برف کی سیلوں کے درمیان شوکت میاں کی نعش رکھی تھی۔ پنکھا تیزی سے چل رہا تھا۔ برف کے گھلنے سے پانی کی بوندیں فرش پر گر رہی تھیں۔
قرآن کی تلاوت کرتے کرتے کفایت علی نے اپنے باپ کی نعش کی طرف دیکھا وہ فیصلہ نہیں کرسکا کہ اسے اپنے باپ کے مرنے کا افسوس ہے بھی یا نہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ وہ ایک طرح کی آزادی محسوس کررہا تھا جیسے قید سے رہائی ملی ہو۔ اس شخص کی موجودگی میں اسے اپنا وجود نظر ہی نہیں آتا تھا۔ اس شخص نے کبھی اس کی مرضی چلنے نہیں دی تھی۔ کبھی اس کی تعریف نہیں کی تھی۔ ہمیشہ اس کی طرف حقارت ہی سے دیکھتا تھا۔ اس شخص کی موجودگی میں وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتا تھا۔ اسے ایک طرح کا سکون محسوس ہونے لگا۔ چلو ایک باب ختم ہوگیا۔ اب اپنے بیٹے کے پیار اور عزت کا مستحق وہی ہے۔
برف کی بوندیں فرش پر ٹپکتی رہیں۔ فرش پر اچھا خاصہ پانی جمع ہوکر بہنے لگا تھا۔ ’’کیا مزید برف کی ضرورت پڑے گی؟‘‘ کسی نے کفایت علی سے پوچھا۔
’’نہیں یہی کافی ہوجائے گی‘‘۔ پہلی بار کفایت علی کو اپنے لہجے میں خود اعتمادی اور قطعیت کا احساس ہوا۔ اس میں تعجب کی بات بھی کیا ہے۔ شوکت میاں کے بعد اب خاندان کا سربراہ وہی ہے۔ اب گھر کے سارے فیصلے اسے ہی کرنے ہیں۔
کفایت علی کو اپنے بیٹے کا انتظار تھا۔ فون پر جب اسے شوکت میاں کے انتقال کی اطلاع دی گئی تو اس نے کہا تھا کہ وہ آرہا ہے۔ اس کے آنے تک تدفین نہ کی جائے۔ دنیا کتنی سمٹ گئی ہے چند گھنٹوں میں اس کا بیٹا ہزاروں میل کا سفر طے کرکے آجائے گا۔ فون ، فیکس ، تیز رفتار ہوائی جہاز چند برسوں میں کتنا کچھ بدل گیا ہے۔ تب نعش کے دونوں جانب برف کی سیلیں رکھ دی گئی تھیں۔
شوکت میاں کی نعش کے پاس راجئیا چپ چاپ بیٹھا تھا جیسے وہ روزانہ بیٹھا رہتا تھا۔ اکثر شوکت میاں کی آنکھ لگ جاتی وہ پیروں کے پاس ہی بیٹھا رہتا۔ راجئیا چپکے چپکے رونے لگا۔ عجب آدمی ہے۔ شوکت میاں کا پرانا خدمت گزار دنیا بدل گئی لیکن راجئیا نے ساتھ نہیں چھوڑا۔ ریزرویشن کوٹے میں ڈاکٹری پڑھ کر اس کا بیٹا ڈاکٹر ہوگیا تھا۔ شہر کے مشہور ہسپتال میں ملازمت بھی کررہا تھا۔ وہی شوکت میاں کا بلڈ پریشر اور شوگر چیک کیا کرتا تھا۔ لیکن راجئیا کو شوکت میاں کے قدموں میں ہی سکون ملتا تھا۔ اور راجئیا کی وجہ سے ہی شوکت میاں اب تک خود کو جاگیردار سمجھتے تھے۔ ورنہ اس دور کا کوئی نشان بھی باقی نہیں تھا۔ راجئیا کے آتے ہی وہ اس کے ساتھ ایک الگ ہی دنیا میں چلے جاتے۔ وہ دنیا جو اُنھوں نے راجئیا کے ساتھ مل کر بنائی تھی۔ دونوں اتنی دور نکل جاتے کہ حال ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا۔ پوری بساط اُلٹ گئی تھی۔ سب کچھ چھن گیا تھا۔ کتنی قیامتیں ٹوٹ پڑیں تھیں۔ کتنی خون ریزیاں ہوئی تھیں۔ کتنے لوگ اپنی زمینیں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے لیکن شوکت میاں وہیں تھیں۔ اُنھوں نے اپنی ایک دنیا تخلیق کرلی تھی۔ اس سے باہر نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ نہ راجئیا کو پتہ تھا کہ اس کا بیٹا کتنی مصیبتیں جھیل کر ڈاکٹر بنا۔ نہ شوکت میاں جانتے تھے کہ کتنی دقتوں سے اس نے میٹرک پاس کیا۔ کیسے اس نے راتوں میں جاگ جاگ کر اسٹڈی کی۔ دوستوں کے پاس گھوم گھوم کر نوٹس جمع کئے۔ یکسوئی کے لئے مسجد میں بیٹھ کر پڑھا کیا۔ تیسرے درجے میں ہی سہی۔ فیل تو نہیں ہوا تھا۔ ماں نے کہا تھا کہ وہ اپنے باپ کو خوش خبری سنائے۔ شوکت میاں راجئیا کے ساتھ ماضی کی دنیا میں بھٹک رہے تھے۔ کفایت علی دور کھڑا رہا۔
’’کیا ہے؟‘‘ بہت دیر بعد شوکت میاں نے پوچھا
’’جی میں میٹرک پاس ہوگیا‘‘۔ اس نے رُک رُک کر کہا۔
’’شاباش ۔ جیتے رہو‘‘۔ شوکت میاں نے کہا اور پھر باتوں میں مصروف ہوگئے۔ وہ سر جھکائے لوٹ آیا۔ کفایت علی کو اپنے باپ سے سخت نفرت ہوئی۔ کبھی اُنھوں نے اس کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس نے اپنی محنت سے کامیابی حاصل کی تو وہ خوش بھی نہیں ہوئے۔ پھر وہ کالج نہیں گیا۔ گھر کے حالات خراب تھے۔ کوئی ذریعہ آمدنی ہی نہ تھا۔ شوکت میاں اپنی کسی عادت کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ پورا گھر اپنی ضرورتیں کاٹ کر ان کی خواہشوں کو احترام کرتا ، ناشتے پر بیٹھتے تو اس کی ماں اس عمدگی سے روٹیاں ڈالتی تھیں کہ ایک روٹی ختم ہوئی کہ دوسری گرم روٹی موجود ! شوکت میاں کو عمدہ گیہوں کی روٹیاں ، خوشبو والے لمبے لمبے چاول ، اصلی گھی ، شہد ، دودھ ، زعفران و اصلی مصالحے ، خشک میوے چاہئے تھے۔ وہ کم کھاتے مگر عمدہ کھاتے۔ صرف ان کے لئے اہتمام ہوتا۔ باقی افراد تو راشن کے گیہوں اور اوسط قسم کے چاول کھاتے تھے۔ کتنا خود غرض انسان تھا اس کا باپ !
اس نے ٹائیپنگ سیکھی۔ ملازمت کرلی۔ کلرک ہوگیا۔ شوکت نواب خوش نہیں ہوئے۔
’’اہلکاری کرے گا اُنھوں نے اپنی بیوی سے پوچھا‘‘۔
’’پھر کیا کرے گا۔ گلے گلے تک قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ گھر کیسے چلے گا‘‘۔
’’جیسے اب تک چلتا آیا ہے۔ اس نے رزق دینے کا وعدہ کیا ہے‘‘۔ شوکت میاں نے کہا
شوکت میاں نے اس کی شادی میں بھی دلچسپی نہیں لی۔ اس کی شادی بھی کیا ہوئی۔ نہ شادی خانے تھے نہ سجاوٹیں۔ گھر کے سامنے شامیانہ لگایا گیا۔ شطرنجیوں پر چاندنی کا فرش۔ سرخ رنگ کا لمبا دستر خوان۔ صبح تا نصف النہار کھانے کا انتظام ، صبح نکاح ہوا اور آدھی رات کو رخصتی ہوئی۔ سارا دن دلہن والوں کے گھر پر گزارا۔ صبح پہنے ہوئے پھول مرجھا گئے۔ ہاں اس کی بیوی خوبصورت تھی اور میٹرک پاس بھی۔ سہاگ رات میں اس نے انگریزی میں بات کی تھی اور اس کی بیوی نے انگریزی ہی میں جواب دیا تھا۔ شوکت میاں کو بھی بہو پسند آئی۔
بیوی کے آجانے کے بعد کفایت علی کی زندگی میں باقاعدگی آگئی۔ شادی کا قرض بھی ادا ہوا۔ گھر میں کچھ سامان آگیا۔ بس سے دھکے کھاتے ہوئے آفس جانے کے بجائے ایک سیکل بھی خریدنے کا پلان بنا۔ اس کی بیوی نے اسے اتنے پیسے دیئے تھے کہ وہ سب سے اچھی کمپنی کی سیکل خرید سکتا تھا۔ لیکن اس نے سب سے سستی سیکل خریدی۔ سائیکلیں سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔ اس سے ریڈیو منگوایا گیا۔ وہ سب سے غیر معروف کمپنی کا ریڈیو لے آیا اور ثابت کرنے لگا کہ یہ سب سے اچھا ریڈیو ہے۔ ماں اور بیوی تو خاموش ہوگئیں لیکن شوکت میاں نے برا سا منہ بناکر کہا تھا۔
’’اہلکارانہ ذہنیت‘‘
’’کیا پیسے کی قدر کرنا اہلکارانہ ذہنیت ہے؟‘‘ کفایت علی نے سوچا۔ وہ خود سمجھ نہیں پایا تھا کہ کوئی اچھی چیز خریدنے کو اس کا جی کیوں نہیں چاہتا۔ کوئی اندر سے روک کیوں لیتا ہے وہ سب سے سستی بلیڈ استعمال کرتا تھا۔ کبھی اس نے صابن کی پوری ٹکیہ ہاتھ میں لے کر نہیں ملی تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں پر صابن لگاکر بدن پر ملتا تھا اور نہاتا تھا۔
اگر وہ سب کچھ نہ کرے تو گھر کیسے چلے ؟ شوکت میاں نہ خود کچھ کرتے ہیں نہ اس بات کا اندازہ ہے کہ دنیا کس رفتار سے تبدیل ہورہی ہے۔ اپنی مخصوص دنیا میں مگن ہمیشہ اس کی طرف حقارت سے ہی دیکھا کرتے ہیں۔ ان کی اس دنیا کے لئے بھی اسی کا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔
برف کی پوری ایک سل گھل گئی تھی۔ اس کی جگہ ایک دوسری سل رکھ دی گئی تھی۔ کفایت علی کی بیوی نے بتایا بیٹے کا فون آیا ہے وہ آ رہا ہے۔
’’بیٹا‘‘
شہزادہ عرفیت تھی۔ اسی نام سے سب بلاتے تھے۔ رونق علی نام رکھا گیا تھا۔ شوکت میاں اسے شہزادہ کہتے تھے۔ شہزادہ تھا بھی بالکل شہزادوں جیسا۔ کفایت علی نے شہزادے کو سب سے اچھے اسکول میں داخل کیا۔ اس کی زندگی میں جو محرومیاں ہیں کم سے کم شہزادے کی زندگی میں نہ ہوں۔ ڈونیشن کے لئے راجئیا کام آیا۔
شہزادہ جب ایکشن کے ساتھ نرسری رائمس سناتا تو شوکت نواب کھل اُٹھتے۔ وہ دن بھر تتلا تتلا کر اسکول کے قصے سنایا کرتا۔
شہزادے کے اسکول کی فیس۔ اسکول بس کا کرایہ ۔ خرچ بڑھ گیا تھا۔ ہائی اسکول تک تو شہزادہ اچھا رینک لاتا رہا۔ لیکن پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ وہ کئی مضامین میں فیل ہونے لگا۔ ٹیوشن رکھا گیا۔ کفایت علی پر مزید بوجھ بڑھ گیا۔ لیکن شہزادے کو اِن کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ پھر شہزادہ میٹرک میں فیل ہوگیا تو کفایت علی کے پیر تلے سے زمین نکل گئی۔ سارے خواب ٹوٹتے نظر آئے۔ لیکن شوکت میاں کو کوئی افسوس تھا اور نہ شہزادے کو۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ایک سلسلہ چل پڑا۔ کتنی بار شہزادہ فیل ہوا۔ کتنی بار کفایت علی نے فیس بھری یاد بھی نہ تھا۔ شہزادہ نکما ہوگیا تھا اور خود سر بھی۔ گیارہ بجے دن تک سوتا رہتا۔ ناشتہ کرنا اور گھر سے نکل جانا۔ شام میں واپسی ہوتی کھانے کے بعد پھر چلا جاتا تو رات کے گیارہ بارہ بجے لوٹتا جبکہ کفایت علی سو چکا ہوتا۔
کئی کئی دن تک اس کی شہزادے سے ملاقات نہیں ہوتی تھی۔ ایک بار جب اس نے شہزادے کو خوب ڈانٹا تو اس نے نہایت سنجیدگی سے کہا۔ ’’بابا اس ملک میں دو ہی قسم کے لوگ پڑھ سکتے ہیں ایک وہ جو غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہوں اور دوسرے وہ جن کا تعلق بچھڑے طبقات سے ہو‘‘۔
لیکن ایک انہونی ہوئی ایک دن اس کی بیوی نے اسے بتایا کہ شہزادہ سعودی عرب جارہا ہے۔ پاسپورٹ ، ویزا اور ٹکٹ سب انتظام ہوچکا ہے۔ کفایت علی کو کسی نے بتایا ہی نہیں یہ سب کیسے ہوا۔ اسے دھکا لگا۔ اس کا اکلوتا لڑکا ہزاروں میل دو ر جائے گا۔ پھر اس کی بگڑی ہوئی عادتیں ؟ وہ سوچتا رہا۔ لیکن شہزادہ چلا گیا۔ محلے کے کچھ نکمّے لڑکے بھی چلے گئے تھے۔ اس کا گھر ہی نہیں محلہ بھی سونا ہوگیا۔ شوکت میاں پھر سے راجئیا کے ساتھ ماضی کی دنیا میں واپس چلے گئے۔
شہزادے کو جیسے کوئی خزانہ مل گیا تھا۔ وہ ہزاروں روپے گھر بھیجنے لگا۔ ہر آنے والے کے ساتھ کپڑے ، روزآنہ استعمال کی چیزیں ، ڈرائی فروٹس الگ سے بھیجتا۔ گھر میں ضرورت کی ہر چیز اعلیٰ درجے کی آگئی۔ دوچار برس میں کایا پلٹ ہوگئی۔
شوکت میاں کے اندر کا جاگیردار بھی انگڑائی لے کر جاگا۔ ان کا ماضی حال میں آگیا تھا۔ لیکن کفایت علی حیران رہ گیا۔ سخت جدوجہد ، ایمانداری اور محنت کے صلے میں اسے کلر کی ہاتھ آئی۔ اور شہزادہ ایک نکما لڑکا۔ پیسے کی مشین بنا ہوا ہے۔ اس کے باپ نے بھی جی بھر کے عیش کیا تھا اور اب بیٹا کررہا ہے وہ ہی ایک ایسے دور میں پیدا ہوا جہاں کچھ نہ تھا پیسہ کمانے کے مواقع نہ الیکٹرانک گوڈس نہ قسم قسم کے کپڑے۔ نہ طرح طرح کے چاکلیٹس نہ بسکٹیں ، نہ پچاسوں قسم کی آئسکریم نہ پیزّا نہ برگر ، نہ فاسٹ فوڈ کی دکانیں ، ہوٹل میں بیٹھنا اور بازار میں کھانا ہلکے پن کی نشانی تھے لیکن اب بازار میں کھڑے کھڑے کھانا ہی فیشن تھا۔ چند برسوں میں ایک بھونچال سا آگیا تھا۔ اس کی قسمت میں تو تجنا اور ترسنا ہی لکھا تھا۔
شوکت میاں نے شہزادے کی شادی مشائخ گھرانے میں طے کی۔ جاگیرداروں اور نوابوں کے اجڑنے کے بعد اب یہی مشائخین کے گھرانے دولت کے نئے مراکز تھے۔ جن کے اجداد نے سوکھی روٹیوں پر زندگی گزاری تھی ان کی اولاد کروڑوں میں کھیل رہی ہے۔ شوکت میاں اپنا دور لے آئے۔ اُنھوں نے بھی جی بھر کے آرزو نکالی۔ شادی خانے کی سجاوٹ ایسی کہ لوگ دیکھتے رہ گئے۔ پورے لوازات اور مغزیات کے ساتھ پکوان ہوئے۔ لوگ اُنگلیاں چاٹتے رہ گئے۔ شہزادہ سچ مچ شہزادہ لگ رہا تھا اور شوکت میاں تو تھے ہی خاندانی جاگیردار۔ سب نے انھیں ہی مبارکباد دی وہ دونوں کے درمیان سے کہیں غائب ہوگیا تھا۔ کسی نے اس پر توجہ ہی نہیں کی صرف اس کے دوستوں نے اسے مبارکباد دی۔
اصل میں شہزادے نے کفایت علی کو بھی پیسہ بھیجا تھا کہ وہ اپنے لئے ایک اچھی شیروانی اور سوٹ بنوالے۔ شیروانی اس نے بنوالی لیکن بہت مہنگی نہیں۔ سوٹ اس نے نہیں بنوایا۔ کس کام آئے گا کبھی پہننے کا موقع نہیں ملتا۔ اس نے سفاری سلوائی۔ شوکت میاں اور شہزادہ دونوں نے اسے حقارت سے دیکھا تھا۔
’’اہلکارانہ ذہنیت‘‘ شوکت میاں بڑبڑائے تھے۔
شہزادہ کافی مقروض ہوگیا تھا لیکن اسے ذرا بھی غم نہیں تھا۔ مائی گرینڈ پا از رئیلی گریٹ ! دلہن بھی جیسے کانچ کی بنی نازک اور خوب صورت۔ شہزادہ بے حد خوش تھا۔ شادی کے بعد ہفتہ بھر کا ہنی مون۔ ہوائی جہاز کا سفر ، اوٹی ۔ پانچ ستارہ ہوٹل ۔ شہزادہ آندھی کی طرح آیا تھا۔ گھر پر کرایہ کی موٹر ایک ڈرائیور کے ساتھ آگئی۔ ایک ڈبل ڈور فریج آگیا۔ چھوٹے فریج میں صرف کولڈ ڈرنکس اور منیرل واٹر کی بوتلیں بھری رہتیں۔ ہر تھوڑی بعد کول ڈرنک چاہئے۔ شہزادہ جتنی بوتلیں دن بھر پی جاتا اتنی کفایت علی نے پوری عمر میں نہیں پی تھی۔ گھر میں صاف ستھرا پانی تو تھا ہی پھر یہ بوتلیں ؟ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ گھر میں کیا ہورہا ہے۔ وہ خاموش تماشائی بنا رہا۔ شہزادہ شوکت میاں کے پاس بیٹھ کر عرب ممالک کے قصے سناتا تو انھیں محسوس ہوتا جیسے قرون وسطیٰ کا دور واپس آگیا ہے۔ ان کے پوتے نے ان کے ماضی کو حال سے جوڑ دیا تھا۔ شہزادے نے کہا کہ وہ انھیں حج کرائے گا۔ شوکت میاں کو فریضۂ حج کی ادائیگی سے زیادہ اِن افسانوی شہروں کو دیکھنے کا شوق تھا۔
شہزادہ لوٹ گیا۔ اس کی بیوی میکے چلی گئی۔ گھر پہلے جیسی حالت میں لوٹ آیا۔ شوکت میاں چپ سے رہنے لگے تھے۔ صرف راجئیا سے کچھ باتیں کرلیتے۔
کل صبح اُنھوں نے دل میں درد کی شکایت کی اور دواخانہ لے جانے تک راستے ہی میں ان کا انتقال ہوگیا۔
کفایت علی نے قرآن کو بند کیا اور آنکھوں سے لگاکر کر رحل پر رکھا وہ ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکا تھا۔ برف کی ایک سل گھل گئی تھی۔ اس نے دوسری سل رکھوادی۔
شہزادہ آگیا اور اپنی بیوی سے مل کر رو رہا تھا۔ شہزادے کے ساتھ اس کے خسر،شہر کی مشہور درگاہ کے سجادہ نشین بھی تھے۔ وہ خسر کے شانے پر سر ٹکا کر رونے لگا۔ وہ آہستہ آہستہ اس کی پیٹھ تھپتھپا کر صبر کی تلقین کرنے لگے۔ وہ وہیں کھڑا تھا۔ اس کا دل بھی بھر آیا۔ آخر شوکت میاں اس کے باپ تھے۔ شہزادے نے ایک نظر اس پر ڈالی اور خسر کے ساتھ آگے بڑھ گیا اس کے دل پر گھونسہ سا لگا۔
صبح ہوگئی تھی۔ محلے کے قبرستان میں قبر تیار کرنے کے لئے وہ کل ہی کہہ آیا تھا۔ قبر تیار ہوچکی ہوگی۔ شہزادہ اپنے خسر کے ساتھ کہیں چلا گیا تھا۔ دو تین گھنٹے بعد وہ لوٹا۔ اسے پتہ چلا کہ شہزادہ بڑی مشکل سے اپنے خسر کا رسوخ استعمال کرکے خطہ صالحین میں جگہ حاصل کرسکا ہے۔ جہاں بڑے بڑے بزرگان دین ، نواب اور جاگیردار دفن تھے۔
کفایت علی تذبذب میں پڑ گیا کہ آخر اس قبر کا کیا ہوگا جو اس نے تیار کروائی تھی۔ شہزادے سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔ پھر ٹرک آگیا۔ شہزادہ اپنے خسر کی چمکتی ہوئی ’’لمبی کار‘‘ میں سوار ہوگیا۔ اس کے دوسرے سسرالی رشتہ دار مختلف کاروں اور وینوں میں بیٹھ گئے۔ وہ چپ چاپ کھڑا رہ گیا۔ پتہ نہیں کس نے ٹرک میں سے ہاتھ بڑھایا اور کس نے اسے بیٹھنے میں مدد کی۔ وہ سوار ہوگیا۔ قبر میں شہزادہ ہی اُترا اس کے خسر تدفین کے مراحل سمجھانے لگے۔ کفایت علی بھیڑ سے الگ ایک پکی قبر کے چبوترے پر بیٹھ گیا۔ اس کے قریب اس کے آفس کے دو چار دوست آگئے۔ ہر طرف شہزادہ ہی شہزادہ تھا۔ لوگ یہ بھول گئے کہ اس کے باپ کا انتقال ہوا ہے۔
شہزادے کی تعریفیں ہورہی تھیں ’’مرحوم نے جس شان سے زندگی گزاری تھی اسی شان سے آخری سفر بھی طے کیا۔ پوتے نے حق ادا کردیا۔ کیا شوکت میاں کا کوئی بیٹا زندہ نہیں ہے ؟ کسی نے پوچھا ! پتہ نہیں۔ کسی نے جواب دیا۔ اس کے دل پر پھر ایک بار گھونسہ سا لگا۔ قبر مٹی سے ڈھانک دی گئی۔ چالیس قدم پر رُک کر فاتحہ پڑھی جارہی تھی۔
اس قبر کا کیا ہوگا ؟ ۔ چار یا پانچ ہزار روپئے لگ جائیں گے۔ کفایت علی نے سوچا۔ سب گھر لوٹ آئے۔ سوگوار ماحول میں پھر سے سسکیاں اور رونے کی آوازیں گونجنے لگیں۔
کفایت علی جس بات سے ڈر رہا تھا وہی ہوا۔ محلے کے قبرستان کا آدمی آیا ہوا تھا۔
’’معلوم ہوا ہے تدفین خطہ صالحین میں ہوئی ہے‘‘۔ آدمی نے اس سے پوچھا۔
’’جی‘‘
’’پھر اس قبر کا کیا ہوگا‘‘۔
’’مزدوری لے لینا‘‘۔ کفایت علی نے سوچا سمجھا ہوا جواب دہرایا۔
لیکن وہ آدمی آڑ گیا کہ پورا پیسہ لے گا۔بحث بڑھی آواز اونچی ہوئی۔
شہزادہ ڈرائنگ روم میں اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ بیٹھا مرحوم کے اوصاف بیان کررہا تھا۔
وہ غصے میں باہر آیا۔
’’کیا ہے؟‘‘
قبرستان والے آدمی نے سارا ماجرا سنایا۔
’’کتنے پیسے ہوئے‘‘ شہزادے نے پوچھا۔
’’بیٹا صرف مزدوری دینا ہے‘‘۔ کفایت علی نے آہستہ سے کہا۔
’’بابا ! گھر رشتہ داروں اور مہمانوں سے بھرا پڑا ہے اور آپ ایک معمولی سی بات پر اُلجھے ہوئے ہیں‘‘۔ شہزادے نے جھلاّ کر کہا۔ کفایت علی کو محسوس ہوا جیسے شوکت میاں زندہ ہوگئے ہوں۔ شہزادہ جیب سے پیسہ نکال کر دینے لگا۔
’’بیٹا تم میری بات سنو تم سارے پیسے کیوں دے رہے ہو؟‘‘۔
آخر وہ قبر ہماسے کس کام آئے گی ؟ کفایت علی نے بے بسی سے کہا
’’آپ کے کام آئے گی‘‘ شہزادے نے جھلاّ کر کہا۔
کفایت علی کا سر چکرا گیا۔ اس نے سنبھلنے کی کوشش کی لیکن اسی برف کی سل پر گر پڑا جو صحن میں رکھی تھی وہ ٹھنڈک میں دور تک اُترتا چلا گیا۔
٭٭٭