کبیر والی چند گھروں پر مشتمل ایک گائوں تھا۔ گائوں کے چاروں طرف سرسبز لہلہاتے کھیت واقع تھے جبکہ آبادی اندر کی طرف تھی۔
گائوں کا داخلی راستہ اگرچہ کچا تھا لیکن پہلی دفعہ اس میں داخل ہونے والاآس پاس کے لہلہاتے کھیت دیکھ کر یہی اندازہ لگاتا تھا کہ گائوں میں بہت خوش حالی ہے۔ گائوں کی زمین بہت زرخیز تھی۔ گائوں کے گنے اور اس سے تیار کردہ گڑ کی شہرت دور دراز تک پھیلی ہوئی تھی— جابجا آم اور مالٹے کے باغات بھی لگے ہوئے تھے۔
جب بھی کوئی نیا مسافر گائوں میں آتا تو ارد گرد کی ہریالی دیکھ کر گائوں والوں کی قسمت پر بے اختیار رشک کرتا تھا۔ لیکن جوں جوں وہ اندر آبادی والے حصے کی طرف بڑھتاتو غربت کے بتدریج بڑھتے ہوئے آثار دیکھ کر حیران و پریشان ہو جاتا تھا۔
میلے کچیلے اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے بچے جابجا کھیلتے نظر آتے۔ ننگ دھڑنگ بچوں کی نکلی ہوئی ہڈیاں اور بہتی ہوئی ناک گائوں میں رہنے والوں کی غربت کو آشکار کرتی تھی۔ کسی درخت کے نیچے کوئی مفلوک الحال بڈھ حقہ پیتا دکھائی دیتا تو کوئی بری طرح کھانستا ہوا نظر آتا۔
گائوں کی بے ترتیب گلیوں، کچے اور بوسیدہ مکانوں کی ہر چوکھٹ سے غربت جھانکتی تھی۔ اکثر گھروں کے دروازے ٹوٹے ہوئے تھے جن کی ٹین ڈبوں سے مرمت کی گئی تھی— ویسے بھی گھروں کے اندر تھا ہی کیا، جس کی حفاظت کے لیے دروازوں کی ضرورت ہوتی۔
اکثر گلیاں گھروں سے نکلنے والی غلاظت سے بھری رہتی تھیں جن میں بچے کھیل کر خوش ہوتے تھے۔ گھروں کے مکین تو عادی ہو چکے تھے لیکن باہر سے آنے والے تعفن کو محسوس کرتے تھے۔ سرخی بہت ہی کم چہروں پر دکھائی دیتی تھی۔ اکثر لوگوں کے چہرے پیلے زرد تھے جیسے زندگی کی رمق سے خالی ہوں۔
یہاں کی عورتیں بھی بہت محنتی تھیں۔ اکثر بوسیدہ دوپٹے پہنے کھیتوں میں کام کرتی دکھائی دیتی تھیں۔
یہ بھی نہیں تھا کہ گائوں میں صرف غربت تھی، ایک طرف کچے اور بوسیدہ مکانات غربت کی نمائندگی کررہے تھے تو دوسری طرف بلند و بالامحل نما مکانات امارت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ یہ غربت اور امارت کی وہ لکیر تھی جو انسان نے خود کھینچی تھی۔ یہ لکیر دنیا میں ہر کہیں دکھائی دیتی ہے لیکن اس گائوں میں تو اس کی ستم گری دیکھنے کے لائق تھی۔
جہاں بستی کا کچا راستہ ختم ہوتا تھا، وہیں ایک خوبصورت پکی سڑک شروع ہو جاتی تھی۔ اس سڑک کے آس پاس ترتیب سے ٹاہلی اور سفیدے کے درخت لگے ہوئے تھے۔ کچھ درختوں پر خوب صورت بیلیں بھی چڑھی ہوئی تھیں۔
یہ پکی سڑک گائوں کے بلاشرکت غیرے مالک سیٹھ مجدد کے گھر کی طرف جاتی تھی۔ یہاں سیٹھ مجدد اور اس کے خاندان کے خوبصورت محل نما مکانات تعمیر شدہ تھے۔ سب سے اونچا مکان سیٹھ مجدد کا تھا جو گائوں میں دور سے ہی نظر آتا تھا۔ اس گائوں کی ساری زمینیں سیٹھ اور اس کے خاندان کی ملکیت تھیں۔
سیٹھ مجدد کا خاندان تین نسلوں سے اس گائوں کا مالک چلا آ رہا تھا۔ سیٹھ کا والد بھی بڑا جابر جاگیردار واقع ہوا تھا۔
وہ اکثر اپنے بیٹوں سے کہا کرتا تھا، ’’غریب محبت کی زبان سے ناواقف ہوتا ہے۔ وہ اس زبان کو نہ تو سمجھتا ہے نہ اس سے قابو میں آتا ہے۔ سرداری قائم رکھنے کے لیے اور غریبوں سے کام لینے کے لیے جبر بہت ضروری ہے۔‘‘
اپنے باپ کی وفات کے بعد وہ خاندان کا سربراہ بنا۔ اس نے اپنے باپ سے بھی زیادہ ترقی کی۔ اس نے شہر میں کئی فیکٹریاں لگا لی تھیں۔ ان فیکٹریوں کی وجہ سے اس کے نام کے ساتھ ’’سیٹھ‘‘ کا لفظ چپک گیا تھا۔
سیٹھ مجدد اپنے محل نما مکان میں بیوی اور دو بیٹوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے محل کا داخلی دروازہ بہت بڑا تھا جس کے دونوں طرف بڑے بڑے برج بنے ہوئے تھے۔ ان برجوں پر ہر وقت محافظ بیٹھے رہتے تھے۔ وہ گائوں میں جب جلوس کی شکل میں نکلتا تو لوگوں پر ہیبت طاری ہو جاتی تھی۔
گائوں کے سبھی لوگ ہی اس کے مزارعے تھے۔ لوگوں کے کچے مکانات سیٹھ مجدد کی زمین پر بنے ہوئے تھے۔ وہ نہ صرف انہیں کسی بھی وقت اپنی زمین سے جواب دے سکتا تھا بلکہ اپنی زمین پر بنے ہوئے کچے گھروں سے نکال بھی سکتا تھا۔
سیٹھ بہت ہی عیاش بندہ تھا۔ اکثر خدمت کے نام پر غریب مزارعوں کی لڑکیوں کو طلب کر لیا کرتا تھا۔ کسی میں یہ جرات نہ تھی کہ اسے انکار کر دیتا۔
گائوں پر سیٹھ مجدد کی بلاشرکت غیرے حکومت قائم تھی اور اسے چیلنج کرنے والاکوئی نہیں تھا۔ سوائے ’’غریب نواز‘‘ کے جو گائوں کا ایک عجیب و غریب کردار تھا۔
گائوں میں غریب نواز کا والد وہ واحد شخص تھا جس کی سیٹھ کے علاوہ گائوں میں تھوڑی سی زمین تھی۔ اس وجہ سے وہ سر اٹھا کر چلتا تھا اور یہ بات سیٹھ مجدد کو بالکل پسند نہیں تھی۔
گائوں میں کوئی سکول نہیں تھا۔اس لیے اس نے اپنے بیٹے غریب نواز کو تعلیم کے حصول کے لیے شہر بھیج دیا تھا۔ اس کے اس عمل پر بھی سیٹھ بہت برہم ہوا تھا۔ اس نے غریب نواز کے والد سے کئی بار زمین ہتھیانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔
ایک دن سیٹھ نے غریب نواز کے والد کی زمین پر قبضہ کر کے اسے غائب کر دیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسے زمین کھا گئی تھی یا آسمان نگل گیا تھا۔ اس ناگہانی آفت کے نتیجے میں ناچار غریب نواز گائوں آ گیا۔ اب اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
چونکہ وہ شہر سے پڑھ کر آیا تھا، اس لیے عجیب و غریب اور فلسفیانہ باتیں کرتا تھا جس کی گائوں کے عام لوگوں کو سرے سے سمجھ نہیں آتی تھی۔ اس وجہ سے لوگوں نے اسے پاگل کہنا شروع کر دیا تھا۔
گائوں میں سیٹھ کے خاص مصاحبین کے علاوہ کسی کی عزت نہیں تھی۔ سب مزارعے غلاموں کی سی زندگی گزارتے تھے۔
سیٹھ کے مصاحبین میں سب سے اہم ’’مولوی ابراہیم‘‘ تھا جو گائوں کی اکلوتی مسجد کا امام تھا۔ یہ منکر نکیر کا کام بھی سرانجام دیا کرتا تھا۔ مسجد کے ساتھ ہی سیٹھ نے اسے اچھا سا گھر بنا کر دیا ہوا تھا جس میں وہ ٹھاٹ باٹ سے رہتا تھا۔ اس کا تین وقت کا کھانا سیٹھ کے گھر سے آیا کرتا تھا۔
وہ گائوں میں دم درود اور تعویذ کا کام بھی کرتا تھا۔ وہ غریب مزارعوں کو روزی میں برکت کے تعویذ لکھ کر دیا کرتا تھا جس سے غریب لوگوں کی روزی میں تو خیر کیا اضافہ ہونا تھا، اس کی اپنی روزی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
سیٹھ اگرچہ رنگین مزاج شخص تھا، لیکن لوگوں کے سامنے بڑا مذہبی بن کر رہا کرتا تھا۔ اس نے چھوٹی چھوٹی داڑھی بھی رکھی ہوئی تھی۔ دکھاوے کے لیے چندہ اور خیرات بھی دیتا رہتا تھا۔ وہ میلاد اور ذکر کی محفلیں بھی منعقد کراتا رہتا تھا۔ اکثر اپنے گھر پر ختمِ قرآن شریف اور لنگر کا اہتمام بھی کرتا تھا جس میں مولوی ابراہیم پیش پیش ہوا کرتا تھا۔
سیٹھ مجدد سیاست میں حصہ لیتا تھا۔ اس لیے اپنا کردار بہتر ظاہر کرنے کے لیے مولوی ابراہیم کو استعمال کرتا تھا۔
گائوں میں ہونے والے ہر قل، جنازے وغیرہ میں وہ سیٹھ کی نیکیوں اور پرہیز گاریوں کے قصے سنایا کرتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا، ’’میں نے بہت کم دیکھا ہے کہ سیٹھ صاحب نے تہجد کی نماز چھوڑی ہو۔ چوری چھپے نہ جانے وہ کتنے یتیموں اور بیوائوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
وہ گائوں میں ہونے والے پروگراموں میں بڑے رقت آمیز انداز میں سیٹھ کی درازیءِ عمر کی دعا کرتا تھا، ’’اللہ تعالیٰ سیٹھ صاحب کو لمبی عمر عطا کرے اور ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔‘‘
گائوں کے لوگوں کی زندگی میں محنت اور مشقت کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ وہ کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں عمر بھر گھومتے رہتے تھے۔ ان کی زندگی میں تفریح نام کی بھی کوئی شئے نہیں تھی۔ ان کی سب سے بڑی تفریح شام کو مسجد میں مولانا ابراہیم کی نصیحت بھری باتین سننا تھا۔
گائوں میں کوئی سکول تھا نہ گائوں والوں نے کہیں سے تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ ان غریبوں کے تمام تر علم کا انحصار مولوی ابراہیم کی دانش بھری گفتگو پر ہی تھا۔ اس کی باتوں اور تعویذوں سے غریبوں کی مشکلات تو کم نہیں ہوئی تھیں البتہ ان کے دل کی تسلی ضرور ہو جایا کرتی تھی۔
مولوی ابراہیم لوگوں کو خاص طور پر صبر کرنے کی تلقین کرتا تھا اور صبر کے فضائل بیان کرتا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ مولوی کا خود صبر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کھانے کے لیے ہمیشہ بے صبری کا مظاہرہ کیا کرتا تھا۔ اس کا بڑھا ہوا پیٹ اس کی بے صبری اور خوش خوراکی کی علامت تھا۔ کھانے کیلئے تو اس پر ’’پلٹنا، جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا‘‘ والی مثال صادق آتی تھی۔
آج تک مولوی کے ارشادات پر کسی نے سوال نہیں اٹھایا تھا سوائے غریب نواز کے— جو اکثر مولوی کے ارشادات پر سوالیہ نشان ڈالتا رہتا تھا۔
مولوی ابراہیم غریب نواز کی ایسی باتوں پر سخت طیش میں آ جایا کرتا تھا۔ وہ کئی مرتبہ اس پر فتوے لگا چکا تھا اور سیٹھ مجدد سے بھی اس کی شکایت کر چکا تھا۔ سیٹھ مجدد بھی اپنے کارندوں کے ذریعے کسی نہ کسی بہانے سے کئی بار اس کی پھینٹی لگوا چکا تھا لیکن غریب نواز تھا کہ ٹس سے مس ہونے کا نام تک نہیں لیتا تھا۔
ایک دن مولوی ابراہیم لوگوں کے بھوک کے بارے میں بتا رہا تھا، ’’یہ بھوک بھی خدا نے خود پیدا کی ہے۔ یہ خدا کی مصلحت ہے کہ کسی کو بھوکا رکھے اور کسی کو پیٹ بھر کر دے۔‘‘
اس کے بعد وہ بزرگوں کے قصے سنانے لگا کہ کیسے بھوک مٹانے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے۔ لوگ اس کی باتوں پر سبحان اللہ کے نعرے لگا رہے تھے۔ غریب نواز بھی اس محفل میں موجود تھا۔
وہ مولوی کی باتیں سن کر مسکرایا اور بلند آواز میں بولا، ’’مولانا! آپ نے بھوک کی فضیلت بہت اچھی طرح بیان کی ہے لیکن میں نے آپ کو اس فضیلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
مولوی ابراہیم اس کی بات سن کر آگ بگولہ ہو گیا، ’’کافر ہو تم! بھٹکا رہے ہو لوگوں کو—‘‘
غریب نواز اس کے فتوے کو نظر انداز کر کے بولا، ’’تم لوگوں کو بھٹکا رہے ہو مولانا! کیوں جھوٹ بولتے رہتے ہو کہ غربت خدا نے پیدا کی ہے۔ اس گائوں میں تو غربت سیٹھ مجدد نے پیدا کی ہے۔ وہ گائوں کی ہر چیز پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ تم اس کا ساتھ دے رہے ہو۔ اپنا اور سیٹھ کا پیٹ بھرنے کیلئے اور گائوں کے سب لوگوں کو بھوک پر خوش رکھنے کیلئے جھوٹے سچے فلسفے گھڑتے رہتے ہو۔‘‘
اب معاملہ مولوی کی برداشت سے یکسر باہر ہو گیا تھا۔ اس نے چند لوگوں کی مدد سے غریب نواز کو دھکے دے کر مسجد سے نکال دیا۔
غریب نواز بڑبڑاتا ہوا چل دیا، ’’تم خدا کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہو۔ لوگوں کو خدا کے گھر سے نکالتے ہو۔‘‘
پہلے تو گائوں کے لوگ غریب نواز کے ساتھ اچھی طرح پیش آیا کرتے تھے، لیکن جب سے مولوی ابراہیم اور سیٹھ مجدد نے اس پر کفر کے فتوے لگائے تھے، تب سے لوگ اس سے شدید بدظن ہو گئے تھے۔ مڈبھیڑ ہونے پر کنی کترا کر نکل جایا کرتے تھے۔
سیٹھ مجدد ہر سال گائوں میں ایک عظیم الشان محفلِ میلاد منعقد کراتا تھا جس میں دور دراز سے علماء، ذاکرین اور نعت خواں تشریف لاتے تھے۔ یہ روایت سیٹھ کے والد کے دور سے تسلسل کے ساتھ چلی آ رہی تھی۔ سیٹھ مجدد نے اپنے باپ کی قائم کردہ اس روایت کو اسی تسلسل کے ساتھ قائم رکھا ہوا تھا۔ اس محفل کے انعقاد کی تمام تر ذمہ داریاں مولوی ابراہیم کے کندھوں پر ڈالی جاتی تھیں۔
اس دفعہ کی محفل میں تو لوگوں کا جم غفیر امڈ آیا تھا۔ پہلے نعت خوانوں نے خوب سماں باندھا۔ لوگ کیف و سرور اور جذب کی حالت میں مستغرق تھے۔ کچھ لوگوں کی تو آنکھوں میں آنسو جگمگا رہے تھے۔ حسبِ سابق آخر میں مولوی ابراہیم نے خطاب کیا۔
آج مولوی ابراہیم بھی خوب لہر میں تھا اور نیا بیان تیار کر لایا تھا۔ اس نے آج فلسفہ وحدت الوجود پر لمبا چوڑا بیان سنایا۔ خدا کی وحدانیت اس طرح بیان کی لوگ عش عش کر اٹھے۔ ہر طرف رقت انگیز مناظر تھے۔
پھر اس نے نیکی اور بدی کے فلسفے پر روشنی ڈالی اور برے لوگوں کو ان کے عبرت ناک انجام سے خبردار کیا۔ اکثر گناہ گاروں کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے۔ سیٹھ مجدد کی تو داڑھی آنسوئوں سے تر ہو گئی تھی۔ آخر میں مولوی ابراہیم نے ابدیت کا فلسفہ بیان کیا۔ جنت کی اس طرح منظر کشی کی کہ لوگ فرطِ شوق سے یکبارگی جنت کے مقدس اور دل آویز نظاروں میں کھو گئے—
سارے حاضرین مولوی کی باتوں پر سر دھن رہے تھے لیکن غریب نواز عقبی صف میں گم سم بیٹھا ہوا تھا۔ اسے مولوی ابراہیم کے وعظ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کے گھر میں کئی دنوں سے فاقے تھے — وہ خیرات کے لالچ میں یہاں تک چلا آیا تھا۔
اچانک وہ کھڑا ہو گیا اور اس نے مولوی ابراہیم کو مخاطب کر کے بلند آواز میں کہا، ’’مولانا! پہلے تو میں آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے اتنے مشکل اور خوب صورت فلسفے اس فصاحت سے بیان کیے کہ ہر کسی کی سمجھ میں آگئے۔ اسی طرح براہِ مہربانی ذرا فلسفہءِ تقسیم پر بھی روشنی ڈال دیں تاکہ ہمیں اس فلسفے کی بھی سمجھ آ جائے۔‘‘
مولوی ابراہیم نے پہلے تو اسے تیز نظروں سے گھورا پھر بولا، ’’تم نے بہت اچھا سوال کیا ہے۔ خدا کو رنگ، نسل، مذہب اور کسی بھی بنیاد پر تقسیم ناپسند ہے اور اسے ہی فلسفہ ءِ تقسیم کہا جاتا ہے۔‘‘
عیاں تھا کہ اس نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی تھی مگر غریب نواز کا بلند قہقہہ مسجد میں گونج اٹھا۔ اس نے کہا، ’’مولانا! یہ امیروں کا فلسفہءِ تقسیم ہے، غریبوں اور بھوکوں کا فلسفہءِ تقسیم الگ ہوتا ہے۔ ہمیں اس فلسفے سے غرض ہے۔‘‘
مولوی ابراہیم کے ماتھے پر شکنوں کا جال پڑ گیا۔ وہ قدرے درشتی سے بولا، ’’پھر تم بتائو، فلسفہ ءِ تقسیم کیا ہوتا ہے؟‘‘
غریب نواز نے اسٹیج پر بیٹھے ہوئے مقررین اور حاضرین پر ایک نگاہ ڈالی، سب کے چہروں پر اس کے لیے نفرت اور استہزا عیاں تھا — یہ سب اسے کافر سمجھتے تھے، دیوانہ اور فاتر العقل خیال کرتے تھے— وہ بولا، ’’مولانا! فلسفہءِ تقسیم سے میری مراد ہے— آپ اور سیٹھ مجدد نے اندھا دھند دولت جمع کر رکھی ہے۔ عنقریب آپ دونوں کو زیادہ کھانے کے سبب بدہضمی ہونے والی ہے۔ بہتر ہے کہ کچھ مال و اسباب ان غریبوں میں بانٹ دیا جائے تاکہ نہ اپ بدہضمی کے مارے مریں اور نہ یہ بھوک کے سبب مریں۔‘‘
یہ بات سنتے ہی تمام حاضرین پر خوف آلود سناٹا طاری ہو گیا۔ یوں لگا جیسے کوئی قہرِ الٰہی نازل ہونے کو ہے۔ مولوی ابراہیم اور سیٹھ مجدد کے چہروں پر غصہ کے واضح آثار ثبت تھے۔
سیٹھ نے مولوی کے کان میں کچھ کہا۔ مولوی نے کچھ سوچا پھر بولا، ’’یہ ساری تقسیم خدا کی طرف سے ہے۔ کوئی امیر ہے، کوئی غریب— کوئی طاقت ور ہے تو کوئی کمزور— تم کون ہوتے ہو خدا کی تقسیم کی مخالفت کرنے والے؟ تم کافر ہو— مرتد ہو— تمہارا قصور بہت بڑا ہے— ناقابل ِ معافی ہے— تمہیں زمین پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
مولوی ابراہیم کے منہ سے یہ نکلنا تھا کہ ہرطرف سے ’’کافر کافر‘‘ کی صدائیں ابھرنے لگیں۔ مجمع دیکھتے ہی دیکھتے بپھر گیا۔
لوگوں نے اسے مارنے پیٹنے کی کوشش کی—
کچھ نے پتھر مارے تو کچھ نے گالیوں تک اکتفا کیا۔
ایک غریب جولاہا جب اسے بڑا سا پتھر مارنے لگا تو غریب نواز نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا اور کہا، ’’بھائی! تم مجھے کیوں پتھر مار رہے ہو؟ میں نے سیٹھ کی دولت کی تقسیم کی بات کی ہے، تمہاری نہیں۔ سیٹھ کی دولت اگر تقسیم ہو گی تو تمہیں بھی فائدہ ہو گا۔‘‘
یہ بات سن کر جولاہے کا غصہ اور تیز ہو گیا۔ وہ چلا کر بولا، ’’نکل جائو یہاں سے— تم کافر ہو، کافر ہو اور آج میرے ہی ہاتھوں قتل ہو جائو گے۔‘‘
غریب نواز نے لوگوں کی آنکھوں میں اُترا ہوا خون دیکھ لیا تھا اس لیے اس نے عافیت اسی میں جانی کہ وہاں سے نکل جائے۔ وہ مجمع کے پتھروں سے بچتا بچاتا فصلوں کی طرف نکل کر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔
کچھ دن بعد غریب نواز کی لاش سڑک کنارے پڑی تھی۔ اس کا بدن کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا تھا ۔اس کی ٹکڑوں میں تقسیم شدہ لاش فلسفہءِ تقسیم کی عملی تفسیر پیش کر رہی تھی۔ اس کے مقتول جسم اور چہرے پر بھوک کی ظالم پرچھائیاں نقش تھیں۔
اس کی کھلی آنکھوں سے جھانکتی ہوئی اتھاہ غربت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی، ’’میں کافر نہیں ہوں۔ میں بھوکا ہوں۔ میں بھوکا ہوں۔ مجھے دو وقت کی روٹی لا دو۔ مجھے فلسفہءِ تقسیم سے بھی کوئی تغرض نہیں، مجھے دو وقت کی روٹی لادو—‘‘
کافر کی لاش کے ٹکڑے اٹھانے کے لیے چند مسلمان ہاتھ آگے بڑھے اور سوال کرتی آنکھوں کو زمین برد کر آئے۔