وہ عورت اپنے بچے کے جوتے چوری ہونے کی شکایت لگانے آئی تھی۔اس سے پہلے بھی دو بار اس کے بیٹے کے جوتے چوری ہو چکے تھے اور آج وہ غصےسے بھر پور نظر آرہی تھی۔ مولوی صاحب اسے سمجھارہے تھے کہ ہم یہاں صرف ان کو پڑھانے آتے ہیں ان کے جوتوں کی حفاظت کرنے نئی آتے۔ یہاں تو ہمارے بھی جوتے چوری ہوجاتے ہیں۔
میں یہاں آپ کے جوتوں کا پوچھنے نئی آئی میں اپنے بچوں کے جوتوں کا پوچھنے آئی ہوں۔
10،15 منٹ کی بحث کے بعد جب مولوی صاحب کے پاس مزید بحث کی ہمت نہیں رہی تو وہ یہ بھانی لگا کے اٹھ گۓ کہ مجھے کسی کے گھر سپارہ پرھانے جانا ھے اور اب دیر ہو رہی ہے۔ مولوی صاحب چل دئیے۔ لگ رہا تھا کہ وہ ابھی آدھا غصہ بھی نہیں نکال سکی تھی۔ ویسے بھی ایک عورت کے 15 منٹ کا ٹائم کسی بھی بحث کےلے بہت تھوڑاہوتا ہے۔
لیکن اب چونکہ مولوی صاحب جا چکے تھے تو اس عورت کو بھی مجبورا وہاں سے جانا ہی تھا۔ اس عورت نے واپسی کا رخ کیا اور جوتا حال میں پہنچی۔ وہاں پہنچتے ہی اس عورت نے زور زور سے بین کرنا شروع کر دیے۔ وہ جو اپنے بچوں کے جوتوں کی شکایت لگانے آئی تھی اس کا اپنا جوتا بھیچوری ہو چکا تھا۔ اس نے مدرسہ سر پ اٹھا لیا۔ اب مولوی صاحب تو مدرسہ میں تھے نئی صرف بچے ہی تھے۔اور بچے اس عورت کے بین سن کے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس عورت کے انداز بتا رہے تھے کہ وہ کسی دیہات سے آئی ہے۔ یی یقینا اس احمق افروز کا کام تھا۔ افروز بھی اسی مدرسے میں پڑھتا تھا۔ جو کسی سے لڑنے کی طاقت نئی رکھتا تھا۔ جب مدرسہ میں اس کی کسی کے ساتھ منہ ماری ہوتی تو وہ اس کا بدلہ لینے کےلے اس کے جوتے چرا لیتااور پھر اسے ننگے پاؤ گھر جانا پڑتا۔وہ بظاہر کمزور نظر آنے والا لرکا وار بہت گہرا کرتا تھا۔ لیکن اس کی اس شرارت کا ابھی تک کسی کو علم نئی تھا۔ افروز بھی اس عورت کا سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ جب 20 منٹ بین کے بعد وہ عورت تھک کے بیٹھ گئی تب افروز نے سوچا شاید اب اور تماشا نئی لگنے والا۔وہ واش روم میں گیا اور بھاگابھاگا اس عورت کے پاس آیا
خالہ جی خالہ جی۔۔ افروز بڑے احترام سے اس عورت کو مخاطب کر رہا تھا جیسے وہ کچھ جانتا ہی نہیں تھا۔ خالہ جی آپ کے جوتے فلاں واش روم میں کوئی چھپا گیا ہے میں ابھی دیکھ کے آیا ہوں۔جوتے دیکھ کے عورت کی جان میں جان آگئ۔ اس نے افروز کو پیار دیا اور اس کا شکریہ ادا کیا۔افروز دل ہی دل میں اپنی شرارت پر بہت مسکرا رہا تھا۔ اب افروز کی جوتا چوری کی یہ عادت پھیلتی گئی اور پھر وہ جوتوں کا بہت اچھا چور بن گیا
اب وہ مدرسہ کے علاوہ مساجد درباروں اور درگاہوں پر بھی حملہ کرنے لگا۔ اور آۓ دن کسی نا کسی مسافر کو ننگے پاؤں گھر جانا پڑتا۔درحقیت افروز چور نئ تھا یہ بس اس کی عادت بن گئی تھی۔افروز جوتا چھپا کر خود ساتھ ہی کسی محفوظ جگہ پر چھپ جاتا اور جوتے والے صاحب کو ننگے پاؤی گھر جاتا دیکھ کے خوب لطف لیتاجو آتے وقت تو بڑی ٹھان سے آرہا تھا اور اب شرم کے مارے منہ چھپا کے جارہا ہے۔ افروز کا ایک اصول تھا وہ کسی عام آدمی کا جوتا نئی اٹھاتا تھا۔وہ ھمیشہ کسی اچھی خاصی شخصیت پر ہی حملہ کرتا۔اور جب کوئی اچھا شکار ہاٹھ نہ آتا تو چھوٹے شکاروں پر حملہ کرنے کی بجائے خالی ہاتھ گھر چلا جاتا کیونکہ شیر جتنا بھی بھوکا ہو کبھی گھاس نئ کھاتا۔اب جوتا چوری کا چرچہ اس علاقے میں کافی پھیل گیا۔اور آس پاس کے لوگ بہت محتاط رہنے لگے مگر مسافر لوگو ں کو کیا پتہ ھوتا یہاں سے خالی پاؤں گھر جانا پڑتا ہےاور ایک روز حاضرماڈل جی-ایل-آئی تیز رفتاری کے بعد ایک زوردار بریک کے ساتھ مسافر مسجد کے سامنے کھڑی ہوئی اور ایکادھیڑعمر ایک شخص جس کی عمر لگ بھگ پچپن (٥٥) سال ہو گی فرنٹ سیٹ سے نیچے اترا جو ایک اکڑے ہوے کالے لٹھے میں ملبوس تھا جو ایک پرسنیلٹی شو کر رہا تھا ادھر افروز بھی ایسے ہی شخص کے انتظار میں تھا اور اپنا شکار دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوا۔
وہ صاحب مسجد کی باہر والی سیڑھی پر ہی جوتے اتار کے مسجد میں داخل ہو گئے۔ افروز کا شکار اور بھی آسان ہو گیا ادھر صاحب نے الله اکبر کی ادھر افروز اپنے مورچے سے اٹھا ادھر ادھر دیکھا جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو افروز نے چپکے سے جوتا بغل میں چھپایا اور پیچھے کا رخ کیا مگر گاڑی کے شیشے سے افروز کو جوتا اٹھاتے ہوے کوئی دیکھ رہا تھا۔افروز ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ ایک لکڑی کی مظبوط سوٹی جو شاید نماز پڑھنے والے کی کھونڈی تھی افروز کے سر میں لگی افروز کے تو طوطے بول دیے، اس کے سر سے خون بہنے لگا پیچھے مڑ کے دیکھا تو ایک خوبصورت نوجوان لڑکی اپنا رعب جماعے کھڑی تھی اور ایک دم سے بولی بغیرت جوتے چراتا ہے اور پھر ایک اور سوٹی اس کی کمر میں دے رہی۔ افروز اب التجائی نظروں ہاتھ باندھے اس لڑکی کے سامنے کھڑا تھا،
میڈم مجھے معاف کر دو!
معاف تو تمہیں میرے ابو ہی کریں گے!
افروز کو چوری کرتے تقریبا چار (٤) سال ہو گئے تھے اور آج پہلی بار وہ پکڑا گیا وہ بھی ایک نوجوان لڑکی کے ہاتھوں، افروز معافی کی درخواست کر رہا تھا اور لڑکی باپ کے انے کے انتظار میں تھی چند ہی لمحوں بعد وہ مسجد سے برآمد ہوے اور انھیں دیکھتے ہی افروز پہ سکتہ طاری ہوگیا۔اور محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا
بابا یہ لڑکا آپ کے جوتے چرا کے بھاگ رہا تھا یہ تو اچھا ہوا میں نے دیکھ لیا ورنہ ہمیں کہاں ملتا اب اسے پولیس کے حوالے کرنا ہی ہو گا۔
صاحب نے اس لڑکے کی طرف دیکھا جس کے سر سے کافی خون بہہ رہا تھا
ارے تم نے اسے مارا بھی ہے!
ہاں مارتی نہ تو یہ بھاگ جاتا۔
وہ صاحب اللہ کا نیک بندہ نظر آرہا تھا۔ اس نے افروز پر کوی غصہ ظاہر نہیں کیا اور افروز کو سمجھایا کہ بیٹا ہاتھ سے کمانا سیکھو یہ تمھاری عمر چور بننے کی نہیں ہے
جی ص ص۔۔۔۔۔م میں۔۔۔۔۔ چور نہیں ہوں
افروز نرم اور دھیمے لہجے میں بولا ادھر وہ لڑکی کھڑک کے بولی تو یہ جوتے تمھارا باپ چرا کے لے جا رہا تھا
ارے بیٹا تم چپ رہو! باپ نے بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اور صاحب نے 500 روپے دیئے یہ نۓ جوتے لے لینا۔اور یہ100 روپے کی سرپ پٹی لگوا لینا۔
نہیں صاحب مجھے جوتوں کےلے 500 روپے نئ چائیے آپ بس یہ 100 روپے دے دیں پٹی کےلئے ارے یہ 500 بھی رکھ لو نۓ جوتے لے لینا ۔۔نئ صاحب مجھے نۓ جوتے نئ چائیے۔ ہاں یہ تو مسجد سے ہی چراۓ گا وہ لڑکی ایک بار پھر کھڑک کے بولی۔
نئ میڈم میں آج کے بعد کبھی کبھی جوتا نئ چراؤں گا قسم کھاتا ہوں۔
واہ چوروں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔thats amazing
ارے بیٹا تمھیں کہا ناں چپ رہو۔ پھر صاحب نے 500
روپے افروز کی جیب میں ڈال دیۓ۔
جیب میں ڈالے اور خود واپسی کا رخ کیا، افروز کو ان صاحب پ بہت حیرت ہوئ جو اسے پیٹنے ہی بجائے الٹا اسے 500 روپے دے کر چلا گیا، لیکن وہ لڑکی مجهے چور کیوں کہہ گئی میں چور تو نہیں، میرے پاوں میں تو وہی 6 مہینے پہلے خریدے گئے جوتے ہیں، جو اب ٹوٹ بهی گئے ہیں مگر میں نے کسی کے جوتے نہیں پہنے پهر وہ مجهے چور کیوں کہہ گئی، آج پہلی بار افروز کو اپنی عادت پر شرمندگی ہو رہی تهی وہ صاحب گاڑی میں بیٹهہ چکے تهے اور لڑکی گاڑی کے آگے سے ہوتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹهہ گئ اور
گاڑی دو منٹ میں شاں شاں کرتے ہوئے آنکهوں سے اوجهل ہو گئی،
افروز کی نظر گاڑی والی جگہ پر پڑی وہاں پر ایک پرس پڑا تها جو یقینآ اس لڑکی کا گرا تها،
افروز نے وہ پرس اٹهایا کهول کر دیکها تو اس میں ٹھوڑا میک اپ اور کچھ کاغذات جس میں اس لڑکی کے شناختی کارڈ کی کاپی بھی تھی اور تقریباً دس یا بارہ ہزار روپے بھی تھے یہ سب کچھ دیکھ کر افروز نے سوچا اگر یہ سب میں نے دبا لیا تو سچ میں میں چور ہوں اور اس لڑکی کی بات سچ ثابت ہوگی لیکن میں چور تو نہیں ہوں یہ اس لڑکی کی امانت ہے مجھے اس تک پہنچانی ہوگی افروز ڈاکٹر کے پاس گیا اس سے پٹی باندھوائی اور ایک دوست سے موٹر سائیکل مانگ کر اس لڑکی کے گھر کی طرف چل دیا کیونکہ اس لڑکی کا پتہ شناختی کارڈ پر موجود تھا جو ساتھ ہی ایک قریبی گاوں میں رہتے تھے وہ لڑکی اب گاڑی میں اپنے ابو پر غصہ کر رہی تھی۔
اسے کیوں جانے دیا اسے پولیس کے حوالے کرنا چائے تھا وہ بہت بڑا چور لگ رہا تھا غلطی ہوئی اسکی ٹانگیں بھی توڑ دینی چائے تھی