مس ثناء کلاس روم میں داخل ہوئیں تو کلاس میں ادھم مچاتی لڑکیاں فورًا معصوم بن کے بیٹھ گئیں ۔ارے نہیں نہیں اب بھی کیوں چپ ہوئی ہو سب اب بھی کرو نہ کھیل تماشے اففففف جاہلوں کی ٹولی ۔۔۔عقل تو گھاس چرنے گئی ہے گدے گھوڑوں جتنے قد ہو گئے حرکتیں پھر بچوں والی ۔
سدھر جاؤ تم ساری کی ساری ورنہ یہ ہو کہ مجھے تم لوگوں کی مکمل مرمت کرنی پڑ جائے مس ثناء کا اشارہ معاویہ اور اس کے گروپ کی طرف تھا ۔
اگر وہ لڑکیاں اپنی شیطانیوں سے باز نہیں آتیں تھیں تو مس ثناء بھی اپنے نام کی ایک ہی تھیں ایسی عزت کرتیں تھیں ان سب کی ساری کلاس کے سامنے کے اگر کوئی عام لڑکی ہو تو شرم سے سر نہ اٹھا پائے اتنی بے عزتی کے بعد ۔
پر وہ تھوڑی نہ عام لڑکیاں تھیں وہ تو شیطان کی نانیاں تھیں اور معاویہ ان نانیوں کی نانی جہاں مس ثناء وقتًا فوقتًا انکی عزت کرنا نہیں بھولتی تھیں وہاں وہ لڑکیاں بھی اکثر شیطانیاں کرنے سے باز نہیں آتیں تھیں ۔آج بھی کسی کلاس کی لڑکی نے سٹاف روم میں جا کر مس ثناء کو شکایت کی تھی کہ معاویہ اور اس کا گروپ بلیک بورڈ پر آپکے بال بنا بنا کے آپ کا مزاق بنا رہی ہیں ۔دراصل مس ثناء کے بال گھنگھر یالے تھے اور معاویہ اور اس کا گروپ ان کو پھٹا بم کہتیں تھیں کچھ بچاری مس ثناء بھی سادہ سی فیشن سے کوسوں دور اس لئے ان شیطان لڑکیوں کو مزا آتا مس کو چھیڑ کے۔
مس ثناء کلاس روم میں آئیں تو معاویہ نے اپنے دوپٹے سے ہی بلیک بورڈ صاف کردیا اور خود بھاگ کر اپنی سِیٹ پر بیٹھ گئی۔
کافی ڈانٹنیں کے بعد مس ثناء تو چلی گئیں ۔
پر شیطانوں کی ٹولی پھر شروع ہو گئی شرارتیں کرنے۔
معاویہ ,عمارہ ,سمیرا ,اور صباء چار سہیلیاں تھیں معاویہ سب سے بڑی شیطان کی نانی تھی اور اس کے پیچھے پیچھے سمیرا اور عمارہ بھی لگ گئیں تھیں یہ سب سکول کے وقت سے ساتھ تھیں اس لئے اتنی لمبی دوستی نے ان کو بلکل ایک جیسا کر دیا تھا اور صباء ان کو کالج میں ملی تھی گو کہ وہ اتنی شرارتی نہیں تھی پر ان کے ساتھ نے اسے بھی اپنے جیسا کر لیا تھا پھر بھی وہ خاصی ڈرپوک تھی اکثر الٹے کاموں میں ان کا کم کم ساتھ دیتی تھی یا بھاگ جاتی تھی جس پر باقی تینوں اس کو ڈرپوک کہہ کر چڑّاتی تھیں اور وہ ہنس کر بات ٹال دیتی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقاص صاحب کی کریانہ کی چھوٹی سی کرایے کی دوکان تھی جس سے بس گزر بسر بمشکل ہوتا تھا ان سے چھوٹا ایک ہی بھائی وقار تھا جو تھوڑا بہت پڑھ گیا تھا جس کے باعث اسے بنک میں نوکری مل گئی تھی دونوں بھائیوں کی شادی اک ساتھ کر کے ان کی والدہ بشرٰی بیگم کچھ ہی عرصے بعد دنیا چھوڑ گئیں والد تو پہلے اللّہ کو پیارے ہو چکے تھے یوں دونوں بھائیوں پے گھر کی ساری ذمہ داری آگئ ۔وقار صاحب تو اچھا خاصا کما لیتے تھے پھر بھی غربت کا رونا ہی روتے نہیں تھکتے تھے وجہ ان کی ضرورت سے زیادہ تیز بیوی مونا تھی جسے شیطانی ذہن چلانے سے تو فرصت ہی کہاں تھی ۔وقار صاحب کی تو قسمت نے ہر جگہ ہی ساتھ دیا اور پہلے ہی سال گود بھی بھر گئی مونا بیگم کی ۔
پر ادھر وقاص صاحب بیچارے جہاں غربت کا شکار تھے وہاں اولاد کی نعمت سے بھی محروم رہے۔ اور ان کی بیگم حرا صاحبہ اتنی ہی صابر عورت تھیں کسی بات کا شکوہ کبھی منہ پے نہ آیا حالانکہ مونا آتے جاتے چلتے پھرتے ان کو بے اولاد ہونے کا تو کبھی غربت کا طعنہ دے دیتیں ۔
آج بھی حرا جب کپڑے دھونے بیٹھیں تو مونا بیگم اپنے اور اپنے شوہر اور دونوں بیٹوں زاہد اور شاہد کے کپڑے لے کر آ گئیں ۔
اوووو بی بی ویلی نکمی یہ تھوڑے سے کپڑے ہمارے بھی دھو لو ویسے بھی تم کو کوئی کام ہی کہاں ہے اک ہم ہیں بچے بھی سنبھالو میاں کو بھی دیکھو گھر کے خرچے بھی کرو تم لوگوں کا کیا نہ اولاد ہے بانجھ کی نہ کوئی خرچہ کرتے ہو گھر کا بس ویلیاں ہی کھاتے ہو ساری فکریں تو ہمیں ہی ہیں ہہہن۔ کہہ کر مونا چلتی بنی اور حرا آنسو پیتی اسکے اور اس کے بیٹوں کے گندے ترین کپڑے د ھونے بیٹھ گئیں مونا کبھی حرا سے رشتے کا مان نہیں رکھتی تھیں ہمیشہ جیٹھانی کو تم کہہ کر ہی مخاطب کرتی تھیں اور حرا بھی چپ چاپ سب سہتی تھیں اور وہ بیچاری کر بھی کیا سکتی تھیں صبر تو ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اور کچھ شوہر کی طرف سے بھی برداشت کرنے کی خاص ہدایت تھی انہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میر چنگیز خان کا تعلق پشاور سے تھا پیشے سے ڈاکٹر تھے شادی کو آٹھ سال بیت گئے تھے پر اولاد کی نعمت سے محروم تھے پھر بھی ہر حال میں اللّہ کا شکر کرنا نہیں بھولتے تھے اور اسی صبر و شکر کا نتیجہ ہی تھا کہ اللّہ پاک آٹھ سال بعد مہربان ہو گیا اور ان کی بیگم مہرین کو اک چاند سا بیٹا دیا جس کو پیار سے میر چنگیز خان دِل کہہ کہ پکارتے تھے۔