عبید علی, مدثر شاہ اور مِیر شاہ ویز خان اپنے اپنے دیے ہوئے تعلیمی اداروں میں پہنچ گئے سب کے ساتھ کچھ اور اہلکار بھی ٹیموں کی صورت میں بیجھے گئے تھے ۔
مِیر شاہ ویز خان جس دن گرلز کالج پہنچا اس دن کالج میں اِکا دُکّا سٹوڈنٹ نظر آ رہی تھیں کیونکہ اگلے دن وہاں فن فئیر تھا اس لئے زیادہ تر سٹوڈنٹس چھٹی پر تھیں خیر پھر بھی وہ اپنی ڈیوٹی کرتا رہا اور شام میں وہیں کالج کے قریب ہی اپنے فلیٹ پر آگیا جو کالج کے بلکل سامنے تھا اس لئے وہیں سامنے سے وہ کالج میں آتے جاتے لوگوں پر رات میں بھی نظر رکھ سکتا تھا ۔ عبید اور مدثر نے بھی ٹھیک اسی طرح اپنی ڈیوٹی سنبھال لی جیسے مِیر شاہ ویز خان نے سنبھالی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شرارتی لڑکیوں نے کلاس میں اک بار پھر اُدھم مچا رکھا تھا اور کب مس ثناء کلاس میں آئیں کسی کو خبر بھی نہ ہوئی۔
پتہ تو تب چلا جب مس ثناء نے کہا شاباش بندریو اچھلو اچھلو تمہارے اچھلنے سے تو پتہ چلتا ہے کے جنگلی آئے ہیں کالج میں۔
حد ہوگئی بدتمیز لڑکیاں مس ثناء لگا تار بڑ بڑا رہی تھیں اور معاویہ اور اس کا گروپ دانتوں کی مشہوری کر رہا تھا بھلا بے عزتی تو ان کی پسندیدہ خوراک تھی تو وہ کیوں شرمندہ ہوتیں ۔خیر مس ثناء خوب سنا کر دل ہولا کر کے کلاس شروع کر چکی تھیں کہ اچانک کچھ اڑتی ہوئی چیز آ کر ان کے قدموں میں گِری جس سے ان کا تَرا (جان) نکل گیا۔
اف یہ کیا گرا میرے پیروں میں مس ثناء نے گھبرا کر کہا نیچے دیکھا تو اک گٹھری نما چیز پڑی تھی جسے جب مس ثناء نے ہلا جلا کے دیکھا تو وہ مہر ماہ نکلی
ارے بیٹا دیہان سے چلا کرو یوں آنن فانن کیوں آئی چلو شاباش جا کے اپنی سِیٹ پر بیٹھو مس ثناء اس کے بال سہلاتے ہوئے کہا ۔
اب آپ سب تو حیران کے ساتھ ساتھ پریشان َبھی ہو گئے ہوں گے کہ مس ثناء اور اتنا میٹھا لہجہ کہیں سورج مغرب سے طلوع تو نہیں ہو گیا تو میں بتاتی ہوں ایسی کوئی بات نہیں دراصل مہر ماہ کلاس کی سب سے اچھی سٹوڈنٹ تھی اور مس ثناء کو اس سے خاص لگاؤ تھا یہ الگ بات تھی کہ معصوم سی مہر ماہ کی پیدائشی نظر اتنی کمزور تھی کہ بنا چشمے کے اسے نہ ہو نے کے برابر نظر آتا تھا
پر اس میں بہت سی خوبیاں ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کلاس کی بہترین سٹوڈنٹ تھی اور یہی وجہ تھی کہ مس ثناء جیسی غصیلی استاد بھی اس سے بہت پیار کرتیں تھیں باقی ساری کلاس کی بھی وہ لاڈلی تھی اور سب اسے چشمش بلاتی تھیں پیار سے ۔
بس اک معاویہ اور اس کا گروپ ہی اسے تنگ کر نے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتا تھا اور ہمیشہ اس معصوم کو بیٹری کہہ کر بلاتی تھیں۔
لو جی آگئی بیٹری ہمارے لئے رحمت بن کے, اب مس ثناء اس کے خوب سارے لاڈ اٹھائیں گی اور انہیں لاڈوں میں ان کا پیریڈ ختم ہو جائے گا اور ہماری مس کے کوسنوں سے جان چھوٹ جائے گی
سمیرا نے اپنا ننھا سا شیطانی دماغ چلا کر اپنی طرف سے خوشخبری سنائی تب ہی معاویہ نے اک دھموکا اس کی کمر میں جھڑ دیا پیاری بہن سمیرا آپ کا ابھی ابھی دماغی توازن خراب ہوا ہے یا بچپن سے اوپر والا خانہ خالی ہے
مطلب؟؟؟ سمیرا نے رونی صورت بنا کر کہا اے بے وقوف مس ثناء کی لاڈلی نے اگر مس کو ٹیسٹ کا یاد کروادیا جس کا پچھلے ہفتے مس نے سختی سے بولا تھا کہ منڈے کو لوں گی اور جس کو نہ آیا اس کو کلاس کے باہر مرغا بناؤں گی اور آج منڈے ہی ہے اور مس بھولی ہوئیں ہیں ٹیسٹ کو بیٹری ہمارے لئے رحمت نہیں زحمت بن کے آئی ہے سمجھی کچھ کر موٹی سمیرا ورنہ سب کی دھلائی آج پکّی معاویہ نے پریشان صورت بنا کر کہا ۔
کچھ کر تو لوں میں پر اک بات کی سمجھ نہیں آئی سمیرا نے کہا ۔
وہ کیا؟؟؟ معاویہ نے پوچھا
تم نے ابھی جو کہا کہ مس ہمیں مرغے بنا کر کلاس کے باہر نکال دیں گی ۔۔۔
ہاں تو۔۔۔۔۔ معاویہ نے جھنجھلا کر کہا ۔
پر ہم تو لڑکیاں ہیں نہ تو اصولی طور پہ مرغے نہیں ان کو ہمیں مرغیاں بنانا چاہیے سمیرا موٹی نے اپنے تئیں کوئی بہت ہی عقلمندی کی بات کی جس پر اک اور دھموکا اس کی کمر کی نظر ہوا اور وہ سسسسییی کر کے رہ گئی۔ معاویہ تم بہت ظالم ہو ویسے سمیرا نے معصوم سا شکوہ کیا , میں اس سے بھی زیادہ ظالم ہو سکتی ہوں اگر تم نے کوئی حل نہ نکالا مس ثناء کے ٹیسٹ سے بچنے کا۔
اچھا اچھا مارنا بند کرو کرتی ہوں کچھ سمیرا موٹی نے خوب سوچ بچار کے بعد اک حل نکال ہی لیا اور بنا اپنی دوستوں کو بتائے کہ وہ کیا کرنے والی ہے شروع ہوگئی ۔۔۔۔۔
آآآآآآآ ئ ی ی ی امّی مجھے کچھ ہو رہا ہے چکر آ رہے ہیں کوئی مجھے بچاؤ وووو
سمیرا کے چلانے پر مس ثناء سمیت ساری کلاس اس کے پاس بھاگی بھاگی آئی کیا ہوا آ پکو مس ثناء نے پریشانی سے پوچھا ۔
کچھ کچھ سمیرا موٹی نے کہا۔۔۔۔۔
ہیں ں ں کیا کہا مس ثناء کی تیوری چڑھی نہیں مس میں وہ کہہ رہی تھی کے مجھے ہائ بلڈ پریشر کا مسئلہ ہے اکثر ہو جاتا تو بیٹھنا مشکل ہو جاتا اب بھی شاید وہی مسئلہ ہوا ہے سمیرا نے مکمل معصوم بننے کی ایکٹنگ کی ۔
آں ہاں آج سے پہلے تو کبھی کلاس میں تمہیں یہ مسئلہ نہیں ہوا مس ثناء بھی کمال تھیں بال کی کھال نکال لیتی تھیں ۔
افففف اوووو کہاں پھنس گئی میں سمیرا منہ میں بڑ بڑائی نہیں مس بس کچھ عرصہ پہلے ہی ہوا ہے یہ مسئلہ اس لئے ۔۔۔۔
اوکے چلو میرے ساتھ سٹاف روم میں مس نے کہا۔
ہیں سٹاف روم میں کیوں سمیرا نے ہکلاتے ہوئے کہا ۔
اف او تم کتنے سوال کرتی ہو چلو میرے ساتھ مس ثناء اس کا ہاتھ پکڑ کر سہارے سے اسے اپنے ساتھ سٹاف روم میں لے گئیں جہاں اب اللّہ ہی جانے اس کا کیا حال ہونے والا تھا۔۔۔۔۔