شو شروع ہونے سے پہلے ِمیر شاہ ویز خان نے ہال کے اندر داخل ہو کر ہال میں بیٹھی ساری سٹوڈنٹس پر نظریں جمالیں کیونکہ اس نے وہ پیرٹ سُوٹ والی لڑکی کو ڈھونڈنا تھا جو سٹوڈنٹ کی شکل میں کالج میں رہ کر کالج کی لڑکیوں کو نشے کا عادی بنا کر ان کی زندگی تباہ کرنے والوں کی ساتھی تھی اور وہ شدت سے انتظار کر رہا تھا کہ جلد سے جلد اسے دیکھے اور اس کا پیچھا کر کے اس کے گینگ کو پکڑ لے ۔
اِدھر معاویہ کی باری آ چکی تھی اور وہ اکیلی ہی سٹیج پر رانجھے کے حُلیے میں چلی گئی پر دُور دُور تک ہیر کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا اور اس وقت اس کا دل کر رہا تھا کہ عمارہ کو کچّا چبا جائے پر فلحال کچھ بھی اس کے بس میں نہیں تھا اس لئے اس نے اکیلی ہی سونگ پر پرفارم کرنا شروع کیا ۔
سوفٹ رومینک سرائیکی سونگ سننے میں بہت بھلا لگ رہا تھا۔
اے سچ ہے تُو بہت سوہنا ایں
جیویں سنگ چوں دِس دا اے پانی
اک تیرا دیوانہ میں نہ
ساری دنیا تیری دیوانی
یہ تو تھے رانجھے کے بول جو معاویہ نے بول دیے تھے اور آنکھیں زور سے بند کر لیں اب میوزک چل رہا تھا اور ساتھ ساتھ معاویہ سمیت اس کی شیطاننیوں کا سانس بھی اوپر نیچے چل رہا تھا کیونکہ ہِیر کے نہ آنے پر ان کی کالج کے سامنے جو عزت ہونی سو ہونی تھی بعد میں جو جوتے مس ثناء نے بھگو بھگو کے مارنے تھے اس کا سوچ کے ان سب کی جان پے بنی تھی ۔
معاویہ بلکل ایسے آنکھیں بند کئے کھڑی تھی جیسے کبوتر بلّی کو دیکھ کے کرتا ہے ۔
اِدھر میوزک کے بعد ہیر کی باری تھی اپنے بولوں کی ۔
ہو وووو ہو ہو ہو ہو ہو وووووو اووووووو
میں کیوں نہ ناز دکھاواں اللّہ سوہنا جو بنائے
میں کیوں نہ ناز دکھاواں اللّہ سوہنا جو بنائے
ہتھ کیوں منہ بید نہ چاواں وفا ڈھولے جو بجوائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک ہاتھ کو اوپر کی جانب اٹھا کہ اک ادا سے چلتی پیرٹ کلر کا پرنسس فراک پہنے اک پری گانے کے بول پر لب ہلا رہی تھی جسے دیکھ کر سارے کالج کی لڑکیاں تو پلک جھپکنا ہی بھول گئیں ۔
معاویہ نے ہلکی سی آنکھیں کھول کے دیکھا تو دھنگ تو وہ بھی رہ گئی تھی کیونکہ سامنے عمارہ کی جگہ کوئی پرستان کی پری کھڑی تھی ۔۔۔۔۔ یہ کون ہے ؟؟؟ معاویہ کے دل نے کہا۔۔۔ پہلی نظر میں وہ بھی پہچان نہیں پائی
دوسری طرف باقی شیطاننیوں کی بھی یہی حالت تھی اوئے کون ہے یہ اتنی پیاری لڑکی بلکہ پری صباء کے منہ سے بے اختیار نکلا
اووووووو ئے یہ تو اپنی بیٹری ہے سمیرا موٹی نے گلا پھاڑ کہ کہا تو آس پاس بیٹھی لڑکیاں بھی ان کو دیکھنے لگیں۔
ہیں ں ں ں کیا اااا صباء کی بھی حیرانی کی انتہا تھی یار مہر ماہ اتنی پیاری بھی لگ سکتی ہے میں نے کبھی سوچا نہیں تھا اور دیکھو اس کا وہ موٹا چشمہ بھی نہیں لگا آج تو ۔
ہاں یار بہت کیوٹ لگ رہی ہے آج تو اس کو بیٹری کی جگہ پرنسس بولنے کا دِل کر رہا سمیرا موٹی نے بھی کھلے دل سے اس کی تعریف کی۔
اِدھر جیسے ہی مہر ماہ سٹیج پے آئی تو مِیر شاہ ویز خان کی پہلی نظر اس پے پڑی تو پلٹنا بھول گئی
مِیر شاہ ویز خان جسے لڑکیوں سے حد سے زیادہ چڑ تھی اور وہ کسی لڑکی سے بات کرنا تو دور کسی لڑکی کو اِک نظر دیکھنا پسند بھی نہیں کرتا تھا
آج بلکل دیوانوں کی طرح یک ٹِک مہر ماہ کو دیکھے جا رہا تھا ۔
اوئے بیٹری تم یہاں کیا کر رہی ہو اور عمارہ بندریا کہاں ہے معاویہ نے مہر ماہ کا ہاتھ پکڑ کہ ڈانس کرتے ہولے سے اس کے کان میں کہا ۔
پتہ نہیں وہ کہہ رہی تھی اس کی طبیعت خراب ہے اس لئے مجھے بھیج دیا اپنی جگہ حالانکہ مجھے کچھ سمجھ بھی نہیں آ رہی کیا کروں اور دوسرا سٹیج کے پیچھے کسی لڑکی نے شرارت سے مجھے دھکا دیا جس کی وجہ سے میرا چشمہ گِر گیا اور مجھے ٹھیک سے کچھ دکھائی بھی نہیں دے رہا اب کیا کروں سٹیج پے بھی میں اندازے سے ہی آئی ہوں ۔ اوکے تم بس میرا ہاتھ پکڑ کہ رکھو سونگ ختم ہونے سے لیکر سٹیج سے نیچے جانے تک اور سب کو یہی دکھانے کی کوشش کرو کہ تم کو سب ٹھیک سے دِکھ رہا ہے اور تم خوب انجوائے کر رہی ہو, نہیں تو ہم جیت نہیں پائیں گے ۔
اوکے کہتی مہر ماہ نے معاویہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور سونگ کے اینڈ تک اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا ۔
معاویہ کو پہلی بار اس معصوم سی لڑکی پر
ترس آیا کہ کیسے وہ بنا ٹھیک سے دیکھے آگئی سٹیج پر اگر وہ نہ آتی تو آج بہت بے عزتی کا سامنا ہونا تھا اسے ,پر جسے وہ ہمیشہ بیٹری بیٹری کہہ کر چڑاتی رہتی تھی اس کی وجہ سے سونگ کے اینڈ میں ان پر باقاعدہ پھول پھینکے گئے کالج کی لڑکیوں کی طرف سے ۔
اِدھر جیسے ہی سونگ ختم ہوا تو مِیر شاہ ویز خان صاحب جیسے حقیقت کی دنیا میں لوٹے
تب اسے سمجھ آئی کہ وہ تب سے جس حسین بلا پر دل و جاں سے فدا ہوا بیٹھا ہے وہی وہ پیرٹ سوٹ والی لڑکی ہے تو فورًا وہ اپنے دِل کو ڈپٹ کر ڈیوٹی پر لگ گیا اور سختی سے دل کو بول دیا کہ اس کے لئے سب سے پہلے اس کا پاک وطن ہے اور خبردار جو اب اس کے دل نے اس کو کسی ملک و قوم کے دشمن کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی
وہ مسلسل اس پر نظر جمائے ہوئے تھا کہ کہیں وہ چالاکی سے نکل نہ جائے
شو ختم ہوا تو ہیر رانجھا کی جوڑی کو سب نے پسند کیا اور وہ جیت بھی گئیں جس پر معاویہ بہت خوش تھی ہر طرف ہیر ہیر کا شور تھا ۔
شو کے بعد معاویہ نے مہر ماہ کا ہاتھ پکڑا اور سٹیج کے پیچھے جا کر اس کا چشمہ ڈھونڈا اس کو دیا اور پہلی بار مہر ماہ سے بہت نرمی سے بات کرتے ہوئے کہا ۔مہر ماہ تمہارا بہت بہت شکریہ آج تم نہ آتی تو جیت تو دور
بے عزتی ہی بہت ہونی تھی آج صرف ہم تمہاری وجہ سے جیتیں ہیں معاویہ نے کھلے دل سے اس کی تعریف کی جو بنتی بھی تھی ورنہ عمارہ نے تو ذلیل کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ابھی معاویہ کو یہ نہیں پتہ تھا کہ عمارہ نے عین وقت پر بیماری کا بہانہ بنایا تھا اگر اس کو پتہ چل جاتا کہ عمارہ نے جھوٹ بولا ہے تو اس کی خیر نہیں تھی معاویہ کے ہاتھوں ۔۔۔
اچھا سنو مہر ماہ کیا تم ہمارے گروپ کا حصہ بنو گی؟؟؟ پکّا کوئی تمہارے ساتھ اب کبھی بدتمیزی نہیں کرے گا معاویہ کے ہاتھ بڑھانے پر مہر ماہ نے جھجکتے ہوئے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لیا یوں ان کی دوستی کی شروعات ہوگئی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر ماہ گھر کے لئے کالج سے نکلی تو مِیر شاہ ویز نے اس کا پیچھا کیا وہ بیچاری کوئی بہت امیر گھرانے سے تو نہیں تھی جو کسی گاڑی میں گھر جاتی بیچاری چنگچی رکشے میں بیٹھی اور گھر کی طرف چل پڑی ۔
مِیر شاہ ویز کو اس کی اس حرکت پر مزید شک ہوا کہ وہ گاڑی کی بجائے چنگچی میں جا رہی ہے مطلب لڑکی مشکوک ہے جو لوگوں کے شک سے بچنے کے لئے گاڑی کی جگہ پبلک سواری استعمال کر رہی ہے ۔
مِیر شاہ ویز خان نے بھی اپنی بائیک لی اور چنگچی اس کے پیچھے لگا دی ۔
مہر ماہ کے گھر والا روڈ آیا تو اس نے چنگچی رکشہ رکوا یا کرایہ دیا اور اپنے گھر والی گلی میں داخل ہو گئی
مِیر شاہ ویز نے بھی روڈ پے بائیک روکی اور اس کے پیچھے پیچھے چل دیا ۔
مہر ماہ تھوڑا ہی آگے بڑھی تھی کہ اسے راستے میں اپنے ماموں کے گھر سے واپس آتی عمارہ مل گئی تو مہر ماہ بھی اس کو دیکھ کہ رک گئی ۔اس کے پیچھے آتا شاہ ویز بھی چھپ کے ان کی باتیں سننے لگا ۔
ہاں بیٹری ہو گیا کام عمارہ نے پوچھا
جی ہو گیا مہر ماہ نے مسکرا کر کہا
اتنا مسکرا کیوں رہی ہو کوئی الٹا کام تو نہیں کر آئی یاد رکھنا غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ورنہ تم کو میرا تو پھر پتہ ہی ہے بیٹری عمارہ نے آنکھیں دکھا کر کہا تو معصوم سی مہر ماہ گھبرا گئی اور جلدی جلدی بولی میں نے کوئی غلطی نہیں کی یقین نہ آئے تو معاویہ سے پوچھ لینا اتنا کہہ کر مہر ماہ وہاں رکی نہیں اور گھر کے اندر داخل ہو گئی۔
دیوار کے پیچھے مِیر شاہ ویز کا شک مزید پکا ہو گیا کہ یہ لڑکی اسی گینگ کی ساتھی ہے اور اس سے آسانی سے ساری بات نکلوائی جا سکتی ہے کیونکہ مہر ماہ کے انداز سے اسے پتہ چل گیا تھا کہ وہ ڈرپوک سی ہے اس لئے سچ بھی جلدی اگل دے گی باقی عمارہ کا نام اسے ابھی پتہ کرنا تھا اور وہ نام جو مہر ماہ کے منہ سے اس نے سنا تھا معاویہ اس کو بھی ابھی ڈھونڈنا تھا ۔
اور یہ بیٹری کیوں بُلا رہی تھی لگتا ہے اس کا خفیہ نام بیٹری ہے خیر پتہ تو میں سب کر لوں گا ایک دو دن کے اندر اندر۔
اس نے عبید اور مدثر کو کال کی اور کہا کہ وہ اب اس کیس کے اہم موڑ پر ہے تم لوگ اپنا کام جاری رکھو اور کم سے کم دو دن مجھے ڈسٹرب نہ کرنا کہہ کر اس نے کال کاٹی اور پورا دن ان کے گھر کے باہر چھپ کر جاسوسی کرتا رہا ان سب کے بعد اس نے یہ ہی نتیجہ اخذ کیا کہ یہ لوگ جو اس محلے میں فیملی کی صورت میں رہ رہے ہیں ضرور سب اسی گینگ کے لوگ ہیں اور لوگوں کو شک نہ ہو اس لئے فیملی کی صورت میں رہ رہے ہیں ۔
اگلے دن مہرماہ خوشی خوشی کالج گئی اور معاویہ سمیرا موٹی اور صباء سب اس سے بہت پیار سے ملیں اور اک ساتھ گراؤنڈ میں بیٹھ کے پڑھائی کرنے لگیں ان سب نے مہر ماہ سے وعدہ کیا تھا کہ اب وہ بھی پڑھائی پر مکمل توجہ دیں گی اور شرارتیں کم کر دیں گی خیر عمارہ بی بی کالج لیٹ پہنچی تو مہر ماہ کو اپنی سہیلیوں سے ہنس ہنس کر بات کرتے دیکھ کے اس تن بدن میں تو جیسے آگ لگ گئی ۔
یہ یہاں کر رہی ہے اس نے آتے ہی بنا سلام دعاء کئے غصے میں سوال کیا ۔
ارے یار اس نے کل ہمارا بہت ساتھ دیا اگر یہ نہ ہوتی تو بہت بے عزتی ہو جاتی تمہاری تو عین وقت پر آ کر طبیعت خراب ہو گئی تھی اس لئے معاویہ نے مسکراتے ہوئے ساری بات بتائی اب ہم اچھی والی سہیلیاں بن گئی یار مہر ماہ بھی اچھی لڑکی ہے آؤ بیٹھو یار تم بھی ہمارے ساتھ پڑھائی کریں بڑا مزہ آرہا ہے پڑھنے کا صباء کے کہنے پر عمارہ مزید غصے میں آگئی تم لوگ ہی بیٹھو مجھے کوئی شوق نہیں اس اندھی کے ساتھ بیٹھنے کا ۔
عمارہ اتنا غرور اچھا نہیں یار مذاق کی حد تک ٹھیک تھا پر اب یہ ہماری دوست ہے یار اور اندھی لفظ بہت برا لگا تمہارے منہ سے یار ہم سب شرارت مستی کرتے رہتے پر اس کا ہر گِز یہ مطلب نہیں کہ کسی کو ذلیل کرنے کا سرٹیفیکیٹ مل گیا ہمیں اس بار معاویہ نے بھی غصے میں بات کی جس سے عمارہ کو تو پتنگے ہی لگ گئے اوئے بھاڑ میں جائے یہ چڑیل اور بھاڑ میں جائے یہ دوستی مجھے وہاں نہیں بیٹھنا جہاں یہ چڑیل ہوگی سمجھی تم گُڈ بائے کہتی عمارہ پیر پٹخ کر چلی گئی اور اس کی باقی سہیلیاں اس کے اس رویے پر دھنگ رہ گئیں انہوں نے سکول سے لیکر کالج تک کبھی اس کا یہ رُوپ نہیں دیکھا تھا جو آج ان کو دیکھنے کو ملا تھا ۔
آخر ایسی بھی کیا نفرت ہے اسے مہر ماہ سے جو اتنا سنا کے گئی ہے ہمیں صباء نے افسوس سے کہا ۔
کیوں کہ وہ میری کزن ہے چچی کی بیٹی اور اس کی امی اور اسے میں کبھی بھی اچھی نہیں لگی یہ نہیں پتہ کیوں پر کبھی اک نظر نہیں بھاتی میں ان کو شاید اسے لگا کہ میں نے اس سے اس کی فرینڈز چھین لیں اس لئے بہت ناراض ہو گئی مجھے آپ لوگوں کے بیچ آنا ہی نہیں چاہیے تھا آپ چاروں کی سکول کے وقت کی دوستی صرف میری وجہ سے خراب ہو ایسا میں نہیں چاہتی پلیز آپ اسے منا لو میں چلتی ہوں کہتی ہوئی مہر ماہ نم آنکھوں سے اٹھ کر جانے لگی تو معاویہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا ۔
پہلی بات تو یہ کہ اگر وہ ہمیں دوست مانتی تو کبھی یوں چھوڑ کہ نہ جاتی دوسری بات اس نے اتنے عرصے ہم کو یہ تک نہیں بتایا کہ تم اس کی کزن ہو خاک دوستی ہوئی جس میں نہ اعتبار نہ عزت مجھے بھی ایسی کسی دوست کی ضرورت نہیں جو خود غرض ہو ۔
تم کہیں نہیں جاؤ گی سمجھی ۔۔۔
پر۔۔۔۔۔۔ مہرماہ کی بات منہ میں ہی رہ گئی اور معاویہ اس کا ہاتھ پکڑے اسے اور اپنی باقی شیطاننیوں کو کینٹین کی طرف لے گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمارہ کے تن بدن میں آگ لگی تھی وہ مہر ماہ سے ہر حال میں بدلہ لینا چاہتی تھی جو اس نے اس سے اس کی بچپن کی دوستوں کو چھینا تھا اس میں اتنا حوصلہ ہی نہیں تھا کہ وہ مہر ماہ کو اپنے دل میں تھوڑی سی بھی جگہ دیتی کیونکہ اسے تربیت ہی ہمیشہ مہر ماہ اور اس کی ماں کے خلاف دی تھی مونا بیگم نے ۔
اسی لئے آج بھی وہ سیدھا سوچنے کی بجائے الٹا سوچ رہی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جلد سے جلد بدلہ لے لے مہر ماہ سے پھر اس نے اپنی حسد کی آگ میں اک گھٹیا پلین بنایا اور اس کو پورا کرنے کے لئے کلاس کی اک لوفر سی انعم نامی لڑکی سے دوستی کرلی اور کچھ دن کی دوستی کے بعد اس کے کہا کہ اگر وہ اس کا اک کام کر دے تو وہ بھی بدلے میں اس کے کسی نہ کسی کام ضرور آئے گی جب بھی وہ کہے گی, اس نے بھی ہامی بھر لی کیونکہ عمارہ نے اک بار کسی لڑکی کو کہتے سنا تھا کہ انعم نامی یہ لڑکی بری صحبت کی شکار ہے اور اکثر سامنے بوائز کالج کے لفنگے بوائز کے ساتھ گھومتی پھرتی نظر آتی ہے اسی لئے عمارہ نے اپنے بدلے کے لئے اسی لڑکی کو چُنا تھا ۔
پھر عمارہ نے اسے اپنا پلین بتایا میری بات سنو غور سے کل سے کالج کی چھٹیاں سٹارٹ ہو رہی ہیں اور میں کسی بھی طرح کالج خالی ہونے تک مہر ماہ کو کالج کے کسی کلاس روم میں بند کر دوں گی اس کے بعد تم اپنے بوائے فرینڈ کو بلا کے اسے اغواء کروالینا اور ہاں اسے کوئی نقصان نہ پہنچانا بس دو تین ڈرا کر رکھنا پھر چھوڑ دینا اس سے اس کی بدنامی ہو گی اور تایا جی اس کو کالج سے بھی ہٹوا لیں گے بڑی پڑھاکو بیٹی پے فخر ہے نہ ان کو اب مزہ آئے گا جب دو دن بیٹی گھر سے غائب رہی تو فخر کی جگہ نفرت لے گی پھر مزہ آئے گا بڑی آئی تھی مجھ سے میری دوستوں کو چھین کے میری جگہ لینے والی اندھی
دوسری طرف انعم اس کی ساری پلیننگ سن کے سوچ رہی تھی کہ اس طرح کی جذباتی بےوقوف لڑکی کا بہت سے غلط اور ناجائز کاموں میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یعنی بہترین شکار مل گیا اس نے اسی سوچ کے ساتھ شیطانی مسکراہٹ عمارہ کی طرف اچھالی۔
ارے تم ہنس کیوں رہی ہو میں کوئی لطیفہ تو نہیں سنا رہی عمارہ نے چِڑ کر کہا ۔
ارے نہیں نہیں میں تو تمہاری ذہانت پر خوش ہو رہی ہوں کیونکہ آج سے پہلے میں نے اتنی ذہین لڑکی نہیں دیکھی بس اسی لئے انعم نے فورًا شیطانی دماغ چلا کر بات بنائی ۔
وہ تو میں ہوں بیوقوف عمارہ نے اپنی فرضی کالر جھاڑ کہ کہا۔
عمارہ نے انعم کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا کہ کیسے وہ چھٹی کے وقت مہر ماہ کو باتوں میں لگا کر کسی خالی کلاس روم میں لے جائے گی اور موقع پا کر اسے اسی کمرے میں بند کر آئے گی کالج دس دن بند رہنے والا تھا اس کے بعد پیپرز تھے اس لئے عمارہ نے کہا کہ تم اور تمہارا بوائے فرینڈ اسے کہیں بھی لے جانا کالج بند ہونے کے بعد بس ڈرانا ہی ہے اور کچھ مت کرنا اور اک دو دن بعد چھوڑ دینا
عمارہ کا مقصد صرف مہر ماہ کی بدنامی کرواکے اس سے بد لہ لینا تھی اس سے زیادہ وہ اسے نقصان نہیں پہنچانا چاہتی تھی ۔
دوسری طرف انعم نے عمارہ کی ساری بات سن کے اپنے دل میں الگ ہی منصوبہ بندی کر رکھی تھی کہ وہ مہر ماہ کو کالج کے کمرے سے نکالے گی ہی نہیں اور پھر دو کام ہو سکتے تھے یا تو اگر کوئی اور اس کو نکال لے کمرے سے تب بھی اس نے عمارہ کا نام لینا تھا کہ اس نے اسے بند کیا اور یا پھر اگر اس کو کوئی نہیں بچاتا تو اتنے دن قید میں بھوکی پیاسی رہنے سے وہ مر جاتی۔۔۔
دونوں صورتوں میں عمارہ کو یہ احساس دلا کہ کے اب پولیس اسے پکڑ لے گی کیونکہ یہ سب اس کی وجہ سے ہوا اسے بچانے کا وعدہ کر کے اپنے غلط کام آسانی سے کروائے جاسکتے تھے اور آرام سے اسے بھی نشے کا عادی بنا کر بیچ کر بڑی رقم مل سکتی تھی
اس آسان شکار کے ملنے پر انعم دل ہی دل میں بہت خوش تھی پر اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ کوئی ان پے ہر پل نظر رکھے ہوئے ہے اور ان دونوں کا نام بھی پتہ کروا چکا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔