یہ کیا بکواس ہے؟؟ یار تم نے مجھے بھی نہیں بتایا، اور یہ فیصلہ کیا کب تم نے؟؟ سلمان نے سکوت توڑا۔ ''ہاں یہ کیا بات ہوئی ہمارے بغیر کیسے رہو گے تم؟؟ ماہی بھی بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔ '' پتہ نہیں کیسے رہوں گا لیکن یہاں رکنا اب میرے لئے بہت دشوار ہے''۔ عباد بے انتہا سنجیدہ تھا۔ ''مانا کہ صیم کی شادی اس چنگاری۔۔۔۔۔۔'' ایمی کی زبان کو ایک دم بریک لگی، ''آئی مِین بہزاد سے ہو رہی ہے لیکن شرکت تو ضروری ہے ، یار صیم تمہاری بچپن کی دوست ہے''۔ ایمی سمجھانے لگی۔ '' ایک تو پتہ نہیں ہماری زندگی میں اس حضرت جی عرف نوک نے کیوں ٹانگ اڑائی''۔ ماہی نے بہزاد کو نوک کے لقب سے نوازا۔ '' میں نے تو اسے اپنا اسپیشل بلیک اِنک ود بلیک پیپر ڈرنک بھی پلایا تھا پھر بھی اُس چمٹے کی شکل والے نے انکار نہ کیا، بلکہ مجھے تو لگتا ہے اسی کا بدلہ لینے کے لئے ہی کر رہا ہے شادی''۔ ایمی نے ڈراتے ہوئے کہا۔ '' ڈرنک تم نے پلایاتھا اور شادی وہ صیم سے کر رہا ہے؟؟؟ سلمان نے بلا کی سنجیدگی سے کہا۔ ''بڑا ہی گھٹیا انسان ہے اس نے بڑی چال چلی ہے ہم سب سے بدلہ لینے کی''۔ ماہی نے بڑی سمجھداری سے وضاحت کرتے ہوئے سلمان کی پریشانی حل کی۔ '' اگر اس نے کچھ ایسا ویسا کرنے کی کوشش کی نا تو میں منہ توڑ دونگا اس چمگادڑ کا''۔ سلمان نے بھی بہزاد کو ایک نیا نام دیا۔ '' اف بس کرو یار اب اسکے نام بگاڑنا چھوڑوآخر جو بھی ہو اب تو شادی ہو رہی ہے نا، اب نا چاہتے ہوئے بھی اسکی عزت کرنی پڑے گی''۔ عباد نے تینوں کو سمجھاتے ہوئے کہا ،جبکہ صیم عباد کی اس بات پر اسے دیکھ کر رہ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ائیر پورٹ جاتے ہوئے راستے میں عباد نے صیم کو اپنی پسند کا ڈریس گفٹ کیا جس میں وہ صیم کو دلہن بنے دیکھنا چاہتا تھا۔ اس بات کو تین دن گزر گئے تھے،صیم نے تو جیسے چپ کی گھٹی پی لی تھی۔ '' یار صیم ایسے تو نہیں چلے گا کب تک یوں افسردہ اور رونی صورت بنا کر بیٹھی رہو گی؟؟ ماہی نے اپنائیت سے کہا۔ '' لیکن میں اپنی پوری زندگی کیسے ایک ایسے شخص کے ساتھ گزار دوں جسے پتہ نہیں ہم لوگ کون کون سے القابات سے نواز چکے ہیں''۔ صیم نے روتے ہوئے جواب دیا۔ ''اچھا چلو اس ٹاپک پر بعد میں بات کریں گے ابھی چل کر کھانا کھا لو ورنہ ویکنیس ہو جائے گی''۔ ماہی نے بات بدلی تو صیم اسکے پیچھے چل دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تینوں شاپنگ کر کے گھر میں داخل ہوئیں تویہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ ، ڈرائنگ روم میں سلمان کی والدہ براجمان ہیں اور گھر کے تمام بڑے کسی اہم موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ''ہائیں!!! یہ اچانک تحسین آنٹی یہاں''۔ ایمی نے حیرت سے کہا۔ ''وہی تو، یہ یہاں کیسے ابھی تو سلمان سے بات ہوئی ہے اس نے تو نہیں بتایا''۔ صیم نے بھی حیرت سے کہا۔ ''اتنے میں سمیرا بیگم ڈرائنگ روم سے برآمد ہوئیں اور ماہی کو تیار ہو کر آنے کو کہا تو ساری کہانی سمجھ آئی اور تینوں اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ '' اچھا تو ہماری ماہی کو اپنی ماہی بنانے آئے ہیں''۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی ایمی نے ماہی کو چھیڑا۔ ''جلدی سے تیار ہو کر نیچے جائیں محترمہ موصوف نے آپکے لئے پروپوزل بھیجا ہے''۔ صیم نے شوخ انداز میں کہا تو ماہی کے چہرے پہ خوشی اور حیا کے کئی رنگ بکھر گئے۔ ''اوہو تو آپ شرماتی بھی ہیں''۔ ایمی نے پھر چھیڑا اور تینوں تیار ہوکر ڈرائنگ روم میں داخل ہی سلام کر کے بیٹھنی لگی تو تحسین بیگم نے آگے بڑھ کر ماہی کو پیار کرتے ہوئے اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا، ایمی اور صیم نھی ساتھ ہی رکھے ٹو سیٹر پر بیٹھ گئیں۔ '' کیسی ہیں بیٹا''۔ تحسین بیگم نے اپنائیت سے ماہی سے پوچھا۔ '' بالکل پریوں جیسی''۔ ایمی کی زبان میں کھجلی ہوئی تو صیم نے کہنی مار کر چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ '' جی بلکل ٹھیک''۔ ماہی نے مختصراً جواب دیا۔ ''اور آج کل کیا مصروفیت ہے''۔ تحسین بیگم پھر گویا ہوئیں۔ '' ہوا میں محل بنا رہی ہیں''۔ ایمی نے سرگوشی کی جس پہ صیم کی بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ '' ایم ایس سی کر رہی ہوں لیکن آجکل صیم کی شادی کی وجہ سے لیو لی ہوئی ہے''۔ ماہی نے جواب دیا۔ ''ماشاءاللہ بہت پیاری بچی ہے ،مجھے تو ہمیشہ سے پسند ہے''۔ انہوں نے ماہی کو ساتھ لگاتے ہوئے پیار کیا۔ شزا نے مسکراتے ہوئے اپنی بیٹی کو دیکھا جبکہ ان تینوں کی نظریں ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے زین پر پڑی تو ایمی اور صیم کی نظریں ماہی کی طرف گھوم گئیں۔ اس دوران زین سب کو سلام کر کے بیٹھ چکا تھا۔ کچھ دیر رسمی گفتگو کے بعد شزا تینوں سے مخاطب ہوئیں۔ ''بیٹا آپ لوگ زین کو کمپنی دیں بیچارہ ہم بزرگوں میں بور ہو رہا ہو گا''۔ '' اوکے آنٹی، چلئے زین بھائی آپکو ہم ''کمپنی'' دیتے ہیں''۔ صیم نے کمپنی پر زور دیتے ہوئے کہا۔ '' ہاں ہاں چلئیے''۔ ایمی تو جیسے بکرا ہاتھ لگنے کی منتظر بیٹھی تھی۔ '' بندے کو زین العابدین کہتے ہیں''۔ ان تینوں کو خاموش دیکھ کر اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا بات کرے،سق جو اس سے بن پڑی وہ بات کی جس پہ تینوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔ '' جی ہمیں پتہ ہے''۔ جواب صیم نے دیا۔ '' ویسے آپ یہاں اچانک؟؟ یہ بات ہضم نہیں ہوئی''۔ ایمی نے انجان بنتے ہوئے بڑے تجسس سے پوچھا۔ '' کیا مطلب!! آخر سلمان کی فرینڈز کا گھر ہے اور عباد کی خالہ سے میرا بھی کچھ رشتہ ہے، اسمیں نا ہضم ہونے والی کیا بات ہے''۔ زین اب سمبھل چکا تھا۔ '' ہم تو سمجھے تھے کہ آپکو بولنا ہی نہیں آتا ہوگا لیکن آپ تو کافی بولتے ہیں''۔ ایمی نے طنزیہ کہا۔ '' جی اکثر لوگ یہی کہتے ہیں، لیکن جہاں آپ جیسے لوگ مل جائیں وہاں بولنا ہی پڑتا ہے،ویسے ہمارے آنے کا اصل مقصد تو پتا چل ہی گیا ہوگا آپ کو''۔ زین نے ماہی کو پر شوق نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔'' نہیں ہمیں تو نہیں پتہ،ویسے آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟؟ صیم نے مصوئی انداز میں کہا تو ماہی نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا پر صیم پر اسکا کوئی اثر نہ ہوا۔ ''ہاں بھئی یہ آخر کون سے ایسے مقاصد ہیں ہم سے پوشیدہ؟ خیر یہ تو ہم جان ہی لیں گے میں آپکو اپنے گھر کا اسپیشل ڈرنک پلاتی ہوں''۔ ایمی کوایک اور شرارت سوجھی۔ ماہی اور صیم نے اپنی ہنسی با مشکل چھپائی۔ ''ہاں یہ ہمارا خاص ڈرنک ہے جو ہم اپنے خاص مہمانوں کو ہی پلاتے ہیں''۔ ایمی کے جانے کے بعد صیم اپنے ڈرنک کی تعریفیں سنانے لگی۔ '' ویسے تو ہر خاص مہمان کے لئے ماہی یہ ڈرنک بناتی ہے لیکن آج اسپیشلی ایمی یہ کام انجام دے گی''۔ صیم نے مزید تفصیل بتائی۔ ''اوہ آئی سی''۔ ایمی اپنا اسپیشل ''بلیک اِنک ود بلیک پیپر ڈرنک تیار کر کے بڑے مزے سے چلتے ہوئے لان میں آگئی، زین پر وہ ظلم ہونے ہی لگا تھا کہ سمیرا بیگم نے انہیں آلیا۔ وہ انکی شرارت بھامپ چکی تھیں تبھی انہوں نے ایمی کے ہاتھ سے ڈرنک لیتے ہوئے کہا۔ '' ارے اتنے ٹھنڈے موسم میں زین کو ڈرنک پلا رہی ہو،کسی اور دن تم زین کو یہ کارکردگیاں دکھا لینا''۔ '' لیکن آنٹی مجھے ٹیسٹ تو کرنے دیں، آخر اسمیں ایسی کیا خاص بات ہے جو اپنے ہر خاص مہمان کو پلاتی ہیں''۔ زین متجسس ہوا۔ ''کبھی پھر پی لینا بیٹا آپ، ابھی تحسین بھابھی آپکو بلا رہی ہیں''۔ سمیرا بیگم کے کہنے پر زین نے اندر کی طرف قدم بڑہا دئے۔ '' تم تینوں سے تو میں بعد میں پوچھتی ہوں''۔ سمیرا بیگم بھی یہ کہتی اندر چلی گئیں وہ تینوں ہاتھ آئے شکار کو کھو دینے پر مایوسی سے ہاتھ ملتی رہ گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تجھے معلوم کیسے ہو۔۔۔۔۔۔
محبت وہ پرندہ ہے۔۔۔۔۔۔۔
جو! اپنا آشیاں ہر بار کانٹوں پر بناتا ہے۔۔۔۔۔
محبت وہ گلی ہے۔۔۔۔۔۔۔
جو کسی جانب نہیں کھلتی۔۔۔۔
محبت کیسے سکھ دیتی۔۔۔۔۔۔۔۔
خدائے دردِالفت نے۔۔۔۔۔
محبت اور دکھ !!
دونوں کو اک پانی میں گوندا تھا۔۔۔۔۔!
عباد کی سنائی ہوئی یہ نظم صیم کی سماعتوں میں گونجی اور بے اختیار ہی ایک آنسو اسکی ہتھیلی پر آگرا۔ ٹی پنک ود ایکوا کلر کے ساتھ سلور امبرائیڈڈ لہنگے میں ملبوس صیم اور وائیٹ ود پیچ امبرائیڈڈ میکسی میں ماہی دونوں پریوں کے دیس سے آئی پریاں لگ رہی تھی بالکل ایسے جیسے فیری ٹیل اسٹوریز میں ہوتی ہیں۔ تاروں بھرے آسمان نے اپنے آنچل کا سایہ کر کہ انہیں اور بھی خوبصورت بنا دیا تھا۔ آج صیم کی بارات تھی جبکہ ماہی اور زین کی منگنی بھی اسی دن تہہ پائی تھی۔ مایوں اور مہندی کا فنکشن بھی بہت دھوم دھام سے ہوا ، صیم کے چہری پر خوشی کا کوئی تاثر نہ تھا جبکہ ماہی، ایمی اور سلمان نے تمام فنکشن بڑے زور و شور سے اٹینڈ کئے تھے جس پہ صیم نے اپنا آدھا خون جلا لیا تھا، اپنے دوستوں کی اس بے وفائی پر وہ کڑہتی رہی تھی۔ بارات کو آئے آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا اب دولہا اور ایمی کے درمیان جوتے پر تول مول چل رہی تھی، اپنے ساتھ بیٹھے دولہے کہ لباس میں ملبوس شخص کو صیم نے دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا کہ وہ کیسا لگ رہا ہے۔ '' مجھے تو پورے بیس ہزار چاہئیں''۔ ایمی نے اپنی مانگ سامنے رکھی۔ '' واہ مفت میں نہیں نٹ رہے''۔ سلمان نے چڑاتے ہوئے کہا۔ ''تم لڑکے والوں کے ساتھ کیا کر رہے ہو ؟؟ چلو خاموشی سے میری طرف آجاؤ بڑے آئے حضرت جی کا ساتھ دینے والے''۔ ایمی نے سلمان کو ڈپٹا۔ '' اہو! اہو۔۔۔'' دولہے میاں نے گویا کھانستے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی کہ میں یہیں موجود ہوں، پر ایمی بھی ایک نمبر کی ڈھیٹ تھی اس پر کونسا اثر ہونا تھا۔ '' کیا ہوا بھئی گلا خراب تھا تو اسٹپسلز کھا کر آنی تھی نا۔۔۔ اور یہ رومال کس خوشی میں رکھا ہے منہ پہ؟؟؟ ایمی نے کوئی لحاظ نہ کرتے ہوئے کہا۔ '' یہ کیا کر رہی ہو؟؟ یہ دولہا ہیں انکی عزت کرو''۔ سلمان نے بڑے با مودب انداز میں ایمی کو سمجھایا۔ '' وہی تو کر رہی ہوں''۔ ایمی نے ڈھٹائی دکھائی۔ '' بیس ہزار چاہئے نا یہ لو''۔ اپنے ساتھ بیٹھے شخص کی آواز پر صیم نے چونک کر اسے دیکھا، جس نے رومال واپس منہ پر رکھ لیا تھا۔ '' تھینکس یار آپ تو بڑے اچھے ہیں انسلٹ بھی کروا لی اور پیسے بھی دے دئے''۔ایمی نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ '' اپنی صومی کے لئے تو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں''۔ عباد نے رومال چہرے سے ہٹا کر سائیڈ پر رکھا تو صیم نے حیرت اور بے یقینی سے عباد کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے اسی کو دیکھ رہا تھا۔ '' سرپرائز'' تینوں نے کورس میں کہا، صیم کو تو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا لیکن قسمت کس وقت ہمیں کونسا سرپرائز دے دے یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا۔ اور ایسا سرپرائز تو صیم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ وہ حق دق سی بیٹھی تھی، نا سمجھی کی حالت میں زین کے ساتھ بیٹھی ماہی کو دیکھا جو اسی کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی، پھر ایمی سلمان اور عباد کو اور اب چاروں کے قہقہے پورے ہال میں گونج رہے تھے۔ اور ہال میں موجود تمام لوگ انہیں حیرت سے تک رہے تھے کہ انہیں کویئ دورہ تو نہیں پڑ گیا۔ ماہی اور زین بھی اکے پاس آچکے تھے۔ ''یہ۔۔۔ سب۔۔۔۔ کیسے؟؟؟ اور تم تو امریکہ چلے گئے تھے؟؟؟؟ صیم سے بے یقینی کی کیفیت میں صرف اتنا ہی کہا گیا۔ '' ہاں میں گیا تھا لیکن صرف دو ہفتوں کے لئے،ڈیڈ کی ضروری بزنس میٹنگ اٹینڈ کرنے''۔ عباد نے ہنستے ہوئے کہا۔ '' اس حضرت جی سے کیسے ہونے دیتے تمیاری شادی''۔ ماہی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ '' ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ مایوں مہندی پر تو وہ لوگ رسمیں کر رہے تھے''۔ صیم ابھی بھی حیران تھی۔ ''بھئی رسم میں حصہ تو سارے ہی مہمان لیتے ہیں۔اسمیں کوئی نئی بات تو نہیں ہے''۔ سلمان نے بھی حصہ لیا۔ '' جب حضرت جی اور مدر انڈیا تمہارا پرو پوزل لائے تو عباد نے ہمیں بتایا کہ وہ تمہیں پسند کرتا ہے،اور ہم نے یہ بات آنٹی اور انکل تک پہنچا دی عباد نے بھی تمہارا شہلا آنٹی کو تمہارا ہاتھ مانگنے بھیج دیا''۔ ماہی نے مزے سے تفصیل بتاتے ہوئے چھیڑا۔ ''پھر کیا تھا بات پکی ہو گئی لیکن ہم نے سوچا تم پورے چھ ماہ تکعباد سے ناراض رہی تو کیوں نہ تمہیں تھوڑا سبق سکھایا جائے وہ بھی ایسا جو ہمیشہ یاد رہے،اور ویسے بھی انکل آنٹی اپنی اکلوتی بیٹی کو اس نکمے بہزاد کے حوالے کیسے کردیتے جو اپنے سے بھی بڑی عمر کا لگتا ہے خود کوتو سمبھال نہیں سکتا''۔ ایمی نے ہنستے ہوئے معلومات فراہم کی۔ '' اور ویسے بھی آپ تو پچھلے دو دن سے دکھی آتما بنی رہی کون آرہا ہے کون جا رہا ہے کچھ خبر نہیں یہاں تک کہ اب بھی پچھلے ایک گھنٹے سے ساتھ بیٹھا ہوں اور محترمہ کو کوئی ہوش ہی نہیں''۔ عباد نے شکوہ کیا۔ '' اور تو اور نکاح نامے پر بھی پتہ نہیں کس سوچ میں دستخط کئے کہ عباد کا نام ہی نہیں پڑھا''۔ایمی نے کہا۔ '' اِٹ مِینز تم سب ایک ماہ سے ڈرامے کر رہے تھے؟؟ صیم نے سب حالات سمجھتے ہوئے کہا۔ '' ہاں یار دوست کی خاطر کرنا پڑا ، یہ سب عباد کے بچے کا پلان تھا''۔ ماہی نے عباد کو پھنسایا۔ ''جو بھی ہو لگ بہت پیاری رہی ہو بالکل ڈول کی طرح ڈئیر صومی''۔ عباد کے شوخ انداز نے صیم کو شرمانے پر مجبور کر دیا تھا۔ ''تم بھی''۔ صیم نے بھی تیز ہوتی دھڑکنوں پر قابو پاتے ہوئے اسکی تعریف کی۔ ''چلو بھئی اب ہم دور بیٹھ کر تم لوگوں کو دیکھتے ہیں''۔ ایمی اور سلمان اپنی ٹیبل کی طرف چلے گئے اور ماہی زین اپنی جگہ۔ '' ویسے ایک بات تمہیں بھی بتانی ہے''۔ سلمان نے ایمی کے کان میں سرگوشی کی۔ '' ایک ماہ بعد ہمارا نکاح ہے''۔ سلمان کی سرگوشی پر ایمی نے حیرت سے اسے دیکھا اور ایک خوبصورت سی مسکان نے ایمی کے چہرے کا احاطہ کر لیا تھا۔ تاروں بھری چودھویں کی رات نے ان سب کی زندگیاں بھی چودھویں کے چاند کی طرح روشن کر دی تھیں۔
چاندنی رات کے ہاتھوں پہ سوار اتری ہے۔۔!
کوئی خوشبو میری دہلیز کے پار اتری ہے۔
(ختم شد)