کورٹ نوٹس؟ مگر کیسا کورٹ نوٹس اور کس کے لیے آیا ہے یہ؟‘‘ نبیلہ نے پوچھتے ہوئے کاغذات اٹھالیے اور پڑھتے ہی ان کے لبوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ در آئی۔ ’’اوہو! تو مشعل نے خلع کے لیے کورٹ نوٹس بھجوایا ہے۔ ہاں بھئی ظاہر ہے اس آوارہ لڑکی سے کیا بعید… دے دیا ہوگا مشورہ کسی عاشق نے‘ جبھی تو کورٹ نوٹس بھجوایا ہے۔‘‘
’’امی پلیز! بہت ہوگیا…‘‘ ریحان پہلی بار نبیلہ کے سامنے حلق کے بل چلّایا تھا۔ نبیلہ دم ساکت رہ گئیں ریحان کے اس روپ کو دیکھ کر۔ اتنا طیش میں تو وہ تب بھی نہیں آیا جب انہوں نے مشعل کی توہین آمیز تصویریں اسے دکھائی تھیں۔ تصویریں دیکھنے کے بعد اس نے حنا سے شادی کے لیے ہاں کہہ دی تھی مگر آج تو وہ اس کا ایک نیا ہی روپ دیکھ رہی تھیں‘ جو انوکھا ہی نہیں حیران کن بھی تھا۔ وہ مشعل سے اس وقت سے محبت کرتا تھا جب اسے محبت کا مفہوم بھی نہیں معلوم تھا۔ اسے اس کے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگتا تھا اور دادا ابو کے بہانے وہ اس کے ساتھ وقت گزارتا بھی تھا۔ نبیلہ اسے وہاں جانے سے منع کرتیں یا ٹوکتیں تو وہ ان سے کہتا کہ وہ دادا ابو سے ملنے جارہا ہے تب نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اسے اجازت دے دیتی تھیں۔ پھر وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے چلے گئے اور ان کی چاہتوں میں شدت آنے لگی تب پہلی بار دادا ابو نے اس سے ایک چونکا دینے والی بات کی تھی۔ وہ مشعل سے الجھنے کے بعد ہمیشہ کی طرح ان کے کمرے میں آیا تھا اس کی شکایت لے کر تب پہلی بار اس کی شکایت سننے کے بعد وہ کافی دیر تک اس کی صورت کو دیکھتے رہے تھے۔
’’ایسے کیا دیکھ رہے ہیں دادا ابو!‘‘ اس نے دریافت کیا۔
’’دیکھ رہا ہوں کہ میرا پوتا کتنا بڑا ہوگیا ہے؟‘‘ انہوں نے مسکرا کر شرارت بھرے انداز میں کہا۔
’’دادا ابو! آپ کا پوتا بڑا نہیں بہت بڑا ہوگیا ہے‘ دیکھ لیں اس نے آپ سے بھی لمبا قد نکال لیا ہے۔‘‘ جواباً گلزار احمد کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ ہنسے کس بات پر ہیں۔ وہ ٹکر ٹکر ان کی صورت دیکھ رہا تھا جب انہوںنے اس سے دریافت کیا تھا۔
’’مشعل سے بہت محبت کرتے ہو نا!‘‘ ان کے منہ سے یہ غیر متوقع بات سن کر وہ جھینپ سا گیا پھر قدرے حیرانی سے بولا۔
’’آپ کو کیسے پتا چلا؟‘‘
’’بیٹا میں تمہارے باپ کا بھی باپ ہوں۔‘‘ اور وہ مزید جھینپ گیا۔ ’’کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘ وہ جیسے خود سے بولے تھے۔
’’کیا مطلب دادا ابو؟‘‘
’’مطلب یہ میری جان کہ اب تم بہت بڑے ہوگئے ہو‘ اپنے دادا ابو سے بھی لمبا قد نکال لیا ہے لہٰذا اب تمہارا نکاح کروا دیا جائے مشعل بیٹی سے۔‘‘
’’سچ دادا ابو؟‘‘ وہ ان سے لپٹ گیا تو دادا ابو بے ساختہ ہنسنے لگے۔
’’سچ مچ! مگر یہ نکاح مشعل بیٹے کی رضا مندی کے بعد ہی طے ہوگا۔ اگر وہ راضی ہوئی تو پھر ایسے موقعوں پر وہی کہاوت ہوتی ہے کہ دلہا دلہن راضی تو کیا کرے گا قاضی! قاضی مطلب نبیلہ بی بی!‘‘
’’وہ تو انکار کر ہی نہیں سکتیں۔‘‘ اس کی زبان سے بے اختیار پھسلا تھااس نے زبان دانتوں تلے دبالی اور گلزار احمد نے اس کا کان پکڑلیا۔
’’کیا کہا تم نے؟ ذرا پھر سے کہنا؟‘‘
’’آہ! دادا جی پلیز کان چھوڑیئے بہت درد ہورہا ہے۔‘‘
’’مجھ سے اداکاری؟‘‘ انہوں نے اس کے کان کو مزید مروڑا اور پھر اس کا کان چھوڑ دیا تو وہ ان کی جانب دیکھے بنا ہی بھاگ گیا۔ گلزار احمد تا دیر مسکراتے رہے تھے۔ انہوں نے مشعل کی رضامندی کے بعد ان کے والدین سے بات کی اور یہ رشتہ طے کردیا۔ ظاہر یہی کیا کہ یہ رشتہ ان کی اپنی مرضی اور خواہش پر طے ہوا ہے لیکن اندر کی بات ہے۔ یہ صرف ان تینوں کو ہی علم تھا۔
…٭٭٭…
اس دن جب نبیلہ اپنی بہن شکیلہ کے سامنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں وہ اچانک وہاں چلا گیا تھا اور پھر ان کی گفتگو سُن کر حیران رہ گیا تھا۔ وہ دبے پائوں کسی سے ملے بغیر وہاں سے واپس آیا اور گلزار احمد کو سارا ماجرا سنایا‘ وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولے۔
’’تم پریشان نہ ہو‘ تمہاری اماں کے جانے سے پہلے پہلے تمہاری رخصتی کروادیں گے۔‘‘ تب وہ پُرسکون ہوگیا تھا۔ گلزار احمد نے اپنے قول کے مطابق بیماری کی پروا نہ کرتے ہوئے رخصتی کی تاریخ طے کرادی تھی مگر موت نے انہیں اتنی مہلت ہی نہیں دی تھی کہ وہ اپنے جان سے پیارے بچوں کی خوشی دیکھ سکتے۔ وہ اس دنیا سے چلے گئے تھے اور ساتھ ہی ان کی زندگی بھی اجڑ
گئی۔ وہ ان کی مدد سے اٹوٹ بندھن میں تو بند گئے تھے مگر ایک نہیں ہوسکے تھے اور ایک ہونے کے لیے ہی وہ نبیلہ سے سمجھوتا کرکے اسے بنا بتائے ان کے ساتھ کینیڈا چلا آیا تھا‘ کہ آج نہ سہی تو کل شاید وہ اپنے بیٹے کی خوشیوں کی خاطر مشعل کو بہو کے روپ میں قبول کرلیں مگر اس کی خوش فہمی پر اس وقت پانی پڑگیا جب انہوں نے اسے حنا سے شادی کرنے کے لیے کہا۔ اس نے انہیں دوٹوک انداز میں منع کردیا تھا کہ وہ مشعل کی جگہ کسی اور کو دینے کے بارے میںسوچ بھی نہیں سکتا۔ اس کا دوٹوک جواب نبیلہ کو اپنے منہ پر تمانچے کی طرح محسوس ہوا۔
’’کپڑوں کی طرح بوائے فرینڈ بدلتی ہے وہ… یہ دیکھو… یہ دیکھو… یہ … یہ… یہ میرا ہاتھ سوکھ گیا ہے ان تصویروں کو دیکھتے دکھاتے‘ لچھن دیکھو اس بے حیا لڑکی کے! میں اس کی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے اسے اپنی بہو نہیں بنانا چاہتی اور تم اسے بیوی بنا کر رکھنا چاہتے ہو؟ اس لڑکی سے شادی کرنے سے تو بہتر ہے چلّو بھر پانی میں ڈوب مرو‘ جس کی تصویریں اتنی واہیات ہیں وہ خود کتنی گھٹیا ہوگی سوچو؟‘‘ نبیلہ بول رہی تھی اور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ حد تو یہ تھی کہ نبیلہ نے یہ تصویریں افتخار کو بھی دکھادی تھیں اور پھر بنا کچھ کہے سنے وہ جانے کیسے راضی ہوگیا تھا۔
’’آپ جس سے کہیں گی میں اس سے شادی کے لیے تیار ہوں۔‘‘ پھر یہ کہنے کے بعد وہ وہاں رکا نہیں تھا۔ اس کے وہاں سے جاتے ہی نبیلہ نے فاتحانہ انداز سے وہ تصویریں اٹھائیں اور جاکر جلا ڈالیں۔ اب وہ ان کے کسی کام کی نہیں تھیں مگر تصویریں جلانے سے پہلے انہوں نے شکیلہ کو فون کرکے مبارک باد دی تھی کہ ریحان حنا سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوگیا ہے‘ تم کل ہی کینیڈا آجائو تاکہ جلد از جلد ان دونوں کی شادی ہوجائے مگر شکیلہ نے انہیں چند مہینے ٹھہرنے کا کہا تھا۔
’’مگر کچھ دن پہلے تو تمہیں بڑی جلدی تھی اب کیا ہوگیا؟‘‘ نبیلہ کو کچھ دن ٹھہرنے والی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی مگر پھر بھی انہوں نے شکیلہ کی بات مان لی تھی اور اس بات کے ٹھیک سات مہینے بعد اس کی شادی ہورہی تھی۔ حنا اور شکیلہ کینیڈا آچکی تھیں اور ان کا قیام نبیلہ کے گھر پر ہی تھا۔ شادی سے کچھ دن پہلے اس کے والد کی آمد بھی متوقع تھی وہ اپنی شادی پر بہت خوش تھی اور اپنی شادی کی ساری شاپنگ ریحان کے ساتھ مل کر اس کی پسند سے کرنا چاہتی تھی۔ اس دن بھی وہ دونوں ایک ساتھ شاپنگ کرنے گئے تھے جب ریحان کی ملاقات اپنے ایک پاکستانی دوست سے ہوگئی۔ اس کے ساتھ اس کے دونوں جڑواں بچے اور بیگم بھی تھیں۔
’’یار! لگے ہاتھوں اپنی ہونے والی بیگم سے بھی ملوادو‘ شادی پر تو ہم تمہاری ویسے بھی نہیں آسکیں گے کیونکہ آج یہاں ہمارا آخری دن ہے اور کل ہمیں ہر حال میں پاکستان روانہ ہونا ہے۔‘‘ ناصر نے اسے پیشگی مبارک باد دینے کے بعدکہا۔ اس سے قبل کہ ریحان کچھ کہتا ہاتھوں میں شاپنگ بیگز اٹھائے حنا وہاں چلی آئی جس کی نگاہوں کی زد میں صرف اور صرف ریحان تھا۔ اس نے سامنے کھڑے جوڑے کی طرف نہیں دیکھا تھا۔
’’چلیں ریحان!‘‘ وہ ریحان سے مخاطب ہوئی لیکن ریحان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی بیگم ناصر بول اٹھیں۔
’’ارے حنا جی! آپ؟ کیسی ہیں آپ اور یہاں کیسے؟‘ ریحان کی کوئی رشتہ دار ہیں آپ؟‘‘
’’آپ ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟‘‘ ریحان نے حنا کے چہرے سے نگاہیں ہٹا کر ان سے پوچھا۔
’’ارے یہ تو ہماری محسن ہیں‘ ان دونوں جڑواں بچوں کو ان ہی سے تو لیا تھا ہم نے۔‘‘ ریحان نے بے اختیار حنا کے چہرے کی جانب دیکھا لیکن وہ نگاہیں چرا گئی۔ ناصر کی بیگم کہہ رہی تھیں۔ ’’یہ میرے کلینک پر ابارشن کروانے آئی تھیں کیونکہ ان کے مالی حالات اچھے نہیں تھے اور یہ ان دونوں بچوں کو جنم نہیں دینا چاہتی تھیں لیکن تب ابارشن ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ ابارشن نہ کروائیں اور ان بچوں کوجنم دیں‘ سارا خرچہ ہم اٹھائیں گے۔ بڑا دل ہے ان کا جو انہوں نے دونوں بچے ہمارے حوالے کردیئے۔ بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ پر بھی ہمارے نام ہیں۔‘‘
’’اور آپ نے ان کی مالی امداد بھی کی ہوگی؟‘‘ ریحان نے دریافت کیا۔
’’جی بالکل! کیوں کہ یہ تو پہلے ہی بُرے حالات کا شکار تھیں۔‘‘ اس مرتبہ ناصر نے جواب دیا۔
’’بات پیسوں کی نہیں بات تو اس خوشی کی ہے جو انہوں نے ہمیں دی۔ یہ بچوں کی کفالت نہیں کرسکتی تھیں اور ہمیں بچوں کی ضرورت تھی بہرحال یہ ہیں عظیم عورت… آپ نے بتایا نہیں کہ آپ دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟‘‘ بیگم ناصر نے دوبارہ پوچھا۔
’’ہم دونوں ایک دوسرے کے کزن ہیں۔‘‘ اس نے نامکمل تعارف کروایا۔ ’’مگر یہ بُرے حالات سے نکل آئی ہیں۔‘‘
’’ہاں! یہ تو لگ رہا ہے ان کے حلیے سے اور ان کی صحت سے۔‘‘ بیگم ناصر نے جواب دیا۔ ریحان نے انہیں رات کے کھانے پر مدعو کیا جسے وہ بڑے سلیقے سے ٹال گئے۔ انہوں نے ایک
بار پھر اس سے اس کی ہونے والی بیگم کے بارے میں دریافت کیا تو ریحان نے ٹال دیا۔ اس کے بعد وہ ان سے اجازت لے کر آگے بڑھ گیا۔ حنا نے بھی ایک تیکھی اور زہریلی نگاہ ان دونوں میاں بیوی پر ڈالی اور اس کے پیچھے چل دی۔
’’امی! میں یہ شادی نہیں کرسکتا۔‘‘ رات کو کھانے کی میز پر اس نے گویا دھماکا کیا تھا۔ شاپنگ سے واپسی کے بعد اب تک اسے خاموش دیکھ کر حنا کو حیرت ہورہی تھی مگر اب یہ حیرت دور ہوگئی تھی۔ اس نے آتے ہی شکیلہ کو سب کچھ بتادیا تھا اور شکیلہ کی سٹی گم ہوگئی تھی پھر انہوںنے اسے تسلی دے کر کہا تھا کہ ’’تم پریشان نہ ہو میں خود سب سنبھال لوں گی۔‘‘
’’مگر کیوں بیٹا! اس سے پہلے تو تمہیں کوئی اعتراض نہیں تھا؟‘‘ نبیلہ نے حیرت بھرے انداز میں کہا۔ ’’میں نے تو شادی کے کارڈ بھی تقسیم کروادیئے۔‘‘
’’کیوںکہ آپ ایک بدکردار لڑکی کو بہو نہیں بناسکتیں۔ مشعل کو تو آپ پہلے ہی رد کرچکی تھیں تو پھر آپ حنا جیسی دو بچوں کی کنواری ماں کو کیسے اپنی بہو بناسکتی ہیں۔‘‘
’’بیٹا! یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟ تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے‘ حنا ایسی لڑکی نہیں ہے۔ ‘‘ نبیلہ نے ان دونوں کو کھانا چھوڑ کر اندر جاتے دیکھا تو رو دینے والے لہجے میں ریحان سے کہا۔ افتخار بھی کھانا چھوڑ کر بیٹھ گئے تھے اور ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سُن رہے تھے۔
’’امی! آپ بہت اچھی طرح جانتی ہیں کہ حنا کس قسم کی اور کیسی لڑکی ہے۔‘‘ اس نے ٹھہرے ہوئے اندازمیں اپنے لفظوں پر زور دے کر کہا۔ افتخار اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چلے گئے پھر اس نے نبیلہ کو اٹھ کر شکیلہ کے کمرے کی جانب جاتے دیکھا۔ صرف ریحان تھا جو میز پر بیٹھا بڑے سکون سے کھانا کھارہا تھا۔ بہت عرصے بعد اسے بھوک محسوس ہورہی تھی اور وہ ڈٹ کر کھانا چاہتا تھا۔ وہ دونوں اسی رات ان کا گھر چھوڑ کر چلی گئی تھیں اور اس وقت نبیلہ بیگم اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے انہیں گالیاں اور کوسنے دے رہے تھیں جب کہ وہ بیٹھا مسکرارہا تھا پھر اس نے کہا۔
’’امی! میں نے شادی کے لیے ہاں صرف اور صرف اس وجہ سے کی تھی کہ میرے انکار پر آپ نے اس کی تصویریں پندرہ لڑکوں کے ساتھ بنوالی تھیں اور اگر میں اس کے بعد بھی انکار کرتا تو آپ اس کی تصویریں اس سو ایک نئے چہروں کے ساتھ بنوالیتیں کیونکہ آپ کو پیسوں کی کمی تھی نہ ہی کسی کی عزت کی پروا… لیکن مجھے اس کی پروا تھی‘ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے انکار کی سزا اسے ملے۔ صرف اس کی عزت کی خاطر میںنے حنا سے شادی کے لیے ہاں کی تھی‘ اس لیے نہیں کہ وہ بدکردار تھی‘ وہ میرے لیے کل بھی ایک مقدس دیوی تھی اور آج بھی اتنی ہی پاکیزہ ہے۔‘‘
…٭٭٭…
ذوالفقار نماز پڑھنے کے لیے مسجد گئے ہوئے تھے۔ ماہ رخ اورعلی عون ثمینہ کو لے کر اوپر ٹیرس پر عید کا چاند دیکھنے گئے تھے۔ ماہ رخ اورعلی عون ثمینہ کو لے کر اوپر ٹیرس پر عید کا چاند دیکھنے گئے تھے۔ ماہ رخ تو ثمینہ کی طرح مشعل کو بھی زبردستی اوپرلے جانے کے درپے تھی لیکن اس نے منع کردیا تھا اور باہر لان میں آگئی تھی۔ لان میں لگی ساری لائٹس آن تھیں‘ اس نے ایک سرد آہ کے ساتھ قریبی گھر کی طرف دیکھا جہاں گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس نے عمارت پر سے نظریں ہٹالیں اور سر گھٹنوں پر ٹکالیا۔ کاش وہ مجھ سے تعلق ختم نہ کرتا۔ کاش وہ اس سال بھی میری سالگرہ پر سرخ گلاب بھیج دیتا۔ کاش وہ مجھ سے ملنے آجاتا‘ اسے بھی میری اتنی ہی یاد آتی جتنی مجھے۔ کاش وہ اس چاند پر یہاں ہوتا۔ اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اس کی زندگی ایک مسلسل اذیت بن کر رہ جائے گی۔ وہ گھٹنوں پر سرگرائے بے آواز رو رہی تھی۔
دل کے تاروں کو ذرا آکے ہلادے سجنا!
پیار کاگیت کوئی آکے سنادے سجنا!
شوق دیدار کا آنکھوں میں اُتر آیاہے
اپنی صورت مری آنکھوں کو دکھادے سجنا!
ایک شعلہ سا لپکتا ہے مرے دل میں مگر
عشق کی آگ کو کچھ اور ہَوا دے سجنا!
زخم رستے ہوئے فریاد یہی کرتے ہیں
درد بڑھ جائے نہ‘ زخموں کی دوا دے سجنا!
واسطہ گزرے ہوئے کل کا تجھے دیتا ہوں
آج کی ر ات مرے گھر کو سجادے سجنا!
تشنگی کہتی ہے اب پیاس بجھادے میری
لذتِ وصل سے دیوانہ بنادے سجنا!
چاند رات مبارک ہو… اس نے مانوس سی آواز پر سرعت سے گردن اٹھا کر دیکھا۔ وہ ہاتھ میں سفید پھول اٹھائے اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے اس ڈر کی وجہ سے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا کہ کہیں یہ خواب ٹوٹ نہ جائے لیکن وہ خواب نہیں تھا…! وہ اس سے ہم کلام تھا۔
’’تمہیں پورا حق ہے اس پھول کو نہ لینے کا‘ مجھ سے ناراض ہونے کا!‘‘ وہ اٹھ کر اس کے مقابل کھڑی ہوگئی‘ اس کے آنسوئوں میں مزید روانی آگئی تھی۔ ’’مجھے تمہیں بتائے بغیر نہیں جانا چاہیے تھا‘ مجھے تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دینے چاہیے تھے۔‘‘ اب وہ دوسرا ہاتھ اٹھا کر اس کے آنسو صاف کررہا تھا۔
’’تم نے اس بار میری سالگرہ پر پھول کیوں نہیں بھیجا؟‘‘ مشعل نے اس کے ہاتھ سے سفید پھول پکڑ لیا۔
’’مجھے پھول لے کر خود جو آنا تھا۔‘‘ اس نے اقرار کیا۔ ’’تمہیں چاند رات مبارک ہو۔‘‘ مشعل نے کہا۔
’’آج تو باتوں سے پھول جھڑنے کے ساتھ ساتھ بارش بھی ہورہی ہے۔‘‘ اور وہ دونوں کھلکھلا اٹھے تبھی اوپر گیلری سے ماہ رخ نے نیچے جھانکا تو حیران رہ گئی۔
’’وہ دیکھو مارہ رخ! چاند نظر آگیا۔‘‘ علی عون خوشی سے چلّایا تھا۔
’’آج تو دو دو چاند نظر آرہے ہیں‘ ایک اوپر آسمان پر اور ایک نیچے دھرتی پر…!‘‘ ماہ رخ نے آسمان پر یکم شوال کا چاند دیکھ کر کہا اور دونوں کو ریحان کی آمد کا بتایا پھر وہ تینوں ایک ساتھ ہی نیچے پہنچے تھے۔ ثمینہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں‘ ذوالفقار بھی خوش تھے۔ رات دیر تک سب آپس میں گپ شپ لگاتے رہے‘ گلزار احمد کے ذکر پر سب کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔
…٭٭٭…
دستک کی آواز پر اس نے دروازے کی جانب دیکھا‘ جہاں ریحان ہاتھ میں ایک پیکٹ اٹھائے کھڑا تھا۔ ماہ رخ نے آنکھوں کو گول گول گھما کر ان دونوں کی جانب دیکھا اور ساتھ ہی ریحان کو اندر آنے کی دعوت دی۔
’’دیر سویر‘ تمہیں تمہاری منزل مل ہی گئی۔‘‘ ماہ رخ نے مسکرا کر کہا۔
’’یقین کامل ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے۔‘‘ وہ منمنائی۔
’’اس منزل کے دو مسافر ابھی بھی گم ہیں۔‘‘ ماہ رخ نے کہا۔
’’ان دونوں مسافروں کو بھی آنا تو اپنی منزل پر ہی ہے‘ ایک نہ ایک دن وہ بھی ضرور آئیں گے۔‘‘ اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے مشعل کی بجائے ریحان نے جواب دیا۔ پھر وہ بولا۔ ’’عید تو کل ہے‘ ابھی ایک کپ چائے مل سکتی ہے؟‘‘ ماہ رخ بے ساختہ کھلکھلا اٹھی۔
’’کباب سے ہڈی نکالنے کا اچھا طریقہ ڈھونڈا ہے آپ نے…!‘‘ اور وہ جھینپ سا گیا۔
’’اگر چائے کے ساتھ پکوڑے بھی مل جائیں تو؟‘‘ ماہ رخ نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’پھر تو اوربھی اچھی بات ہے۔‘‘ ریحان نے کہا۔
’’میں ہمیشہ اچھا ہی کہتی ہوں۔ ویسے آپ کو مزے کی بات بتائوں؟ اس مرتبہ پورے رمضان المبارک میں پکوڑے مشعل نے ہی بنائے تھے۔‘‘
’’اچھا…!‘‘ریحان واقعی حیران ہوا تھا پھر وہ اٹھ کر چائے بنانے چلی گئی اور کمرے میں وہ دونوں رہ گئے۔
’’تمہیں کیسے پتا چلا کہ میرا عید کا جوڑا ہرے رنگ کا ہے؟‘‘ ریحان نے پیکٹ کھول کر ہرے رنگ کی چوڑیاں اسے پہنانا شروع کیں تو وہ بے ساختہ پوچھ بیٹھی۔
’’دیکھ لو‘ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے‘ بس پتا چل گیا۔‘‘ وہ اسے ساری چوڑیاں پہنا چکا تھا۔ مشعل کی نگاہیں اپنے سفید بازو پر سجی ہرے رنگ کی چوڑیوں پر جمی ہوئی تھیں اور ریحان کی مشعل کے سراپا پر… آنکھیں چار ہونے پر وہ دونوں آسودگی سے مسکرادیئے تھے۔