علی عون جو اپنی گم ہونے والی سٹی ڈھونڈ کر ادھر آنکلا تھا تیزی سے بولا۔ اسے نبیلہ کے غصے اور قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبان سے بہت ڈر لگتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے لان میں ہی کھیلا کرتے تھے مگر دادا ابو کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ریحان کے لان میں کھیل رہے تھے۔
’’چھوڑو یار! ان بے کار باتوں کو‘ جب سب کچھ ٹھیک ہے تو پھر ان سب باتوں کا فائدہ؟ شکریہ ادا کرو تم سب میرا‘ خصوصاً تم…‘‘ اس نے مشعل کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’شکریہ ادا کروں… میں…؟ تمہارا…؟ وہ کیوں… کون سا میں نے کہا تھا کہ آکر مجھ سے بیٹ چھینو اور اپنی امی کی آنکھوں میں دھول جھونکو۔‘‘ وہ اطمینان سے بولی۔
’’ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری! ابھی بلاتا ہوں امی کو پتا لگ جائے گا۔‘‘ اس نے اسے دھمکایا اور ساتھ ہی نبیلہ کو پکارا۔
’’امی…آہ ہاہا آہ!‘‘ اس کے منہ سے لا یعنی سی آواز برآمد ہوئی‘ اس نے بیٹ نیچے گھاس پر پھینک دیا اور خود ایک پائوں اوپر اٹھاکے گول گول چکر کاٹنے لگا۔
’’بڑی خراب ہو سچی تم۔‘‘ اس نے کہا تو مشعل نے شانے اچکادیے۔ مشعل نے اس کے منہ سے امی سنتے ہی زور سے اپنا پائوں اس کے پائوں پر دے مارا تھا‘ جس کے نتیجے میں وہ دوبارہ نبیلہ کو پکارنے کی بجائے مسلسل کراہ رہا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ نبیلہ دوبارہ نمودار ہوئی تھیں‘ انہوں نے شاید ریحان کی پکار سن لی تھی۔ ریحان نے گول گول چکر کاٹنا چھوڑ کر یک دم پائوں زمین پر رکھ دیا اور پھر ہشاش بشاش انداز میں بولا۔
’’کچھ نہیں امی!‘‘ مشعل کو اس پر ترس کم اور ہنسی زیادہ آرہی تھی اور اس کی یہ ہنسی نبیلہ کو زہر لگی تھی اور وہ اسے گھورتے ہوئے واپس چلی گئیں۔ اس نے ریحان کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’کتنے ڈرپوک ہو تم۔‘‘
’’ہر شریف بندہ ڈرپوک ہوتا ہے۔‘‘ اس نے جواباً کہا۔
’’رٹی رٹائی مت بولو۔‘‘ مشعل نے اسے لتاڑا تو وہ سینے پر بازو باندھ کر اسے دیکھنے لگا۔
مشعل بھی کچھ دیر تک اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی رہی پھر کچھ توقف کے بعد بولی۔
’’تھینکس!‘‘
’’مگر کس لیے؟‘‘ وہ واقعی نہیں سمجھا تھا۔
’’چچی کے عتاب سے بچانے کے لیے۔‘‘ اور وہ چپ کا چپ رہ گیا۔
’’چلو باہر پارک میں چلتے ہیں‘ کل سے رمضان المبارک شروع ہورہا ہے اور کل سے اس وقت گھومنے کی بجائے ہم روزہ کھلنے کا انتظار کررہے ہوں گے۔‘‘
’’کہیں تم چچی کے ناشائستہ رویے کی تلافی تو نہیں کررہے؟ اگر ایسا کررہے ہو تو بہت غلط کررہے ہو۔‘‘
’’نہیں میں کوئی تلافی نہیں کررہا‘ بس میرا دل چاہ رہا ہے تمہارے ساتھ گول گپے کھانے کو۔‘‘ اس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا تو مشعل پُرسکون ہوگئی۔ پھر دونوں باتیں کرتے ہوئے باہر جانے لگے۔
’’نجانے کب اور کیسے اس بد روح کو میں اپنے ریحان سے دور کرپائوں گی؟‘‘ اوپر ٹیرس پر کھڑی نبیلہ نے ان دونوں کو گیٹ سے نکلتے ہوئے دیکھ کر سوچا۔ ’’اگر میرا بس چلے تو میں اپنے بیٹے پر اس کا سایہ بھی نہ پڑنے دوں۔‘‘
…٭٭٭…
افتخار احمد اور نبیلہ کی لَو میرج تھی‘ نبیلہ کا تعلق متمول گھرانے سے تھا اور افتخار کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے۔ وہ ان کی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ دونوں کی پہلی ملاقات نبیلہ کے ڈیڈی کے آفس میں ہوئی تھی اور وہی پہلی ملاقات آئندہ کئی ملاقاتوں اور گہری دوستی کا باعث بن گئی اور یہ دوستی جب محبت میں تبدیل ہوگئی تو ایک دن نبیلہ نے افتخار احمد کو پروپوز کردیا۔ افتخار احمد نے جواباً اپنا رشتہ ان کے گھر بھجوایا جسے قبول کرلیا گیا۔ ان کے والد گلزار احمد رشتہ تو طے کرآئے تھے لیکن وہ دل سے اس رشتے پر راضی نہیں تھے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ وہ خاصے ماڈرن قسم کے لوگ تھے اور دولت ہی ان کے لیے سب کچھ تھی اور دوسرا انہیں نبیلہ کا رویہ اور طور طریقے پسند نہیں آئے تھے۔ بات بات پر اپنی دولت کا تذکرہ اور نمائش… اور یہ بات انہیں سخت بُری لگتی تھی۔ انہوںنے قریب بیٹھی ہوئی اپنی بھانجی کی طرف دیکھا جو اُن کی بڑی بہو بھی تھی۔ سلجھی ہوئی اور مہذب! ثمینہ نے آتے ہی سارے گھر کو سنبھال لیا تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا تھا۔
’’اس گھر کو دوسری فائزہ مل گئی ہے۔‘‘ جب کہ نبیلہ نے بہو بن کر آنے سے پہلے ہی الگ گھر کا مطالبہ کردیا تھا۔ افتخار نے الگ گھر بنانے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دے دی کہ وہ الگ گھر بنالیں لیکن اس گھر کے بالکل ساتھ‘ اپنے سسرال کے قریب نہیں۔ سو ساتھ والا گھر خرید لیا گیا اور دونوں گھروں کے درمیان میں موجود بائونڈری وال کا لکڑی کا دروازہ گلزار احمد نے بنوایا تھا تاکہ دونوں گھر وں کو آنے جانے میں آسانی رہے۔ جب نبیلہ نے اس دروازے کو دیکھا تو سیخ پا ہوگئیں مگر جب انہوںنے سنا کہ یہ دروازہ گلزار احمد نے بنوایا ہے تو ضبط کا گھونٹ بھر کر رہ گئیں۔ گلزار احمد نے اپنے چھوٹے بیٹے افتخار احمد کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی تھی۔ نبیلہ نے جب خوب صورت بیٹے کو جنم دیا تو غرور و تکبر سے تنی ہوئی ان کی گردن مزید تن گئی۔ انہوں نے تمسخرانہ نظروں سے ثمینہ کی جانب دیکھا‘ جن کی شادی کو دوبرس کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن ان کی گود ہنوز سونی تھی۔ انہیں ایسا لگا جیسے وہ کہہ رہی ہوں۔
’’دیکھ لو سسر کی چہیتی بہو! اس خاندان کو پہلا وارث میں نے دیا ہے‘ تم تو آج بھی بنجر ہو۔‘‘ لیکن انہوں نے ان کی نگاہوں کو نظر انداز کرکے خوش دلی سے ننھے ریحان کو گود میں اٹھاتے ہوئے انہیں مبارک باد دی تھی۔ دونوں گھروں میں خوشی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی تھی۔
’’بیگم صاحبہ نے ریحان کو واپس لینے کے لیے بھیجا ہے۔‘‘ گلزار احمد ریحان کو ثمینہ کے یہاں لے آئے تھے۔ ان کا کوئی دوست آگیا تو وہ اس سے ملنے چلے گئے اور وہ ایک سالہ ریحان سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگیں۔ یہی وہ وقت تھا جب نبیلہ کی ملازمہ ان کے سر پر آکھڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے اسے اپنی گود سے اتار دیا تو وہ اسے اٹھا کر چلی گئی۔ ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں‘ تبھی گلزار احمد چلے آئے اور ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر انہیں صبر کی تلقین کی اور دعا دی‘ جس کے جواب میں انہوں نے آمین کہا تھا۔ جو جس کے نصیب میںہوتا ہے اسے مل کر رہتا ہے۔ ثمینہ اور ذوالفقار کے نصیب میں بھی اولاد تھی اور انہیں اپنا نصیب مشعل کی صورت میں مل گیا تھا۔ مشعل کے بعد ماہ رخ اور اس کے بعد علی عون نے آکر ان کی فیملی مکمل کردی تھی۔ اب انہیں کوئی غم نہیں تھا۔ وہ پروردگار کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت میں مگن تھیں۔
…٭٭٭…
مشعل دسویں کلاس کی طالبہ تھی جب گلزار احمد نے ایک دن ثمینہ سے مشعل اور ریحان کے نکاح کی بات کی تھی۔ تب انہوں نے جواباً کہا۔
’’آپ بڑے ہیں‘ بزرگ ہیں ہمارے۔ آپ کافیصلہ سر آنکھوں پر…‘‘
’’ذوالفقار احمد سے میں نے بات کرلی تھی اسے کوئی اعتراض نہیں ہے‘ سوچا تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے مشعل پر جتنا کہ ذوالفقار کا‘ اس لیے پوچھا ہے تم سے۔‘‘
’’آپ نے مجھے اس قابل سمجھا‘ اتنا مان دیا یہ آپ کا بڑا پن ہے۔ آپ کو اختیار حاصل ہے جس کے ساتھ چاہیں اس کا رشتہ طے کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے آپ اس کے لیے بہتر ہی سوچیں گے۔‘‘ ثمینہ نے کہا۔ یہی بات جب انہوں نے افتخار سے کی تو انہوںنے بھی ایسا ہی جواب دیا تب انہوں نے کہا کہ نبیلہ کی بھی رائے جان لیں تاکہ ان دونوں کے نکاح کی رسم ادا کردی جائے مگر نبیلہ نے جب یہ سنا تو غصے سے پھٹ پڑیں۔
’’ میں اپنے بیٹے کا رشتہ ان فقیروں سے ہر گز نہیں کروں گی۔‘‘
’’میرا تعلق بھی ان ہی فقیروں سے تھا محترمہ نبیلہ صاحبہ!‘‘ افتخار احمد نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔ انہیں نبیلہ کے الفاظ برچھی کی طرح لگے تھے‘ جس کے نتیجے میں ان کا لہجہ اپنے آپ ہی غصیلا ہوگیا تھا۔ نبیلہ چپ کی چپ رہ گئیں۔ تب انہوں نے مزید کہا۔
’’میں تم سے پوچھنے نہیں‘ بتانے آیا ہوں کہ ابو نے ان دونوں کا رشتہ طے کردیا ہے۔‘‘
’’وہ کون ہوتے ہیں میرے بیٹے کا رشتہ طے کرنے والے…‘‘
’’نبیلہ!‘‘ وہ دہاڑ اٹھے اور زندگی میں پہلی بار انہیں اس طرح گرجتے ہوئے دیکھ کر نبیلہ سہم کر رہ گئیں۔
’’مم… میرا مطلب ہے کہ ابھی ریحان کی عمر ہی کیا ہے؟ وہ ابھی پڑھ رہا ہے اور… مشعل بھی تو ابھی بہت چھوٹی ہے۔‘‘ انہوں نے ایک اور پہلو نکالا۔
’’جب بھائی اور بھابی کو اعتراض نہیں تو تم کیوں اعتراض کررہی ہو؟ ان کی بچی ہے وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ میں ابو سے ہاںکہہ چکا ہوں۔ تم سے پوچھیں تو تم بھی کہہ دینا کہ تمہیں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں ایسا ہی کرنا پڑا۔ ریحان اور مشعل کی رسم نکاح میں تینوں باپ بیٹوں کو خوش و خرم دیکھ کر وہ جل بھن کر رہ گئیں۔ شاید انہوں نے پہلی بار افتخار کے سامنے مات کھائی تھی۔ افتخار ان کے آئیڈیل ضرور تھے لیکن وہ ان کے اس روپ سے کہاں واقف تھیں۔ حقیقت یہی تھی کہ افتخار ان کا آئیڈیل ہونے کے باوجود اپنے باپ کا فرماں بردار بیٹا بھی تھا۔
’’چھوڑو نبیلہ! تم بھی کن خوابوں میں رہتی ہو‘ جب ان دونوںکا نکاح ہوگیا تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے رخصت ہوکر تمہارے گھر آنے سے نہیں روک سکتی۔‘‘ نبیلہ کی بہن شکیلہ نے ان کی بات سننے کے بعد کہا۔
’’تم دیکھ لینا میرے جیتے جی وہ کبھی بھی میرے گھر میں نہیں آسکتی۔‘‘ نبیلہ نے فیصلہ کُن انداز میں کہا۔
’’وہ تمہیںمات پہ ماتے دیتے آئے ہیں۔ پہلے اپنے گھر کے قریب گھر خرید لیا اور اب تمہارے بیٹے پہ قبضہ جمالیا۔‘‘ شکیلہ نے جلتی پر تیل چھڑکتے ہوئے کہا۔
’’اتنی آسانی سے وہ میرے بیٹے پر قبضہ نہیں جماسکیں گے کیونکہ کچھ ہی عرصے کے بعد ہم یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے پھر بیٹھی رہے وہ ریحان کے نکاح میں‘ مجھے کیا؟‘‘
’’تم ایسا کرپائو گی؟ افتخار راضی ہوجائے گا فارن جانے کے لیے؟‘‘
’’اپنا الگ کاروبار تو افتخار کا شروع ہی سے خواب رہا ہے‘ پہلے اسے میری وجہ سے ہماری فیکٹری میں تیس فیصد پارٹنر شپ ملی اور اب اگر میں اسے یہ کہوں کہ ڈیڈی کینیڈا میں اپنے بزنس کی ایک برانچ کھول رہے ہیں اور وہ مکمل طور پر ہماری ہوگی تو وہ یقینا مان جائیں گے کیونکہ ان کا دیرینہ خواب پورا ہوجائے گا۔ میں نے ڈیڈی سے بات کرلی ہے اور وہ عنقریب خوش خبری سنائیں گے۔‘‘ وہ ایک فاتح کی طرح مسکرائی تھیں اور جوس کے گھونٹ لیتی ہوئی شکیلہ انہیں دیکھ کر رہ گئی۔
’’ضرورت کیا ہے مشعل کو ساری عمر اس کے نام پر بٹھائے رکھنے کی؟ جاتے ہی طلاق کے پیپرز بھجوادینا تاکہ انہیں اپنی اوقات کا پتا چلے‘ ہونہہ! چلے ہیں اونچے خاندان سے رشتہ جوڑنے۔‘‘ شکیلہ نے تنفر آمیز انداز سے ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔
’’نہیں! میں چاہتی ہوں کہ انہیں اپنے کیے کی عبرت ناک سزا ملے۔‘‘ نبیلہ کے انداز میں نفرت ہی نفرت تھی۔
’’ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘ شکیلہ کو ان کی بات پسند آئی تھی۔
…٭٭٭
افتخار احمدلائونج میں بیٹھے ہوئے تھے جب نبیلہ ایک فائل ہاتھ میں تھامے ان کے پاس چلی آئیں اور فائل انہیںتھما کر ان کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئیں۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ افتخار احمد نے فائل دیکھتے ہوئے دریافت کیا۔
’’کھول کر دیکھیے!‘‘ نبیلہ نے اٹھلاتے ہوئے کہا پھر کینیڈا والی نئی برانچ کے سارے کاغذات اپنے نام دیکھ کر وہ حیران رہ گئے تھے اور انہوں نے نبیلہ کا شکریہ ادا کیا تھا۔ جواباً نبیلہ ایک ادا سے مسکرائی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ ڈیڈی کی بات مان کر انہوں نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ کاغذات بنتے وقت ڈیڈی نے مشورہ دیا تھا کہ ’’اگر وہ افتخار احمد کو اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتی ہیں تو سارے کاغذات اس کے نام کروادیں تب وہ تمہارے خلاف جانے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکے گا اور ساری عمر تمہارے احسانوں تلے دبا رہے گا۔‘‘
’’اور اگر سارا بزنس اپنے نام دیکھ کر اس نے منہ موڑنا شروع کردیا تو…؟‘‘ نبیلہ نے سوال اٹھایا۔
’’احسانوں تلے دب جانے والے لوگ اگر ایماندار بھی ہوں تو پھر وہ گردن کٹا تو دیتے ہیں گردن اٹھاتے نہیں۔ خطرہ ہمیشہ بے ایمانوں سے ہوتا ہے‘ افتخار جیسے لوگوں سے نہیں۔‘‘ اور اسے ڈیڈی کی یہ بات بہت پتے کی لگی تھی اور اب افتخار احمد کا انداز دیکھ کر بھی نبیلہ کے سارے خدشات جیسے منوں مٹی تلے جاسوئے تھے۔
’’تم نے اپنی ساری جائیداد میرے نام کردی؟‘‘ افتخار ابھی تک حیران تھے۔
’’میں اور آپ الگ تو نہیں‘ ڈیڈی جب کاغذات میرے نام بنوانے لگے تو میں نے کہا کہ آپ کاغذات افتخار کے نام بنوائیں‘ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ ان کے ہوتے ہوئے کاغذات میرے نام بنیں۔‘‘ نبیلہ نے کمال بے نیازی سے سفید جھوٹ بولا اور افتخار احمد اپنی عظیم بیوی کی محبت پر اش اش کر اٹھے۔
’’تو کب جوائن کررہے ہیں اپنا نیا آفس؟‘‘ نبیلہ نے مسکرا کر ’’اپنا‘‘ پہ زور دیتے ہوئے کہا۔
’’ان شاء اللہ بہت جلد!‘‘ یہ افتخار احمد کا جواب تھا۔
…٭٭٭…
پارک سے واپسی پر جب ریحان اسے اللہ حافظ کہہ کر واپس اپنے گھر جانے لگا تو مشعل نے کہا۔
’’تم بھی اندر آئو‘ دادا ابو سے ملتے جانا‘ وہ تمہارا انتظار کررہے ہوں گے۔‘‘ اور وہ گھر جانے کا ارادہ تبدیل کرکے اندر آگیا۔
’’کیسے ہو برخوردار! آخر بھول گئے نا اپنے دادا ابو کو؟‘‘ گلزار احمد اسے دیکھ کربولے۔
’’السّلام علیکم دادا ابو! آپ بھی کوئی بھولنے کی چیز ہیں۔ آپ میرے دادا ہی نہیں دوست اور محسن بھی ہیں۔‘‘
’’بس بس رہنے دو‘ زیادہ مکھن نہیں لگائو یار! پہلے بوڑھا تھا‘ اب تو بیمار بھی ہوں۔ اپنے باپ سے کہنا کہ اپنی بیوی کی طرح عید کا چاند نہ بنے اور آکر مل جائے مجھے۔‘‘ ان کے لہجے میں دکھ ہی دکھ تھا۔
’’السّلام علیکم ابو!‘‘ افتخار احمد اندر داخل ہوتے ہوئے بولے تو گلزار احمد کے جھریوں زدہ چہرے پر رونق درآئی۔ ان کے اندر کی خوشی چہرے سے صاف دکھائی دے رہی تھی۔
’’آئو آئو بیٹا! بڑی لمبی عمر ہے تمہاری۔ میں ابھی ریحان سے تمہارا ہی ذکر کررہا تھا۔‘‘ انہوں نے سلام کا جواب دینے کے بعد کہا۔ ریحان نے اپنی نشست ان کے لیے خالی کردی اور باہر نکل گیا۔
’’بیٹا! ایک بات کرنی تھی تم سے؟‘‘ گلزار احمد‘ افتخار احمد سے مخاطب ہوئے۔
’’حکم کریں ابو!‘‘ افتخار احمد بولے۔
’’بیٹا! میری خواہش ہے کہ اب مشعل کی رخصتی کردی جائے۔‘‘
’’مگر ابو اتنی جلدی کس بات کی ہے؟ ابھی تو ان دونوں کی پڑھائی بھی مکمل نہیں ہوئی۔‘‘ افتخار احمد کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ وہ یہ بات چھیڑ دیں گے۔
’’بیٹا! آج نہیں تو کل پڑھائی تو پوری ہو ہی جائے گی مگر زندگی کا کیا بھروسا‘ آج ساتھ چھوڑ جائے یا کل؟ میں اپنے مطلب کے لیے خود غرض ہورہا ہوں لیکن دنیا سے جانے سے پہلے میں ان دونوں کو ایک ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیسی باتیں کررہے ہیں ابو! اللہ آپ کو لمبی عمر دے‘ ابھی تو آپ کو ریحان کے بچوں کو اپنی گود میںکھلانا ہے۔‘‘
’’مجھ جیسے بڈھے کو تسلی دینے کے لیے تو یہ باتیں ٹھیک ہیں مگر بیٹا! لگتا نہیں ہے کہ اب زیادہ عرصہ جی پائوں گا بس تم میرا یہ آخری کام کردو‘ یہ تمہارا مجھ پہ احسان ہوگا۔‘‘
’’پلیز ابو! یسا تو نہ کہیں۔ جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا ہی ہوگا۔ اس عید کے بعد رخصتی کی کوئی بھی تاریخ رکھ لیتے ہیں‘ آپ بھیا اور بھابی سے بھی مشورہ کرلیں۔‘‘ افتخار احمد نے پل بھر میں فیصلہ کرلیا۔
’’ارے… ثمینہ بیٹا! تم نے موکل چھوڑ رکھے ہیں جو ادھر ہم نے بات مکمل کی اُدھر تمہیں پتا چل گیا۔‘‘ گلزار احمد نے پُرتکلف چاٹ کے ساتھ ثمینہ کو آتے دیکھ کر کہا تو وہ مسکرا کر رہ گئیں۔
’’ابو!یہ مٹھائی تو افتخار بھائی لے کر آئے ہیں‘ کینیڈا میں اپنا نیا بزنس اسٹارٹ کرنے کی خوشی میں۔‘‘ ثمینہ نے ہنستے ہوئے بتایا۔
’’اچھا! یہ تو خوشی کی خبر ہے۔ افتخار میاں تم نے بتایا ہی نہیں!‘‘ انہوں نے قریب بیٹھے افتخار سے پوچھا۔
’’جی ابو! یہی تو بتانے کے لیے حاضر ہوا تھا۔‘‘ افتخار احمد نے جواب دیا۔
’’بہت بہت مبارک ہو بھئی! سُن کر بہت خوشی ہوئی‘ کب جارہے ہو؟‘‘
’’عید کے بعد…!‘‘
’’صرف تم جائو گے یا بہو بھی ساتھ جائے گی؟‘‘
’’ان شاء اللہ ابو ! سب جائیں گے۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘
’’تو چلیے اسی اچھی بات پر منہ میٹھا کیجیے ابو!‘‘ ثمینہ نے مٹھائی کی پلیٹ اٹھا کر ان کے سامنے کردی۔
…٭٭٭…
نبیلہ نے بہت کوشش کی تھی کہ ان کے کینیڈا جانے تک کسی طرح یہ رخصتی ٹل جائے لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔ آخر وہی ہوگیا تھا جس کا انہیں ڈر تھا‘ ان کے لاکھ بہانوں کے باوجود عید کے تیسرے دن تاریخ طے کردی گئی تھی اور وہ سوائے بڑبڑانے کے اور کچھ نہیں کرسکتی تھیں