شام کے سائے اپنے پَر پھیلا چکے تھے اور دور افق پر سورج کسی سنہری تھال کی مانند نظر آرہا تھا‘ جس کے اردگرد سنہری اور نارنجی رنگوں کا ایک انوکھا امتزاج تھا‘ اس نے اس خوب صورت منظر سے نظریں ہٹا کر اوپر آسمان کی طرف دیکھا جہاں پرندوں کا ایک غول پرواز کرتا ہوا نظر آیا جو یقینا اپنے اپنے گھونسلوں کی طرف محوِ پرواز تھے۔ رزق کی تلاش میں صبح دم نکلنے والے یہ پرندے سارے دن کی مشقت کے بعد اب سکون اور آرام کی خاطر اپنے آشیانوں کو لوٹ رہے تھے۔ بڑے مطمئن‘ بڑے اتفاق اور بڑی ہی محبت کے ساتھ۔ اس کی نظروں نے بہت دور تک ان پرندوں کا تعاقب کیا تھا۔
اسے اپنے گرد کرب و اضطراب کا حصار مزید تنگ ہوتا ہوا محسوس ہوا۔اس کے چہرے پر پھیلی اداسی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور آنکھوں کی ویرانی مزید بڑھ گئی‘ اس نے پرندوں کے اس غول کو آسمان پر کھوجا لیکن کوشش کے باوجود وہ اسے دور دور تک نظر نہیں آئے۔ اچانک اس کی نگاہوں کی زد میں ایک پرندہ آگیا۔ بالکل ویسا ہی پرندہ جیسے پرندے ابھی ابھی غول کی شکل میں وہاں سے گزرے تھے۔ وہ اکیلا ان کے تعاقب میں اڑتا چلا جارہا تھا۔ وہ شاید اپنے غول سے بچھڑ گیا تھا یا پھر وہ خود ہی اسے اکیلا چھوڑ گئے تھے‘ اسے تنہا کرگئے تھے۔ اس کے ہونٹوں سے بے اختیار ایک سسکی سی نکل گئی‘ گویا سانس لینا دشوار ہوگیا تھا‘ اس سے پرندے کا اکیلا پن اور اداسی دیکھی نہیں گئی۔ اس نے دوبارہ سے ابھرتی ہوئی سسکی کو دبانے کے لیے اپنا بایاں ہاتھ منہ پر رکھا تو رخسار کو چھوتی ہوئی اس کی انگلیاں گیلی ہوگئیں۔ وہ رو رہی تھی بالکل بے آواز‘ لیکن آنکھوں سے بہتے ہوئے اس نمکین پانی پر وہ بند نہیں باندھ سکتی تھی‘ جو بہت تیزی سے اس کے رخساروں کو بھگو رہا تھا۔ اس کی پشت کی جانب کھڑا کوئی کافی دیر سے اسے دیکھ رہا تھا اور اس کی ہر ایک حرکت نوٹ کررہا تھا۔ جب وہ جی بھر کے رو چکی تب وہ آہستگی سے بنا کوئی آواز پیدا کیے دھیمی چال چلتے ہوئے اس کے پاس آیا اور اپنے دونوں بازو اس کی گردن میں حمائل کردیے۔ اس نے چونک کر مڑنا چاہا مگر اس سے پہلے کہ نگاہوں کا تصادم ہوتا‘ وہ اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ چکا تھا۔ پھر وہ دھیرے سے بولا۔
’’آج کا سورج بھی ڈوب گیا۔‘‘ اس کی آنکھوں سے ایک اشک چھلکا اور نیچے گِر کر خاموشی سے کہیں غائب ہوگیا۔
’’مگر میری امیدوں کا سورج آج بھی نہیں ڈوبا ہے اور ڈوبنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ امید روح ہے اور روح کبھی نہیں مرتی‘ جسے روح مل جائے اسے زندگی مل جاتی ہے۔‘‘ بہت پُرسکون اور ٹھہرا ہوا انداز تھا اس کا۔
’’اور کب ملے گی یہ زندگی…؟‘‘ اس نے اس کے گلے سے اپنی بانہوں کا حصار توڑ دیا تھا۔ اس نے اس کے چہرے سے نگاہیں ہٹا کر سامنے دیکھا‘ جہاں اندھیرے کی چادر دھیرے دھیرے پھیلتی جارہی تھی‘ قریبی مسجد سے اذانِ مغرب بلند ہونے لگی۔
’’ہر ایک کو زندگی ایک بار ضرور ملتی ہے چراغِ جاں بجھنے سے پہلے زندگی ایک بار مجھے بھی ضرور ملے گی۔‘‘ اس کے انداز میں یقین ہی یقین تھا‘ جس کی خوش بُو سامنے کھڑے وجود نے بھی محسوس کی اور اس کے لب ہلے۔
’’ان شاء اللہ…!‘‘ اس کی آواز میں بھی یقین در آیا تھا۔
’’اذان ہورہی ہے چلو چل کرنماز پڑھتے ہیں۔‘‘ اور پھر دونوں نے قدم آگے بڑھادیئے۔
اس بار رمضان المبارک میں سحری میں بنائوں گی۔‘‘ شام کی چائے پیتے ہوئے ماہ رخ نے لہک کر کہا۔
’’بی بی! تم سحری میں اٹھ جائو یہی بڑی بات ہے‘ بنانا تو بڑی دورکی بات ہے۔‘‘ چائے کا خالی کپ درمیانی میز پہ رکھتے ہوئے علی عون نے اپنی رائے دی۔ جس پہ چائے کا گھونٹ لیتی ہوئی ماہ رخ نے اسے گھور کر دیکھا۔
’’تم تو ہمیشہ مجھ سے جلتے ہو۔‘‘ماہ رخ نے غصیلے انداز میں کہا۔
’’جب کوئی اور جواب نہیں بن پڑتا تو یہی بات کہہ کر جان چھڑاتی ہو لڑاکا بلّی!‘‘
’’امی دیکھ رہی ہیں نا آپ اس کو؟‘‘ اس نے پاس بیٹھی ہوئی ثمینہ سے مدد طلب کی تو وہ علی عون کوسرزنش کرتے ہوئے بولیں۔
’’علی! بیٹا کیوں تنگ کرتے ہو بہن کو؟‘‘ ثمینہ نے اس کے مزاج کے مطابق بات کی تو اس کی باچھیں کھل گئیں۔
’’امی! آپ ہمیشہ اسی کی حمایت لیتی ہیں‘ کبھی اسے بھی کہہ دیا کریں کہ ماہ رخ بیٹی! بھائی کو کیوں تنگ کرتی ہو۔‘‘ اس کے شکایتی اور روٹھے روٹھے انداز کو دیکھ کر ثمینہ کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
’’ماہ رخ بیٹی! بھائی کو تنگ ہی نہیں کرتی تو کیوں کہیں ایسا؟ ہے نا امی!‘‘ وہ ثمینہ سے بھی تائید چاہتی تھی لیکن ذوالفقار احمد کو بریف کیس اٹھائے اندر آتا دیکھ کر بقیہ جملہ ضبط کرگئی۔
’’السّلام علیکم ابو…!‘‘ مشعل نے سلام کیا۔ ساتھ ہی آگے پیچھے ماہ رخ اور علی عون نے بھی ادب سے سلام کیا۔ ذوالفقار احمد سلام کا جواب دے کر صوفے پر بیٹھ گئے۔ مشعل ان کے لیے پانی لانے کے لیے اٹھنے لگی تو ماہ رخ اشارے سے اسے وہیں بیٹھے رہنے کا کہہ کر خود پانی لینے چلی گئی۔
’’چائے لائوں آپ کے لیے؟‘‘ ثمینہ نے استفسار کیا۔
’’نیکی اور پوچھ پوچھ؟‘‘ انہوں نے خوش مزاجی سے کہا اور ماہ رخ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے بچوں سے مخاطب ہوئے۔ ’’کیا ہورہا ہے بھئی؟‘‘
’’ابو! آج ویک اینڈ تھا تو چائے کے ساتھ گپ شپ چل رہی تھی۔‘‘ ماہ رخ نے علی عون کے قریب بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھا بھئی آپ لوگ بیٹھ کر گپ شپ کرو میں ذرا فریش ہولوں۔‘‘ پھر وہ بریف کیس اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
…٭٭٭…
’’آیئے آپی! بیڈمنٹن کھیلیں۔‘‘ وہ کچن سے نکل کر باہر لان میں آئی تو علی عون دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا تھا اور جوش سے بولا تھا۔ ماہ رخ بھی ادھر ہی چلی آئی تھی۔
’’نہیں میرا موڈ نہیں ہورہا‘ تم کھیلو!‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں کہا تو ماہ رخ کندھے اچکا کر وہاں سے چلی گئی۔ علی عون بھی اس کے پیچھے ہولیا۔
’’تمہیں آپی سے کھیلنے کے لیے نہیں کہنا چاہیے تھا۔‘‘ علی عون نے سرگوشی سے کہا۔
’’ہاں واقعی! تم صحیح کہہ رہے ہو لیکن میں نے سوچا تھا کہ سارا سارا دن اکیلی اور اداس رہتی ہیں‘ تھوڑا دل بہل جائے گا مگر میرا اندازہ غلط نکلا۔ وہ شاید مزید اداس ہوگئی ہیں۔‘‘
’’اچھا چھوڑو‘ وہ ہمیں ہی دیکھ رہی ہوں گی اور سوچ رہی ہوں گی کہ ہم آپس میں کیا کھسر پھسر کررہے ہیں۔‘‘ اس کی نگاہیں ان دونوں پر ٹکی ہوئی تھیں۔ انہوں نے کھیلنا شروع کردیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد اس نے ریکٹ والا ہاتھ اوپر ہَوا میں اٹھا کر ماہ رخ کو نعرے لگاتے ہوئے دیکھا۔
’’میں جیت گئی‘ یا ہُو! تم ہارگئے۔‘‘
’’آج ہی تو جیتی ہو۔‘‘ علی عون نے کہا۔
’’جیتی تو ہوں نا! تم نے تو پیش گوئی کررکھی تھی کہ میں تم سے کبھی جیت ہی نہیں سکتی۔یاہُو… ہُرے… میں جیت گئی‘ میں جیت گئی…‘‘ یاد کا اک روزن کُھلا تھا اور اس کی نگاہوں کے سامنے دھواں سا پھیلنے لگا۔
’’تم آج پھر جیت گئیں۔‘‘ ریحان نے ریکٹ گھاس پر رکھ دیا اور خود بھی گھاس پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’اور تم آج پھر ہار گئے۔‘‘ وہ بھی گھاس پر اس کے سامنے بیٹھے ہوئے بولی۔
’’ہاں بھئی! میں آج پھر ہارگیا‘ کبھی تم بھی تو ہارکے دیکھو تاکہ تمہیں بھی پتا چلے کہ ہار کیسی ہوتی ہے۔‘‘
’’کبھی بھی نہیں‘ خاص طور پر تم سے ہارنا تو میں برداشت ہی نہیں کرسکتی‘ کیونکہ اگر میں ہار گئی تو پھر مجھے پکوڑے بنانے پڑیں گے اور آئس کریم کھانے کی بجائے پکوڑے بنانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔‘‘
ایک مرتبہ وہ اپنی دوست دیبا سے فون پر بات کررہی تھی اور اسے بتارہی تھی کہ پکوڑے بنانا اسے دنیا کا مشکل ترین کام لگتا ہے تب دادا ابو کے کمرے سے نکلتے ہوئے ریحان نے سن لیا تھا اور تب سے وہ جب بھی شرط لگاتاپکوڑے بنانے پر ہی لگاتا تھا لیکن مشعل اسے اس بات کا فائدہ اٹھانے کا موقع شاذو نادر ہی دیا کرتی تھی۔ ہارنے اور پکوڑنے بنانے کے ڈر سے وہ ڈٹ کر کھیلا کرتی تھی اور اکثر جیت جایا کرتی تھی‘ آج بھی وہ جیت گئی تھی۔
’’مشعل… مشعل…‘‘ وہ چونک گئی‘ جب ماہ رخ نے اسے پکارنے کے ساتھ اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو ماہ رخ نے کارڈلیس اسے تھماتے ہوئے کہا۔
’’تمہارا فون ہے۔‘‘ وہ اسے فون تھما کر چلی گئی۔
اسے پتا تک نہیں چلا تھا کہ دونوں کب گیم ختم کرکے اندر چلے گئے تھے۔ فون کان سے لگا کر مشعل نے ’’ہیلو‘‘ کہا تو جواباً دیبا کی چہکتی ہوئی آواز کانوں میں آئی۔
’’کیسی ہو یار…؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو؟کب آئی ہو سعودیہ سے اور تمہارے میاں کیسے ہیں؟ اور وہ تمہارے دونوں شرارتی بچے کیسے ہیں؟ احمر تو کافی بڑا ہوگیا ہوگا؟‘‘ اس نے ایک ساتھ سوالات کی بھرمار کردی۔
’’میرے میاں اُتاولے ہورہے تھے اپنے اماں ابا سے ملنے کے لیے‘ ان کا بس چلتا تو ائرپورٹ سے سیدھے روہڑی چلے جاتے مگر میں نے کہا کہ خالد صاحب‘ میرے اماں ابا کا گھر یہیں ہے ذرا دن ٹھہر کر ہی روہڑی چلیں گے۔‘‘
’’تو پھر وہ مان گئے؟‘‘ وہ لحظہ بھر کو رکی تو مشعل نے پوچھا۔
’’مانتے کیسے نہیں‘ رہنا تو میرے ساتھ ہے نا!‘‘ دیبا نے چہک کر کہا۔
’’ہاں بھئی‘ ان کو تو تمہارے ساتھ بناکر رکھنا پڑے گی اور سنائو‘ میرے گھر کب آرہی ہو؟‘‘
’’کل آرہی ہوں‘ شمع کیسی ہے؟‘‘ دیبا نے بتانے کے ساتھ ہی اپنی دوسری دوست کے بارے میں پوچھا۔
’’اچھی ہوگی‘ میرا اس سے رابطہ نہیں ہے۔‘‘ مشعل نے بتایا تو دیبا نے تقریبا چیختے ہوئے پوچھا۔
’’کیا! ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے تمہارا اس سے کوئی رابطہ نہیں؟ ‘‘
شادی ہوگئی اس کی؟‘‘ اس نے ایک لمبی سانس بھر کر بتایا تو ایک پل کے لیے دیبا کو چپ سی لگ گئی۔
’’یار! ریحان کیا گئے تم نے تو دنیا ہی سے ناتا توڑ لیا۔‘‘ دیبا نے بے اختیار کہا تو دونوں کے درمیان روح کو گھائل کرتی ہوئی کربناک سی خاموشی چھاگئی۔ مشعل سسک اٹھی۔ اگر اگلے ہی پل اپنی غلطی کو محسوس کرتے ہوئے دیبا اس خاموشی کو توڑ نہ ڈالتی۔ ’’یار! پتا ہے شمع نے شادی کے دوسرے سال ہی تین بچوں کو بہ یک وقت جنم دیا تھا۔ ایک بیٹی اور دو بیٹوں کو‘ میں نے مبارک باد دیتے ہوئے اس کے خوب لتے لیے تھے کہ یار یہ کیا… صرف تین! کم از کم چوکا یا چھکا تو لگالیتیں۔‘‘ مشعل بے ساختہ کھلکھلا اٹھی۔
’’تُو نہیں سدھرے گی؟‘‘ اس نے اپنی گیلی آنکھوں کو خشک کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا یار! کل ملاقات ہوگی‘ روہا جاگ گئی ہے اور رو رو کر اپنے جاگنے کی اطلاع دے رہی ہے۔ اچھا اوکے‘ اللہ حافظ! آنٹی کو میرا سلام کہنا۔‘‘
’’اللہ حافظ!‘‘ اسے بھی روہا کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں‘ اس نے بھی آنٹی کے لیے سلام کہہ کر فون بند کردیا۔
…٭٭٭…
اگست کی پہلی دھوپ تھی اور آج کا موسم اسے بہت عجیب رنگ میں رنگا ہوا محسوس ہوا تھا۔ موسم خوش گوار تھا لیکن اسے ایک عجیب سی سوگواریت‘ بے نام سی اداسی اور تنہائی محسوس ہورہی تھی یا شاید اس کے اندر کا موسم ہی ایسا تھا۔ اس نے ہَوا کے زور سے اڑتے ہوئے دوپٹے کو انگلیوں کی مدد سے کھینچ کر اپنے کندھوں پر جمایا اور لان میں چلتے ہوئے بائونڈری وال کی جانب آگئی‘ بائونڈری وال میں موجودلکڑی کے چھوٹے سے دروازے کو کھول کر وہ اپنے لان سے افتخار احمد کے لان میں داخل ہوگئی۔ ویرانی اور تنہائی نے اسے خوش آمدید کہا تو اس کے اندر اداسی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ وہ لان میں لگے بیل‘ پودے اور پھولوں کو دیکھتی ہوئی دھیمی چال چلتی برآمدے کی طرف آگئی اور ماربل کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ اب لان اس کی نگاہوں کے سامنے تھے‘ جس میں ہرے بھرے انواع و اقسام کے پودے لگے ہوئے تھے اس نے ان پودوں پر نظریں جمائیں مگر آنکھوں کے سامنے بار بار ثمینہ کا مرجھایا ہوا چہرہ اور نم آنکھیں آتیں تو اس کا دل بھر آتا۔ آج وہ کتنی حسرت سے دیبا اور اس کے دونوں بچوں کو دیکھ رہی تھیں۔
دیبا اور اس کے بچوں پر نگاہ پڑتے ہی ان کے چہرے پر اداسی در ائی تھی لیکن انہوں نے خوش دلی سے اسے ویلکم کیا تھا اور اس کے بچوں کو پیار بھی کیا تھا مگر مشعل کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ ان کے شکستہ وجود کا سامنا کرلیتی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دیبا کو گیٹ تک چھوڑنے کے بعد اندر جانے کی بجائے ادھر چلی آئی تھی۔ ایک ٹھنڈی سانس لینے کے بعد اس نے گردن گھما کر اپنے دائیں جانب دیکھا تو چمکتے ہوئے سفید ماربل کو دیکھ کر اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ جیسے وہ جگہ اس کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہو‘ اس کے ساتھ اس کی زندگی کی کوئی حسین یاد جڑی ہو‘ ایک لمحہ تھا جو ٹھہر گیا تھا اور سفید رنگ کے اس ماربل سے جیسے چپک کر رہ گیا تھا۔
آج سے چار سال پہلے جب تیز بارش ہورہی تھی‘ اس نے برستی بارش میں روتے ہوئے اسی جگہ سے ایک ادھ کھلا سرخ گلاب اٹھایا تھا مگر آج بارش تھی نہ اس جگہ پر کوئی ادھ کھلا سرخ گلاب…! مگر اس دن کی طرح وہ آج بھی رو رہی تھی اور اس کے آنسوئوں نے جل تھل مچادیا تھا کیونکہ وہ تو آج بھی خوابوں کے اسی سفر میں تھی۔
تم تنہا ہو
میں تنہا ہوں
چلو خواب نگر میں چلتے ہیں
جہاں پیار کی بارش ہوتی ہے
اور سکھ کے دیپ جلتے ہیں
جہاں پتھر میں بھی پھول کھلیں
اور سرد ہَوائیں گرم لگیں
چھم چھم کرکے خوشیاں برسیں
بن بادل برسات ہو جیسے
تجھے چُھونے کا احساس ہو جیسے
جب دن کے نظارے سوجائیں
پھر چاند سے باتیں ہوجائیں
ہم خواب میں خواب ہی ہوجائیں
الفاظ ہَوا میں کھو جائیں
تم ساتھ چلو تو چلتے ہیں
ہم خواب نگر میں چلتے ہیں
…٭٭٭…
’’مشعل! یار یہ آخری بال ہے اور ہمیں جیتنے کے لیے صرف چھ رنز چاہئیں‘ تم چھکا لگانا۔‘‘ ماہ رخ نے پچ پہ بیٹ سنبھالے کھڑی مشعل سے کہا۔
’’ہاں ہاں بس تم دیکھتی جائو‘ چھکا ہی لگائوں گی اور ہم ہی جیتیں گے۔‘‘ اس نے بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ ماہ رخ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ علی عون فیلڈنگ پہ کھڑا تھا اور ریحان بولنگ کرارہاتھا۔ اس نے لمبا اسٹارٹ لیا اور بھاگ کر آتے ہوئے بال مشعل کی جانب پھینکی۔ مشعل نے پوری قوت سے بیٹ گھمایا اور بال اوپر کی جانب اڑتی ہوئی دوسری منزل کی نبیلہ چچی کی کھڑکی کا شیشہ توڑتے ہوئے اندر چلی گئی۔ مشعل نے یہ منظر دیکھا تو فوراً زبان دانتوں تلے دبالی۔ ماہ رخ کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا اور علی عون کی تو سٹّی گم ہوچکی تھی۔ ایک ریحان تھا جس کے حواس قائم تھے‘ اس نے بھاگ کر بیٹ مشعل کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مشعل وہاں سے ہٹ کر وکٹ کے پیچھے جاکھڑی ہوئی۔ نبیلہ بڑے جارحانہ تیوروں کے ساتھ برآمدے میں سے برآمد ہوئی تھیں۔ ماتھے پر سلوٹیں اور آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے مگر ان شعلوں پر اس وقت اوس پڑگئی جب بیٹنگ پچ پر بیٹ ہاتھوں میں تھامے کھڑے اپنے لخت جگر ریحان پر نظر پڑگئی۔ اگر یہ بیٹ اس وقت مشعل کے ہاتھوں میں ہوتا تو یقینا اس کی خیر نہیں تھی۔ بیٹ چونکہ ان کے بیٹے کے ہاتھوں میں تھا لہٰذا وہ ان تینوں پر ایک ناگوار سی نگاہ ڈال کر واپس چلی گئیں۔
’’ہُرے…! ہم جیت گئے۔‘‘ ان کے اندر جاتے ہی مشعل کی زبان دانتوں تلے سے نکلی اور اس نے جوش سے نعرہ مارا۔ ماہ رخ نے ایک طویل سانس لی اور اس کے قریب چلی آئی۔
’’آج تو خیر نہیں تھی اگر ریحان بھائی نے بروقت تمہارے ہاتھ سے بیٹ نہ لیا ہوتا تو مارے گئے تھے آج!‘‘
’’اس سے تو اچھا تھا ہم بیڈ منٹن کھیلتے‘ اس سے کسی کا شیشہ تو نہیں ٹوٹتا نا! میں نے کہا بھی تھا کہ بیڈ منٹن کھیلتے ہیں مگر میری کسی نے نہیں سنی۔‘‘