فون پر فرحان کی آواز سن کر میں چونک گیا۔ ابھی پچھلے ماہ وہ گیا تھا۔
تم آگئے کیوں ؟ کیا عاشی کے بغیر رہنا مشکل تھا۔
’’نہیں یار ایسی بات نہیں ہے۔ شام میں تم ملو تو بتاؤں گا‘‘۔
تم ہی اِدھر جاؤ اور دوستوں سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔ اس کا نیا گھر یہاں سے کافی دور تھا … شام وہ گھر آگیا۔
’’کیوں واپس آگئے تم…؟‘‘
’’وہ انڈر ورلڈ والے پیچھے پڑ گئے تھے۔ تم تو جانتے ہو وہ لوگ کتنے خطرناک ہوتے ہیں‘‘۔
’’لیکن انڈر ورلڈ والوں سے تمھارا کیا تعلق؟‘‘
جس کمپنی میں کام کرتا ہوں وہ سارے ایک ہی علاقے کے ملازم ہیں۔ انھیں میری موجودگی کھل رہی تھی۔ ممکن ہے اُنھوں نے ایسا کیا ہو‘‘۔
’’بات ہضم نہیں ہوئی‘‘
’’تمھارا ہاضمہ خراب ہے میرا علم بھی یہی کہتا ہے کہ وہاں رُکنا خطرناک ہے‘‘
’’علم؟‘‘
’’ہاں تم تو جانتے ہی ہو …‘‘
تو بات یہاں تک پہنچ گئی تھی۔ پچھلی بار جب وہ آیا تھا تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے اندر ایک روحانی طاقت محسوس کررہا ہے۔ ایسی طاقت جو آنے والے واقعات کی پیش گوئی کرسکتی ہے۔ وہ کسی بھی عورت کو اپنے علم کے زور پر بستر پر بلا سکتا ہے اور جنسی تعلقات قائم کرسکتا ہے۔ میں نے اسے ڈانٹا تھا کہ وہ بلو فلمیں دیکھنا چھوڑ دے اور جلد شادی کرلے۔ پتہ نہیں گھر والوں کا اصرار تھا یا وہ پہلے سے پروگرام بناکر آیا تھا یا میرا مشورہ اس نے قبول کرلیا تھا۔ اس نے عاشی سے شادی کرلی۔ انجینئر تھا۔ ہاتھ پیر صورت شکل کا اچھا خاصہ تھا۔ مذہبی خیالات تھے۔ بیرونی ملازمت تھی۔ نئے شہر میں بہت بڑا مکان بنوالیا تھا۔ عاشی جیسی خوب صورت لڑکی کا ملنا کوئی عجب بات نہیں تھی۔ شادی کے بعد وہ صالح نوجوانوں کی طرح اپنی بیوی کے ساتھ کمرے میں بند ہوگیا۔ چوبیس گھنٹوں میں بہت کم باہر نکلتا ، صرف مجھے ملنے کی اجازت تھی۔ باقی دوست تو ناراض ہوگئے تھے … اب وہ ایک مہینے میں واپس آگیا تو میں نے سوچا عاشی کے عشق میں چلا آیا ہوگا۔ لیکن یہ انڈر ورلڈ ؟ اس بار اس نے عاشی کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارا۔ وہ مختلف دوستوں اور رشتہ داروں سے ملتا رہا۔ کسی کی موت کی پیش گوئی کردی۔ کسی کو لو میریج کے مضر اثرات پر لکچر دے دیا۔ کبھی دعوتوں پر بے جا اصراف پر تقریر ہوتی۔ کبھی مسلمانوں کی پستی اور انتشار کے اسباب بیان کرنے لگتا۔ اکثر اپنے بھائی سے اُلجھا رہتا کہ اس نے مکان کی تعمیر ٹھیک سے نہیں کروائی۔ باتھ روم کے ٹائلز ٹھیک نہیں ہیں۔ لوگ اس سے کترانے لگے۔
ایک روز آنٹی کا فون آیا کہ فرحان اچانک بے ہوش ہوگیا ہے۔ اسے دواخانہ لے جارہے ہیں۔ میں نے دواخانے کا نام پوچھا اور سیدھے دواخانہ پہنچ گیا۔ کچھ ٹسٹ لئے گئے تھے۔ کچھ دواؤں اور انجکشنوں کے بعد وہ ہوش میں آگیا۔ اس کی آنکھیں سرخ انگارہ جیسی تھیں۔ ہفتہ بھر دواخانے میں رہ کر بے تکی باتیں بھی چھوڑ دی تھیں … عاشی اس کی جی جان سے خدمت کررہی تھی۔ ایک رات جب وہ عاشی کے ساتھ تنہا تھا اس نے آدھی رات کو اچانک چلاّنا شروع کردیا۔ گھر کے سارے لوگ گھبرا کے اُٹھے۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ وہ اس عورت کے ساتھ نہیں رہ سکتا .....
اس کی ماں نے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے۔
اس نے جواب دیا جیسے ہی اس کی آنکھ لگی کمرے میں کوئی آیا اور اس کی بیوی کے ساتھ … عاشی گھبرا کے کمرے میں بھاگی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ اور بگڑ گیا۔ گھر کا سامان اُٹھا اُٹھا کر پھینکنے لگا۔ اس نے ماں سے کہا کہ وہ اسی وقت عاشی کو اس کے گھر چھوڑ آئے۔ بڑی مشکل سے اسے سمجھایا گیا کہ اتنی رات گئے ایسا کرنا ممکن نہیں، صبح وہ اسے چھوڑ آئیں گے۔ رات بھر وہ جاگتا رہا اور بے چینی سے ٹہلتا رہا۔ وہ سب اسے دم بخود دیکھتے رہے کہ پتہ نہیں وہ کیا کر بیٹھے۔ صبح صبح وہ بستر پر لیٹتے ہی سوگیا۔
صبح آنٹی کا فون آیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ وہ بڑے جوش میں سسرال والوں سے بحث کررہا تھا۔ عاشی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ آنٹی کے پیچھے بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ اندر چلی گئی۔
آپ اپنی بہن کو گھر لے جایئے وہ عاشی کے بھائی سے کہہ رہا تھا۔
’’بلا وجہ؟‘‘
’’سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ میں بے روزگار ہوں۔ خود ہی بوجھ ہوں ، دوسروں کا بوجھ کیا اٹھاؤں گا‘‘۔
’’لیکن بیٹے ہم سب ہیں نا۔ تم ایسا کیوں سوچ رہے ہو؟‘‘ آنٹی نے کہا
’’آپ تو خاموش ہی رہئے … میں ایسی کمائی کا ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کرنا چاہتا‘‘۔
اس نے غصے میں کہا
’’کیسی کمائی‘‘ آنٹی نے پوچھا۔
’’مظہر بھائی‘‘ اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا مخاطب کرکے کہا ’’وہ سب میری آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ، میرا بھائی خود ملوث ہے اس میں‘‘۔
’’میں نے کیا کیا ؟‘‘ اس کا بھائی گھبرا گیا ، پکا مذہبی آدمی تھا۔
’’میں جیسے ہی منہ دھونے باتھ روم میں گیا عاشی اور میرا بھائی…‘‘
’’کمینے خدا تجھے غارت کرے‘‘ آنٹی نے دانت پیس کر کہا اس نے سنا نہیں۔
’’لیکن فرحان یہ کیسے ممکن ہے‘‘ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’سب ملے ہوئے ہیں مظہر بھائی۔ میری ماں ، میری پھوپھی ، میرا بھائی۔ سب سازش میں شریک ہیں۔ ان کی موجودگی میں محلہ کے سارے نوجوان گھر آتے ہیں اور میری بیوی کے ساتھ … ذرا میں گھر سے نکلا دھندا شروع … مجھے کہتے ہیں میں بیروزگاری کی فکر نہ کروں۔
اس کے سالے کو اتنا غصہ آیا کہ وہ مارنے کے لئے اُٹھا۔ میں نے اسے پکڑ لیا۔
’’عاشی چلو میرے ساتھ اس ذلیل آدمی کے ساتھ ایک منٹ رہنے کی ضرورت نہیں‘‘
’’ہاں دھندے کے لئے وہی جگہ ٹھیک ہے‘‘
’’فرحان‘‘ عاشی کا بھائی چیخا اور جھپٹ کر اس نے فرحان کا گلا پکڑ لیا۔ عاشی تڑپ کر دونوں کے درمیان آگئی۔
’’ان پر ہاتھ نہ اُٹھایئے … آپ چلے جایئے پلیز…‘‘
عاشی کو درمیان میں دیکھ کر فرحان بھی شیر ہوگیا‘‘ مارنا چاہتے ہو نا۔ مارو … میں بھی دیکھتا ہوں کتنا دم ہے‘‘ عاشی کا بھائی عاصم کمرے سے نکل گیا۔
فرحان بھی صوفے پر بیٹھ گیا۔ آنٹی ایک گلاس میں پانی لے آئیں۔ اس میں اُنھوں نے نیند کا جز رکھنے والی گولیاں گھول دیں۔ اس نے پانی پی لیا۔
’’مظہر بھائی مجھے مسلسل یہی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ میری بیوی اور مختلف جسم … میں تنگ آگیا ہوں‘‘… وہ اونگھنے لگا۔ پھر وہ کمرے میں جاکر سو گیا۔ عورتیں بھی چلی گئیں۔ اس روز میں رات میں وہیں رہ گیا۔
صبح اس کا بھائی ایک عامل کو لے آیا۔ اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ عامل اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کچھ پڑھنے لگا۔ وہ سر جھکائے سنتا رہا۔
’’کچھ نظر آیا؟‘‘ عامل نے پوچھا۔
’’ہاں‘‘
’’کیا؟‘‘
’’بطخ…‘‘
عامل پھر سے پڑھنے لگا۔ کافی دیر تک تک پڑھتا رہا۔
’’کچھ نظر آیا؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’کوئی چہرہ؟‘‘ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
’’بندر کا…‘‘
’’غور سے دیکھو‘‘ عامل گرجا۔
اس نے آنکھیں کھولیں اور لپک کر عامل کی داڑھی مٹھی میں جکڑ پلی۔ عامل تکلیف کے مارے کر اپنے لگا۔ اس کی آنکھیں حلقوں سے اُبلنے لگیں۔ بڑی مشکل سے ہم نے اسے چھڑایا۔ عامل گھبرا گیا۔ بہت طاقت ور ہے … میرے بس کی بات نہیں ہے … وہ بھاگ گیا۔ وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔ اس نے بھائی پر حملہ کردیا۔ ماں درمیان میں آئیں تو انھیں ایک طرف دھکیل دیا۔ عاشی سامنے آگئی تو وہ عاشی کا گلا گھونٹنے لگا۔ میں نے اسے چھڑانے کی بھرپور کوشش کی۔ پتہ نہیں فرحان کے پاس کونسی شیطانی طاقت تھی۔ اس نے عاشی کی گردن چھوڑ دی۔ وہ ایک جھٹکے سے نیچی گری۔
’’اُف!‘‘ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
’’کیا ہوا … کیا ہوا … تمھیں‘‘ اس کی پھوپھی نے دانت پیس کر کہا۔ سب نے فیصلہ کرلیا کہ اسے دماغی ڈاکٹر کو دکھائیں گے اور ضرورت پڑی تو پاگل خانہ بھیج دیں گے۔ بھائی کی بیوی بچوں کے ساتھ مائکے جاکر رہنے لگی۔ آنٹی نے کہا کہ اگر عاشی کو بھی خوف ہورہا ہے تو وہ بھی چلی جائے لیکن عاشی نے انکار کردیا۔
میں بہت دیر تک عاشی اور فرحان کے بارے میں سوچتا رہا۔ وہ ڈھونگ کررہا ہے ؟ اپنی بیوی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن کیوں ؟ کیا وہ جنسی اعتبار سے ناکام ہے۔ لاشعور میں کوئی خطرہ تو نہیں کہ اس کی ناکامی اس کی بیوی کو آبرو باختہ بنادے گی ؟ کوئی ڈپریشن تو نہیں ، فرسٹریشن تو نہیں۔ کثرت سے بلو فلموں دیکھنے کا نتیجہ تو نہیں۔ اور عاشی؟ ایک ہندوستانی عورت مثالی بیوی… جو ڈولی میں بیٹھ کر سسرال آتی ہے اور اس کا جنازہ ہی وہاں سے نکلتا ہے۔ مجازی خدا ، پتی پرمیشور ، پتی کے چرنوں کی داسی ، پتی کے پیروں کی دھول سے مانگ سجانے والی ، اگر سجدہ جائز ہوتا تو شوہر کو کیا جاتا …
ڈاکٹر کے پاس چلنے میں اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ عاشی بھی ساتھ آئی۔ ڈاکٹر کو اس نے پوری کیفیت بتائی۔ میں نے عاشی کو باہر بھیج دیا اور ساری باتیں بتائیں۔ اس نے کہا کہ وہ چوبیس گھنٹے یہی منظر دیکھتا ہے۔
اس روز کے بعد کوئی عامل گھر نہیں آیا … اس کا بھائی صرف کیفیت سناکر وظیفے پڑھتا رہا اور موقع دیکھ کر پھونک مارتا رہا۔ کبھی چوری سے کوئی نقش پلادیا جاتا۔ عامل نے کہا کہ اس نے بد روح کو بھگادیا ہے۔ اب سب ٹھیک ہوجائے گا۔ وہ بد روح ہی ویسے مناظر دکھارہی تھی۔
دواؤں اور دعاؤں سے وہ ٹھیک ہونے لگا۔ اس نے کوئی ہنگامہ نہیں کیا۔ زیادہ تر سوتا رہتا۔ بھائی کے بچے اور بیوی بھی واپس آگئے تھے وہ ان کے ساتھ کھیلا کرتا۔ اس نے کسی کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی۔ اس کا رویہ نارمل ہوگیا۔ وہ پابندی سے علاج کروارہا تھا۔ بس ایک ہی فکر تھی کہ اسے ملازمت مل جائے۔ لیکن اسے کچھ یاد نہیں آتا تھا۔ دماغ کی سلیٹ صاف تھی۔ اس لئے انٹرویو میں ناکام رہتا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا … میں اکثر اس کی کیفیت لیتا رہا۔
قریب چھ مہینے ہوگئے ایک دن عاشی کا فون آیا میں نے فرحان کے بارے میں پوچھا
’’اب تو ٹھیک ہیں … ملازمت کی تلاش میں رہتے ہیں‘‘۔
’’پھر؟‘‘
’’میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ فرحان کے ساتھ نہیں رہوں گی‘‘۔
’’کیوں؟‘‘ میں اُچھل پڑا۔ تم نے کیسے نازک وقت میں ساتھ دیا اُس کا … جان کی تک پروا نہیں کی …‘‘
’’لیکن وہ بات اور تھی مظہر بھائی…‘‘
’’اب کیا ہوا؟‘‘
’’میں آپ کو کیسے بتاؤں۔ میں تو ویسی ہی رہ گئی۔ پہلے نفرت اور دیوانگی کی وجہ سے دور رہتے تھے اب شرمندگی اور احسان مندی کی وجہ سے دور رہتے ہیں… میں انھیں اس عذاب سے نجات دلانا چاہتی ہوں… عاشی نے کہا اور فون رکھ دیا‘‘۔
٭٭٭