شیبہ اور افروز کی پہلی ملاقات تب ہوتی ہے جب افروز اس کے باپ کا جوتا چرا رہا ہوتا ہے۔شیبہ دیکھ لیتی ہے اور اس پر دنڈے برساکر لہولہان کردیتی ہے۔ مگر درحقیقت وہ چور نہیں ہوتا۔اس بات کا اندازہ شیبہ کو تب ھوتا ہے جب افروز شیبہ کا گرا ہوا پرس لے کے شیبہ کے گھر جاتا ہے۔اور شیبہ یہ جان کربہت شرمندہ ہوتی ہے۔اب آگے پڑھیۓ۔
اب میں چلتا ہوں شام ہوگئی ہے اور مجھےپیدل گھر جانا ہے۔ اچھاایک بات بتاؤ۔ تم نے سارے پیسے حساب کے ساتھ وا پس كيے مگر پٹی کے ساٹھ(٦٠) روپے واپس نہیں کیے وہ میڈم آپ نے مجھ پر تشدد کیا تھا وہ جو اسلام میں گناہ ہے تو میں نے اس کے بدلے میں میں نے آپ سے نیکی کروا لی پٹی کے پیسے رکھ لیے اس نیکی کے بدلے اللہ آپ کو معاف کرے گا اور میڈم میں بھی آپ کو معاف کرتا ہوں اچھا چلتا ہوں
۔۔۔۔۔ سنو۔۔۔۔۔۔ شام ہو گئی ہے پیدل گھر جاتے ہوے ٹائم لگ جاے گا یہ لو پچاس (٥٠) روپے کرایہ رکھ لو۔ نہیں میڈم میں پیدل جاؤں گا ورنہ کل پھر مجھے یہ پیسے واپس کرنے کےلئے آنا ہو گا اور کل میرے پاس ٹائم بھی نہیں ہو گا کیونکہ کل کام ڈھونڈنا ہے۔۔
کونسا کام ۔۔۔۔
مزدوری کی بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔
اچھا یہ پیسے رکھ لو اور واپس کرنے نا آنا۔۔۔۔
میڈم میں امیروں کے ٹکڑوں پر نہیں پلتا ہوں۔۔۔۔۔
اور پھر افروز نے پیدل ہی گھر کا رخ کیا وہ جاتے جاتے میڈم کو بہت شرمندہ کر گیا وہ اس کی دولت کو ٹکڑوں کا نام دے گیا ۔۔۔۔۔
ہاں وہ تھیک ہی تو کہہ رہا تھا وہ شبیہ کو ایک گہری سوچ میں ڈال گیا شبیہ کمرے میں گئی تکیہ گود میں لیا اور صوفے کی ٹیک لگا کر نیچے فرش پر ہی بیٹھ کر سوچنے لگی ۔ آج اسے اپنے امیر ہونے پر شرمندگی ہو رہی تھی آج اس احساس ہوا کہ وہ درحقیقت کتنی غریب ہے اور وہ غریب کتنا امیر ہے ۔۔۔۔
اس نے 60 روپے اس لئے رکھے کہ اللہ اس نیکی کے بدلے میں مجھے معا ف کر دے گا وہ جسے مجھے بددعا دینی تھی وہ اللہ سے بخشوانے كا سودا کر گیا ميرے ساته۔۔۔۔۔۔
اور میں اسے پولیس کے حوالے کرنے جا رہی تھی۔ اچھا ہوا کہ بابا ساتھ تھے ورنہ اس بیچارے کا بہت برا حال ہوتا۔ اور اسے تو بچانے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک کمزور لڑکا ملک جہانزیب کی بیٹی کے منہ پر اس کی دولت کو ٹکڑے کہہ گیا اسے زرا بھی ڈر نہیں آیا۔ ہمارا نام سن کر بڑے بڑے کانپ جاتے ہیں اور وہ منہ پر میری بے عزتی کر گیا۔ نہیں وہ مجھے بے عزت نہیں کر کے گیا مجھے جینے کا مقصد بتا گیاہے۔ اس ساری رات شیبہ افروز کی باتوں پر سوچتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی اس نے فیصل ٹاؤن کا رخ کیا اور افروز کا پوچھتے پوچھتے اس کے گھر پہنچ گئی افروز اور اس کی ماں اپنی کچھ گہری باتوں میں مصروف تھے کہ دروازہ کھٹکا۔ افروز نے دروازہ کھولا شیبہ کو دیکھتے ہی وہ چونک گیا۔۔۔
ارے میڈم آپ یہاں ہمارے غریب خانے پہ کیسے، سب خیر تو ہے ناں!!!!
جی خیر ہی ہے۔۔۔۔۔۔
آپ اندر آئیے نا همارا گھر آپ کے قابل تو نہیں مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی یہ میڈم آئی ہیں ان کےلئے اچھی سی چاے بنانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید ہماری چائے بھی آپ کے قابل نہ ہو مگر ہم مہمانوں کو خالی پیٹ نہیں بھیجتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ پی لیں گی ناں؟؟؟؟؟
ہاں ہاں ضرور پیوں گی۔۔۔
اچھا آپ کا خیریت سے آنا ہوا؟؟؟؟
ہاں آپ کل کہہ رہے تھے کہ مجھے کام ڈھونڈنا ہے تو ہماری فیکٹری میں کام کرنا چاهوگےہمیں کچھ ورکرز کی ضرورت ہے۔۔۔
یہ تو آپ کی عنایت ہوگی مجھ پر___ اگر اپنی فیکٹری میں کام رکھ لو۔
تو ٹھیک ہے آج بیس (٢٠) تاریخ ہے تم تیس(٣٠) تاریخ کو آجانا۔ یہ فیکٹری کا ایڈریس ہے اور يه میرا کارڈ وہاں آفس میں آجانا میں ادھر ہی ہوں گی۔
لکھنا آتا ہے نا۔
جی میں نے میٹرک پاس کیا تھا۔
ہاں تھیک ہے تم تیس(٣٠) کو لازمی آ جانا۔ویسے کتنی تنخواہ لو گے۔
جتنی باقی مزدور لے رہے ہیں۔
مگر تم نے مزدوروں کے ساتھ نہیں رہنا۔ تمہارا کام آفس میں لکھائی والا ہوگا۔ اب بتاؤ کتنی تنخواہ سے کام چل جاے گا تمہارا۔
کام تو ہمارہ میری تنخواہ کے بغٰیر بھی چل رہا ہے۔ اللہ کا بہت شکر ہے۔
اچھا بتاو نا کتنی تنخواہ لو گے۔
جی میڈم اگر آپ پانچ ہزار بھی دے دیں تو کام چل جاے گا۔
اچھا اتنے پیسوں کا کیا کرو گے، ہر مہینے کا ایک ہزار اپنی ماں کو دوں گا،اور ہزار کے خود فروٹ کھاؤں گا۔ سارے پھل مجھ سے بہت ناراض ہیں کیونکہ میں نے کبھی کوئی پھل کھایا نہیں نا ___اور باقی کے تین ہزار کو جوتے لوں گا اور ان جھونپڑی والوں کو دوں گا۔
افروز کی اس تقسیم پر شیبہ کو ایک بار پھر بہت حیرت ہوئی۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کی دولت واقع ہی تکڑے ہے۔ شیبہ نے چاے پی اور وہاں سے اتھنے لگی۔
اچھا میں چلتی ہوں اور ہاں تمھاری تنخواہ پچاس ہزار روپے ہو گی اور پھر ڈھیر سارے جوتے خریدنا اور امی کو بھی زیادہ پیسے دینا۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے میڈم یہ کیا کہ رہی ہیں۔
اب افروز اور اس کی امی کی آنکھوں میں آنسو آگئے پچاس ہزار
ان کے لئے بہت بڑا لفظ تھا۔شیبہ وہاں سے چلی گئی۔