آج بھی نمرہ جلدی اٹھ گئی فریج سے اچار نکالا اور پانی کا جگ بھرا تاکہ چھت پر بیٹھ کر کل رات کا سالن کھائے، کوئی جاگ نہیں رہا تھا اور بے چاری کو ناشتہ بنانا آتا نہیں تھا۔
ابھی اس کا گزر عرش کے کمرے کے سامنے سے ہوا ہی تھا کہ اسے فون بجنے کی آواز آئی اس کے قدم کمرے کے جانب بڑھے، اس نے جگ اٹھا کر ڈریسنگ پر رکھا اور فون اٹھا کر نمبر دیکھنے لگی کہ اسی وقت عرش بھی واشروم سے نکلا اسے دیکھ کر نمرہ کو ایسا جھٹکا لگا کہ فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور افسوس وہ سیدھا پانی کے جگ میں گر گیا۔
"بیوقوف لڑکی یہ تم نے یہ کیا کیا۔ تمہیں میرا کام خراب کرنے میں کیا خوشی ملتی ہے" عرش موبائل نکالتے ہوئے غرایا۔
"وہ میں نے پتا نہیں کیسے موبائل۔۔" نمرہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔
"اب تم یہ بولو گی کہ موبائل خود گر گیا" عرش نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا.
"ہاں وہ۔۔"
"اب تم کہو گی کہ موبائل نے تمھارے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا پلز نمرہ بی بی مجھے پانی میں جانے دیں جیسے پانی نہیں کوئی اس کا پرانا عاشق ہو"
"پانی کیسے بول سکتا ہے" نمرہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔
"اف بیوقوف لڑکی اس میں میرے بہت اہم ڈاکیومنٹ تھے اور تم نے سب خراب کردیے مطلب بندے کو دوسروں کے کمرے میں آنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔" ابھی وہ اسے شانوں سے پکرنے ہی والا تھا کہ نمرہ نے ڈر کے مارے اچار اچھالا کچھ اسکی آنکھوں میں گیا اور باقی زمین پر گر گیا۔
"آہ میری آنکھ یہ کیا کیا" عرش چلایا۔
"آئیم سوری"
"ہٹو یہاں سے" عرش اسے ہٹا کے باتھروم کی طرف بڑھا مگر زمیں پر گرے اچار کی وجہ سے گر گیا۔
"آہ میری کمر یہ کیا ہے میری آنکھ یہ زمین پر کیا ہے" عرش اپنی آنکھ رگڑتے ہوئے بولا
نمرہ نے جلدی سے اسے اٹھنے میں مدد کی اور اسے بیڈ پر لٹایا۔
"میری آنکھ پانی لاؤ" عرش ابھی بھی آنکھ رگڑ رہا تھے۔
نمرہ کو سمجھ نہیں آ یا کہ کیا کرے اس لئے جگ کا پورا پانی اس پر پھینک دیا۔
"اف میری آنکھ ایمبولینس بلاؤ اسپتال لے کر جاؤ مجھے" عرش کی آواز جلن کی وجہ سے بھاری تھی۔
نمرہ جلدی سے فارس کے کمرے میں گئی جہاں وہ خراٹے مار کر سو رہا تھا۔
"فارس فارس اٹھو" نمرہ اسے ہلاتی ہوئی بولی۔
"کیا ہوا نمرہ سونے دو مجھے" فارس اپنا کمبل ٹھیک کرتے ہوئے بولا۔
"فارس پلیز اٹھو وہ عرش" ڈر کے مارے اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔
"کیا ہوا عرش کو؟" فارس نے نیند کو بھگاتے ہوئے پوچھا۔
"وہ انھیں کچھ ہوگیا ہے۔"
"کیا مطلب؟"
"وہ پہلے رو رہے تھے، چلا رہے تھے اور بول رہے تھے کہ مجھے اسپتال لے کر جاؤ"
'اب کیا کہہ رہا ہے وہ"
"اب تو کچھ نہیں بول رہے آواز بھی نہیں آرہی"
"کیا مطلب کچھ نہیں بول رہا کہیں اسے ہارٹ اٹیک تو نہیں..؟"فارس نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
نمرہ کو پتا تھا کہ وہ یہیں ساری معلومات حاصل کرنے بیٹھ جائے گا اس لئے اس بے چاری نے ہاں بول دیا۔
"ہاں شاید۔۔"
ابھی اس نے اپنی بات مکمل کی نہیں تھی کہ فارس اٹھ کر عرش کے کمرے کی جانب بھاگا نمرہ بھی اس کے پیچھے بھاگی۔
عرش بیڈ پر الٹا لیٹا ہوا تھا اور اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا فارس اچانک سے کمرے میں آیا اور بغیر کچھ سوچے اس کو سیدھا کرکے اپنا ہاتھ اس کے سینے کے اوپر رکھ کر دبانے لگا اور اسے آوازیں دینے لگا۔
"یہ کیا کر رہے ہو دونوں بہن بھائی مجھے مارنے پر تلے ہو" عرش آنکھ رگڑتے ہوئے بولا۔
"تو ٹھیک ہے" فارس نے چونک کر کہا۔
"نہیں دیکھ نہیں رہا کہ میں کیسے درد میں بلبلا رہا ہوں اندھے"
"لیکن نمرہ نے کہا کہ تجھے ہارٹ اٹیک آیا ہے"
"یہ تو ہاتھ منہ دھو کر میرے پیچھے پڑی ہے اس کی بات کہاں سن رہا ہے پہلے مجھے اسپتال لے کر جا"
"لیکن تجھے ہوا کیا ہے اور تو رو کیوں رہا ہے"
"یہ تو اپنی بہن سے پوچھ کہ اس نے کس طرح میری جان لینے کی کوشش کی اور میری آنکھوں میں اچار ڈال دیا"
" یہ کیسے ہوا" فارس نے نمرہ سے پوچھا جو کہ کب سے سر جھکائے کھڑی تھی۔
نمرہ نے پوری کہانی شروع کی۔
"دراصل میں جلدی اٹھ گئی اور بھوک لگی تھی اس لئے رات کا سالن گرم کیا اور اس کے ساتھ کھانے کے لئے اچار اور پانی نکالا اور اپنے کمرے میں جا ہی رہی تھی کہ ان کے کمرے سے فون بجنے کی آواز آئی.."
"یہ کیا تو اس کی کہانی سر جھکائے سن رہا ہے پہلے مجھے اسپتال لے کر جا ورنہ میں مر جاؤگا کہانی سنے کے لئے پوری عمر پڑی ہے" عرش نے غصے میں کہا۔
"او ہاں" فارس نے اسے پکڑ کر اٹھایا اور اسپتال لے گیا۔
نمرہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اس لئے اپنی امی کو اٹھایا۔
"امی امی عرش کو کچھ ہو گیا ہے" اس نے شاہانہ کو اچانک سے یہ خبر دی۔
"کیا مطلب کیا ہوا ہے؟" شاہانہ نے چونکتے ہوئے پوچھا
"فارس انہیں ارجنٹ اسپتال لے کے گیا ہیں"
"تو کیا ہوا اسے؟"
نمرہ کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا بولے کیونکہ اگر اس نے سچ بتایا تو امی سے سہی والی ڈانٹ پرنے کا خطرہ تھا۔
"پتا نہیں وہ رو رہے تھے"
"کیا مطلب اس کی طبیعت تو ٹھیک تھی"
"نہیں ان کی حالت بہت خراب تھی"
شاہانہ شازیہ کو اٹھانے گئی اور ایسے خبر پورے گھر میں پھیل گئی اور گھر میں کہرام مچ گیا سب نے فارس کو فون کیے لیکن وہ تو ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کروا رہے تھے گھر میں ہر کوئی دعاؤں میں لگا ہوا تھا جبکہ نمرہ کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شایان سعد کو اٹھانے کے لئے اس کے کمرے میں بیڈ کے قریب آیا لیکن سعد کو دیکھ کر آنکھیں باہر نکل آئی
"میرا پیارا بھائی بدل گیا اللہ میرا پیارا بھائی" شایان بلند آواز میں چلایا۔
"کیا ہوا کیوں ایسے چلا رہے ہو جیسے میں مر گیا ہوں گدھے " سعد نیند میں بولا۔
"میرا بھائی واپس آ گیا شکر اللہ کا" شایان نے اوپر دیکھ کر کہا۔
"کیوں صبح صبح حرکتیں کر رہے ہو" سعد غصے میں بولا۔
"حرکت میں برکت ہے ویسے تم کیا کل بیوٹی کانٹسٹ میں گئے تھے" شایان نے حیرانی سے پوچھا۔
"کیا مطلب"
"ذرا خود کو آئینے میں دیکھو"
سعد اٹھ کر باتھ روم میں گیا اور زوردار چیخ ماری۔
"رانیہ میں تمھیں چھوڑونگا نہیں" وہ غصے میں کمرے سے نکل رہا کہ شایان نے اس کو روکا۔
"سعدیہ باجی پہلے اپنا خوبصورت میک اپ اتاریں ورنہ سب کے سامنے مذاق بن جائے گا"
"شرٹ اپ" سعد کہتا غصے میں باتھروم گیا، بے چارہ دو گھنٹے تک منہ دھوتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو گھنٹے بعد عرش لوٹا آنکھوں میں کالے چشمے لگائے۔
نمرہ پورے گھر میں چیخ چیخ کر سب کو آگاہ کرنے کے لئے گئی۔
"یہ کیا ہم آپکے لئے ٹینشن میں تھے اور آپ فیشن سے چشمے لگا کر آ رہے ہیں" انوشے نے حیرانی سے پوچھا۔
شازیہ بھی آکر اس سے گلے لگ گئی۔
"ہم تو ڈر ہی گئے تھے جب ہمیں پتا چلا کہ تمھاری حالت اچانک سے خراب ہو گئی ویسے ہوا کیا تھا" شاہانہ نے کہا۔
"میری آنکھوں میں اچار چلا گیا تھا اس لئے ڈاکٹر کے پاس گئے تھے" عرش نے کہا۔
"کیا لیکن نمرہ نے تو کچھ اور ہی بتایا تھا" شاہانہ نے حیرانی سے کہا۔
"نہیں آنکھوں میں جلن کی وجہ سے اچانک جانا پڑا"عرش نے جواب دیا۔
"تم نے ایسا کیوں کہا نمرہ تمہیں پتا ہے کہ سب کتنا ڈر گئے تھے" شاہانہ نے نمرہ سے پوچھا جو سر جھکائے کھڑی تھی۔
"وہ سب اتنا ا اچانک ہوا کہ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کیا کروں" نمرہ نے بےبسی سے جواب دیا۔
"اس کا مطلب ہے یہ سب کہو تمہیں احساس ہے ہم سب کی کیا حالت ہوئی سمجھ نہیں آتی کہ تم کب عقل پکڑو گی"شاہانہ کا لہجہ سخت تھا۔
"کیوں بچی کو ڈانٹ رہی ہو وہ بھی ڈر گئی ہوگی" شازیہ نے نمرہ کی سائیڈ لی۔
"اب یہ بچی نہیں رہی میرا تو دل کر رہا ہے کہ تمہیں دو لگاؤں خبردار جو ایک بھی آنسو یا آواز نکلی، دن بہ دن لاپرواہ ہوتی جا رہی ہو کیا علاج کروں میں تمھارا بس سارا دن تم سے فالتو کام کروا لو" شاہانہ نے غصے میں کہا۔
نمرہ کی آنکھوں میں پانی بھر آیا جسے سب نے نوٹ کیا
"اب ایک لفظ منہ سے نکالا تو جوتیاں پریں گی تمہیں اب جاؤ اپنے کمرے میں" شاہانہ نے مزید کہا نمرہ بھی جانے کے لئے مڑی۔
"کیوں ڈانٹا میری بچی کو" شازیہ نے کہا۔
"آپا آپ اس کی حرکتیں بھی تو دیکھیں"
"ویسے تمھاری آنکھوں میں اچار کیسے گیا" شازیہ نے عرش سے پوچھا۔
"وہ دراصل میں نے کھانے کے لئے نکالا تو جلدی میں سیڑھیاں چڑھتے کچھ آنکھوں میں چلا گیا" عرش نے بہت صفائی سے جھوٹ بولا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا نمرہ کو اور ڈانٹ پڑے اور جہاں تک بدلے کی بات تو وہ اس کی خبر خود لے گا۔
اس کے جواب نے شاہانہ اور شازیہ کو مطمئین کر لیا لیکن فارس اور سیڑھیاں چڑھتی نمرہ کو حیران کر دیا۔
__________
سعد نے میک اپ اتارا اور شایان کے ساتھ رانیہ کو ڈھونڈنے گیا۔
جب اس کے روم میں گیا تو رانیہ تو نہیں تھی ہاں لیکن وہ میک اپ کٹ ضرور تھی۔ سعد گیلری میں گیا رانیہ بینچ پر بیٹھی تھی۔ اس نے رانیہ کو آواز دی۔
"اگر اسے صحیح سلامت دیکھنا چاہتی ہو تو جلدی اوپر آؤ ورنہ میں یہیں سے اسے پھینک دوں گا"
رانیہ جلدی سے اپنے کمرے میں آئی اور سعد سے کٹ لینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔
"اگر تم اسے واپس چاہتی ہو تو جو میں کہوں گا وہی کرو" سعد نے شوخی سے کہا۔
"کیا مطلب" رانیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
"مطلب تمہیں ابھی بتاتا ہوں" سعد نے اسے زبردستی کرسی پر بٹھایا۔
"تم نے جو کل رات کیا تھا وہی کر رہا ہوں" سعد بولا
"نہیں" رانیہ اچانک سے کھڑی ہوگئی۔
"سوچ لو اگر تم نہیں مانی تو میں یہ ٹور دوں گا"
"ٹھیک" رانیہ چپ چاپ بیٹھ گئی اور سعد نے تجربہ کاری شروع کی۔
تھورا بہت میک اپ تو وہ بھی جانتا تھا پہلے بہت زیادہ فاؤنڈیشن لگایا، پھر تین الگ الگ کلر کا آئی شیڈو جب کمی محسوس ہوئی تو پوری آنکھ اور آنکھوں کے ارد گرد لائینر لگایا اس کے بعد دونوں گال اور ناک پر رنگ کی طرح بلش اون لگایا اور پھر اپنے کام کی تعریف کی جب کہ رانیہ ایک بھوتنی لگ رہی تھی اس کے بعد اس نے اس کی تصویریں لی اور سوشل میڈیا پر ڈالی بالکل اسی طرح جس طرح رانیہ نے ڈالی تھی اجیب اجیب فلٹرز کے ساتھ۔
"سچ مچ اگر میں یہ تصویر تمھارے سسرال والوں کو جب وہ تمہیں دیکھنے آئینگے بتاؤنگا تو وہ تمہیں ایک ہی بار میں پسند کرلیں گے کہ انھیں ایک کام کی بندی مل گئی" سعد بولا۔
"ہیں وہ کیسے" شایان نے حیرانی سے پوچھا۔
"وہ ایسے کہ رات کو جب ان کے بچے نہیں سوئیں گے وہ کہہ سکیں گی بیٹا سوجا ورنہ رانیہ آجاۓ گی" سعد ہنس کر بولا۔
اب رانیہ کا ضبط ٹوٹ گیا اور خود کو آئینے میں دیکھا
"یہ کیا کیا تم نے؟" رانیہ غصے سے بولی۔
"تمہیں تمہارا اصلی چہرہ دکھایا ہے" سعد بھی شوخی سے بولا۔
"تم بندر میں تمہارا منہ تور دوں گی"
"اور میں تمہاری میک اپ کٹ"
"چپ چاپ مجھے یہ دو"
"تو لے لو"
سعد نے اس کو کٹ دی لیکن اس کا الگ ہی حال تھا زیادہ استعمال ہونے سے جگہ جگہ ٹوٹا ہوا تھا اور سعد نے ایک ہی برش استعمال کیا تھا جس کی وجہ سے جگہ جگہ کالا اور عجیب رنگ کا ہو رہا تھا۔
رانیہ نے غصے میں دونوں کو کمرے سے نکالا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن تک عرش چشما پہنے کمرے میں رہا لیکن آج بہتر محسوس ہوا تو کچھ کام کرنے کا سوچا ابھی اپنی فائلز کھولی ہی تھی کہ اندر سے ایک خوبصورت پنک کارڈ نکلا جس کے اوپر سوری لکھا تھا۔ اس نے کارڈ کھولا۔
"دراصل یہ سب غلطی سے ہوا آپ کو میں جان بوجھ کر تنگ نہیں کرتی لیکن ناجانے کیوں آپ کو دیکھ کر غلطیاں ہو جاتی ہے لیکن میں اب کوئی غلطی نہیں کروں گی، وعدہ۔ آپ جو بولیں گے میں وہ کام ٹھیک سے کروں گی۔ میں نے آملیٹ اور پراٹھا بنانا بھی سیکھ لیا ہے۔ تھینک یو آپ نے امی کو میری شکایت نہیں لگائی ورنہ وہ میری اچھے سے خبر لیتی اگر آپ کو کوئی کام ہو تو مجھے بولیے گا۔"
آخری میں نمرہ کا نام لکھا تھا۔
"کارڈ تو بہت پیارا ہے کہیں یہ بھی غلطی سے نہیں بن گیا" اس نے مسکراتے ہوئے کارڈ رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ سعد کے کمرے کے سامنے سے گزر ہی رہی کہ اس نے سعد کے ہاتھ میں وہی شرٹ دیکھی۔
"اب آئے گا مزا" رانیہ نے سوچا۔
"ویسے اس لومڑی نے شرٹ استری کر کے دی تھی، کیا بات ہے، آخر میں بھی سعد ہوں ہر کسی کو مات دینا آتا ہے" سعد نے فخریہ انداز میں بولا اور شرٹ چینج کر کے آیا۔
"مات کے بچے ابھی دیکھو خارش کا پاؤڈر کیا کرتا ہے" رانیہ نے اپنا کیمرا آن کیا۔
اچانک سے سعد کو ہلکی کھجلی لیکن بعد میں شدت بڑھ گئی اور وہ اپنے ناخن سے کرنے لگا اس کے بعد دیوار کی مدد سے کھجانے لگا جب کچھ فرق نا آیا تو خود کو چماٹے لگانے لگا اور آواز نکال کر ناچنے لگا۔ اس کے بعد ہینگر اٹھا کر خود کو مارنے لگا کبھی ہینگر سے کھجلی کرتا اور پھر تھک کر لیٹ کر کھجلی کرنے لگا ایسا لگ رہا تھا کوئی پاگل ایک مہینے تک نہیں نہایا اور اچانک باتھ روم بھاگا۔ اس کا حلیہ بالکل بگڑ گیا تھا لیکن یہ سب رانیہ کے موبائل میں ریکارڈ ہوگیا اور وہ خوشی سے وہاں سے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرش آفس چلا گیا لیکن آج بھی آنکھوں کی جلن کی وجہ سے جلدی آگیا اس کا ارادہ تھا کہ جا کہ نہا کہ سو جائے گا ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ لان میں اس پر زور سے پانی پھینکا گیا جس کی وجہ سے وہ پورا گیلا ہوگیا اس نے سامنے دیکھا تو نمرہ بالٹی لئے حیرانی سے کھڑی تھا۔
"تھینک یو میں نہانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ تم نے یہ کام سر انجام دیا چلو اب نہانا تو نہیں پڑے گا" عرش نے ہلکے سے انداز میں کہا۔
"سوری سوری سچ مچ میں نے جان بوجھ کر آپ پر گندا پانی نہیں پھینکا" نمرہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔
"کیا یہ گندا پانی تھا"
"جی"
عرش نے غصے میں اسے شانوں سے پکڑ لیا
"پہلے چائے پھر اچار اب گندا پانی دشمنی کیا ہے مجھ سے" اس نے غصے میں اس پر تھورا جھک کر کہا۔
اچانک سے نمرہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور عرش نے گرفت ڈھیلی کری۔
" اب تم رونا مت شروع کردینا" عرش نے غصے میں کہا کہ نمرہ نے آواز کے ساتھ رونا شروع کردیا اور عرش نے اسے چھوڑ دیا۔
"رونا بند کرو تم" اس نے رعب دار آواز میں کہا جبکہ نمرہ چپ نہیں ہوئی۔
"دیکھو چپ ہو جاؤ پلیز کوئی آیا تو سب مجھے دانٹ دیں گے" عرش نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
"پلیز چپ ہو جاؤ میں تمھارے سامنے ہاتھ جوڑ رہا ہوں" عرش نے مزید کہا جبکہ نمرہ اور بلند آواز میں رونے لگی۔
"او ہو تم تو ایسے رو رہی جیسے میں مر گیا ہوں" عرش نے غصے سے کہا۔
"آپ کے مرنے پر میں کیوں رو جاؤں" نمرہ نے روتے ہوئے جواب دیا۔
"میں بھی کسے بول رہا ہوں تم ہی تو مجھے مارنے والی ہوگی"
"اللہ نہ کرے میں کیوں آپ کو ماروں"
"شکر"
مجھے جیل جانے کا شوق نہیں اگر میری آپ سے کوئی دشمنی ہوئی تو میں کسی اور کو مارنے کا نہ بولوں، میں اس عمر میں جیل نہیں جاؤنگی" نمرہ نے روتے ہوئے کہا جبکہ عرش نے بے چارگی سے سر ہلایا۔
"اچھا سوری تم چپ ہوجاؤ" لیکن نمرہ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
"اوہ ہو تم چپ ہونے کا کتنا لو گی" عرش نے پوچھا۔
"پانچ ہزار" نمرہ بولی۔
"پانچ ہزار تو ایسے مانگ رہی ہو جیسے چپ ہونے کی رقم نہیں بلکہ منہ دکھائی مانگ رہی ہو"
"کنجوس" نمرہ پھر سے رونا شروع ہوگئی۔
"اچھا چپ ہو جاؤ لے لینا تمھیں جتنے چاہیے ہو پر چپ ہو جاؤ"
"ٹھیک" لیکن نمرہ کے آنسو میں کوئی کمی نہیں آئی۔
"چپ ہو جاؤ میری ماں اچھا ایک کام کرو مجھے سزا دے دو چلو بتاؤ میں کیا کروں"
"دس بار اٹھک بیٹھک"
"ٹھیک"
ایک۔دو۔تین۔۔۔۔۔سات
"ٹھیک سے بیٹھیں"نمرہ بولی
اس کے بعد عرش کی ہمت ختم ہوگئی لیکن پھر بھی تین اور کیے۔
"سچ مچ اسکول کی یاد آگئی۔۔اچھا تم میری وجہ سے رو رہی تھی تم نے سزا بھی دے دی لیکن چپ کیوں نہیں ہوئی.
"میں آپ کی وجہ سے نہیں رو رہی ہوں" نمرہ بولی۔
"تو" عرش نے حیرانی سے پوچھا۔
"میرا کبوتر اڑ گیا ہے، اس لئے"
"تمھارا کبوتر اڑ گیا تو تم نے مجھے کیوں اٹھک بیٹھک کروائے"
"آپ نے ہی تو کہا کہ سزا دے دو"
"اف میرے خدایا"
"آپ کو نہیں پتا میں اتنے دن سے اس سے باتیں کر رہی تھی کھانا کھلایا اور پانی پلایا اور وہ اڑ گیا اس نے مجھے دھوکا دے دیا" نمرہ روتی ہوئی بولی۔
عرش نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بینچ پر بٹھایا اور اس کے آنسو صاف کیے۔
"دیکھو تمہیں کبوتر اچھا لگا اس لئے تم چاہتی ہو کہ وہ تمہارے پاس رہے لیکن اسے تو اڑنا پسند ہے اسے تو قید پسند نہیں یہاں تک کہ کسی کو قید پسند نہیں سوچو اگر میں تمہیں قید کرلوں تو تمہیں برا لگے گا نا" عرش نے اسے سمجھایا۔
نمرہ خاموش رہی،
"اسی طرح اسے بھی غلامی پسند نہیں، تمہیں بھی پسند ہوگا نا کہ تم آزاد رہو جہاں مرضی جا سکو تم پر کوئی روک ٹوک نہ ہو، اسی طری وہ بھی چاہے گا کہ وہ کسی کی قید میں نہ رہے اپنی مرضی سے اڑے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہوا میں رہے" عرش نے مزید کہا
"آپ صحیح کہہ رہے ہیں" نمرہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"اچھا اور تمہیں پتا ہے کہ جن سے ہم ہمدردی کرتے ہیں انہیں بھی ہم سے لگاؤ رہتا ہے اور وہ ہمیں نہیں بھولتے وہ دیکھو" عرش نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
نمرہ نے جب اس طرف دیکھا تو وہی کبوتر اپنا چارہ کھارہا تھا نمرہ خوشی سے اچھل پڑی۔
"تھینک یو آپ بہت اچھے ہیں" نمرہ خوشی سے کہہ کر چلی گئی اور عرش مسکراتے ہوئے گھر میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔