شہر کے دروازے پر پہنچتے ہی مسافروں اور نواردوں پر ہیبت طاری ہو جاتی تھی— داخلی دروازہ بہت بڑا اور پھاٹک نما تھا جس کے دونوں طرف خوبصورت مینارے تعمیر کیے گئے تھے۔ دروازے کے دائیں مینارے پر دیوی اور بائیں مینارے پر دیوتا کا بڑا سا مجسمہ ایستادہ تھا۔ دونوں مجسمے خالص سونے کے بنے ہوئے تھے۔ ان کی چمک دیدنی تھی۔
دیوتا کے ہاتھ میں بہت بڑی تلوار تھی۔ یہ تلوار بھی خالص سونے سے بنائی گئی تھی۔ دیوتا کی طلائی آنکھوں میں عجیب سے چمک تھی۔ یوں لگتا تھا جیسےوہ ہر آنے جانے والے شخص کی نگرانی کر رہا ہو۔
دیوی کے گلے میں سونے کا بہت بڑا ہار تھا جبکہ ہاتھ میں ایک لمبا سا گرز تھاما ہوا تھا۔
شہریوں کے نزدیک ہاتھ میں پکڑی تلوار اور گرز شہر کے لیے تحفظ کی علامت تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ یہ دیوی اور دیوتا شہر کو دشمنوں سے محفوظ رکھے ہوئے ہیں—
اس پرانے اور قدیم شہر کا نام دیوتا نگر تھا۔ یہاں ہر طرف دیوتا کے بڑے بڑے مندر تھے جن کے سنہر ےکلس دور سے ہی نظر آتے تھے۔ اکثر مندروں کے کلس سونے کے بنے ہوئے تھے۔ یہاں ہر وقت عقیدت مندوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔
عقیدت مندوں کی سہولت کے لیے شہر میں کثرت سے مہمان سرائے موجود تھیں۔ لوگوں کی آمد و رفت کی وجہ سے یہاں کاروبار ترقی کر رہا تھا اور لوگ نسبتاً خوش حال تھے۔
شہر میں کئی جگہوں پر سادھو سنت لوگوں کے ڈیرے تھے— گلے میں مالائیں ڈالے سادھو اکثر جگہوں پر چلتے پھرتے یا بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔
وکرم نے اسی مقدس ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کا باپ چمن داس بھی ایک مندر کا پجاری تھا۔ ان کے گھر میں بھی کانسی اور پیتل کے خوبصورت مجسمے تھے جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔ وہ بچپن سے ہی اکثر باپ کے ساتھ مندر جایا کرتا تھا اور پوجا پاٹ کے سمے بھی اپنے باپ کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔
وکرم اس شہر کے قصے کہانیاں بچپن سے ہی سنتا چلا آیا تھا۔ پجاری عقیدت مندوں کو اکثر یہ کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ وہ ان کی عقیدت میں اضافہ کرنے کے لیے کئی بار کے سنائے ہوئے قصے بیان کرنے کے بعد کہا کرتے تھے، ’’اس شہر کی ترقی اور عظمت ان دیوتائوں کی وجہ سے ہے۔ پہلے ان کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے اس شہر پر کئی عذاب آ چکے ہیں۔ کئی دفعہ بربادی اس شہر کا مقدر بن چکی ہے۔ اگر شہر کو تباہی سے بچانا ہے تو ان دیوتائوں کے غیط و غضب سے بچنا ہو گا۔ ان کی اطاعت اور خدمت ہم سب پر فرض ہے۔‘‘
وکرم اپنے باپ کے ساتھ چھوٹے سے ایک گھر میں رہتا تھا۔ وہ اکثر اپنے والد کے ساتھ بڑے پجاری کے محل نما مکان میں جایا کرتا تھا جو مندر کے ساتھ ہی واقع تھا۔ اس محل نما مکان کو دیکھ کر اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی تھی، ’’کاش! ہمارا گھر بھی اس محل جیسا ہو۔‘‘
ایک دن یہی سوال اپنے باپ کے سامنے اس کے لبوں پر مچل گیا۔ چمن داس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’بیٹا! جو دیوتائوں اور مورتیوں کی زیادہ خدمت کرتا ہے، اسے زیادہ مرتبہ و مقام نصیب ہوتا ہے۔ بڑے پجاری دیوتائوں اور مورتیوں کی زیادہ خدمت کرتے ہیں۔ اس لیے ان کا مکان بڑا اور مرتبہ بہت بلند ہے۔ میں چھوٹا پجاری ہوں۔ میں کم خدمت کرتا ہوں۔ اس لیے میرا مقام اور مرتبہ چھوٹا ہے۔ ظاہر ہے پھر میرا گھر بھی چھوٹا ہی ہو گا۔‘‘
وکرم کے معصوم ذہن میں زندگی میں آگے بڑھنے کا یہ چھوٹا اور سادہ سا فلسفہ ثبت ہو گیا۔
وکرم جب بڑا ہوا تو اپنے باپ کے ساتھ روزانہ مندر جانے لگا تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ دیوتا اور دیوی کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ سوچتا تھا، ’’باپ نے خدمت میں جو کسر چھوڑی ہے، وہ میں پوری کر دوں گا تاکہ دیوی اور دیوتا خوش ہو کر بڑا مکان عطا کر دیں۔‘‘
وہ صبح سویرے مندر پہنچ جایا کرتا تھا۔ پہلے صفائی کرتا پھر زائرین کو پانی پلاتا۔ گھر سے لایا ہوا دودھ دیوتا کی نذر کرنے کے بعد بتوں کے گلوں میں تازہ پھولوں کے ہار بھی ڈالا کرتا تھا۔
دیوتا اور دیوی کو خوش کرنے کے لیے وہ ہر جتن کر رہا تھا۔
اس کی آواز صاف اور سریلی تھی۔ اس نے بھجن گانا بھی سیکھ لیا تھا— روزانہ ترنم کے ساتھ بھجن گاتا تھا۔ لوگ اس کی باریک سریلی آواز سے بہت محظوظ ہوا کرتے تھے۔
بڑے پجاریوں کے علاوہ مندر میں خدمت گاروں کی ایک فوج ظفر موج موجود تھی۔ ہر خدمت گار اپنے طور پر دیوتائوں کو زیادہ سے زیادہ خوش کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔
وکرم نے ایک دن سب سے پرانے خدمت گار سے پوچھا، ’’دیوتائوں کی جتنی خدمت تم نے کی ہے، اتنی خدمت کسی اور نے نہیں کی۔ لیکن پھر بھی تمہارا تو اپنا گھر تک نہیں ہے۔ یہ بڑے پجاری سوائے زبان چلانے کے کچھ بھی نہیں کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ بڑے بڑے محلوں میں رہتے ہیں۔‘‘
پرانا خدمت گار اس کی بات سن کر مسکرایا اور بولا، ’’تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ نادان ہو— آسمانی باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ میرا مشورہ ہے کہ ایسی باتیں بڑے پجاریوں کے سامنے کبھی نہ کرنا — ان باتوں سے مقدس دیوتائوں کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔‘‘
وکرم اس کی باتیں سن کر گہری سوچ میں مستغرق ہو گیا تھا۔ چند ثانیوں بعد اس نے کہا، ’’لیکن تم تو میرے ہم راز ہو۔ میرے دوست ہو۔ اچھے آدمی ہو۔ میں تم سے پوچھ کر ہی رہوں گا کہ دیوتا یہ ناانصافی کیوں کرتے ہیں۔‘‘
پرانا خدمت گار چند لمحے سوچتا رہا، پھر بولا، ’’دیوتا کسی سے ناانصافی نہیں کرتے۔ اصل میں انسان بہت جلدباز اور ناشکرا ہے۔ کسی کو اس دنیا میں مل جاتا ہے اور کچھ لوگوں کو اگلے جہان میں ملتا ہے— اس جنم میں محروم رہنے والے اگلے جنم میں جھولیاں بھر لیتے ہیں۔‘‘
اس کی باتیں سن کر وکرم خاموش ہو گیا۔ شاید وقتی طور پر اس کا دل مطمئن ہو گیا تھا۔
عبادت گاہ چوبیس گھنٹے آباد رہتی تھی۔ یہاں دن کو بھی لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ رات کو بھی بے چین لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔
مندر میں بھانت بھانت کے لوگ آیا کرتے تھے۔ کچھ امیر اور صاحبِ ثروت لوگ جو سمجھتے تھے کہ ان کی دولت دیوتا کی نظرِ کرم کی وجہ سے تھی، وہ نذرانے دینے آیا کرتے تھے۔
کچھ ایسے لوگ بھی یہاں آیا کرتے تھے جو دنیا کو پانے کے لیے ہر طرح کا جتن کر چکے تھے لیکن پھر بھی دنیا ان کی مٹھی میں نہیں سمائی تھی۔ اب وہ دیوتا کے پاس آتے تھے تاکہ دیوتا اپنی لامحدود شکتی کو بروئے کار لاکر دنیا کو سمیٹ کر ان کی مٹھی میں دے دیں۔
یہاں مسلسل آنے والوں میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جو شباب کی بہاریں گزار چکے تھے۔زندگی کی بھاگ دوڑ نے انہیں تھکا دیا تھا ۔ اب وہ بے چینی اور ہنگامہ خیزی سے اکتا کر سکون کی تلاش میں تھے۔
وکرم اب اداس رہنے لگا تھا۔ اس نے دیوتائوں اور دیویوں کی خدمت میں رات دن ایک کر دیا تھا۔ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا مگر اس کی مرادیں پوری نہیں ہورہی تھیں۔ اس کا یقین مسلسل متزلزل رہنے لگا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ یہ آسمانی دیوتا بھی ناانصافی کر رہے ہیں — کسی کو ضرورت سے زیادہ دے رہے ہیں تو کسی کو پیٹ بھرنے کیلئے چند نوالے بھی نہیں دیتے۔ کوئی بہتات میں مر رہاہے تو کوئی انحطاط سے۔
جب کبھی اس کا یقین اور ایمان زیادہ متزلزل ہونے لگتا تو ایک انجانا سا خوف اس کے دل میں بیٹھ جاتا کہ کہیں دیوتا اس کے دل کا حال جان کر اسے سزا ہی نہ دے دیں— اسے تباہ و برباد نہ کر دیں۔
وہ اکثر بڑے پجاریوں سے نظر بچا کر گزر جاتا تھا۔ اسے ڈر لگنے لگا تھا کہ کہیں بڑے پجاری اس کی آنکھوں میں جھانک کر دل کا حال نہ پڑھ لیں۔
ایک دن بڑے پجاری نے تقریر کرتے ہوئے کہا، ’’دیوتائوں کی خدمت کرنا اور ان کو نذرانے دینا ہم سب پر فرض ہے۔ ماضی میں دیوتائوں کی نافرمائی کے نتیجے میں اس شہر پر کئی دفعہ تباہی آ چکی ہے۔ مقدس دیوتائوں کی نافرمانی کرنے والے خود بھی عذاب کا شکار ہوتے ہیں اور پورے شہر کی تباہی کا سبب بھی بنتے ہیں۔‘‘
لوگ دم سادھے پجاری کی باتیں سن رہے تھے۔ اکثر لوگوں کے چہرے خوف سے زرد ہو رہے تھے۔ شاید وہ لوگ سوچ رہے تھے کہ تھوڑی بہت نافرمانی تو وہ کرتے رہتے ہیں۔ پتہ نہیں کس وقت کوئی نافرمانی عذاب اور تباہی کا موجب بن جائے۔
تمام لوگ بڑے پجاری کی باتیں توجہ سے سن رہے تھے کہ اتنی دیر میں ایک مجہول سا شخص اُٹھا— اس کے لمبے بال دونوں شانوں پر پھیلے ہوئے تھے، گلے میں پتھروں کی ایک مالااور ایک تسبیح جھول رہی تھی، چہرے پر بے ترتیب داڑھی اس کی مفلوک الحالی کی کتھا بیان کر رہی تھی— اس کی آنکھوں میں ایک پراسرار ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا، ’’پجاری! تمہاری باتیں ٹھیک ہیں۔ میں نے بھی سنا ہے کہ دیوتا کا غیظ و غضب اس شہر پر کئی بار نازل ہوا— سب مکان تباہ ہو گئے— سارے لوگ ہلاک ہو گئے— نہ کوئی نیک بچا نہ کوئی بدکار—‘‘
اس کی دخل اندازی سے پجاری برہم ہو گیا تھا لیکن خاموش تھا۔ گویا زبان گنگ ہو گئی تھی۔
وہ مجہول شخص پجاری کی اس کیفیت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سلسلہ کلام جوڑ کر بولا، ’’تمہارے دیوتائوں نے بھی ناانصافیاں کی ہیں— نیک لوگوں کو بھی وہی سزا دی ہے جو بدکاروں کے یے تھی۔ تمہارے دیوتا بہرے ہیں۔ عذاب لاتے ہوئے ان کو معصوموں کی چیخیں سنائی نہ دیں۔ تمہارے دیوتا اندھے ہیں۔ ان کو نیک اور بد کا فرق ہی دکھائی نہ دیا۔‘‘
ابھی وہ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن چند لوگ اُٹھے اور اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ پجاری کی آنکھوں سے غصے کی چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ وہ غصے سے بولا، ’’ایسے ہی نافرمان لوگوں کی وجہ سے شہروں پر عذاب آتے ہیں۔‘‘
وکرم اس صورتِ حال کو دیکھ کر اور بوڑھے مجہول کی باتیں سن کر بہت پریشان ہو گیا تھا۔ اس نے پرانے خدمت گار سے پوچھا، ’’یہ شخص کون تھا؟‘‘
وہ بولا، ’’اس کو کوئی نہیں جانتا۔ کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ کہاں سے آتاہے۔ لوگ اس کو دیوانہ کہتے ہیں۔ اس کے مذہب کے بارے میں بھی کسی کو معلوم نہیں۔۔کوئی نہیں جانتا کہ یہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے— کس کو مانتا ہے۔ یہ مسجد میں بھی جاتا ہے اور مندر میں بھی آیا کرتا ہے۔ یہ عجیب و غریب سوالات کرتا ہے۔ بڑا پجاری اس کو جواب نہیں دے سکتا تو لوگ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیتے ہیں۔ مولوی جب اس کے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتا تو نمازی اسے مسجد سے باہر دھکیل دیتے ہیں۔‘‘
وکرم کے ذہن میں اسے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس نے پوچھا، ’’یہ رہتا کہاں ہے؟‘‘
پرانے خدمت گار نے جواب دیا، ’’اس کے ٹھکانے کا کسی کو پکا پتہ نہیں ہے۔ یہ آتا ہے اور چھلاوے کی طرح غائب ہو جاتا ہے۔ کہیں ظاہر ہوتا ہے اور پھر اچانک غائب ہو جاتا ہے۔‘‘
وکرم اب اور زیادہ اداس اور مضطرب رہنے لگا تھا۔ اس کا دل مندر میں نہیں لگتا تھا۔ وہ تو برابری کے خواب دیکھتا تھا لیکن اُسے اس عبادت گاہ میں بھی بیرونی دنیا والی درجہ بندی اور طبقاتی تقسیم دکھائی دیتی تھی— بڑا پجاری، چھوٹا پجاری، بڑا خدمت گار، چھوٹا خدمت گار— سب کے الگ الگ درجے تھے — سب کے الگ الگ رتبے تھے۔
وکرم کی بے چینیاں ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھنے لگی تھیں۔
ایک رات وہ بہت پریشان تھا۔ نیند آنکھوں سےکوسوں دور تھی— ہر طرف گہری خاموشی کا راج تھا۔ سب لوگ سوئے ہوئے تھے— صرف ایک پجاری جاگ رہا تھا جو مخصوص وقت کے بعد گھنٹہ بجا تا تھا — گھنٹہ بجنے سے وکرم کا دل اور دہل جاتا تھا— جب رات بہت زیادہ گزر گئی تو گھنٹہ بجانے والے پجاری کو بھی نیند آ گئی۔
وکرم کا خوف متجاوز ہو گیا— سارے چراغ تھک ہار کر بجھ چکے تھے۔ سوائے ایک چراغ کے جو ہلکا سا ٹمٹما رہا تھا— جیسے کوئی آخری ہچکیاں لے رہا ہو۔ اس ملگجے ماحول میں وکرم کو کئی ہیولے دکھائی دے رہے تھے۔ چلتے پھرتے — خاموش — وہ پلکیں جھپکائے بغیر ایک ٹک دیکھ رہا تھا — خوف کا آسیب اس کے دل کی دھڑکن کو تیز سے تیز تر کرنے میں مصروف تھا۔
جب خوف حد سے متجاوز ہو گیا تو وکرم کا دم گھٹنے لگا۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھا اور چشمِ زدن میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ چاند کی ہلکی ہلکی روشنی میں کھلی فضا میں اس نے چند لمبی سانسیں پھیپھڑوں میں اُتاریں تو اس کے خوف میں کسی حد تک کمی واقع ہو گئی۔
اس نے ادھر اُدھر دیکھا۔ باہر سناٹے کا راج تھا۔ وہ ایک طرف چل پڑا۔ اس کی منزل کون سی تھی؟کس طرف تھی؟ معلوم نہ تھا۔
دماغ نے کہا، ’’منزل کی کوئی خبر نہیں۔ گویا نامعلوم ہے۔‘‘
دل سے آواز آئی —’’ نہیں نہیں! منزل نامعلوم نہیں، بلکہ معلوم ہے۔ مجھے اس دیوانے کے پاس جانا ہے۔ اس کا ٹھکانہ میری منزل ہے۔‘‘
وہ دیوانے سے ملنے کے لیے بے چین تھا۔ کسی تعین کے بغیر ایک سمت چلا جا رہا تھا۔
اس کے ذہن میں پرانے خدمت گار کے الفاظ گونج رہے تھے، ’’دیوانہ تو دیوانہ ہے، سایہ ہے— اسے تلاش کرنا بے وقوفی ہے۔‘‘
وکرم کئی دنوں سے بغیر اطلاع اور اجازت کے گھر اور مندر سے غائب تھا۔ کہیں اُسے کچھ کھانے پینے کو مل جاتا تو کھا پی لیتا — وہ بھوک اور پیاس سے منزل کی تلاش میں بے نیاز ہو چکا تھا۔ ایک دن اس کی مراد برآئی— جنگل کے اُس پار، دریا کے کنارے ، ایک شخص دریا میں کنکر یاں پھینک رہا تھا۔ وکرم کی طرف اس کی پیٹھ تھی، چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا، مگر وکرم نے اُسے پہچان لیا تھا۔ یہی وہ دیوانہ تھا جس کی تلاش میں وہ گھر ، مندر حتیٰ کہ اپنی ذات سے بے نیاز ہو چکا تھا۔
وکرم کا چہرہ خوشی سے تمتما اُٹھا۔ قدموں کی رفتار غیر معمولی طور پر بڑھ گئی۔
اچانک دیوانے نے اس کی طرف رُخ پھیرا اور مسکرا کر کہا، ’’تلاش سچی اور بے لوث ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے۔ آئو بیٹھو! یہاں ، میرے پاس—‘‘
دیوانے نے دوبارہ کنکریاں اُٹھائیں اور ایک ایک کرکے دریا میں پھینکنے لگا۔ وہ بڑے انہماک سے کنکریاں پھینک رہا تھا۔ چند ثانیوں بعد گویا ہوا، ’’انسان کی حیثیت اس دنیا میں اتنی ہے جتنی ان کنکریوں کی دریا میں، لیکن پھر بھی انسان اس دنیا میں اکڑ کر چلتا ہے— بے خبر جو ہوا— بے دھیان جو ہوا —‘‘
وہ دیوانے سے مل کر بہت خوش ہوا تھا۔ اس کے پہلو میں بیٹھ کر طمانیت اور سکون محسوس کر رہا تھا۔ یکبارگی وکرم نے اس کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے لبوں پر بہت سے سوال مچل رہے تھے مگر دیوانے نے اسے دیکھ کر پیار سے کہا، ’’ابھی نہیں— آہستہ آہستہ بہت کچھ سمجھ جائو گے— جلد بازی نہ کرو۔ویسے تو انسانوں کی عجلت نے انسانوں کو بے چین اور مضطرب کر رکھا ہے۔ شاید انسان یہ چاہتا ہے کہ جلد از جلد قیامت آ جائے۔ یہ دنیا ختم ہو جائے—‘‘
دیوانہ اکثر خاموش رہتا یا آسمان کی طرف تکتا رہتا تھا۔ کبھی کبھی وہ زمین پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچنے لگ جاتا ، جیسے کسی چیز کا حساب کتاب کر رہا ہو، یا کچھ کاٹ رہا ہو۔
ایک دن وکرم نے اس سے پوچھا، ’’سب لوگ یہ کہتے ہیں کہ دیوانہ خدا اور بھگوان کو نہیں مانتا۔‘‘
وہ مسکرا کر بولا، ’’میں بھگوان کو مانتا ہوں لیکن بھگوان کا نام استعمال کر کے پیسہ بنانے والے پجاریوں کو نہیں مانتا۔ ان کے خلاف بولتا ہوں۔ ان بڑے پجاریوں نے بھگوان کے نام پر اپنی جیبیں تو بھر لیں لیکن چھوٹے خدمت گاروں کے لیے روٹی کا حصول بھی مشکل کر دیا ہے۔‘‘
وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگا، جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔ پھر اس نے اپنا سر جھکا لیا۔ غم زدہ لہجے میں بولا، ’’یہ پجاری بڑے ظالم لوگ ہیں۔ جب بھی کوئی قدرتی آفت یعنی زلزلہ، سیلاب یا طوفان آتا ہے تو یہ بھگوان کے عذاب کے نام پر ڈرا کر ان مصیبت زدہ لوگوں سے ان کی رہی سہی جمع پونجی بھی لُوٹ لیتے ہیں— ان کی جیبیں خالی کر دیتے ہیں— حالانکہ ایسے وقت میں برے سے برا شخص بھی ان کی مدد کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ اپنی حیثیت کے مطابق ان مصیبت کے ماروں کی مالی طور پر مدد کر دیتا ہے مگر ان پجاریوں کے دل میں رحم نام کی کوئی شئے سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔‘‘
دیوانے کی باتیں اس کے دل میں گھر کرتی جا رہی تھیں۔ وہ روز بروز اس کا معتقد ہوتا جارہا تھا۔ ابھی اس نے بہت کچھ پوچھنا تھا لیکن اس کی دیوانے سے ہم سفری کا دورانیہ سمٹ گیا— ایک دن جب وہ صبح اُٹھا تو دیوانہ غائب تھا۔ اس نے دیوانے کی تلاش میں رات دن ایک کر دیا، مگر وہ کہیں نہ ملا۔
وہ مایوس اور دل گرفتہ ہو کر گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
وکرم کافی عرصہ بعد گھر پہنچا تھا۔ اس کے والدین جو اسے ہر جگہ تلاش کر کے مایوس ہو چکے تھے، اسے دیکھ کر یک دم نہال ہو گئے۔ ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اس کی والدہ نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا، ’’چمن داس! میں نہ کہتی تھی کہ مقدس گائے گھر لے آئو— ہماری مرادیں ضرور پوری ہوں گی۔ دیکھا ناں! میرا بیٹا واپس گھر آ گیا ہے۔‘‘
مقدس گائے کے تذکرے پر اس کے دل و دماغ میں کوئی ہلچل پیدا نہ ہوئی۔ اس کا دل تو دیوانے کی باتوں میں کھویا ہوا تھا، ’’یہ مقدس دیوتا بھی ناانصافی کرتے ہیں، جس کے پاس دولت کے ڈھیر ہوں، اس کی دولت میں اضافہ کرتے ہیں، جو بھوکے ہوں، ان سے رہی سہی رقم بھی لے لیتے ہیں۔‘‘
اس کا باپ چمن داس اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے مقدس گائے کی زیارت کے لیے لے گیا۔ گائے کیلئے وہ کمرہ مختص کیا گیا تھا جو کبھی اس کے آنجہانی دادا استعمال کیا کرتے تھے ۔ پہلے یہ کمرہ ٹوٹا پھوٹا اور ناقابلِ استعمال ہوا کرتا تھا۔ دادا کے مرنے کے بعد اس کی حالت پہلے سے بھی خستہ ہو گئی تھی۔
اس خستہ حال کمرے کی از سرِ نو زیبائش اور تزئین و آرائش کی گئی تھی۔ مقدس گائے کی رہائش کیلئے موزوں ترین انتظام کر دیا گیا تھا— چھت سے ایک خوبصورت فانوس لٹک رہا تھا۔ فرش پر لکڑی کے رنگ کا سنگِ مر مر نصب تھا جبکہ دیواریں بھی مختلف رنگوں کے نقش و نگار سے مزین تھیں۔ دیواروں پر دیوتائوں اور دیویوں کی خوب صورت تصاویر بنی ہوئی تھیں— کوئی دیوتا ہاتھ میں تلوار لیے کھڑا تھا تو کسی کے ہاتھ میں گرز پکڑا ہوا تھا۔
کمرے میں شانِ بے نیازی سے کھڑی گائے کے گلے میں تازہ پھولوں کے ہار جھول رہے تھے — پائوں میں چاندی کے بنے ہوئے گھنگرو بندھے ہوئے تھے۔ گائے کے اوپر ہلکے کالے رنگ کی چادر ڈالی ہوئی تھی جس پر رنگین دھاگوں سے پھول کاڑھے ہوئے تھے۔
اگرچہ وکرم کا دل اور روح کہیں اور تھے لیکن چمن داس اس سے بے نیاز خوشی خوشی بتا رہا تھا، ’’میں تو اکثر گھر پر نہیں ہوتا لیکن تمہاری والدہ اور بہن مقدس گائے کی بہت خدمت خاطر کرتی ہیں— روزانہ اسے خوشبو والے پانی سے نہلاتی ہیں۔ خوراک میں چارے کے علاوہ اسے اچھی سبزیاں اور پھل دیتی ہیں۔ تمہاری والدہ اس کے لیے کڑھائی والی خوبصورت چادر تیار کرنے پر دن رات محنت کر رہی ہے۔‘‘
مقدس گائے کی خدمت دن رات ہو رہی تھی۔ اس کی ماں اور بہن اس کام کو سعادت سمجھ کر کرتی تھیں جبکہ اسے مقدس گائے کی خاطر مدارات میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
ایک دن اس کے گھر والے کسی رشتے دار کے گھر گئے۔ جاتے ہوئے گائے کی خدمت کی ذمہ داری وکرم کے کاندھوں پر ڈالنا نہیں بھولے تھے۔
جب اس کا باپ شام کو واپس آیا تو پتہ چلا کہ گائے سارے دن کی بھوکی ہے — وکرم اسے چارہ ڈالنا بھول گیا تھا۔
اس کا باپ چمن داس بہت برہم ہوا، ’’وکرم! تم نے مقدس گائے کی توہین کی ہے۔ ایک دن تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے اس گھر پر عذاب اترے گا — ہم سب تباہ و برباد ہو جائیں گے۔‘‘
اس نے سر جھکا لیا۔
اس سال بارشیں بہت کم ہوئی تھیں۔ ابھی سے ہی شہر پر مہیب قحط کے خطرات منڈلانے لگے تھے۔ جانوروں کے لیے چارہ بتدریج کم ہوتا جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کچھ ہی دنوں بعد سرے سے ناپید ہو جائے گا۔ لوگوں کے چہروں پر خوف کے آثار ابھرنا شروع ہو گئے تھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے مندروں میں خطرہ بھانپ لینے کے گھنٹے بجنے لگے۔ قحط کو ٹالنے کے لیے بھجن گائے جانے لگے۔ عبادت گاہوں میں لوگوں کو ایک دم ہجوم بڑھ گیا تھا۔ پجاری اعلان کر رہے تھے، ’’قحط دیوتائوں کی ناراضی کے سبب آسمان سے اترنے والا عذاب ہے۔ یہ ہمارے گناہوں کی شامت ہے— ہمارے پاپ کی سزا ہے— اس کو ٹالنے کے لیے دیوتائوں کو خوش کرنا ضروری ہے — اس کے لیے دیوتائوں اور دیویوں کو بھرپور نذرانے دیے جائیں۔ دل کھول کر تحفے تحائف دیوتائوں کے چرنوں میں پیش کیے جائیں— کیا خبر کس سمے کون دیوتا ہم پاپیوں پر راضی ہو جائے اور قحط ٹل جائے۔‘‘
سمجھ دار لوگ ابھی سے خوراک ذخیرہ کرنے پر لگے ہوئے تھے۔ امیر لوگ قحط کے خوف سے اپنے اہل و عیال اور خوراک کو شہر سے دور محفوظ جگہوں پر منتقل کرنے میں ہمہ تن مشغول تھے۔ انہیں خوف تھا کہ جب قحط زیادہ ہوا تو لوگ ان پر دیوانہ وار پل پڑیں گے اور حملہ کر کے ان کی ذخیرہ شدہ خوراک اور مال و اسباب لوٹ لیں گے۔
دوسری طرف غریب اور کمزور لوگ ابھی تک قحط ٹالنے کے لیے نذرانے دینے پر لگے ہوئے تھے۔ پجاری بڑے سمجھ دار تھے۔ انہیں خود اپنے دیوتائوں پر کامل یقین نہیں تھا کہ وہ قحط ٹال دیں گے، اس لیے وہ بھی اپنی دولت اور خوراک شہر سے باہر خفیہ ٹھکانوں میں منتقل کر رہے تھے۔ دن بھر جو ہاتھ لگتا، رات کی تاریکی میں پناہ گاہوں میں منتقل ہو جاتا تھا۔ وہ غریب لوگوں کو مسلسل دلاسے دے کر لوٹ رہے تھے اور سمجھا رہے تھے، ’’دیوتائوں کی پوجا زیادہ کر دو۔ زیادہ سے زیادہ نذرانے ان کے پیروں میں ڈالو اور بنتی کرو کہ قحط ٹل جائے۔‘‘
وکرم دیکھ رہا تھا کہ پجاری بڑے خود غرض واقع ہوئے تھے۔ وہ ان قحط زدہ لوگوں کو ابھی بھی لوٹنے پر لگے ہوئے تھے جن کے چہرے خون کی کمی اور بھوک کی وجہ سے پیلے پڑ گئے تھے اور آنکھیں اندر کو دھنسنے لگی تھیں۔ اکثر لوگ ہڈیوں کے سوکھے پنجر دکھائی دینے لگے تھے۔
اس کے اپنے گھر کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے تھے لیکن اس کا باپ پھر بھی مقدس گائے کو خوراک کہیں نہ کہیں سے لاکر وقت پر دیا کرتا تھا جبکہ وہ اور اس کی بہن بھوکے رہ جاتے تھے۔
ان کے پڑوسی پہلے پہل مقدس گائے کے لیے چارہ اور پھل بھیجا کرتے تھے۔ اب یہ سلسلہ تھم گیا تھا کیونکہ وہ خود زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو گئے تھے۔ گائے کو پیش کرنے کے لیے وہ خوراک کا بندوبست نہیں کر سکتے تھے۔
ہر طرف خشک سالی کا بھیانک راج قائم ہو چکا تھا۔ جانور چارے کی کمی کی وجہ سے مر رہے تھے۔ لوگ مردہ اور بدبودار جانوروں کا گوشت کھانے پر لگے ہوئے تھے۔ مگر مردار کھانے سے بھی سانسوں کی ڈور کو مہلت ملتی دکھائی نہیں دیتی تھی۔
وکرم کے اپنے گھر میں خوراک کا ذخیرہ بہت کم مقدار میں رہ گیا تھا۔ اب گائے کو خوراک ملنا بھی کم ہو گئی تھی جس کی وجہ سے وہ بتدریج کمزور ہونے لگی تھی۔ وکرم کا باپ کئی مرتبہ مقدس گائے کے لیے اناج لینے گھر سے نکلا تھا لیکن بہت کوشش کے باوجود چند پھانکیں لانے میں بھی کامیاب نہ ہو پایا تھا— شہر میں اناج سرے سے غائب ہو چکا تھا۔
قریبی شہر سے غلے کے کئی اونٹ یہاں بھیجے گئے تھے لیکن وہ قحط زدہ لوگوں نے راستے میں ہی لوٹ لیے تھے۔
پھر — وکرم کے گھر میں خوراک بالکل ختم ہو گئی۔ اس کی چھوٹی بہن بھوک کے مارے بلکنے لگی۔ اس کے آنسوئوں اور چیخ و پکار سے وکرم کا دل دہلنے لگا تھا۔ خود اس کی بھی ہڈیاں نکل آئیں تھیں۔ اس کے ماں باپ بھی ہڈیوں کے ڈھانچے بن کر رہ گئے تھے لیکن انہیں اپنے آپ سے کہیں زیادہ اپنے دونوں بچوں کی فکر دامن گیر تھی۔
چمن داس سے اپنے بچوں کی بے بسی اور بھوک دیکھی نہ گئی۔ وہ چھری اٹھا کر لایا اور وکرم سے بولا، ’’آئو بیٹا! مقدس گائے کو ذبح کرتے ہیں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی اور لفظ حلق میں کانٹوں کی طرح اٹک اٹک کر برآمد ہو رہے تھے۔
وکرم کی آنکھوں میں کئی سوال ابھرے جو باپ نے پڑھ لیے تھے لیکن اس میں جواب دینے کی ہمت بالکل نہیں تھی۔
وکرم کے ذہن میں یکبارگی دیوانے کے الفاظ گونجے، ’’کوئی مقدس وقدس نہیں جگ میں— سب سے مقدس بھوک ہے— بس بھوک —‘‘
گائے ذبح کرتے ہوئے چمن داس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ گائے کمزور ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر مزاحمت تو نہ کر سکی تھی لیکن اس کی ادھ کھلی آنکھوں میں حیرت ضرور ثبت تھی— صبح شام ناز برداریاں کرنے والے ہاتھوں نے اسے کیسے کاٹ کر رکھ دیا تھا؟
گائے کا گوشت بھی کتنے دن چلتا؟ گھر میں پھر فاقے شروع ہو گئے۔ ایک دن وکرم بھوک سے تنگ آ کر خوراک کی تلاش میں نکل کھڑآ ہوا۔ وہ شہر کے حالات دیکھ کر سخت خوف زدہ ہو گیا تھا۔ ہر جگہ قحط زدہ — مرے ہوئے — پنجر بنے ہوئے لوگ — لاشیں— تعفن — لاشوں پر سے بھی بھوک کے ماروں نے ماس اُتار لیا تھا۔ جابجا ڈھانچے بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ جگہوں پر لوگ آخری ہچکیاں لیتے انسانوں کے مرنے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ ان کا ماس اُتار کر ایک وقت کی بھوک مٹا لی جائے۔ اسے راستے میں ایک شناسا ملاجس نے بتایا، ’’وکرم! اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان بچا کر شہر سے بھاگ جائو۔ لوگ زندہ انسانوں کو ذبح کر کے بھی اپنی بھوک مٹا رہے ہیں۔ قتلِ عام ہو رہا ہے ہر طرف—‘‘
اسے یہ بات سن کر جھرجھری سی آ گئی۔
وہ مندر کی طرف چل دیا۔ اسے یقین تھا کہ وہاں سے کھانے کو کچھ نہ کچھ مل جائے گا کیونکہ وہاں لوگ دیوتا کے قدموں مین دان کرنے کے لیے کھانے پینے کی چیزیں لایا کرتے تھے۔
جب وہ مندر پہنچا تو حیران رہ گیا— مندر اس شہر کی مانند نظر آ رہا تھا جسے کسی فاتح بادشاہ نے فتح کرنے کے بعد لوٹا ہو — مندر میں کوئی ذی روح نظر نہیں آ رہا تھا۔ پجاری بھی غائب تھے— خدمت گار بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ سارے بت اوندھے پڑے تھے۔ ان کے ساتھ لگے ہیرے، جواہرات، سونا اور چاندی لوگ لوٹ کر لے گئے تھے۔
وہ خوف زدہ ہو کر واپس گھر کی طرف پلٹا۔ وہ اپنے گھر والوں کو شہر سے باہر لے کر نکل جانا چاہتا تھا۔ مگر وہ جونہی گھر پہنچا تو اس کی آنکھوں نے انتہائی خوف ناک منظر دیکھا— اس کا باپ اس کی ماں اور بہن کو ذبح کر چکا تھا اور ان کا گوشت بنا رہا تھا۔
وکرم کے حلق سے مارےخوف کے دلدوز چیخ نکل گئی۔ چمن داس نے پلٹ کر اس کی طرف خشونت بھری نظروں سے دیکھا۔ وکرم کو یکبارگی احساس ہوا کہ اس کا باپ اپنے حواس میں نہیں تھا— وہ پاگل ہو چکا تھا یا ہونے والا تھا۔ وہ چند لمحے وکرم کو پھیلی پھیلی آنکھوں سے دیکھتا رہا پھر چھری لے کر اس کی طرف دیوانہ وار دوڑا۔
وکرم اچھل کر دو قدم پیچھے ہٹا پھر مڑ کر بگٹٹ بھاگ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنی جان بچانے کے لیے جسم کی تمام تر توانائی دوڑنے پر صرف کر دی تھی۔
آج اس نے رشتوں کا تقدس پامال ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ تقدیس کا تمام تر فلسفہ اس کی سمجھ میں آ چکا تھا — انسان کا حقیقی چہرہ بھی اس پر آشکار ہو گیا تھا۔
اس کے ذہن میں بار بار دیوانے کے الفاظ گونج رہے تھے، ’’سب سے مقدس بھوک ہے— صرف بھوک—‘‘
وہ تیزی سے شہر کے دروازے پر پہنچا۔ ہر طرف ویرانی کا راج تھا۔ شہر کی حفاظت کرنے والے دیوی اور دیوتا کے بت زمین پر ٹوٹ کر بکھرے پڑے تھے۔ ان کا سونا اور چاندی لٹ چکی تھی۔
شہر کے دروازے پر نہ محافظ تھے اور نہ کوئی ذی روح۔ وہ باہر نکلا تو اسے دور ایک شخص دوڑتا ہوا دکھائی دیا۔ وکرم نے اس کی کمر سے اسے پہچان لیا تھا۔ وہ دیوانہ تھا۔
وکرم نے اسے بہت آوازیں دیں لیکن اس نے مڑ کر نہیں دیکھا البتہ اس کے بھیانک قہقہوں اور باتوں کی بازگشت چارسو گونج رہی تھی، ’’یہ مندر— پجاری— یہ خدمت گار— سب جھوٹ— کوئی مقدس نہیں۔ سب فریب ہے۔ سب جھوٹ ہے۔ بس ایک ہی حقیقت ہے اور وہ ہے بھوک— بھوک ہی مقدس ہے، بھوک ہی قیامت ہے، بھوک ہی عذاب ہے۔انسان اصل میں حیوان ہے۔ شعور کی تہیں اس کی اصلیت کو چھپا دیتی ہیں لیکن یہ بھوک شعور کو تہہ و بالاکر دیتی ہے جس سے انسان کی حیوانیت سامنے آ جاتی ہے۔ تقدس اصل میں کچھ نہیں، صرف انسان کے شعور کا کرشمہ ہے۔ انسان صرف بھوک کا پجاری ہے، درندہ ہے۔‘‘
وکرم دیوانے کے پیچھے تیزی سے بھاگا۔ بھاگتے بھاگتے اسے بلند آواز میں پکارا، رکنے کا کہا مگر اس نے صرف ایک بار پلٹ کر دیکھا۔ وکرم کو ایسا لگا کہ وہ رک جائے گا، مگر وہ رکا نہیں بلکہ دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر کے جنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ بھاگتے ہوئے کہہ رہا تھا، ’’بھاگو! بھاگو! زندگی بچائو۔ زندگی مقدس ہے— سب بھوک کے بیٹے ہیں۔ بس بھوک ہی مقدس ہے—۔‘‘
وکرم کی سانس بری طرح پھول چکی تھی۔ دوڑنا ممکن نہیں رہا تھا۔ وہ رک کر ہانپنے لگا۔ دیوانہ جھاڑیوں میں گم ہو گیا تھا۔ عقب میں قدموں کی آہٹ ابھری۔ اس نے گردن موڑ کر اپنے پیچھے دیکھا۔ راستے پر تین چار ہڈیوں کے پنجر ہاتھوں میں برچھیاں لیے دوڑے چلے آ رہے تھے۔
وہ سمجھ گیا کہ اس کی ہڈیوں سے چپکا ہوا ماس ان قحط کے ماروں کو اپنی جانب بلا رہا ہے — اس نے رہی سہی طاقت جمع کی اور دیوانے کے نقشِ پا پر جھاڑیوں میں گھس گیا —