ثمر خالہ اور ان کی فیملی پاکستان پہنچ گئے اور آتے ہی سعد نے رانیہ کو کال کی اور رانیہ بھی اس کا زبردست استقبال کرنے کے لئے بےصبر تھی۔ وہ لوگ گھر بھی پہنچ گئے شایان، ثمر خالہ اور ان کے شوہر گھر میں چلے گئے جبکہ سعد گاڑی پارک کرنے چلا گیا۔
"ثمر خالہ آ گئی ہیں اور تم یہاں گیلری میں کیا کر رہی ہوں"نمرہ نے کہا۔
"سعد کا انتظار" رانیہ نے کہا۔
"تم تو ایسے اس کا انتظار کر رہی ہو جیسے وہ برات لے کر آ رہا ہو"
"ویری فنی"
"اور یہ کیا ہے" نمرہ نے لال بالٹی جس کے اندر پانی اور مٹی ملی ہوئی تھی اور ایک کیچڑ کی طرح لگ رہا تھا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
"استقبال کا سامان" رانیہ نے کہا۔
"کس کے؟"
"سعد کے"
"مطلب"
"یہاں کھڑی ہو جاؤ پتا چل جائے گا"
کچھ لمحے میں سعد آیا اس نے رانیہ اور نمرہ کو دیکھ کر نیچے سے ہاتھ ہلایا نمرہ نے ہاتھ ہلایا جبکہ رانیہ نے بالٹی اٹھالی سعد کو رانیہ کی یہ حرکت سمجھ نہ آئی لیکن عقل نے جب کام کیا جب اس کے اوپر کیچڑ گرا اور وہ پورا گندا ہوگیا۔
"رانیہ.." سعد اوپر دیکھ کر چلایا جبکہ رانیہ اور نمرہ اوپر کھڑی ہنس رہیں تھی۔
"کیسا لگا استقبال مائے ڈیئر فرینڈز" رانیہ نے ہنسی دباتے ہوئے پوچھا۔
سعد غصے سے اندر چل دیا کہ اس کا سامنا شایان سے ہوا۔
"آہ۔ہ۔ہ کون ہے" شایان چلایا۔
"میں" سعد نے غصے سے بولا۔
"کون میں اور تم گندے انسان گھر میں کیوں چلے آ رہے ہو دور ہٹو میری نظروں سے ورنہ میں تم پر الٹی کرلوں گا" شایان نے غصے میں کہا۔
"چپ کر گدھے میں ہوں" سعد کا اب ضبط جواب دے گیا۔
"سعد تم۔۔۔اور یہ کیا ہے"
"دیکھ نہیں رہا اندھے"
"تم کیچڑ مین کیوں بنے پھر رہے ہو بچپن میں تمہیں آئرن میں، اسپائیڈر مین بننے کا شوق تھا یہ کیچڑ مین کا کب شوق پیدا ہوا" شایان نے کہا۔
"ہوگیا"
"اچھا یہ بتاؤ تمھاری پاورز کیا ہیں مہربانی کرنا فلموں میں نہ آنا لوگ تو فلمیں دیکھنا چھور دیں گے"
"میں بتاؤں میری کیا پاورز ہے" وہ اس سے لگ گیا جس سے شایان کے کپڑے بھی خراب ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد سیدھا رانیہ کے کمرے میں گیا جہاں رانیہ اور نمرہ بیٹھی تھی لیکن سعد کے اچانک آتے ہی وہ دونوں اٹھ گئیں۔
"اب بتاؤ رانیہ" سعد نے غصے سے کہا۔
رانیہ اور نمرہ دونوں بھاگی، نمرہ تو بھاگنے میں کامیاب ہوگئی لیکن رانیہ کا ہاتھ سعد نے پکڑ لیا۔
"سعد میرا ہاتھ چھوڑو" رانیہ نے کہا۔
"تم نے یہ کیا کیا"سعد نے کہا
"تمھارا استقبال"
"اور اب ایسے استقبال کا شکریہ تو کرنا ہوگا نا"
"کیا مطلب؟"
سعد نے اپنے ہاتھوں سے کیچڑ اس کے منہ پر لگایا اور کپروں جس سے رانیہ کا چہرہ بھی گندا ہوگیا۔
"سعد کے بچے تمھاری وجہ سے میرے کپڑے خراب ہوگئے۔"
رانیہ نے گلدان اٹھا کر سعد کو مارا لیکن وہ نیچے جھک گیا اور گلدان دیوار پر لگا اور ٹوٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد اور عرش کال پر بات کر رہے تھے.
"تم لوگ پہنچ گئے" عرش نے پوچھا
"ہاں اور تو کب آ رہا ہے"
"ایک ہفتے بعد"
"یار جلدی آ"
"دل تو کر رہا ہے ابھی آ جاؤں لیکن آ نہیں سکتا"
"اب زیادہ نہ بول سب جانتا ہوں کہ عرش صاحب کس سے ملنے کے لئے ابھی آنا چاہتے ہیں"
"واہ پہلی بیوی دیکھی ہے جو اپنے شوہر کو دوسری شادی کے لئے بلا رہی ہے"
"اچھا پھر تو ہمیں علیحدہ ہو جانا چاہئیے"
"کیوں"
"آج آپکی شادی ہو رہی ہے کل میری ہو جائے گی تو علیحدہ ہونا چاہئیے"
"تو تو ایسے بول رہا ہے جیسے کل ہی تیری شادی ہو"
"ہاں تو میری بھی ہو جائے گی"
"بڑی جلدی نہیں ہے، جناب کو بتا دیا جائے شادی کے لئے ایک عدد لڑکی کی ضرورت ہوتی ہے"
"وہ تو تیار ہے" سعد نے خوشی سے کہا۔
"تیار ہے۔۔۔مطلب ثمر آنٹی نے تیرے لئے لڑکی ڈھونڈ لی"عرش نے حیرانی سے پوچھا۔
"نہیں ابھی ان کو بتانا باقی ہے"
"اوہ تو آپ نے لڑکی پسند بھی کر لی"
"پسند نہیں محبت"
"کیا سچ مچ" عرش نے حیرانی سے پوچھا۔
"تو۔۔میں جھوٹ بول رہا ہوں" سعد نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
"یار کون ہے مجھے بتا"
"تو اسے جانتا ہے"
"کہیں ہمارے کالج یا ہونی کی تو نہیں"
"نہیں یار تو بس جلدی آ پھر میں بتاؤنگا"
"اب تو اڑ کر آنا ہوگا"
"آجا اپنی سوتن کو دیکھ لے"
"چوڑیاں ٹورنا تو بھی اور میں بھی ٹورونگا"
"چل تیاری کر کے آنا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی رانیہ گارڈن میں بیٹھ کر کوئی نیا پلین سوچ رہی تھی کہ سعد آیا۔
"رانیہ میرے ساتھ چلو" سعد نے کہا۔
"کہاں" رانیہ نے پوچھا۔
"چھت پر" سعد نے کہا۔
"چھت پر کیوں"
"یار تم چلو نا"
"کئی اوپر سے دھکا دے کر مارنے کا ارادہ تو نہیں ہے نہ"
"تمہیں مارنے کے لئے کوئی اور پلین سوچ کر رکھا ہے اب چلو نہ"
"نہیں"
سعد نے اس کا ہاتھ پکڑا اور زبردستی اسے چھت پر لے کر گیا۔
"یار کیا مسئلہ ہے" رانیہ نے چڑ کر کہا۔
"مجھے تمہیں کچھ دکھانا ہے" سعد بولا
"کیا"
"رکو"
سعد نے جیب سے باکس نکالا۔
"یہ کیا ہے" رانیہ نے پوچھا۔
"گفٹ"
"کس کے لئے"
"پروس والی ارشیا کے لئے۔"
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس کے لئے لانے کی تمہیں پتا نہیں ہے وہ مجھے کتنی ناپسند ہے دوست میرے ہو اور گفٹ اس کے لئے" رانیہ مسلسل بولے جا رہی تھی۔
"اوہ چپ کرو اور یہ گفٹ تمھارے لئے" سعد نے غصے سے بولا۔
"میرے لئے طبیعت تو ٹھیک ہے" رانیہ نے کہا۔
"چھوڑو تمہیں نہیں چاہئیے" سعد نے باکس پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
"اوہ میں تو مزاق کر رہی تھی" رانیہ نے اس کے ہاتھ سے باکس چھینا۔
باکس میں ایک خوبصورت واچ تھی۔
"کتنی خوبصورت ہے یار" رانیہ نے واچ پہنتے ہوئے کہا۔
"ویسے میں نے پسند کی ہے" سعد نے شان سے کہا۔
"تھینکس یار سعد" رانیہ نے کہا
"یور ویلکم" سعد نے کہا۔
"کیسے دوست ہو میں نے سوچا کہ تم کہو گے دوستی میں نو سوری نو تھینک یو" رانیہ نے غصے سے کہا۔
"چلو یہ سب میری دوسری دوست کے لئے"
"دوسری کون ہے بتاؤ"
"کیوں"
"سیدھا بتاؤ"
"جاؤ نہیں بتا رہا"
"بتاتے ہو یا میں۔۔"
"خود ڈھونڈو" سعد یہ کہتے چلا گیا۔
اور رانیہ بے چاری یہ سوچتی رہی کہ دوسری دوست کون ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کے کارڈ اب کچھ گھر میں ہی دینے رہ گئے تھے آج نور، شاہانہ اور فارس فضاء کے گھر کارڈ دینے گئے فضاء کوکنگ کلاسز گئی ہوئی تھی سب بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے کہ فضاء کی امی سعدیہ نے فارس سے پوچھا۔
"بیٹا اب کیا کر رہے ہو"
"آنٹی آفس جا رہا ہو تایا ابو کے ساتھ" فارس نے جواب دیا۔
"اس کی شادی کا کچھ سوچا ہے کہ نہیں" سعدیہ نے شاہانہ سے کہا۔
فارس جو کہ کب سے بور ہو رہا تھا اور یہ سوچ کہ آیا تھا کہ فضاء بھی گھر پر ہوگی لیکن وہ تو تھی ہی نہیں اب اٹھ کر بیٹھ گیا۔
"نہیں ابھی کچھ وقت لگے گا پہلے یہ آفس کا کام تو سیکھ لے" شاہانہ نے کہا۔
"تو میں کون سا شادی کا کہہ رہی ہوں اس کی منگنی ہی کروادو"
"لڑکی تو ملے"
"تو ڈھونڈنا شروع کردو میری نظر سے بھی کوئی گزرے گی تو تمہیں بتاؤں گی" سعدیہ نے کہا۔
"واہ جسے میں ساسوں ماں بنانے کے پلین میں ہوں وہ میرے لئے لڑکی ڈھونڈنے والی ہے واہ کیا قسمت ہے تیری فارس" فارس نے سوچا۔
شام کو جب فضاء کے ابو حیدر آئے تو سعدیہ نے ان سے بات کی۔
"فارس کتنا سلجھا ہوا بچہ ہے" سعدیہ نے کہا۔
"ہاں ہماری نظروں کے سامنے بڑا ہوا ہے ماشاءاللہ بہت پیارا بچہ ہے"
"میں سوچ رہی تھی کہ آپ بات کرے نہ ارشد صاحب سے" سعدیہ نے سوچتے ہوئے کہا۔
"کس بارے میں"
"فضاء اور فارس کے رشتے کے لئے"
"یہ کیا کہہ رہی ہو، اچانک"
"ہاں آج فارس کو دیکھا تو یہ خیال دل میں آیا"
"اگر انہوں نے پہلے سے ہی کوئی لڑکی پسند کی ہوئی ہوگی"
"آج ہی بات ہوئی ایسا کچھ نہیں ہے آپ بات تو کریں"
"لیکن ہماری بیٹی کی تو پڑھائی ابھی مکمل ہوئی ہے"
"ہاں تو وہ لوگ بھی ابھی شادی نہیں کر رہے"
"اچھا اگر موقع ملے گا تو میں ارشد سے بات کروں گا" حیدر صاحب نے سوچ کو کہا آخر ارشد صاحب سے ان کی جوانی سے گہری دوستی تھی۔
___________
سعد اپنے کمرے میں تھا کہ رانیہ آئی۔
"سعد مجھے بازار جانا ہے" رانیہ نے کہا۔
"تو جاؤ" سعد نے اس کو اگنور کیا اور موبائل میں لگ گیا کہ رانیہ نے اس کا موبائل چھینا۔
"میرا موبائل دو رانیہ" سعد نے غصے سے کہا.
"تم مجھے لے کر جا رہے ہو" رانیہ نے کہا۔
"اچھا چلو" سعد نے اس سے موبائل لیا۔
"یہ تم نے بائیک کی چابی کیوں اٹھائی"رانیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
"کیونکہ گاڑی فارس کے کر گیا ہے اب تم چل رہی ہو یا میں جاؤں" سعد نے کیا۔
"اچھا لیکن ایک شرط ہے" رانیہ نے کہا۔
"کیا کہ ںائیک آرام سے چلانا" سعد نے کہا
"نہیں ہوا کی طرح تیز چلانا "
"ٹھیک ہے تم بیٹھو"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی راستے میں ہی تھے،
"سعد بائیک تیز چلاؤ" رانیہ نے اسے مکہ مارا۔
"اب اتنی تو تیز چلا رہا ہوں"
"تم سے تیز تو میں چلا لوں"
" پولیس پکڑ لے گی"
"یہ پاکستان ہے یہاں پولیس نہیں پکڑتی" رانیہ نے کہا۔
"تم چلا لو ایک کام کرو" سعد نے چرتے ہوئے کہا۔
"اگر آتی تو چلا لیتی"
"کیوں تمہیں بائیک چلانا نہیں آتی"
"یہاں لڑکیاں بائیک نہیں چلاتی"
"نیو یارک میں تو چلاتیں ہیں"
"مجھے کسی نے سیکھائی نہیں"
"چلو میں تمہیں سکھاؤں گا"
"پکا"
"ہاں یار"
"پھر میں چلاؤں گی کہاں"
"میں تمہیں نیویارک لے کر جاؤں گا اپنے ساتھ" سعد نے کہا۔
"ہیں سچی" رانیہ نے اچھل کر کہا۔
"ہاں لیکن ابھی سیدھا بیٹھو ورنہ بازار کے بجائے اسپتال پہنچ جائیں گے"
"اچھا اچھا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح فارس آرام سے خوابوں کے دنیا میں گم تھا کہ اسے رانیہ کی آواز آئی۔
"یہ ہم دونوں کے خواب میں رانیہ کیا کر رہی ہے" فارس نے حیرانی سے پوچھا۔
"پتا نہیں" سامنے لڑکی کی آواز آئی۔
"فارس اٹھو" نمرہ کی آواز آئی۔
"ہائے اللہ ان دونوں کو سکون نہیں ہے میرے خواب میں بھی ہم دونوں کے بیچ آ گئی" فارس بولا۔
"کیا بکواس کر رہے ہو فارس" رانیہ نے پاس پڑا ہوا گلاس کا پانی فارس کے منہ پر پھینکا۔
"آہ بارش" فارس یہ کہتے اٹھ گیا۔
"رانیہ اور نمرہ سکون نہیں ہے تم دونوں کو میرے خواب کے درمیان بھی آ گئی۔ " فارس نے کہا
رانیہ نے اسے ہلکا چماٹ مارا۔
"اصل دنیا میں آؤ یہ خواب نہیں ہے" رانیہ نے کہا۔
"اوہ اچھا" فارس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔ "کتنا اچھا خواب تھا۔"
"اب یہ خواب دیکھنا بند کرو اور ہم دونوں کو گھمانے لے چلو" رانیہ نے کہا۔
"کسی اور کو کہو میں سو رہا ہوں" فارس نے کہا۔
"دیکھو فارس نمرہ کچھ دنوں کی مہمان ہے اس لئے ہم دونوں کو لے کر جاؤ" رانیہ نے بولا۔
فارس اچانک اٹھا اور نمرہ کو بیڈ پر بٹھایا۔
"ہائے اللہ کیا ہوا میری بہن کو تم فکر نہ کرو میں اچھے سے تمھارا علاج کراؤں گا ،تمہیں دنیا سے جانے نہیں دوں گا۔"
نمرہ غصے میں اٹھی "کیا بکواس کر رہے ہو فارس"
"میرا مطلب ہے نمرہ اس گھر میں کچھ دنوں کی مہمان ہے" رانیہ نے غصے سے کہا۔
"اوہ میں تو کچھ اور سمجھا۔۔۔ہاں تو گھر سے جا رہی ہے شکرانے کے نفل پڑھنے کے بجائے تم دونوں کو گھمانے لے کر جاؤں" فارس نے لیٹتے ہوئے کہا۔
"چھوڑو اسے ہم دونوں چلتے ہیں تم حماد کو بول دو گاڑی لے کر آئے" نمرہ نے کہا۔
وہ دونوں جا ہی رہی تھی کہ فارس کی آواز آئی۔
"کون کون جا رہا ہے" فارس نے پوچھا۔
"میں، رانیہ, حماد اور فضاء" نمرہ نے کہا۔
آخری نام پر فارس اچھل کر اٹھا۔
"میں چل رہا ہوں دو منٹ رکو"
فارس نے بیڈ سے چھلانگ لگائی اور الماری سے اپنے کپڑے نکال کر چینج کرنے چلا گیا۔
اسے کیا ہوا دونوں یہی سوچنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو وہ لوگ گھوم کر واپس آئے۔
"آخر تم تینوں گئے کہا تھے" سعد نے کہا۔
"گھومنے" رانیہ نے جواب دیا تھا۔
"صبح صبح چلے گئے اور ہمیں یاد بھی نہیں کیا میں کتنا بور ہو رہا تھا۔"
"ہاں تو اب ہم یونی فرینڈز گئے تھے تمھارا کیا کام" رانیہ نے کہا۔
یہ کہہ کر رانیہ اور نمرہ کمروں میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دو بجے رانیہ کا فون بجا۔
"ہیلو کون" رانیہ نے بھاری آواز میں پوچھا۔
"میں سعد" سامنے سے آواز آئی۔
"کون سعد" رانیہ نے پوچھا۔
"تمھارا کزن نیند اڑاؤ"
"اوہ ہاں بولو کیا ہوا"
"یار تمہیں بائیک چلانی سیکھنا ہے"
"ہاں"
"تو آؤ میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں"
"کہاں نیو یارک میں" رانیہ نے چیخ کر کہا۔
"افف گھر کے باہر آؤ میں انتظار کر رہا ہوں"
"ابھی"
"نہیں کل"
"تو کل بتانا تھا تو آج میری نیند کیوں خراب کی"
"تم آ رہی ہو کہ میں جاؤں"
"ہاں ہاں آ رہی ہوں کیوں چڑ رہے ہو"
رانیہ نیچے گئی اور سعد نے اس کو بائیک چلانا سیکھائی یہ سلسلہ ایک ہفتے تک رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر یہ دن بھی آگیا جب شازیہ پھوپھو کی بھی فیملی آگئی اب شادی میں کچھ دن رہ گئے تھے۔ نمرہ عرش کے انتظار میں گیلری میں کھڑی تھی کہ رانیہ اسے زبردستی کسی کام سے کمرے میں لے آئی آخر ان سب کی چال تھی کہ اتنی آسانی سے نمرہ اور عرش کو آمنے سامنے نہیں آنے دیں گے۔ عرش جو کہ صبح سے آیا ہوا تھا اور آنکھیں نمرہ کو ہی ڈھونڈ رہی تھی اور تلاش میں تھا کہ کوئی موقع آئے اور وہ نمرہ کے کمرے میں جا سکے لیکن سعد بھی اس کے ساتھ ساتھ تھا اب ہمت کر کے قدم نمرہ کے کمرے کی طرف بڑھا دیے، لیکن افسوس راستے میں اسے شیطان کے کنبے نے روک دیا۔
"کہاں تیاری ہے" سعد نے اسے روکا۔
"کہیں نہیں" عرش نے کہا۔
"تو کہاں جا رہے تھے" سعد نے دوبارہ پوچھا۔
"ٹہل رہا تھا" عرش نے کہا۔
"تئیس سال ہوگئے مجھے اس گھر میں لیکن آج تک یہ بات پتہ نہ چلی کہ یہ جگہ ٹہلنے کے لئے اچھی ہے" فارس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
"بیٹا یہ جو آپ موقع تلاش کر رہے ہیں یہ ہاتھ نہیں آنے والا" سعد نے کہا۔
"کونسا موقع" عرش نے پوچھا۔
"زیادہ سیدھا نہ بنو اور دوبارہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں" سعد نے کہا۔
"کیا تم لوگ مجھ پر پابندیاں لگا رہے ہو اور میں اپنی بیوی کے کمرے میں جا رہا ہوں"
"تمہاری بیوی سے پہلے وہ میری بہن ہے" فارس نے اسے کہا۔
"چلو ہم تمہیں ایک شرط پر ملنے دیں گے" سعد نے کہا۔
"کیا" عرش نے کہا۔
"ہاتھ میں بہت کھجلی ہو رہی ذرا رقم ملے تو۔۔۔" سعد اپنی بات کہتے ہوئے رکا۔
"اب تو نے بلیک میلنگ کا کاروبار شروع کر دیا ہے" عرش نے کہا۔
"یہ رسم ہے" فارس نے کہا۔
"یہ رسمیں مجھے زہر لگتی ہے میں تو تمہیں ایک روپیہ نہ دوں"عرش نے کہا
"جب پیسے جاتے ہیں تو ایسی رسمیں زہر ہی لگتی ہے اب شاباش اچھے بچو کی طرح پیسے نکال ورنہ واپسی کا رستہ پکڑو" سعد نے کہا۔
"واہ بیوی سوتن کی رسمیں کر رہی ہے" عرش نے پیسے دیتے ہوئے کہا۔ وہ جانے ہی والا تھا کہ سعد نے اسے دوبارہ روکا اور فارس کے کان میں کچھ بول کر بھاگ گیا جبکہ فارس نے عرش کو باتوں میں الجھا دیا۔