اُردو ادب میں تانیثی رجحانات، خاتون نثر نگار وں کی تخلیقات میں بیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے ہی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ خاتون نثرنگاروں کے افسانے اور ناول، ان رجحانات کی بھرپور عکاّسی کرتے ہیں۔ یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ شاعرات کے یہاں یہ رویےّ ایک شدّت کے ساتھ اچانک بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں منظرِ عام پر آنا شروع ہو گئے۔ شاعرات اُردو زبان کے ادبی منظر نامے پر اُنیسویں صدی کے اختتام پر کافی حد تک اپنے قدم جما چکی تھیں۔ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی تک شاعرات کا ایک قافلہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ اُردو ادب کو مالامال کرتا رہا۔ اُردو شاعرات کافی دیر تک ترقی پسند تحریک کے زیر اثر شعر کہتی رہیں۔ اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ ان میں سے کچھ شاعرات کے یہاں نسائیت کے رنگ بھی نظر آتے ہیں۔ غالباً یہ ایک فطری امر بھی ہے۔ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد خواتین شاعری ایک نئی نسائی شناخت اور نسائی خود آگہی کے ساتھ اُردو کے ادبی منظر نامے پر جلوہ افروز ہوتی ہے۔ اس شاعری میں تانیثی خود اعتمادی (Feminist Self Confidence) اور تانیثی اصرار (Feminist Assertion) کے خدوخال بخوبی نظر آتے ہیں۔
میں اس مختصر سے مضمون میں ’نسائیت‘اور ’تانیثیت‘دو الگ معنوں میں استعمال کر رہی ہوں۔ میری نظر میں وہ تجربات، خیالات اور احساسات، جو خواتین کی جسمانی ساخت، گھریلو ماحول اور مخصوص پرورش کا نتیجہ ہیں ’نسائیت‘کے زُمرے میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس ’تانیثیت‘حیاتیاتی جبر (Biological determinism) کو رد کرتی ہے۔ سماج کی طرف سے عائد کردہ مروّجہ تعریفوں (Definitions) کو ماننے سے انکار کرتی ہے۔ ایلین شووالٹر، جنھوں نے تانیثیت پر کافی کام کیا ہے، کے مطابق مغرب میں بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد جب تانیثی ادب ایک نئے دَور میں داخل ہوا، خاتون ادیبوں نے ایسے ادب کی تخلیق کا کام شروع کیا، جس کی جڑیں اُن کے اندر کی دُنیا میں پیوست تھیں۔ اس میں خودشناسی اور خودستائی بھی کافی حد تک شامل ہے۔ بقول شووالٹر:
"ان تانیثاؤں نے اپنے سے پہلے کی تانیثی ادیباؤں کی تمدّنی تشریح (Cultural Definition) کو لفظوں، جملوں اور زبانوں کی ساخت میں ڈھال کر اپنے ناولوں کے ذریعے ایک علیحدہ اور جداگانہ Domainکی تشکیل کی۔
یہ مضمون گو کہ خصوصی طور پر تانیثیت سے متعلق نہیں ہے،لیکن کئی باتوں کا ذکر اس وجہ سے ناگزیر ہے کہ مغربی تجربے کی روشنی میں اُردو شاعرات کی تخلیقات کا تجزیہ آسان ہو جاتا ہے۔ مغرب میں بیسویں صدی کی چھٹی دہائی تک آتے آتے تانیثی قلمکاروں اور آئیڈیولاگس (Ideologues) کے پاس تقریباً ڈیڑھ صدی کا تجربہ تھا۔ انھیں کارل مارکس اور فرائڈ کے تجزیے دستیاب تھے۔ ان تانیثاؤں نے نسائی تجربات، واقعات اور زبان کا استعمال کرتے ہوئے غصّے (Anger) اور جنسیت(Sexuality)کو نسائی قوّتوں کا سرچشمہ قرار دیا۔ یہ دَور اب بھی چل رہا ہے اور اپنے تضادات کے ساتھ موجودہ مغربی ادب کو متاثر کر رہا ہے۔ اس دَور میں سیمون دی بوئیر کی The Second Sexاور The Prime of Lifeجیسی فلسفیانہ کتابوں نے تانیثیت کی حدوں کو کافی وسیع کیا ہے۔
مندرجہ بالا تجزیہ کی روشنی میں ہمعصر شاعرات کے کلام میں تانیثی رویوّں کی شناخت کا معاملہ قدرے آسان ہو جاتا ہے۔
ہمعصر شاعرات کے کلام سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاعری میں تانیثی رویےّ مختلف اشکال میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ رویےّ مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ کہیں یہ اپنی خود آگہی اور خوداعتمادی کے مظہر ہیں اور کہیں یہ اسٹیریوٹائپ کو چیلنج کرتے ہوئے معروضوں کو رد کرتے ہیں۔ ہمعصر شاعری میں تانیثی رویےّ اپنی شدّت کے لحاظ سے، مختلف درجے (Stage) طے کرتے ہیں۔ ابتداً یہ رویےّ اپنے لہجے کی شیرینی اور زبان کی نرمی میں خوداعتمادی اور خود آگہی (یا خودستائی) کا عندیہ دیتے ہیں:
میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
(پروین شا کر)
شاعرہ نہ صرف اس کائنات میں اپنی ہستی کے مخصوص مقام کو اُجاگر کرتی ہے بلکہ زمان و مکان کی حد بندیوں کو پھلانگتی ہوئی اپنے منفرد رول کا بھی احساس دلاتی ہیں:
میں تو خود خالق و کوزہ گر و صنّاع بنی
شہر بانو بھی مرا نام رہا مریم بھی
(اداؔ جعفری)
پدری سماج (Patriarchal Society) میں ذہنی، خانگی، سماجی اور ثقافتی سطحوں پر جو حد بندیاں صدیوں سے کھڑی ہیں، اُن حد بندیوں کا گہرا اثر احساسات و خیالات کے اظہار پر پڑا ہے۔ ان حصاروں نے شاعرات کو اظہار کے معاملے میں نہایت محتاط بنایا تھا۔ اس لیے کبھی کبھی شاعرہ اپنی محرومیوں اور جبر کا ذکر یوں کرتی ہیں:
میرے قدموں تلے جنّت ہوئی تعمیر مگر
میری قسمت ترے ہاتھوں کی لکیروں میں رہی
وہ صداقت ہوئی جو دریاؤں پہ تحریر ہوئی
نوکِ نیزہ پہ سجی ، ظلم کے تیروں میں رہی
(رفیعہ شبنمؔ عابدی)
لیکن رفتہ رفتہ شاعرہ ان حصاروں پر دھاوا بول کر اُس زمین پر قدم جمالیتی جو مرد حضرات کو بلا شرکتِ غیرے ملکیت تھی۔ زبان و بیان اور موضوعات کے اعتبار سے یہ شاعری ایک طرح سے اعلانِ جنگ ہے:
مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
اَنگ اَنگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
(پروینؔ شا کر)
تانیثی خوداعتمادی اور تانیثی تکرار (Assertion) اب کھل کر سامنے آتی ہے:
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
(پروینؔ شا کر)
شاعرہ اب سہنے اور جھیلنے کے بھنور میں ہچکولے کھانے کے لیے تیاّر نہیں ہے۔ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آپ سے کہہ رہی ہے۔
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
(پروینؔ شا کر)
ہمعصر شاعرات میں تانیثی لب و لہجہ اور تانیثی زاویۂ نظر سے فہمیدہ ریاض ایک منفرد آواز ہیں۔ موضوعات اور اپروچ کے اعتبار سے اُن کی شاعری نے ہمعصر شاعرات کے لیے ایک ایجنڈا تشکیل دینے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ یہ ایجنڈا ایک الگ ثقافت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ فہمیدہ ریاض کی شاعری بادی النظر میں ایک سنجیدہ اور متین انداز میں اُن کے اپنے داخلی جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہے۔ لیکن اس شاعری کے اندر چھپا ہوا ’احتجاج‘نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا اندازہ ان کی مشہور نظم "با کرہ"سے کیا جا سکتا ہے۔ چند بند ملاحظہ ہوں:
اُس کی اُبلی ہوئی آنکھوں میں ابھی تک ہے چمک
اور سیاہ بال ہیں بھیگے ہوئے خوں سے اب تک
تیرا فرمان یہ تھا اِس پہ کوئی داغ نہ ہو
سو یہ بے عیب اچھوتا بھی تھا اَن دیکھا بھی
بے کراں ریگ پہ سرگرم لہو جذب ہوا
دیکھ چادر پہ مری ثبت ہے اس کا دھبّہ
اے خداوند کبیر
اے جباّر
متکبر و جلیل
ہاں ترے نام پڑھے اور کیا ذبح اسے
اب کوئی پارۂ ابر آئے کہیں سایہ ہو
اے خداوندِ عظیم
یاد تسکیں ! کہ نفس آگ بنا جاتا ہے
قطرہ آب ! کہ جاں لب پہ چلی آئی ہے
شاعرہ بڑی بے باکی سے اقدار، مفروضوں اور رائج الوقت علم و دانش کو فرسودہ قرار دیتی ہے، اور اسے چیلنج کر کے، نابود کرنے کی تلقین کرتی ہے:
یہ سچ ہے مرے فلسفی
میرے شاعر
وہ وقت آگیا ہے
کہ دُنیا کے بوڑھے فریبی معلم کا جبّہ پکڑ کر
نئے لوگ کہہ دیں
کتابیں بدل دو
یہ جھوٹی کتابیں
جو ہم کو پڑھاتے چلے آ رہے ہیں
حقیقت کے رُخ سے
یہ معنیٔ فرسودہ لفظوں کے پردے ہٹادو
جلادو
کتابیں جو ہم نے پڑھی ہیں
(آڈن کے نام، فہمیدہ ریاض)
ہمعصر شاعرات کی تخلیقات کے موضوع آہستہ آہستہ ایک الگ اور جداگانہ شکل و صورت اختیار کرتے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ موضوعات ایسے ہیں، جو خود اُن کے وضع کردہ ہیں۔ ان موضوعات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کئی معاملوں پر وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیاّر نہیں ہیں۔ تاریخ اور سماجی حالات کی حد بندیوں کے با وصف وہ اپنی (Assertion) پر ڈٹی ہیں۔ مثال کے طور پر:
کوہِ سینا پہ کوئی تجلی کبھی میری خاطر نہیں ہونے والی عیاں
معزجوں والا کوئی عصا مجھ کو بخشا نہیں جائے گا
اور یہ سم بہ سم بجلیاں ، صف بہ صف سامری
زہر شعلے اُگلتے ہوئے لہریئے
راستہ دے نہ دے نیل ! لیکن بتا دے مجھے
میں کہ موسیٰ نہیں ، پھر بھی فرمانروائی فرعون
تسلیم کیسے کروں ، کیا کروں
(یَسَّرْلِیْ اَمْرِیْ،، بلقیس ظفیرالحسن)
ہمعصر شاعرات نے اُن خیالات و جذبات سے اظہار کو بے باکی سے اپنایا جو صرف مرد حضرات کے ’حدودِ اختیار‘میں تھے۔ ان جذبات و خیالات کے اظہار پر خواتین کے لیے ایک خفیہ سماجی سینسر (Censor) تھا۔ ہمعصر شاعرات نے اس سینسرشپ کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دی ہیں:
دن رات بے کلی سے چلو جان تو چھُٹی
جینا ترے بغیر بہت دِل پہ شاق تھا
(بلقیس ظفیرالحسن)
تمہاری سلطنت نیلے سمندر وسعتِ افلاک
کرم بادِ فنا سے مانگتی ہے میری ،مشتِ خاک
(رخسانہ جبین)
حریفوں کی نظر سے دیکھئے تو
وہی ہے عیب اپنا جو ہنر ہے
جو آ کر پیٹھ میری تھپتھپائیں
نظر اُن بزدلوں کے وار پر ہے
(رخسانہ جبین)
سراب ہوں میں تری پیاس کی بُجھاؤں گی
اس اشتیاق سے تشنہ زباں قریب نہ لا
(فہمیدہ ریاض)
گرمن گریئر (Germaine Greer) نے اپنی تہلکہ انگیز تصنیف 'The Female Eunuch"میں، عورتوں کی ہڈّیوں، جسم کے خم، بالوں اور خلیوں (Cell) کا سائنسی اور طبّی تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے:
"The compound of induced characteristics of soul and body is the myth of eternal feminine, nowadays called the stereo type."
(رُوح اور جسم کی ابالی خصوصیات کے مرّکب سے دائمی نسوانیت کی دیومالا وجود میں آئی ہے، جس کو آج کل اسٹیریوٹائپ کہا جاتا ہے)۔
گرمن گریئر کے تجربے سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ مزید یہ کہ اُن کی تانیثی شدّت پسندی سے بھی کماحقہ‘اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دائمی نسوانیت ہمارے سماجی اور ثقافتی منظر نامے کا ایک تاریخی حصّہ ہے۔ ہمعصر اُردو شاعرات اس دیومالا پر مختلف طریقوں سے اپنا ردِّ عمل ظاہر کرتی ہیں۔
عورت کی خوبصورتی اُس کے لیے وبالِ جان بھی ہوسکتی ہے۔ یہ مقولہ ہماری ذاتی اور سماجی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسی ہی ایک خوبصورت عورت کے بارے میں شاعرہ کہتی ہے:
جواں لہو کا ذکر کیا
یہ آتشہ تو
پیرِ سال خوردہ کو صبح خیز کر دے
کیا عجب حسن ہے
کہ جس سے ڈر کر مائیں اپنی کوکھ جائیوں کو
کوڑھ صورتی کی بد دُعائیں دے رہی ہیں
کنواریاں تو کیا
کہ کھیلی کھائی عورتیں بھی جس کے سائے سے پناہ مانگتی ہیں
بیاہتا دِلوں میں اُس کا حسن خوف بن کے یوں دھڑکتا ہے
کہ گھر کے مرد شام تک نہ لوٹ آئیں تو
وفا شعار بیبیاں دُعائے نور پڑھنے لگتی ہیں۔۔۔
وہ نہر جس پہ ہر سحر یہ خوش جمال بال دھونے جاتی ہے
اُسے فقیہِ شہر نے نجس قرار دے دیا
تمام نیک مرد اِس سے خوف کھاتے ہیں۔
(ایک بری عورت، پروینؔ شا کر)
یہ بری عورت بھی ایک عجیب اَڑیل شے ہے۔ اُسے کسی شرمندگی کا کوئی احساس بھی نہیں ہے۔ زنِ ناپاک ہو کر بھی سربہ سجودنہیں ہے۔ ملاحظہ ہو:
اِس کے بدن کی شرم پر
تقدیس کا سایہ نہیں
لیکن خدائے بحر و بر
ایسا کبھی دیکھا کہیں
فرمان تیرے سب روا
ہاں اس زنِ ناپاک کے
لب پر نہیں کوئی دُعا
سر میں کوئی سجدہ نہیں
(وہ اِک زنِ ناپاک ہے، فہمیدہ ریاض)
شاعرہ تابعداری اور فرمانبرداری کے ساتھ ہر حکم کی تعمیل کرتی ہے، لیکن سوالوں کے جوابات بھی طلب کر رہی ہے۔ اُس نے سوال کرنے کا حق حاصل کر لیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
بیبیو
جنّتی ہے وہ بیوی جو شوہر کے آنے سے پہلے
سجے اور سنورے
موُ بمُو موتیوں کو پروئے
اشتہا خیز خوشبو بھرے قاب کھانے کے تیاّر رکھے
اور ہاں بیبیو
اِک چھڑی بید کی، خوب مضبوط سی
وہ بھی رکھنا نہ بھولے
کون جانے صعوبت کے میداں کا ہارا، تھکا وہ سپاہی
شومیِ بخت سے
نامرادی کے زخموں سے لتھڑا ہوا آ رہا ہو
جو آئے، ڈھونڈنے کی نہ زحمت اُٹھائے
نیک بی بی کے بے چارہ شانوں سے ریشم کا رنگین لبادہ اُس چھڑی سے ہٹا کر
اپنی ناکامیوں کا لہو، اُس کے شفاّف نازک بدن پر چھڑک دے
تاکہ پھر چین کی نیند وہ سو سکے
سیدھی جنّت سدھارے گی،ُ پُرسش نہ ہو گی گناہوں کی
سب معاف ہوں گے
وعظ میں کہنے والی نے اتنا کہا اور چُپ ہو گئی
نیک بی بی کا مژدہ سنایا
مگر ایسا شوہر کہاں جائے گا، اس کی بابت کسی کو نہ کچھ بھی بتایا
خدایا خدایا
صف بہ صف ، نسل در نسل، بے مول کی یہ کنیزیں
اُنھیں ان کے ہونے کا احساس
توُ ہی عطا کر
(بلقیس ظفیرالحسن)
یہ نظم محض نسائی ردِّ عمل نہیں ہے، بلکہ تانیثی آگہی (Feminist Consciousness) کی ایک نمائندہ تخلیق ہے۔ ہمعصر اُردو شاعری میں جو کچھ بھی تخلیق ہو رہا ہے، وہ کافی حد تک تانیثی رویوّں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ رویےّ اسٹیریوٹائپ کو چیلنج کرتے ہیں، حیاتیاتی جبر کو رد کرتے ہیں، نئے نئے استعارات، تشبیہات اور تلمیحات کو وضع کر کے ایک نئی تمدّنی Domainکی تشکیل میں مصروف ہیں۔ ان شاعرات کی تعداد اچھّی خاصی ہے۔ لیکن یہاں ان سب شاعرات اور اُن کی تخلیقات کا تجزیہ ممکن نہیں۔ پچھلی دو دہائیوں کے عرصے میں جن شاعرات کی شاعری میں تانیثی رنگ نظر آتے ہیں، ان میں پہلے رفیعہ شبنم عابدی اور پھر شہناز نبی، عذرا پروین اور شبنم عشائی کے نام اس لحاظ سے قابلِ توجہ ہیں کہ اُن کی شاعری میں تانیثی رویےّ نمایاں ہیں۔
یہ مضمون چونکہ ہمعصر شاعری میں تانیثی رویوّں کی شناخت تک ہی محدود تھا، اس لیے ہم نے صرف اُسی شاعری کا انتخاب کیا ہے، جس کو تانیثی رویوّں کی نمائندہ شاعری قرار دیا جا سکتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ شہناز نبی کی نظم "شعرِ شور انگیز"کیا کہتی ہیں:
شعرِ شور انگیز
بیاضِ دِل میں تجھ کو نقش کرنے سے ذرا پہلے
نہ سوچا تھا کہ تو کس بحر میں ہے
کیا زمیں تیری
عروضی موشگافی کی ضرورت ہی نہیں سمجھی
نہ یہ دیکھا کہ ہے آہنگ کتنا
اور بیاں کیسا
توارد ہے نہ سرقہ ہے
توُ جیسا ہے، توُ جس کا ہے
اُتارا ہوبہو میں نے
اگر کچھ جرم ہے میرا تو بس اتنا
کہ تجھ میں اپنے معنی رکھ کے پڑھتی رہتی ہوں اکثر
اے میرے شش جہت
اے شعرِ شور انگیز
ممکن ہو
تو میرے ذوقِ شعری پر
کبھی تو ناز کر لینا
اس مضمون کو میں راقم الحروف کی ایک نظم پر ختم کرتی ہوں:
نامحرم
اُس کے ہر مو سے لپٹا ہو گا اِک سانپ
دِلکش آنکھیں اُس کی
داغی جائیں گی
انگاروں پر ہو گا اُس کا نرم بدن
ایسے جرم کے بعد
رحم کی کیا ہو گی اُمید اُسے
حالانکہ ہر دِل پر قادر ا للہ ہے
اُس کے جان اور جسم کا ہے مختار کوئی محرم اس کا
اُس کو اِک نا محرم ا چھا لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔