دکانداروں کو ملاوٹ پر سزائیں ملتی تھیں لیکن بڑے دکاندار ان سزائوں اور پوچھ تاچھ سے مبرا تھے۔ واقفانِ حال کے مطابق کچھ بڑے تاجر جو چھوٹے دکانداروں کو مال سپلائی کرتے تھے— وہ سر تا پا ملاوٹ میں ملوث تھے— وہ ملاوٹ شدہ مال دکانداروں کے ہاتھ بیچ کر زیادہ منافع کما لیتے تھے۔
بڑے تاجر امیرِ شہر اور درباریوں کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے— ان کو بہت بڑی بڑی رقم ٹیکس اور تحفوں کی صورت میں پیش کیا کرتے تھے۔ اس لیے وہ ہر قسم کی سزا سے محفوظ تھے۔ یہ بڑے تاجر ناپ تول کی کمی میں بھی ملوث تھے لیکن ان کو پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔
شہر میں بظاہر امن قائم تھا۔ کبھی کبھی چند لوگ نامعلوم افرادکے ہاتھوں قتل ہوجاتے تھے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو امیرِ شہر کی دوغلی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔
شہر میں سارے لوگ ہی صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے نظر آتے تھے۔ اکثر قرآن خوانی اور میلاد کی محفلیں بھی منعقد ہوتی رہتی تھیں— خدا کے نام پر خیرات اور لنگر کی تقسیم بھی بڑے اہتمام کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ ۔۔
شہر میں چونکہ اب آواز اٹھانے والا کوئی نہیں بچا تھا، اس لیے امن ہی امن تھا۔ نجم الدین اور کامل کے علاوہ کوئی بھی گناہ گار صالح آباد میں نہیں رہا تھا۔ دو دن قبل لنگر کی تقسیم کے دوران نجم الدین اور کامل کوتوالِ شہر کے ہاتھوں کوڑوں کی سزا بھگت چکے تھے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے لنگر کھاتے ہوئے کوتوال سے کہا تھا، ’’ہم سے لوٹے گئے پیسوں میں سے تھوڑا بہت پیسہ لگا کر لنگر بانٹ دیا جاتا ہے اور ہم پر اپنی سخاوت اور احسان کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی کوتوال آپے سے باہر ہو گیا اور اس نے ان دونوں پر کوڑوں کی بارش کر دی، ’’حرام خورو! ہمارا کھاتے ہو اور ہم پر ہی بھونکتے ہو؟‘‘
قدرت بھی ایک حد تک ناانصافی برداشت کرتی ہے۔ جب ظلم مظلوموں کی استطاعت سے بڑھ جائے تو پھر قدرت کا نظامِ انصاف ازخود حرکت میں آ جاتا ہے۔ ماضی میں ظلم اور ناانصافی پر اللہ کے غضب نے شہروں کے شہر تباہ و برباد کر دیے تھے لیکن اس شہر پر اچانک عجیب سی آفت نازل کر دی گئی۔ عذاب صرف ظالموں پر نازل ہو رہا تھا۔ الامان و الحفیظ!
شہر پر ایسا عذاب نازل ہوا تھاجو آج تک روئے زمین پر کسی نے نازل ہوتے نہیں دیکھا ہو گا— صالح آباد شہر میں گناہوں کی واپسی اچانک شروع ہو گئی تھی۔ شہر کے اکثر گھروں سے رونے اور چیخ و پکار کی آوازیں برآمد ہونے لگی تھیں۔ بستی کے کچھ مکین روز ہی سڑکوں پر واویلا کرتے اور اِدھر اُدھر بھاگتے ہوئے دکھائی دیتے تھے— شہر والے اس مصیبت سے نجات کے لیے ایک بزرگ عامل کو یہاں لے آئے تھے۔
عامل نے تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد بتایا، ’’شہر والوں نے جو گناہ کیے ہیں، وہ واپس آ کر ان کو اذیت دے رہے ہیں۔‘‘
یہ بات سن کر سب شہر والوں کے چہرے خوف سے زرد ہو گئے کیونکہ ہر کسی نے کوئی نہ کوئی جرم سرزد کر رکھا تھا۔ وہ جانے انجانے میں کئی چھوٹے بڑے گناہوں کے مرتکب ہوئے تھے۔
ایک شہری نے عامل سے دریافت کیا، ’’محترم! اس مصیبت سے بچائو کا کوئی طریقہ بھی ہوگا۔ کوئی حل ہو گا اس عذاب کو پلٹانے کا؟‘‘
عامل بولا، ’’بس خدا سے توبہ کرو۔ خیرات، صدقہ اور عبادات میں اضافہ کرو۔‘‘
امیرِ شہر کے حکم سے مخیر حضرات نے غریبوں کے لیے لنگر خانے قائم کر دیےتھے— گناہوں کی واپسی سے کم از کم غریبوں کو یہ فائدہ تو ضرور ہوا تھا کہ وہ پیٹ بھر کر اچھا کھانا کھانے لگے تھے— غریب جو بڑی مشکل سے روکھی سوکھی کھا کر پیٹ بھرتے تھے، وہ اب اچھی سے اچھی ضیافتیں اڑا رہے تھے۔
لوگوں نے عبادات میں بھی اضافہ کر دیا تھا— عذاب سے نجات کے لیے خصوصی نوافل ادا کیے جا رہے تھے— ہر نماز کے بعد خصوصی دعائیں بھی مانگی جا رہی تھیں۔
اس عذاب سے شہر میں ہر بندہ خوفزدہ تھا۔ ہر کسی کو دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ان کا گناہ کسی بھی وقت واپس آ سکتا ہے— کسی کو خوف تھا کہ اس نے جو نمازیں قضا کی ہیں، وہ عذاب کی صورت میں واپس آئیں گی— کسی کو روزہ نہ رکھنے کا گناہ مضطرب کر رہا تھا— کچھ پرانے مے کش اپنے گناہوں کی واپسی سے ڈرے ہوئے تھے۔
اگر شہر میں کوئی بندہ پرسکون تھا تو وہ نجم الدین تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی اس کا مے کش ساتھی کامل بھی بے خوف پھر رہا تھا۔ اب تو دونوں نے کھلے عام شراب پینی شروع کر دی تھی ۔ اب انہیں سزا دینے والے سرکاری حکام اپنے گناہوں کی واپسی میں پھنسے ہوئے تھے۔ ایسے لگتا تھا اب شہر پر کوئی حاکم ہی نہیں رہا— بس ایک انجانے خوف کی ہر سو حکومت قائم تھی۔
نجم الدین کی بے فکری اور سرِ عام شراب نوشی کو دیکھ کر اکثر لوگ بڑبڑاتے تھے، ’’اس جیسا ڈھیٹ گناہ گار ہم نے زندگی میں کہیں نہیں دیکھا۔ اسے اپنے گناہوں کی واپسی کا کوئی خوف نہیں؟ خدا جانے اس کے گناہوں کی واپسی کب ہوگی؟‘‘
گناہوں کی واپسی کا عمل آہستہ آہستہ تیز ہوتا جا رہا تھا۔ امرا، درباریوں اور تاجروں کے گھروں سے صبح و شام چیخ و پکار کی اذیت ناک اور ڈرائونی آوازیں برآمد ہونے کا سلسلہ تیز تر ہوتا جا رہا تھا۔ زیادہ تر گناہوں کی واپسی کا عمل شام کو ہوتا تھا یا صبح کو۔ ان دونوں اوقات میں کھیلے جانے والے قدرت کے کھیل نے صالح آباد کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی تھی۔
جن لوگوں پر گناہوں کی واپسی کا عمل ابھی شروع نہیں ہوا تھا، وہ بھی سخت خوف زدہ تھے لیکن نجم الدین اور کامل کی پرسکون نشست و برخاست دیکھ کر انہیں کچھ حوصلہ ملتا تھا۔ وہ اپنی قسمت کا حال جاننے کے لیے خاصے بے چین اور مضطرب تھے۔ شہر کے چند لوگوں نے نجم الدین اور کامل کو ساتھ لیا اور دوسرے شہر میں مقیم اسی عامل کے پاس جا پہنچے جسے پہلے صالح آباد بلایا گیا تھا۔
عامل نے لوگوں کی پوری بات بڑی توجہ اور انہماک سے سنی۔ پھر بولا، ’’ابھی تک گناہوں کی واپسی صرف ان لوگوں پر ہوئی ہے جنہوں نے دوسروں پر ظلم کیے ہیں— جہاں تک نماز نہ پڑھنے، روزہ چھوڑنے اور شراب پینے والوں کے گناہوں کا تعلق ہے توایسے لوگ ابھی تک محفوظ ہیں۔ ان کے گناہوں سے کسی دوسرے انسان کا کوئی واسطہ یاتعلق نہیں ہے۔ ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے — ایسے گناہوں کی واپسی کی کوئی امید نہیں لگتی۔‘‘
ایک نوجوان نے عامل سے پوچھا، ’’حضور! میرے ایک لڑکی کے ساتھ تعلقات رہے ہیں۔ میرے گناہ کی واپسی کس شکل میں ہو سکتی ہے؟‘‘
بزرگ نے جواب دیا، ’’اگر تم نے لڑکی کے ساتھ زبردستی اور ظلم نہیں کیا، تو تمہارا گناہ واپس نہیں آئے گا۔ لیکن اللہ تمہیں اس گناہ کی سزا ضرور دے گا۔ اللہ سے توبہ و استغفار کیا کرو۔‘‘
گناہوں کی واپسی کا عمل تیز ہوتا جا رہا تھا۔ پہلے گناہوں کی واپسی گھروں کے اندر تھی— اب سرِ بازار شروع ہو گئی تھی۔ غلام رسول کو جو شہر کا سب سے بڑا تاجر تھا، روز شام کو کوئی شخص آگ لگا کر بھاگ جاتا تھا— وہ چیختا ہوا سڑکوں پر دوڑتا اور لوگ پانی سے اس کی آگ بجھاتے۔
یہ عمل مسلسل کئی دنوں سے روز سرانجام پا رہا تھا۔ آگ لگانے والا شخص کوئی بھوت یا آسیب معلوم ہوتا تھا— اسے کوشش کے باوجود صالح آباد والے نہ تو پکڑ پائے اور نہ ہی اس کا چہرہ دیکھ سکے تھے۔ وہ چھلاوے کی طرح آتا اور کسی کی گرفت میں آئے بغیر نظروں سے اوجھل ہو جاتا تھا۔ ایک دو جوانوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ ہاتھوں کے بیچ سے سائے کی طرح تحلیل ہو کر نکل گیا—
غلام رسول شام ہونے سے قبل ہی خوف سے زرد پڑ جایا کرتا تھا— اس کا پورا بدن خوف سے کانپنے لگتا تھا— ایک دن اس نے لوگوں کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے دولت کے لالچ میں ایک یتیم لڑکے کو آگ لگا کر جلا دیا تھا۔ خاک کر دیا تھا۔ آج اسی گناہ کی اذیت بھگت رہا ہوں۔‘‘
غلام رسول کی سزا ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ مفتیءِ شہر بھی عذاب کا شکار ہو گیا۔
اتنے پارسا شخص کی پکڑ دیکھ کر شہر کے لوگ اور زیادہ خوف زدہ ہو گئے تھے— ہر کوئی یہ سوچنے لگا تھا کہ اگر مفتیءِ شہر پر عذاب اُتر سکتا ہے تو پھر وہ کس شمار میں ہے؟— ہر کوئی اب اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔
مفتیءِ شہر پر عجیب و غریب عذاب آیا تھا۔ روز شام کو ایک شخص آ کرپہلے اُسے باندھتا پھر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بیٹی کی عزت کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دیتا تھا۔ وہ بے بسی سے بندھا ہوا یہ دل فگار تماشا دیکھتا رہتا اور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہتا تھا۔ وہ اس شرمناک منظر کو نہیں دیکھنا چاہتا تھا—آنکھیں بند کر لینا چاہتا تھا مگر بسیار کوشش کے وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا تھا۔
بیٹی کی چیخیں سن کر اس کا دل ڈوب جاتا تھا۔ وہ لوگوں کو مدد کیلئے پکارتا مگر آنے والا انسان ہوتا تو پکڑا جاتا— وہ کسی کے قابو میں نہیں آتا تھا۔ اب تو لوگ اس سے ڈر کر دور ہی کھڑے رہتے تھے— نزدیک نہیں آتے تھے۔ آنے والا پوری طاقت کے ساتھ سب کے سامنے آتا اور مفتیءِ شہر کی عزت کی سرِ عام دھجیاں اڑا کر واپس چلا جاتا تھا۔
مفتیءِ شہر نے بھی ایک دن لوگوں کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا، ’’میں نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھایا— اپنی پارسائی کی آڑ میں غریب اور بے بس لڑکیوں کی عزتیں لوٹتا رہا— واقعی میں اسی سزا کا مستحق ہوں—‘‘
مفتیءِ شہر کے بعد درباریوں، امرا اور امیرِشہر کی باری آ گئی۔ ان کی بیٹیوں کی عزتیں بھی سرِ عام لوٹی جانے لگیں ۔ وہ بے بسی سے اپنی بربادی کا تماشا دیکھنے کے علاوہ کچھ نہ کر پائے— ان طاقت ور لوگوں کی بے بسی اور ذلالت غریب لوگوں نے پہلی مرتبہ دیکھی تھی۔
کوتوالِ شہر جو بہت ظالم، رشوت خور اور طاقت ور مشہور تھا، اس کے ساتھ تو معاملہ عجیب نوعیت اختیار کر گیا تھا۔ جب بھی وہ بازار نکلتا، کچھ خریدنے لگتاتو پیسے خود بخود اس کی جیب سے نکل جاتے اور اس کے پکڑتے پکڑتے ہوا میں تحلیل ہو جاتے تھے۔ اسے ناچار خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا تھا۔ مجبور لوگوں کی جیبیں خالی کرنے والے کی اپنی جیبیں خالی ہو گئی تھیں— پھر ایک دن وہ بازار میں چھوٹا سا خوانچہ لگا کر بیٹھنے پر مجبور ہو گیا—
اب عذاب ملاوٹ کرے والے بڑے تاجروں تک بھی پہنچ گیا چکا تھا۔ وہ بازار سے جو بھی چیز لے کر پکاتے یا کھانے کی کوشش کرتے تو وہ اس قدر کڑوی اور بدبو دار ہو جاتی کہ کھانے کے لائق ہی نہیں رہتی تھی— وہ بکرے کا گوشت لاتے تو اس میں سے تعفن اٹھنے لگتا۔ ان کی زندگی دیکھتے ہی دیکھتے اجیرن ہو گئی تھی۔ بڑی مشکل سے انہیں پانی اور دو چار کچی سبزیاں کھانے کو نصیب ہو رہی تھیں۔ بے چارے تاجر اور ان کے گھروں والے سوکھ کر کانٹا ہو چکے تھے۔ شہر والوں نے دیکھا کہ بڑی بڑی توندوں والے اس قدر کمزور ہو گئے کہ ان سے ٹھیک طرح چلا بھی نہیں جاتا تھا۔
تمام تر کوششوں کے باوجود عذاب ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا بلکہ گناہوں کی واپسی کا عمل دن بدن تیز تر ہوتا جا رہا تھا۔ عوام سے جھوٹ بولنے والے اور انہیں بے وقوف بنانے والے دانش وروں کے منہ بھی کالے ہونے لگے — وہ چادروں میں منہ چھپا کر گھروں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے۔
پھر ایک دن امیرِ شہر اور درباری ایک مشکل میں پھنس گئے— روز کچھ آدمی آتے اور ان کے سر قلم کر دیتے۔ کچھ دیر تڑپنے اور چیخنے چلانے کے بعد وہ سر دوبارہ اپنی جگہ آ جاتے اور وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں کامیاب ہو جاتے— پھر وہ چیخ چیخ کر اپنے خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے تھے، ’’اے خدا! ہم نے بہت زیادہ بے گناہوں کا قتلِ عام کیا ہے۔ ہمیں بخش دے۔ ہمیں معاف کر دے۔‘‘
کچھ لوگوں نے شہر چھوڑ کر بھاگ جانے کی کوشش کی لیکن پھر بھی گناہوں کی واپسی کے عذاب آگیں عمل سے انہیں نجات نہ مل سکی۔ دوسرے شہروں میں جا کر ان پر عذاب مزید شدت سے اترنے لگا اور وہ مجبوراً لوٹ آئے۔ اس طرح جو بھی گئے تھے، وہ ایک ایک کر کے شہر واپس آ چکے تھے۔
گناہوں کی واپسی نے پارسائوں کی اصلیت کو بے نقاب کر دیا تھا۔ شہر کے وہ لوگ جو پہلے پرہیز گار بن کر گردنیں اکڑا کر چلتے تھے، اب شرم کے مارے زمین میں گڑے ہوئے تھے۔ جہاں بھی دو چار آدمیوں سے ٹکرائو ہو جاتا، سر جھکا کر گزر جانے کی کوشش کرتے تھے۔ کسی سے آنکھیں چار کرنے کی ہمت ان میں نہ رہی تھی۔ وہ غریب لوگ جو پہلے گناہ گار اور بدقسمت سمجھے جاتے تھے، اب اپنی گردنیں اکڑا کر چلتے تھے اور امیروں کی طرف استہزائیہ نظروں سے دیکھتے تھے۔ ۔۔ وقت بھی کس طرح بدلتا ہے!
عملاً شہر پر امیرِ شہر، درباریوں اور مفتی کی حکومت ختم ہو چکی تھی— اب شہر پر ان غریبوں کی غیر اعلانیہ حکومت قائم ہو گئی تھی جنہیں غریب، گناہ گار اور کمزور سمجھ کر دھتکارا جاتا تھا— جن پر نت نئے قوانین کا اطلاق کیا جاتا تھا۔
ان غریبوں کی سربراہی نجم الدین اور اس کا دوست کامل کر رہے تھے۔ اب دونوں کو مے کشی سے روکنے والا صالح آباد میں کوئی نہیں رہا تھا۔ مفتی میں سکت نہ تھی کہ انہیں کوڑے مارنے کی سزا سناتا۔ کوتوالِ شہر بھی اپنی طاقت سے محروم ہو چکا تھا۔
گناہوں کی واپسی روکنے کے تمام حربے ناکام ہو چکے تھے۔ اس عذاب کا شکار لوگ روز ہی مرتے تھے اور روز ہی جیتے تھے— اب وہ موت کی دعائیں مانگنا شروع ہو گئے تھے لیکن موت بھی ان کی بے بسی کا مذاق اڑا رہی تھی۔
بادشاہ اور امرا کے محلات جہاں شراب و شباب کی محفلیں جمتی تھیں، اب ویران ہو چکے تھے— اب وہاں رات کو بدروحوں کی مکروہ ہنسی اور چیخیں سنائی دیتی تھیں۔
بدروحیں بستی کے لوگوں کا مذاق اڑاتیں اور کہتیں، ’’گناہ کرنا بہت آسان ہے۔ گناہ میں بڑی لذت ہوتی ہے لیکن یہی گناہ جب واپس آتے ہیں تو انسان اذیت کا شکار ہو جاتا ہے۔‘‘