نیاز الدین حال میں اعلیٰ سرکاری عہدے سے ریٹائر ہوا تھا۔
دورانِ ملازمت اس نے ہمیشہ اپنے پائوں اپنی چادر سے باہر رکھے اور زورِ بازو سے بہت بڑی جائیداد بنائی۔
اس کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی بلکہ ہر چیز کی بہتات تھی۔
وسائل کی فراوانی بہت بڑا نشہ ہے جو عمومی طور پر آنکھ کھلنے نہیں دیتا۔ مگر کوئی ایسی نادیدہ وجہ موجود تھی کہ نیاز الدین کی خواہشوں کی ریل تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ خواہشوں کے صحرا میں اس کی آبلہ پائی کا سفر جاری و ساری تھا۔
نیاز الدین کی کہانی بہت دلچسپ تھی
بچپن میں لوگ نیاز الدین کو اس کے اصل نام سے نہیں، بلکہ مختلف ناموں سے پکارتے اور عدم موجودگی میں یاد کرتے تھے۔ کوئی اس کو ’’سائیں‘‘ کہا کرتا تو کسی کے نزدیک وہ ’’درویش‘‘ تھا۔ کوئی اس کو ’’فقیر‘‘ کا نام دیتا تھا کوئی اس کو ’’اللہ لوک‘‘ کہہ کر یاد کرنے لگتا تھا۔
وہ تھا ہی ایسے ناموں کا مستحق— دنیا سے دور بھاگنے والادرویش— اپنی موج میں رہنے والافقیر—
نیاز الدین کسی امیر باپ کا بیٹا نہیں تھا لیکن پھر بھی ان کی گزر اوقات اچھی ہو جاتی تھی۔ اس کا باپ محنت مزدوری کر کے بچوں کی چھوٹی موٹی خواہشات پوری کرتا رہتا تھا۔
نیاز الدین بچپن سے ہی دوسرے بچوں سے مختلف مزاج کا مالک واقع ہوا تھا۔ خواہشات سے دور بھاگنے والا— دوسرے بچوں کے برعکس اس نے اپنے باپ سے کبھی کھلونے نہیں مانگے تھے— کبھی کسی کھلونے یا پسندیدہ چیز کی خریداری کی ضد نہیں کی تھی۔ جو مل گیا، سو مل گیا، جو نہیں ملا، اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔
اس کی اس درویش مزاجی سے اس کا باپ بڑا متفکر رہتا تھا۔ وہ اکثر پریشان ہو جاتا تھا اور خدا سے التجا کرتا تھا ’’اے اللہ! میرےبیٹے کو صحت اور تندرستی عطا فرما۔ یہ دوسرے بچوں کی طرح نہ کھلونوں کی خواہش کرتا ہے اور نہ ہی کسی چیز کی ضد کرتا ہے۔ کہیں اسے کوئی دماغی عارضہ تو لاحق نہیں؟ کہیں اس کے دماغ پر کوئی بوجھ تو نہیں پڑ گیا؟‘‘
وہ اپنی اس پریشانی کا ظہار اکثر اپنی بیوی سے بھی کرتا تھا، ’’میں نیازالدین کے مستقبل کے بارے بہت پریشان رہتا ہوں۔ دنیا سے دور بھاگنے والے بچے کا نہ جانے کیا مستقبل ہو گا؟ یہ دنیا چالاک لوگوں کو بھی سیدھے راستے پر نہیں چلنے دیتی،نیاز الدین جیسے بھولے بھالے آدمی تو بہت آسان شکار ہوتے ہیں اس کا۔ ظالم دنیا اِن کو تگنی کا ناچ نچاتی ہے۔ ‘‘
اس کے والد کی یہ خواہش صرف خواہش ہی رہی کہ اس کا بیٹا اس سے کبھی کسی پسندیدہ چیز کی فرمائش کرے۔ وہ خود کبھی کوئی کھلونا لے کر آتا تو نیاز الدین اس میں کوئی خاص دلچسپی نہ لیتا۔ باپ کے اصرار پر کہتا، ’’ابو! مجھے کھلونوں کی نہیں، آپ کی ضرورت ہے۔ آپ پہلے ہی ہماری ضرورتیں پوری کرنے کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔ میں کئی کئی دن آپ کی شکل دیکھنے کو ترس جاتا ہوں۔‘‘
اس کے ہم عمر بچوں کے دل و دماغ میں ہر وقت خواہشات کے طوفان مچلتے رہتے تھے۔ان کے ننھے دماغوں میں نئی نئی چیزیں لینے کیلئے فرمائشوں کی کھچڑی پکتی رہتی تھی۔ وہ اپنے والدین سے فرمائش کر کے روز نئے کھلونے اور سٹیشنری کی نئی رنگ برنگی معاون اشیاء خریدتے تھے۔پھر ایک دوسرے کو فخر سے دکھاتے تھے۔
نیاز الدین ہر ایک کی نئی خریدی ہوئی چیز اور کھلونا دیکھتا اور تعریف کر دیتا۔ اس کے دل میں کبھی کسی کیلئے حسد کا جذبہ بیدار نہیں ہوا تھا۔
اس نے بچوں کی خواہشات میں حسد اور نفرت چھپی دیکھی تھی۔ کوئی بچہ جب دوسرے بچے کا کھلونا دیکھتا تو اس سے حسد کرنے لگتا اور اس حسد کی تیز آگ میں کبھی کبھی وہ جل کر کھلونا توڑ بھی دیتا تھا۔
اس کے بچپن کا سب سے قریبی دوست امجد تو خواہشوں کا مچلتا ہوا طوفان تھا۔ نت نئی چیزیں لینا اس کا دل پسند مشغلہ تھا۔ خواہشات نے امجد کے اندر حسد اور نفرت کا طوفان بھر دیا تھا۔ کسی ہم عمر کے پاس وہ کوئی اپنے سے اچھی چیز دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتا تھا— وہ چاہتا تھا کہ ہر اچھی چیز اس کے پاس ہو اور اس کی ملکیت ہو۔
امجد کھاتے پیتے گھرانے کا چشم و چراغ تھا— اس لیے اس کی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل بہ آسانی کر دی جاتی تھی۔ چونکہ گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی، اس لیے اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر تقاضا فی الفور پورا کر دیا جاتا تھا۔ اس کے پاس نت نئے کھلونے، گاڑیاں اورنت نئی سٹیشنری ہوتی تھی جسے دیکھ کر تمام بچوں کے دل مچلتے رہتے تھے۔ بچے یہ چیزیں لینا چاہتے تھے مگر ان کے گھر والوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا— ان کے والدین میں اتنی سکت نہیں تھی کہ انہیں قیمتی کھلونے لے کر دے سکیں۔
امجد سب سے پہلے اپنی نئی آنے والی چیز نیاز الدین کو دکھایا کرتا تھا جو اپنے مخصوص انداز میں اس کی تعریف کر دیتا تھا— اس کے دل میں کبھی بھی ان چیزوں کو دیکھ کر ہلچل نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کبھی اس کی آنکھوں میں کوئی کھلونا دیکھ کر حسرت کا رنگ بیدار ہوا تھا۔ البتہ جب وہ دوسرے بچوں کو امجد کا کھلونا دیکھ کر بے چین اور بے تاب دیکھتا تھا تو اس کے دل پر چوٹ سی پڑتی تھی۔
امجد جب پہلی بار دو پہیوں پر چلنے والی سائیکل لایا تو سارے بچے شوق سے دیکھنے آئے— اس نے خوشی اور تفاخر کے ملے جلے احساس میں سرشار ہو کر سب کو سائیکل چلا کر دکھائی۔ ۔۔سبھی کی آنکھوں میں ہلکورے لیتی حسر ت و یاس کی چمک اور نااُمیدی کا عکس بہ آسانی دیکھا جا سکتا تھا۔
گویا سب سوچ رہےتھے، ’’کاش! ہمارے پاس بھی ایسی ہی سائیکل ہوتی۔‘‘
غریب گھروں کے بچے جن کے والدین دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے پوری کرتے ہوں ، وہ اپنے نونہالوں کی ایسی خواہشیں کہاں پوری کر سکتے ہیں؟—
اکثر خواہشوں کی تشنگی لیے دارِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔
نیاز الدین کا پڑوسی راشد تو سائیکل کو دیکھ کر خود پر اختیار نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، ’’میں بھی اپنے ابو سے کہہ کر ایسی سائیکل ضرور لوں گا۔‘‘
امجد نے استہزائیہ انداز میں قہقہہ لگایا، ’’واہ! یہ منہ اور مسور کی دال— تمہارا باپ تمہارے لیے نئے کپڑے تو لے نہیں سکتا — اتنی مہنگی سائیکل کہاں سے لائے گا؟‘‘
راشد بھی ضد کا پکا تھا۔ وہ سائیکل کیلئے ہاتھ دھو کر اپنے باپ کے پیچھے پڑ گیا۔ غریب باپ نے بیٹے کی ضد سے مجبور ہو کر گھر کی کچھ چیزیں اونے پونے بیچ کر اس کو سائیکل لادی—
راشد پورے محلے میں خوشی سے سائیکل دوڑا رہا تھا— ساتھ ساتھ خوشی اور فخر سے چیختا بھی جاتا تھا۔
جب وہ سینہ تان کر امجد کے سامنے سے گزرا تو امجد کے تن بدن میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی۔
امجد اپنی حسد بھری فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر راشد کی سائیکل کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بنانے لگا ۔ اسے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کسی لائق ِ اعتماد ساتھی کی ضرورت تھی— نظرِ انتخاب نیاز الدین پر جا ٹکی۔ اس نے نیاز الدین کو اپنا ہم راز بنایا۔ ابتدا میں نیاز الدین نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور اسے بھی باز رہنے کا مشورہ دیا مگر امجد کی مسلسل کوششوں کے سامنے نیاز الدین کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ آخر کار وہ امجد کے مذموم ارادے کی تکمیل میں ساتھ دینے پر آمادہ ہو گیا۔
دونوں نے مل کر راشد کی سائیکل چوری کی اور اسے بری طرح توڑ پھوڑ کر محلے کے ایک خالی پلاٹ میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا۔
سائیکل کی چوری نے راشد پر قیامت ڈھا دی تھی۔ اس کی آہ و بکا اور چیخ و پکار نے پورے محلے کو رُلاکر رکھ دیا— وہ پاگلوں کی طرح گلی میں اِدھر اُدھر بھاگ رہا تھا، چیخ رہا تھا اور ہر بندے سےسسک سسک کر اپنی سائیکل مانگ رہا تھا۔
نیاز الدین اس کی شکستہ حالی دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھ رہا تھا۔ چونکہ وہ اس واقعے کا شریک ذمہ دار تھا، اس لیے راشد کی ہر سسکی سیدھی اس کے دل پر وار کرتی تھی۔ اس نے خود پر ضبط بہت کیا مگر راشد کی حالتِ زار نے اس کی آنکھیں نم کر دیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ زار و قطار رونے لگا۔
امجد کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ رقصاں تھی— فاتحانہ مسکراہٹ — وہ دل ہی دل میں راشد اور اس کے گھر والوں پر ہنس رہا تھا، ’’بندہ غریب ہو، دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کر رہا ہو اور چونچلے کرے امیروں والے؟— پھر یہ تو ہونا ہی تھا—‘‘
اس واقعے نے نیاز الدین کو بہت اداس اور ملول کر دیا تھا— اسے دنیا سے، خواہش کرنے والوں سے، خواہش روندنے والوں سے— حتیٰ کہ خواہش کے نام تک سے ایک دم نفرت ہو گئی تھی۔ ۔۔
وہ بات جودنیا کے بڑے بڑوں کی سمجھ میں آج تک نہیں آئی تھی، وہ اس کے معصوم ذہن میں سما چکی تھی کہ خواہشوں کی بنیاد وں میں حسد، نفرت اور برانگیختگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا— خواہشیں انسان کو دیوانہ بنا دیتی ہیں۔ حیوان کر دیتی ہیں۔
اس واقعے کی دلخراش کرچیاں نیاز الدین کی یادداشت میں تاعمر چبھی رہیں— اسے جب بھی یہ واقعہ یاد آتا، اس کی آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے۔ ۔۔وہ بصد کوشش خود پر قابو نہ پا سکتا تھا۔ راشد کی آہ و بکا اور کرب ناک سسکیاں اسے بے چین و مضطرب کر دیتی تھیں۔
وہ سوچتا، ’’امیروں سے غریب لوگوں کی اتنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی برداشت کیوںنہیں ہوتیں۔‘‘
خواہشیں انسان سے چین اور سکون چھین لیتی ہیں۔ انسان کی کوئی خواہش بھی آخری خواہش نہیں ہوتی۔ ہر آخری خواہش ایک نئی خواہش کو جنم دیتی ہے۔ خواہشوں کا یہ سلسلہ کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔
وہ اکثر سوچتا تھا کہ خواہشوں کے تپتے ہوئے صحرا میں صرف غریبوں کو ہی کیوں آبلہ پائی کا سفر درپیش ہوتا ہے؟ — امیروں کی تو ساری خواہشات بغیر کسی تردد کے پوری ہو تی رہتی ہیں۔ وہ تو سکون سے سوتے ہیں۔ خواب دیکھتے ہیں تو ان کی تعبیر بھی کسی نہ کسی رنگ میں خرید لیتے ہیں— دنیا کی طرح خواہشوں کی دنیا بھی امیروں کی ملکیت ہے۔
لیکن اس کی یہ غلط فہمی سیٹھ حاکم نے دور کر دی۔
سیٹھ حاکم سے اس کے والد کی اُس وقت سے دوستی چلی آ رہی تھی جب وہ کچے گھر میں رہتا تھا اور ’’حاکمو‘‘ کہلاتا تھا— پھر وہی ’’حاکمو‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کرتا ہوا ’’سیٹھ حاکم‘‘ بن گیا۔ کئی فیکٹریوں، کوٹھیوں اور وسیع و عریض جائیداد اس کی ملکیت تھی۔ اس کی رہائش کئی ایکڑ پر محیط خوبصورت کوٹھی میں تھی۔ اس محل نما گھر میں ہر طرف خوب صورت درخت اور پھول دار پودے لگے ہوئے تھے۔ دو تین شاندار مخملیں گھاس والے باغیچے اور وسیع کار پورچ کوٹھی کی شان کو دوبالا کرتے تھے— کار پورچ میں نئے ماڈلوں کی مختلف گاڑیاں ہر وقت موجود رہا کرتی تھیں۔
امارت کے باوجود سیٹھ حاکم نے اس کے والد کی دوستی کو خیر باد نہیں کہا تھا بلکہ اس تعلق کو قائم رکھا تھا— وہ اکثر اپنی والدہ کے ساتھ سیٹھ حاکم کے گھر چلا جاتا تھا۔ اس کی والدہ کا سیٹھ حاکم کی بیوی سے بہت قریبی تعلق استوار تھا۔دونوں کے درمیاں خاصی بے تکلفی حائل تھی۔
ایک دن سیٹھ کی بیوی اس کی والدہ سے کہہ رہی تھی ، ’’سیٹھ خود تو نکما اور عیاش بندہ ہے۔ یہ جتنی مال و دولت ہے، جتنی جائیداد ہے، یہ سب میری محنتوں کا نتیجہ ہے۔ بہن! صابر اور منیر نے سیٹھ کے ساتھ ہی کام شروع کیا تھا— وہ دونوں ابھی دس سے زیادہ فیکٹریوں کے مالک ہیں اور بیرونِ ملک میں بھی انہوں نے بہت بڑا کاروبار کا حلقہ قائم کر لیا ہے۔ جبکہ ہماری ابھی صرف تین فیکٹریاں ہیں۔ بہن! میں تو پریشان رہتی ہوں— سیٹھ کو سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہوں کہ حالات کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ بیرونِ ملک بھی کوئی کاروبار شروع کر لو لیکن وہ سمجھتا ہی نہیں۔ کیا کروں؟ میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔‘‘
سیٹھ کی بیوی کی باتیں سن کر نیاز الدین کے دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں— وہ تو سوچتا تھا کہ ’’خواہشوں کی تشنگی‘‘ صرف غریبوں کے لیے ہوتی ہے لیکن یہاں تو بے تحاشا امیر بھی خواہشوں کے صحرا میں آبلہ پائی کا عذاب جھیل رہے تھے—
وہ آج بہت اداس تھا اورزندگی سے بہت خوف زدہ ہو گیا تھا۔
اسے درویش سے اپنی ملاقات یاد آ گئی جب اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے درویش سے سوال کیا تھا، ’’بابا جی! خواہش اور منزل کے پیچھے بھاگنے والی دنیا میں تمہیں درویشی کیسے مل گئی؟— تم نے خواہشوں کے آسیب سے کیسے جان چھڑا لی؟‘‘
درویش مسکرایا مگر چپ رہا۔
اس نے دوبارہ استفسار کیا۔ پھر اصرار کیا۔ تب جواب ملا، ’’کسی شخص کی پیاس دو گھونٹ پانی سے بجھ جاتی ہے اور کسی کی پیاس بھرا ہوا گھڑا بھی نہیں بجھا سکتا— بتائو! ان دونوں میں سے خوش قسمت کون ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا، ’’یقیناً وہ شخص جس کی پیاس دو گھونٹ پانی سے بجھ جاتی ہے، وہی خوش قسمت ہے۔‘‘
درویش مسکرایا، ’’پیاس مجھے بھی لگتی ہے مگر میں وہ خوش قسمت شخص ہوں جس کی پیاس محض دو گھونٹ پانی پینے سے بجھ جاتی ہے۔ میں جلد سیراب ہو جاتا ہوں۔‘‘
اس نے چکنی مٹی میں تھوڑا سا پانی ڈال کر اسے کیچڑ بنایا، پھر کیچڑ سے ننھا سا گولابنایا اور اسے پائوں کی ٹھوکر مار کر دور پھینک دیا، ’’خواہش اس پانی کی طرح ہے جو خاک سے بنے انسان کو کیچڑ بنا کر ٹھوکروں کا نصیب کر دیتی ہے۔‘‘
نیاز الدین کے دل و دماغ میں درویش کی یہ بات اُتر گئی۔
اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ’’بابا جی! خدا بھی تو ناانصافی کرتا ہے۔ ہے نا؟ کسی کی جھولی خواہشوں سے بھر دیتا ہے اور کسی کو دو چار نوالوں کے لیے عمر بھر ترساتا ہے۔‘‘
درویش نے زور دار قہقہہ لگایا، ’’تم ابھی ناسمجھ ہو۔ بچے ہو۔ نادان ہو۔ خدا کسی سے ناانصافی نہیں کرتا۔ وہ رحیم ہے، کریم ہے، غفور ہے۔‘‘
’’بابا جی! مجھے سمجھا دو۔ میں سمجھنے کیلئے آیا ہوں۔‘‘
’’اچھا— تو پھر سمجھو!‘‘ درویش نے اپنی گہری آنکھیں اس پر مرکوز کر دیں، ’’تمہارے تین دوست گھر کا سودا سلف لینے بازار جاتے ہیں۔ ایک کو گھر والے سو روپیہ دیتے ہیں۔ دوسرے کو دس روپے دیتے ہیں۔ تیسرے کو کوئی پیسہ نہیں ملتا۔ اب بتائو، واپسی پر کس کا حساب مشکل ہو گا؟ سو روپے والے کا؟دس روپے والے کا؟ یا خالی جانے والے کا؟‘‘
نیاز الدین سوچ میں پڑ گیا۔ بولا، ’’یقینی طور پر سو روپے والے کیلئے حساب دینا مشکل ہو گا کیونکہ اسے زیادہ رقم ملی تھی اور زیادہ سودا سلف لانا تھا۔‘‘
’’اور دوسرا جو دس روپے لے کر گیا تھا؟‘‘
’’اس کا حساب نسبتاً آسان ہو گا کیونکہ اس کو ملنے والی رقم تھوڑی تھی۔‘‘ نیاز الدین نے جواب دیا۔
’’اور تیسرا؟‘‘
’’اس کا تو حساب ہی نہیں ہو گا۔‘‘ وہ جلدی سے بولا۔
’’کیوں؟‘‘ درویش چونکا۔
’’بابا جی! اس کا حساب کاہے کا؟ نہ تو اسے پیسے ملے تھے گھر سے، نہ اس نے کچھ بازار سے لانا تھا— پھر اس کا حساب گھر والے کیسے لے سکتے ہیں؟
درویش نے بھرپور قہقہہ لگایا ، ’’بس! یہی بات نہیں سمجھتی دنیا۔ خدا نے جتنا زیادہ دیا ہے، اتنا حساب زیادہ، جتنا کم دیا ہے، حساب اتنا کم— یہ جو امیر دولت اور مال واسباب کے انبار لگا کر سمجھ رہے ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے، وہ فاتحِ عالم ہیں، یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ وہ معاملے کو پوری طرح سمجھ نہیں رہے۔ خدا تو انہیں خزانے سونپ کر بڑی ذمہ داری کے امتحان میں ڈال رہا ہے۔ ان کی پیاس بڑھا کر انہیں چیک کر رہا ہے۔بچے! خدا نے جسے دنیا میں ذلیل و خوار کرنا ہوتا ہے، اس میں دولت کی ہوس ڈال دیتا ہے۔‘‘
اس نے ایک ذرا توقف کیا۔ نیاز الدین کو بغور دیکھا، پھر کہا، ’’ایسے بدقسمت لوگ بھی دنیا میں ہیں جن کی پیاس بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ وہ اپنے حصے کا پانی بھی پی جاتے ہیں اور ارد گرد والوں کے مشکیزے بھی چھین لیتے ہیں۔ اور ہاں! میرے بچے! یہ دھیان رکھ کہ جس کی پیاس نہیں بجھتی وہ پاگل کتے کی طرح پانی پی پی کر مر جاتا ہے۔ ‘‘
درویش کی باتیں نیاز الدین کے دماغ میں نہ صرف اترتی جاتی تھیں بلکہ ہمیشہ کیلئے گھر کررہی تھیں— اسے لگا کہ یہ سیٹھ حاکم اور اس کی بیوی بھی پاگل کتے ہیں۔ پانی پی پی کر مر جانے والے۔
نیاز الدین دنیا میں اپنے آپ کو تنہا سمجھنے لگا تھا۔ اُسے کوئی ہم مزاج نہیں ملا تھا۔ اس نے ارد گرد دیکھا۔ اُسے یکبارگی یوں محسوس ہوا جیسے معاشرے میں کوئی فرد بھی اس کا ہم مزاج نہیں تھا۔ یعنی وہ مکمل طور پر مس فِٹ تھا۔
اس کی بے چینی متواتر بڑھ رہی تھی۔ اکثر رات کو ایک ڈرائونا خواب اُسے آتا تھا۔ وہ خوابیدہ آنکھ سے دیکھتا تھا کہ انسانوں کا ہجوم ایک سایہ دار جگہ پر کھڑا ہے— سامنے خواہشوں کا تپتا ہوا لق و دق صحرا ہے— لوگ سایہ دار جگہ کو چھوڑ کر ننگے پائوں خواہشوں کے تپتے ہوئے ریگزار میں دوڑنا شروع کر دیتے ہیں— کچھ لوگ ہجوم کے پیروں تلے کچلے جاتے ہیں— چند لوگ تھک ہار کرو اپس آنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن راستے میں ان کے تڑپتے ہوئے جسموں سے روحیں نکل کر پرواز کر جاتی ہیں۔ ان کی بے گور و کفن لاشوں کو دوڑتے ہوئے لوگ روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ وہ خود آزردہ تماشائی بنا سایہ دار میں کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ یہ پرسکون جگہ چھوڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن کچھ لوگ اسے زبردستی صحرا کی طرف کھینچ لیتے ہیں اور وہ بادلِ نخواستہ اس آدم خور ریگزار میں دوڑنا شروع کر دیتا ہے۔ گرم ریت اس کے پیروں کو جلانے لگتی ہے اور پیاس حلق میں کانٹا چبھو دیتی ہے تو وہ چیخ مار کر آنکھیں کھول دیتا ہے۔
اس کی بلند و بالاچیخیں سن کر بارہا اس کی ماں ہڑبڑا کر بیدار ہوکر اُٹھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ شاید اس کے بیٹے پر جنات کا اثر ہو گیا ہے، اس لیے وہ اسے کئی مرتبہ تعویذ گنڈے والوں کے پاس لے کر گئی تھی۔ دو چار پہنچے ہوئوں سے دم بھی کروا دیکھا تھا۔ بیٹے کو پسینے سے شرابور دیکھ کر دل ہی دل میں افسردہ ہو جاتی کہ اسے اس مصیبت سے چھٹکارا دلانے میں وہ پھر ناکام رہی تھی۔
نیاز الدین بھی مسلسل دکھائی دینے والے اس خواب سے بے حد پریشان اور متفکر تھا۔ ایک دن وہ پوچھ تاچھ کرتا ہوا خوابوں کی تعبیر بتانے والے ایک عامل کے پاس پہنچ گیا۔
نیم روشن کمرے میں ایک دھان پان سا شخص براجمان تھا— اس کی نیم مردہ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ زردی مائل چہرہ اور بکھرے ہوئے بال اس کی زبوں حالی کی خبر دیتے تھے۔
خوابوں کی تعبیریں بتانے والی ایک کتاب اس کے سامنے کھلی ہوئی تھی جبکہ تعبیریں پوچھنے والے اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔
وہ اس خواب ناک ماحول کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
کچھ لوگ تعبیر سننے کے بعد ہنستے مسکراتے ہوئے رخصت ہو رہے تھے—کچھ استہزائیہ انداز میں اپنے خواب پر یا خواب بیان کرنے والے پر قہقہے لگاتے ہوئے باہر کی رواں دواں زندگی کی طرف لو ٹ رہے تھے—کچھ لوگ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھے تھے جن کے چہروں پر ان کے بیان کردہ خواب کی تعبیر کی تلخی اور خنکی ثبت تھی— ان لٹکے ہوئے چہروں سے گویا ان کے خواب بھی شاکی تھے۔
نیاز الدین اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ لائن میں لگے لگے وہ لوگوں کے روایتی، ناقابلِ یقیں اورعجیب نوع کے ملے جلے خوابوں سے لطف اندوز ہوتا ہوا آگے بڑھ ر ہا تھا۔ کچھ دیر میں اس کی باری آ گئی اور وہ کھسک کر اس زردی مائل چہرے والے عامل کے سامنے پہنچ گیا۔
اس نے قدرے دھیمے لہجے میں اپنا خواب بیان کیا۔ گویا وہ چاہتا تھا کہ اس کا خواب عامل کے علاوہ کوئی نہ سنے تاکہ وہ کسی کی نظروں میں تماشا نہ بنے— خدا جانے، کسی نے اس کا خواب سنا، یا نہیں سنا، وہ تماشا بنا، یا نہیں بنا، عامل نے بغور سن لیا۔
وہ کچھ دیر آنکھیں موندے کچھ سوچتا رہا۔ پھر مسکرا کر بولا، ’’بابا! خواہشوں اور دنیا سے دور بھاگنا چاہتے ہو لیکن ایک دن یہ زمانہ تمہیں ان کے پیچھے دھکیل دے گا۔‘‘
نیاز الدین خوفزدہ لہجے میں بولا، ’’میں خواہشوں کے پیچھے بھاگنے کی تھکاوٹ سے ڈرتا ہوں۔ تمہارے چہرے کی تھکاوٹ اور زردی ظاہر کرتی ہے کہ تم بھی تعبیریں پانے کیلئے بہت بھاگے ہو۔‘‘
اس نے زور دار قہقہہ لگایا۔ اس کی ہنسی میں چھپی ہوئی شکست خوردگی نیاز الدین پر یکبارگی عیاں ہوگئی۔ وہ کہہ رہا تھا، ’’نیاز الدین! تم ٹھیک پہچانے ہو۔ میں بھی تعبیروں اور خواہشوں کے پیچھے بہت بھاگا ہوں۔ ایک عمر بھاگا ہوں— میری خواہشیں پوری بھی ہوئی ہیں لیکن دو خواہشیں پوری ہوئی، چار نئی جان کا آزار بن گئیں۔ چار خواہشیں پوری ہوئیں، آٹھ بن گئیں۔ خواہش خواہش نہ ہوئی، گویا ستارہ ماہی ہو گئی— جتنے ٹکڑے کرو، اتنی ستارہ مچھلیاں تیار۔ جب میں تھک گیا تو آستانہ بنا کر بیٹھ گیا۔ اب میں خواہشوں کے پیچھے بھاگنے والوں کی بے بسی سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہوں۔‘‘
اس نے سگریٹ سلگا کر ایک لمبا کش حلق میں اُتارا اور توقف سے کہا، ’’خواہشیں اس سگریٹ کی طرح ہوتی ہیں۔پینے سے لطف ملتا ہے۔ سکون ملتا ہے مگر دہرا نقصان ہوتا ہے— نقصان کا علم ہوتا ہے مگر انسان اس کے مزے کی وجہ سے اسے چھوڑ بھی نہیں سکتا۔‘‘
نیاز الدین نے توجہ سے اس کی باتیں سنیں اور پھر گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
اپنے خواب کی تعبیر سننے کے بعد جب وہ گھر پہنچا تو بہت اداس تھا۔ والدہ نے کرید کرید کر اس کی اداسی اور بے چینی کا سبب دریافت کیا مگر وہ ٹال گیا۔ ماں سے کچھ چھپتا نہیں، اس سے بھی نیاز الدین کا حالِ دل مخفی نہیں رہا تھا مگر وہ بادلِ نخواستہ خاموش ہو گئی۔
ایسا نہیں تھا کہ نیاز الدین کا دل خواہشوں سے یکسر خالی تھا ، بلکہ چند چھوٹی چھوٹی معصوم سی خواہشیں اس کے اندر پروان چڑھتی رہتی تھیں اور گاہے گاہے اپنا حلیہ بدلتی رہتی تھیں۔ یہ خواہشیں فطرت کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ اس فطرت کے ساتھ جو انسان کو دوڑاتی نہیں، تھکاتی نہیں اور نہ ہی بے چین و مضطرب کرتی ہے، بلکہ سایہ بن کر اس کو تیز دھوپ سے بچاتی ہے۔ وہ ان مادی خواہشات کے فریب میں نہیں تھا جو انسان سے انسانیت چھین لیتی ہیں اور حیوانیت کے تند شعلوں میں لپیٹ دیتی ہیں۔
وہ ان مادی خواہشات سے کوسوں دور بھاگتا تھا جو انسان سے اس کی انسانیت کی خوبی چھین لیتی ہیں— جو رشتوں کی تمیز ختم کر کے نفرتوں کو جنم دیتی ہیں — جو انسان کو بھگا بھگا کر تھکا دیتی ہیں اور اٹل موت کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔
اس کی سب سے بڑی خواہش فطرت کی تلاش تھی۔ وہ پرندوں اور تتلیوں کے پیچھے بھاگتا تھا۔ پھول اور ہرے بھرے درخت اس کی کمزوری تھے۔ سورج ڈوبنے اور چاند کے اُبھرنے کا منظر اسے ہمیشہ سے پسند تھا۔ ایک دن سورج کے مستقر کی تلاش میں اس نے ڈوبتے سورج کے ساتھ ساتھ سفر کرنا شروع کر دیا۔ سورج اس کی دسترس میں تو نہ آیا لیکن وہ خود جنگل میں کھو گیا۔ بدقت تمام راستہ پا کر گھر پہنچنے میں کامیاب ہوا۔
نیاز الدین کا باپ اگرچہ محنت مزدوری کرتا تھا لیکن گھر میں کوئی تنگی نہ تھی۔ اس کے ماں اور باپ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ قناعت پسند واقع ہوئے تھے۔
نیاز الدین کی ماں اکثر اس کے والد سے کہا کرتی تھی، ’’اپنے آپ کو تھکانے کی ضرورت نہیں — عزت سے دو وقت کی روٹی مل رہی ہے، ہمارے لیے یہی بہت ہے۔‘‘
اس کا باپ اگرچہ قناعت پسند تھا، صابر و شاکر تھا لیکن اس کے دل میں کچھ خواہشیں گھر کیے بیٹھی تھیں— اس کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ کسی طرح اس کا کچا مکان پختہ ہو جائے۔ وہ اکثر اپنی بیوی سے کہتا تھا، ’’دعا کرو! کسی طرح یہ مکان پکا ہو جائے۔ ہر بارش میں چھتیں ٹپکتی رہتی ہیں۔‘‘
وہ کچے مکان کو پکا کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا کہ موت نے آ لیا۔ اس کا باپ یہ حسرت لیے دنیا سے رخصت ہو گیا۔
نیاز الدین نے اپنے باپ کی قبر پکی بنوائی اور اس پر کتبہ نصب کرایا۔ کتبے پر لکھا ہوا تھا، ’’پکے مکان کی حسرت لیے یہ شخص آخر پکے مکان میں پہنچ گیا۔‘‘
اس کی والدہ شوہر کی وفات کا صدمہ نہ سہہ سکی اور کچھ ہی عرصے بعد نیاز الدین کو دنیا میں اکیلا چھوڑ کر راہِ عدم سدھار گئی۔
وہ اب تنہا تھا— مکمل طور پر تنہا— غریب کا ویسے بھی دنیا میں نہ تو کوئی غم گسار ہوتا ہے، نہ رشتہ دار اور نہ ہی دوست۔
اس کا دل دنیا سے لاتعلق تھا، اب بیزار ہو گیا تھا— اکتا چکا تھا— وہ دنیا سے دور جانا چاہتا تھا۔ نفرتوں سے کامل فرار چاہتا تھا۔ سرِ دست عملی طور پر یہ فرار دسترس میں نہیں تھا جس کی وجہ سے اس کی داخلی بے چینی دم بہ دم بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
اس کی وحشتیں اسے ایک ولی اللہ کے دربار تک لے گئیں اور وہ آستانے کا مرید ہو گیا۔
اس نے سنا تھا کہ یہاں دنیا سے بیزار لوگ بسیرا کرتےہیں— فقیروں کا دنیا سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا— اس نے یہ بھی سنا تھا کہ ملنگ اپنی موج میں رہتے ہیں، کسی کی طرف نہ لالچ بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور نہ ہی کسی سے توقعات کی ڈوری باندھتے ہیں۔ سنی سنائیوں پر یقین کرتے ہوئے وہ ان فقیروں کا ہم سفر ہو گیا تھا—
کچھ دن یہاں گزارنے کے بعد اس کی سنی سنائی باتیں کمزور پڑنے لگیں— توقعات پر پانی پھرنے لگا۔ فقیر، فقیر نہیں تھے۔ دنیا سے بیزار ، بیزار نہیں تھے بلکہ دنیا کے طالب تھے۔ یہاں بھی اُسے فقیروں کا بھیس اوڑھے سارے دنیا دار نظر آئے جو اپنی اپنی خواہشوں کے ویسے ہی اسیر تھے جیسے عام دنیا والے۔
دربار کا متولی فقیری لباس پہن کر ہر وقت نذرانے اکٹھے کرنے کے چکر میں لگا رہتا تھا— اگر نذرانے کم اکٹھے ہوتے تو وہ مریدوں پر چڑھائی کر دیا کرتا تھا۔
’’حرام خور ہو تم۔ ہڈ حرام ہو — چور ہو تم— ہزاروں لوگ آج دربار پر آئے ہیں اور نذرانہ صرف چند ہزار روپے؟ دفع ہو جائو میری نظروں سے تم سب۔‘‘
فانی دنیا کا درس دینے والامتولی ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے مال و اسباب اکٹھا کر رہا تھا— اس منافقت کو کھلی آنکھوں دیکھ کر اس کا دل ٹوٹ گیا۔ ایمان متزلزل ہونے لگا۔
سبز چولے پہنے، گلے میں تسبیحیں ڈالے سبحان اللہ کا ورد کرنے والے فقیر متولی سے زیادہ دنیا دار تھے۔ لنگر کی تقسیم کے وقت ہرفقیر سبحان اللہ کا ورد بھول کر اپنے لیے اچھی روٹیاں اور بڑی بوٹیاں جھپٹنے کے چکر میں ہوتا تھا۔ ہر فقیر متولی کا قرب حاصل کرنے کے لیے دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے میں لگا رہتا تھا۔ غیبت کا رواج عام تھا۔ کچھ پرانے فقیر نذرانوں سے زیادہ حصہ بٹورنے کے چکر میں لگے رہتے تھے۔ دنیا سے دور رہنے کا مشورہ دینے والے خود چھوٹی چھوٹی رقمیں آنکھ بچا کر پار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔
وہ ترکِ دنیا کی طلب میں راہِ فرار حاصل کرنے کیلئے فقیر بنا تھا۔ مزار کو دنیاسے غیر متصل جگہ سمجھ کر پناہ گزیں ہوا تھا مگر یہاں بیٹھ کر اسے پتہ چلا کہ یہ مزار دنیا سے الگ نہیں، بلکہ دنیا کا ہی ایک تجارتی مرکز تھا،،۔ ایک بازار تھا— دنیا بھی عجیب شئے ہے۔ کوئی دنیا سے دور بھاگ رہا ہے۔ کوئی دنیا کے تعاقب میں سانسیں پھلا رہا ہے۔ ۔۔
انسان آگ کو روشنی سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگتا ہے اور پھر روشنی کے دھوکے میں آگ کو پکڑ لیتا ہے۔ جل جاتا ہے۔ وہ جلتا رہتا ہے لیکن آگ کو چھوڑنے پر مائل نہیں ہوتا۔
ہمیشہ دھوکہ کھانے والاانسان— اُس جلتے ہوئے انسان کے شعلوں کی لپٹوں کو روشنی سمجھ کر اس کے قریب آتا ہے۔ بدن سے بدن آگ پکڑ لیتا ہے۔ انسان سے انسان جلتا ہے۔ تیسرا انسان ملتف ہوتا ہے۔ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
زندگی کے فریب میں مبتلا ہو کر آخر کار ، یکے بعد دیگرے، سبھی جل مرتے ہیں۔
مزار کو چھوڑا تو یکبارگی بے سائبانی سے واسطہ پڑ گیا۔ نیاز الدین ایک بار پھر دنیا میں تنہا ہو گیا تھا۔ اس کے پڑوسی اور بچپن کے دوست اسے پاگل سمجھ کر اس سے کنی کترانے لگے تھے— کچھ اس کی طرف طنزیہ مسکراہٹ اچھال کر آگے بڑھ جاتے تھے اور کچھ اس کا مذاق اُڑا کر قہقہے لگانے لگتے تھے۔ کچھ پرانے ہمدرد اسے دنیا کا مفہوم سمجھانے کی کوشش کرتے، ’’دنیا کوشش کرنے اور آگے بڑھنے کا نام ہے۔‘‘
وہ مسکرا کر جواب دیتا، ’’پیچھے رہ جانے والوں اور آگے بڑھ جانے والوں کا انجام تو ایک ہی ہوتا ہے۔ آگے ضرور بڑھو لیکن آگے پیچھے، دائیں بائیں، ہر جانب دیکھ بھال کر بڑھو۔ تم کسی کو پائوں تلے کچلو گے تو تم سے آگے بڑھنے کے شوق میں کوئی تمہیں کچل کر رکھ دے گا۔‘‘
وہ لوگوں کے رویوں سے تنگ آ کر ایک بار پھر گھر چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا اور اس نے گھر سے دور ویرانے میں واقع ایک چھوٹی سی مسجد میں پناہ حاصل کی۔ یہ مسجد آبادی سے خاصی ہٹ کر ایک قبرستان میں بنی ہوئی تھی۔ قبرستان میں آنے جانے والے لوگ یہاں نماز پڑھا کرتے تھے۔
مسجد کا امام مولوی رمضان مسجد کے ساتھ بنے ہوئے چھوٹے سے حجرے میں قیام پذیر تھا۔ یہاں کی ویرانی اور خاموش ماحول دیکھ کر نیاز الدین نے عافیت بھری سانس لی۔ سوچنے لگا، ’’لگتا ہے کہ مجھے میری منزل مل گئی ہے۔‘‘
مولوی رمضان کی بیوی فوت ہو چکی تھی۔ بچے اپنی شادیوں کے بعد اپنے باپ کو بالکل بھول چکے تھے—وہ اپنے باپ سے کبھی رابطہ نہیں کرتے تھے۔ وہ نماز پڑھانے کے علاوہ آس پاس کی بستیوں میں دم درود اور گنڈے تعویذ کا کام بھی کرتا تھا جس سے اس کو اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔ جانوروں کے دودھ کو بڑھانے والاایک خاص تعویذ اس کے پاس تھا— دور دراز سے لوگ یہ تعویذ حاصل کرنے کیلئے آتے رہتے تھے۔
اس کا خرچ نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ تینوں وقت باقاعدگی سے اس کیلئے چند گھروں سے کھانا آتا تھا— رہائش مفت تھی جبکہ کپڑے جوتے بھی معتقدین وقتاً فوقتاً دیتے تھے۔
نیاز الدین یہاں بہت خوش تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی مولوی کے ساتھ بے تکلفی ہوتی گئی۔ ایک دن مولوی نے اسے کہا، ’’بس یہ قسمت کی بات ہے کہ اس ویرانے میں پھنس گیا ہوں— میری بڑی خواہش تھی کہ شہر کی بڑی مسجد میں امامت کراتا کیونکہ وہاں پیسہ بھی زیادہ ہے اور عزت شہرت بھی— یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
نیاز الدین کو اس کی آنکھوں میں حسرتوں اور نامکمل خواہشوں کی دیوانہ وار رقص کرتی ہوئی پرچھائیاں نظر آئیں۔
مولوی رمضان دور آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا، جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔
پھر بولا، ’’میں ابھی بھی کوشش کر رہا ہوں کہ مجھے کسی بڑی جامع مسجد میں جگہ مل جائے اور اس ویرانے سے میری جان چھوٹ جائے۔‘‘
نیاز الدین کے دل کو گھونسا لگا۔ سوچ میں پڑ گیا، ’’افسوس! یہ ویرانہ، قبرستان اور مسجد بھی اس مولوی کے دل سے دنیا کو نہیں نکال سکی۔ انسان بھی کتنی عجیب چیز ہے کہ ہر وقت غموں اور ہنگاموں کی تلاش میں رہتا ہے۔‘‘
مولوی نذرانوں اور تعویذ گنڈوں سے کافی پیسے اکٹھے کر رہا تھا۔
ایک دن نیاز الدین نے پوچھا، ’’مولوی صاحب! اتنے پیسوں کا کیا کرو گے؟ لوگ اپنے بال بچوں کیلئے مال و دولت جمع کرتے ہیں جبکہ تمہارے تو بچے بھی تمہیں مستقل طور پر چھوڑ چکے ہیں۔تم نے خود ہی بتایا تھا کہ وہ تمہاری خیر خبر تک لینے کے روادار نہیں ہیں۔‘‘
مولوی نے اس کی طرف دیکھ کر قدرے تفاخر سے کہا، ’’میں نے زمین لی ہوئی ہے۔ اس پر ایک بڑا سا ، عالی شان سا مکان بنانا چاہتا ہوں۔ ‘‘
مولوی بڑھاپے میں بھی جوان تر خواہشیں دل میں چھپائےبیٹھا تھا۔ اس نے گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا، ’’کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میرے اندر مجھ سے جدا اور الگ مزاج کا انسان بیٹھا ہوا ہے جو مجھے ویرانوں سے نکال کر ہنگاموں اور رنگینیوں کی طرف لے کر جانا چاہتا ہے۔‘‘اس نے اپنی بات پر زور دے کر کہا، ’’ہاں! ہر انسان کے اندر ایک اور انسان چھپا ہوتا ہے۔ یہ اندر اور باہر والے انسان ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتے ہیں۔ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔نیاز الدین! مجھے بھی اپنے اندر سے ایسی آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں۔ ‘‘
نیاز الدین کی مایوسیاں بڑھنے لگیں۔ ایک دن وہ مولوی کو سوتا ہوا چھوڑ کر اس مسجد کی ویرانی سے بھاگ نکلا اور دوبارہ اپنے کچے گھر میں پہنچ گیا۔
پرانے دوستوں نے پھر اُسے آن تھاما۔ سمجھایا۔ پھر انہی کا مشورہ مان کر اس نے شادی کر لی۔ اس نے گریجویشن کر رکھی تھی۔ تھوڑی کوشش سے اسے ایک دفتر میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ زندگی دوبارہ اپنی ڈگر پر چل نکلی تھی۔ ۔۔
اس کی زندگی گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ اپنے باپ کے بنائے ہوئے کچے گھر میں بدستور مقیم تھا۔
ایک دن وہ اپنے باپ کی قبر پر گیا تو قبر کے کتبے کو دیکھ کر اسے اپنے باپ کی دلی خواہش یاد آ گئی، ’’دعا کرو! اس کچے گھر کو میں پکا کر لوں۔‘‘
اس کی دھندلائی ہوئی آنکھوں میں باپ کا سراپا آن ٹھہرا۔
اس نے قبر پر کھڑے ہو کر عہد کیا کہ وہ اپنے باپ کی اس خواہش کو ضرور پورا کرے گا— لیکن تنخواہ میں تو گھر ہی مشکل سے چلتا تھا، گھر کیسے بن سکتا تھا؟
اس نے گھر پکا کرنے کی خواہش میں پہلی بار رشوت کا دروازہ کھولااور مایا دیوی کا استقبال کیا— پھر یہ دروازہ اس نے کبھی بند نہیں کیا۔ مایا دیوی درشن کراتی رہی، وہ درشن کرتا رہا اور ساتھ مالامال ہوتا رہا—
دفتر میں اور دفتر کے باہر اس نے ہر جگہ دیکھا کہ عزت صرف دولت اور طاقت کی ہے۔ گھر پکا ہوتے ہی اس کی عزت اور شہرت میں اضافہ ہو گیا۔ دولت کی طاقت نے اسے دنیا دار بناکر اپنے پیچھے چلا لیا تھا۔
دنیا سے دور بھاگنے والاآخر کار دنیا کے تعاقب میں بگٹٹ بھاگنے لگا تھا۔ ایسے میں اسے تعبیریں بتانے والے کی بات یاد آ گئی، ’’آخر کار دنیا تمہیں اپنی طرف کھینچ لے گی۔‘‘
اس کے لبوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ ابھری اور پھر چند لمحوں بعد تحلیل ہو گئی۔
اس نے زیادہ طاقت کے حصول کیلئے ہاتھ پائوں مارنے شروع کر دیے۔ اسے احساس ہوا کہ اس عہدے میں اتنی کمائی کی ہی گنجائش تھی، جتنی وہ حاصل کر رہا تھا— زیادہ دولت کے حصول کے لیے اسے بڑی گنجائش والے عہدے کی ضرورت تھی۔
اس نے مقابلے کے امتحان کی تیاری شروع کر دی۔ اس کی محنت رنگ لائی اور وہ اعلیٰ پوزیشن لے کر امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
پھر وہ ایک بڑی گنجائش والے اعلیٰ عہدے پر براجمان ہو گیا۔ طاقت حاصل ہوئی تو آس پاس خوشامدیوں کا ہجوم لگ گیا۔ ایک پرانے افسر نے اسے پہلے دن ہی کامیابی کا گر بتا دیا تھا،’’ اپنے سے بڑے افسر کی خوشامد کرو اور اپنے ماتحتوں کو دبا کر رکھو۔‘‘
طاقت اس کے بازئوں میں سمائی تو ایک ایک کر کے اخلاقی اصول و قواعد رخصت ہونے لگے— آخر کار دولت حاصل کرنے کے لیے اس نے تمام اخلاقیات ایک طرف سمیٹ دیں اور دونوں آستینیں سمیٹ کر دولت کے درپے ہو گیا۔
اس کی زندگی نے بہت کچھ دیکھنے کے بعد ہی پلٹا کھایا تھا۔ اس نے دیکھا تھا کہ دوسروں کو فانی دنیا کا درس دینے والے خود ہمیشہ زندہ رہنے کےلیے مال و دولت اکٹھی کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ آخرت اور ابدی زندگی کا درس دینے والے خود اپنے لیے اسی دنیا کو جنت بنانے کی تگ و دو میں مصروف تھے۔ روپ اور بہروپ کی حقیقتوں سے آشنا ہو کر وہ یہاں پہنچا تھا۔ اس نے اپنے گھر میں ایک تحریر لکھ کر لگوائی ہوئی تھی۔
’’دنیا میں اصل فلسفہ دولت اور طاقت کا ہے۔ باقی سارے فلسفے اس کے حصول کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں۔ ‘‘
نیاز الدین کی زندگی اب خواہشوں کی تشکیل و تکمیل میں صرف ہونے لگی تھی۔ دورانِ ملازمت اس نے بہت مال و دولت اکٹھی کر لی تھی— ایک محل نما کوٹھی میں وہ رہائش پذیر تھا۔ شہر میں کئی بڑے پلازے اور وسیع زرعی زمین اس کی ملکیت بن چکی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے ایک فیکٹری بھی قائم کر لی تھی جس میں اچھی خاصی تعداد میں مشینیں اور انسان کام کرتے تھے۔ لیکن— لیکن خواہشات تھیں کہ کہیں سستانے پر تیار نہیں تھیں۔ بگٹٹ دوڑتی چلی جا رہی تھیں اور — پھولی ہوئی سانسوں والانیاز الدین ان کے تعاقب میں تھا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی ہوس اور بڑھ گئی تھی۔
وہ اکثر اپنے دوستوں سے شکوہ کرتا تھا، ’’افسوس! میں زندگی میں زیادہ جائیداد نہیں بنا سکا۔ میرے ساتھ اسلم صاحب تھے، انہوں نے بیرونِ ملک جائیداد اور کاروبار سیٹ کر لیا ہے۔ مجیب بھی میرے ساتھ ریٹائر ہوا ہے۔ اس کا دبئی میں پلازہ ہے۔‘‘
اس کی بے چینیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔
ایک دن اس کو ایک عجیب و غریب رجسٹر ملا۔ رجسٹر پر ایک سفیدرنگ کی چٹ لگی ہوئی تھی جس پر لکھا تھا، ’’خواہشات کا رجسٹر— اس میں لکھی جانے والی ہر خواہش چوبیس گھنٹے میں پوری ہو جاتی ہے۔شرط یہ ہے کہ ہر خواہش دس ہزار روپے میں پوری ہونے والی ہو۔ اگر خواہش بڑی ہو تو اسے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے درج کیا جائے۔‘‘
اس کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ اُبھری، ’’بھلا اب خواہشیں بھی رجسٹروں میں لکھنے سے پوری ہونے لگی ہیں؟‘‘
اس نے رجسٹر کو مذا ق سمجھا مگر اس کے اندر مضبوط قدم جمائے بیٹھے لالچ نے اسے رجسٹر اُٹھانے پر مجبور کر دیا۔ اس نے گھر پہنچ کر رجسٹر کو آزمانے کا فیصلہ کر لیا— اس نے رجسٹر میں چند خواہشات لکھیں جو اگلے چوبیس گھنٹوں میں پوری ہو گئیں۔
اس کی آنکھوں میں حیرت آمیز خوشی چمک اٹھی— اس نے فرطِ جذبات سے رجسٹر کو چوم کر سینے سے لگا لیا۔ وہ دوست، رشتے دار حتیٰ کہ محل نما کوٹھی کے باہر کی دنیا سے بے نیاز ہو کر رجسٹر میں خواہشات لکھنے میں ہمہ تن مشغول ہو گیا۔ ۔۔
وہ سوچتا، ’’نہ جانے کب موت کا پروانہ آ جائے، مجھے جلد از جلد تمام خواہشات کو رجسٹر میں لکھ لینا چاہیے۔‘‘لیکن رجسٹر تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا— وہ جتنے صفحات لکھتا تھا، اتنے ہی صفحات کا اگلے دن رجسٹر میں اضافہ ہو جاتا تھا— خواہشیں بھی ختم ہونے کو نہیں آ رہی تھیں۔ جتنی پوری ہوتی تھیں، اتنی مزید دل کو آماجگاہ بنا لیتی تھیں—
اسے کھانا پینا بھول چکا تھا۔ نیند آنکھوں سے اُڑ گئی تھی۔وہ تھا، خواہشیں تھی اور رجسٹر تھا۔
پھر ایک دفعہ جب رات اپنا نصف سفر طے کر چکی تھی اور نیاز الدین پورے انہماک سے سر جھکائے رجسٹر میں خواہشوں کے اندراج میں مگن تھا، دروازے پر دستک ہوئی۔
وہ پریشان ہو گیا ، ’’اس وقت کون آ سکتا ہے یہاں؟‘‘
سوچنے لگا، ’’شاید رجسٹر کا کسی کو پتہ چل گیا ہے اور وہ اسے چوری کرنے آیا ہے۔‘‘
دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی۔ مجبوراً اس نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا تو سامنے ایک روشن ہیولاکھڑا تھا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘ وہ سہم کر مستفسر ہوا۔
’’موت کا فرشتہ!‘‘ ایک سرسراتی ہوئی آواز بلند ہوئی۔
نیاز الدین خوف سے تھر تھر کانپنے لگا ۔ اس کے ماتھے پر سردی کے باوجود پسینہ چمکنے لگا— وہ خوف سے ہکلاتے ہوئے بولا، ’’آدھی رات کو تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟‘‘
وہ مسکرا یا، ’’اپنا کام! ہم تو اللہ کے حکم سے آتے ہیں اور موت نہ دن دیکھتی ہے، نہ رات۔‘‘
نیاز الدین بولا، ’’خواہشات کا رجسٹر ابھی کافی خالی پڑا ہے۔ اگر ہو سکے تو مجھے کچھ مہلت دے دو۔‘‘
فرشتہ بولا، ’’دنیا میں ہر چیز کا کنارہ ہے۔ دریا، سمندر، حتیٰ کہ آسمان کا بھی کنارہ ہے مگر خواہشات کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔‘‘پھر اس نے آسمان کی طرف دیکھا ، جیسے آسمان کی لامحدود وسعتوں کا احاطہ کر رہا ہو، پھر گویا ہوا، ’’کائنات میں چاند، ستاروں کے لیے راستے محدود ہیں لیکن قدرت نے خواہشوں کو بے لگام چھوڑ رکھا ہے۔ میں تمہیں ایک ہزار سال کی مہلت بھی دے دوں تب بھی یہ رجسٹر مکمل نہیں ہو سکے گا بلکہ تمہارے آنے والی دس نسلیں بھی اسے پورا نہیں کر پائیں گی۔ اور تم کیا سمجھتے ہو کہ تم سے پہلے یہ رجسٹر کسی کو نہیں ملا تھا؟ نہیں اے بشر! یہ ہر انسانی ہاتھ سے لکھا جاتا رہا ہے۔‘‘
نیاز الدین کا حلق سوکھ چکا تھا۔ عاجز ی سے کانپتی ہوئی آواز میں بولا، ’’میں خواہشات کے چکر میں نیک اعمال کو بالکل بھول گیا تھا۔ میرے اعمال کا خانہ شاید مکمل طور پر خالی پڑا ہو۔ مجھے اپنے اعمال ٹھیک کرنے کیلئےکچھ مہلت دے دو—‘‘
خوف سے اس کا چہرہ زرد ہو چکا تھا، تمام بدن تھر تھر کانپ رہا تھا، آواز بھی— بولا، ’’اس تاریک رات اور سرسراتی ہوئی ہوا نے میرے اندر موت کا خوف بہت بڑھا دیا ہے۔ تم دن کے اجالے میں آ جانا۔‘‘
فرشتہ بولا، ’’موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ یہ اس طوفان کی طرح ہے جو نہ بادشاہ کا محل دیکھتی ہے اور نہ ہی فقیر کی جھونپڑی۔ موت بے حس ہے— یہ نہ ماں کی چیخ و پکار کو خاطر میں لاتی ہے، نہ بچے کی بے بسی اور نہ باپ کی ٹوٹتی کمر—‘‘
نیاز الدین کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ وہ توبہ کرنے کیلئے مہلت مانگنا چاہتا تھا مگر حلق سوکھ کر کانٹا ہو چکا تھا۔ آواز ساتھ چھوڑ چکی تھی۔ وہ چکرا کر فرش پر گر گیا۔ چاروں شانے چت ہو گیا۔
فرشتے نے آگے بڑھ کر اس کی روح قبض کی اور پھر اس کی بے نور آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ ایک بے عنوان سی مسکراہٹ فرشتے کے لبوں پر ایک ساعت کو ابھری، پھر اس کے وجود کے ساتھ ہی تحلیل ہو گئی—
نیاز الدین کی بے نور اَدھ کھلی آنکھوں میں ابھی بھی ہزاروں خواہشیں لکھی ہوئی تھیں!