جی سر آپ نے اتنی جلدی میں بلایا خیریت؟؟؟ عبید علی,مدثر شاہ اور مِیر شاہ ویز خان تینوں ایک ساتھ کھڑے تھے کیونکہ ان کو ان کے سینئر نے بلایا تھا ۔
ہاں بلایا ہے میں نے کیونکہ بات ہی ایسی ہے کہ جلدی میں بلانا پڑا ۔
عبید مدثر اور شاہ ویز چھٹی پر تھے اور انہیں چھٹی ختم ہونے سے پہلے ہی کال کر کے بلایا گیا تھا وہ تینوں کمانڈوز تھے اور تینوں شیر جوان تھے اہم کیس زیادہ تر ان تینوں کے سپرد ہی کئے جاتے تھے اب بھی مسئلہ خاصہ گھمبیر تھا ۔
جوانوں دراصل بات یہ ہے کہ ابھی اک خبری سے پتہ چلا ہے کہ لڑکیوں کو اغواء کر کے بیچنے والے تعلیمی اداروں سے لڑکیوں کو ورغلا کر یا نشے کا عادی بنا کر اغواء کر سکتے ہیں میں تم تینوں کو ٹیم کی صورت میں بھیج رہا ہوں عبید اور مدثر کو الگ الگ گرلز کالج میں بھیج رہا ہوں اور دونوں کے ساتھ کچھ جوان بھی بھیج رہا ہوں ۔اور ہاں اب مِیر شاہ ویز خان جوان آپ کی باری آپ بھی جاؤ گے اک گرلز کالج وہاں کی ذمہ داری آپ کی ۔
اب تینوں جاؤ اور کل سے اپنے کام پے لگ جاؤ۔
اوکے سر اونچی آواز میں کہتے سلیوٹ کرتے تینوں شیر جوان واپس چلے گئے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقاص صاحب نے ہمیشہ ہر حال میں اللّہ کا شکر ادا کیا تھا اور حرا بیگم نے بھی کبھی نا شکری نہیں کی تھی اور شائد اللّہ پاک کو ان کی وہی ادا اتنی پسند آئی کہ شادی کے 12 سال بعد اولاد کی نعمت سے نواز دیا ۔
ہوا کچھ یوں کہ مونا دو بیٹوں کے بعد ایک بار پھر امید سے ہوئیں تو ہمیشہ کی طرح آسمان سر پر اٹھا لیا اف مجھ سے گھر کا کام نہیں ہوتا حالانکہ پہلے بھی وہ اک تنکے کا دو نہیں کرتی تھیں پھر بھی بس ناز اٹھوانے کے بہانے اُدھم مچا رکھا تھا گھر میں اور وقار صاحب بھی واری صدقے جا رہے تھے نکمی بیوی کے۔
اور بیچاری حرا بیگم کوہلو کے بیل کی طرح گھن چکر بنی ہوئی تھیں یوں ہی مونا کی خدمت کرتی حرا اک دن اس کے لئے چائے بنانے آئی کچن میں تو خود ہی چکر کھا کر گِر گئیں اور قدرتی طور پر وقاص صاحب گھر دوپہر کا کھانا کھانے آئے تو سیدھا کچن کی طرف آئے اور وہاں بے ہوش پڑی بیوی کو دیکھ کر ان کو اپنی جان جاتی محسوس ہوئی کیونکہ حرا ان کی دکھ سکھ کی ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ محبوب بیوی بھی تھیں انہوں نے فورًا حرا بیگم کو اٹھایا اور ہسپتال لے آئے وہاں پہنچ کر ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد بتایا کہ حرا بیگم ماں بننے والی ہیں ۔ادھر وقاص صاحب کو اپنے کانوں پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھاپر
ان کا ایمان مضبوط تھا اور انہیں کہیں نا کہیں امید تھی کہ اللّہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں اور اللّہ پاک نے بھی ان کی امید ٹوٹنے نہیں دی تھی کیونکہ بیشک میرا رب بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
جیسے ہی حرا کو ہوش آیا تو نرس نے ان کو بھی یہ خوش خبری سنائی کہ وہ ماں بننے والی ہیں حرا کے تو خوشی کے مارے آنسو بہنے لگے تبھی وقاص صاحب ان کے پاس آئے اور پیار سے ان کے آنسو پونچھ کے بولے پگلی اللّہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے تم رو کیوں رہی ہو؟؟؟
وقاص صاحب کیا بتاؤں یہ خوشی کے آنسو ہیں میں اپنے رب کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوئی مشکل سے مشکل وقت میں بھی نہیں اور دیکھیں رحیم مالک نے مجھے نواز دیا ۔خوشی سے بات کرتے کرتے اک بار پھر ان کے آنسو بہہ نکلے
وقاص صاحب اب مجھے کوئی بانجھ نہیں بولے گا نہ ؟؟؟ حرا نے معصومیت سے کہا۔ نہیں کوئی نہیں بولے گا ایسا اب وقاص صاحب نے ان کے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگا کر کہا ۔
گھر پہنچے تو مونا کا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا ۔ارے ارے دیکھیں وقار صاحب دیکھیں یہاں آپ کی بیوی اس حالت میں گھر کے کام کرتی پھر رہی ہے اور ادھر مہارانی جی میاں کے ساتھ سیر سپاٹے کر کے لوٹی ہیں غضب خدا کا افففف مونا نے آگ لگائی حالانکہ انہوں نے صرف بستر سے ہل کر میاں کو چائے ہی بنا کے دی تھی نہیں تو حرا ان کو نو ماہ بستر سے ہلنے نہیں دیتی تھیں بس آج پہلی بار چائے کیا بنا لی گھر سر پر اٹھا رکھا تھا مونا بیگم نے ۔
بھائی آپ کو پتہ تو ہے کہ مونا اس حالت میں تھوڑی چڑ چڑی اور کمزور ہو جاتی ہے بھابھی سے کہیے نہ اس کا مکمل خیال رکھیں کیوں لا پرواہی کرتیں ہیں بھابھی وقار نے ایسے کہا جیسے حرا کوئی مونا کی ملازمہ ہو اور مونا شہزادی ہو
دیکھو میاں تمہاری بیگم تو تیسری بار ماں بن رہی ہے اس کو تو اب یہ بچوں والے چونچلے نہیں جچتے ہاں البتہ حرا پہلی بار ماں بن رہی اس کو ڈاکٹر نے آرام کرنے کا بولا ہے سختی سے
وقاص صاحب ہمیشہ کے کم گو اور صلح جو آج پہلی بار بولے تو چھپڑ پھاڑ کہ بولے کے سامنے بیٹھے وقار اور مونا کی چونچ ایسے بند ہوئی جیسے ایلفی سے جوڑی ہو
اب جب سے مونا کو پتہ چلا کہ اس کی جیٹھانی بھی ماں بننے والی ہے تو اس کے اندر ہر پل اک آگ سی لگی رہتی آخر اب دن رات بانجھ ہونے کا طعنہ جو نہیں دے سکتی تھیں محترمہ ۔
خیر پھر کالے دل کی مونا نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دینا شروع کردی کہ میرے تو پہلے بھی دو بیٹے ہیں دیکھنا اب بھی بیٹا ہی ہو گا اور ان کے ہوگی ہی بیٹی
پر مونا کو یہ نہیں پتہ تھا کہ بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں اور اللّہ جس سے بہت خوش ہوتا ہے اپنی رحمت کی بارش بھی اسی پر ہی کرتا ہے
پر یہ بات کمزور ایمان والی مونا کو کون سمجھاتا ان کو ان کی جلن نے دیوانہ بنا رکھا تھا ۔ویسے بھی اب انہیں ویلیاں کھانے کو جو نہیں ملتی تھیں اب برابر کا کام جو کروانا پڑتا تھا انہیں حرا کے ساتھ آج بھی برتن دھوتے جب کمر اکڑی تو چڑ کر منہ میں بد دعائیں دینے لگیں اللّہ بیٹی ہو اس کے گھر بڑی اکڑی پھر رہی ہے 12 سال بعد گود کیا ہری ہو گئی خود کو ملکہ عالیہ سمجھ بیٹھی
میرے بیٹا ہوگا اور اس کے بیٹی دیکھنا
جی جی بھابھی بلکل میرے گھر بیٹی ہی ہوگی کیونکہ بیٹی رحمت ہوتی ہے اور میں اللّہ کی رحمت کا طلبگار ہوں
پیچھے سے آتے وقاص صاحب جو مونا کی بڑبڑاہٹ سن چکے تھے ان کو سیدھی بات بول کر پانی پی کر مونا کو مزید جلتا چھوڑ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہرماہ اپنے دھیان اپنا چشمہ ٹھیک کرتی کالج میں داخل ہوئی اور دل میں آج ہونے والے ٹیسٹ کو دہراتی ہوئی چلی جارہی تھی کہ اچانک اوپر سے کسی نے اس پر پانی سے بھری بالٹی ڈال دی اور اسے سارا گیلا کر دیا
اور معصوم سی مہر ماہ نے جب آنسو بھری آنکھوں سے اوپر کی طرف دیکھا تو اوپر کھڑی معاویہ عمارہ سمیرا موٹی اس پر ہنس رہیں تھیں اووووو بیٹری بھیگ گئی سمیرا موٹی نے کہا او میلا شونا جاؤ اب رونا نہیں کلاس میں جا کے ٹیسٹ کی تیاری کرو پڑھاکو بیٹری اس بار عمارہ نے منہ بنا کر کہا
کیونکہ عمارہ اس کی( کزن) چچی کی بیٹی بھی تھی اور اس کی ماں سے اسے ہمیشہ مہر ماہ کے خلاف ہی تربیت ملی تھی اس لئے وہ یہ شوق گھر کے ساتھ ساتھ کالج میں اپنی شرارتی سہیلیوں کے ساتھ بھی پورا کرتی رہتی تھی
البتہ صباء کو معصوم سی مہر ماہ کے ساتھ اس کی سہیلیوں کا یہ سلوک زہر لگتا تھا اس لئے وہ کبھی مہر ماہ کو تنگ کرنے میں ان کا ساتھ نہیں دیتی تھی اور معاویہ بس ہنس کر وقت گزار دیتی تھی وہ بھی کوئی خاص تنگ نہیں کرتی تھی مہر ماہ کو بس اس کے پڑھاکو ہونے سے چِڑتی تھی جس کی وجہ سے آئے دن کلاس میں ان کی نالائق اور شرارتی ہونے پر درگت بنتی رہتی تھی ۔
حلانکہ معاویہ نالائق نہیں تھی بس شرارتی تھی پر نالائق کا لقب بھی ساتھ ساتھ مس ثناء نے اس کو دے دیا تھا بس یہی وجہ تھی کہ وہ مہر ماہ سے تھوڑا بہت چڑتی تھی باقی عمارہ کی طرح کوئی ذاتی نفرت نہیں تھی اسے مہر ماہ سے اور ویسے بھی جتنی معصوم مہر ماہ تھی اس پر تو یونہی ہر انسان کو پیار آ جاتا تھا سوائے عمارہ اور اس کی ماں کے
مونا کو اللّہ نے بیٹی جیسی رحمت دی تو اس نے رو رو کے ہسپتال سر پر اٹھا لیا حالانکہ اللّہ پاک نے پہلے دو بیٹے بھی دیے تھے پر اس کو رونا صرف یہ تھا کہ میرے بیٹی ہو گئی اگر حرا کے بیٹا ہو گیا تو میری اونچی ناک کٹ جائے گی اور یہ اس کی اپنی بنائی سوچ تھی حقیقت اس سے بلکل مختلف تھی کیونکہ حرا اور وقاص تو خود بیٹی کے لئے اللّہ کے حضور دعاء مانگتے تھے ان کی خواہش تھی کہ اللّہ انہیں اپنی رحمت سے نوازے ۔
خیر مونا کو تب تک سکون نہیں ملا جب تک دو ماہ بعد حرا کے گھر بھی بیٹی نہیں ہو گئی اسے وہ اپنی جیت سمجھ رہیں تھیں حالانکہ وقاص اور حرا نے خود اللّہ سے رحمت دعاؤں میں مانگ کر لی تھی اور وقاص صاحب نے اپنی لاڈلی کا پیار سے نام دلبر رکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔