مجھے تو سمجھ نہیں آرہا اتنی جلدی سب کیسے ہوگا؟؟ سمیرا بیگم نے فکرمندی کے عالم میں شزا سے کہا جو کل ہی آغا ولی کے ساتھ لندن سے صیم کی شادی میں شرکت کے لئے آئی تھیں۔ ''صرف ایک مہینہ ہے کیسے تیاریاں ہوں گی اتنی جلدی''۔ سمیرا بیگم متفکر تھیں شادی کی تیاریوں کو لے کر۔ ''ہو جائے گا سب تم فکر نا کرو ہم ہیں نا، ویسے یہ بچے کہاں ہیں؟ شزا نے تسلی دیتے ہوئے پوچھا۔ ''ہاں وہ لوگ زرا عباد ،سلمان کی طرف گئی ہیں،عباد کی بہن حمیرا آئی ہے نا آج ہی اس سے ملنے گئے ہیں''۔ سمیرا بیگم نے بتایا۔ ''اچھا ، سلمان کا بھائی زین کیسا ہے اسکی شادی ہو گئی یا نہیں؟ شزا نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔ ''نیہں ابھی تو اسنے اپنا بزنس سیٹ کیا ہے،ویسے آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟؟ ''بس ویسے ہی بہت فرمانبردار اور اچھا بچہ ہے،سوچ رہی تھی ماہی اور زین کا کپل کیسا لگے گا''۔ شزا نے کچھ جھجھکتے ہوئے اپنے دل کی بات بتائی۔'' ہاں کہتی تو آپ ٹھیک ہیں''۔سمیرا بیگم نے بھی سوچتے ہوئے ہامی بھری۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صیم کے لاکھ احتجاج کے باوجود ظفر محمود اور سمیرا بیگم نے اسکی ایک نہیں سنی تھی،یہاں تک کہ پڑھائی کا بہانہ بھی کام نا آیا۔ تینوں نے بہت کوشش کی کہ شادی کی بات ٹل جائے لیکن ظفر محمود ہر بہانے کا جیسے پہلے ہی حل نکالے بیٹھے تھے۔اس لئے وہ اپنا دکھڑا حمیرا کے سامنے رو رہی تھیں۔ '' سچ میں آپی وہ حضرت جی اور اسکی ماں مدر انڈیا بہت خوش ہو کر جا رہے تھے''۔ ایمی نے بڑے افسردہ انداز میں کہا۔ ''ہم تو دنگ ہی رہ گئے جب آنٹی نے بتایا کہ صیم کی بات پکی کردی ہے وہ بھی صیم کی مرضی پوچھے بغیر''۔ ماہی بھی افسردہ تھی۔ '' یہ کیسے ہو سکتا ہے خالہ جان کو کچھ تو سوچنا چاہئے تھا، بھئی کوئی جوڑ تو ہو''۔ حمیرا نے بھی حیرت سے کہا۔ '' اسی بات کا تو افسوس ہے مجھ سے کسی نے پوچھنا تک گوارا نہیں کیا''۔ صیم نے رونی صورت بنا کر کہا۔ '' اچھا اب یوں رونی صورت بنا کر اپنی شکل نہ بگاڑو، ویسے بھی یہ قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں اللہ نے جو نام تمہاری قسمت میں لکھ دیا اسے کوئی نہیں مٹا سکتا اب ایسی شکل بنا کر گھومو گی تو سب پریشان ہو جائیں گے''۔ حمیرا نے ڈپٹا۔ ''تو میں اور کیا کروں اپنی میت پر ہنسوں؟؟ صیم نے زخمی لہجے سے پوچھا۔ ایمی اور صیم تو جانتے تھے صیم عباد کو پسند کرتی ہے لیکن عباد کی فیلنگز تینوں سے چھپی تھی، اسلئے صیم کو دکھی دیکھ کر انکی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔'' اف اب تم دونو بھی رونا شروع کردو ایک کو تسلی دون یا سب کو''۔ حمیرا نے فکر مندی سے کہا۔'' آخر یہ ہمارے ساتھ ہی کیوں ہونا تھا آپی وہ بہزاد جسے ہر وقت ہم مزاق کا نشانہ بناتے رہے اور جسکے بارے میں اتنے قصے مشہور ہیں کیا انکل آنٹی کو نہیں پتا وہ کیسے اپنی اکلوتی بیٹی کا ہاتھ ایسے انسان کے ہاتھ میں دے سکتے ہیں''۔ ماہی بہت جذباتی ہو گئی تھی۔ '' اب اس سب کا کیا فائدہ رونا چھوڑو حبہ ،رومان کب سے دھونڈ رہی ہیں کہ ہماری آنو کہاں ہیں؟'' حمیرا نے اپنی بیٹیوں کا ذکر کیا۔'' اوہ ہاں انسے تو ملنا ہی بھول گئے کہاں ہیں دونو؟ ماہی پر جوش ہوئی۔'' نیچے ہونگی تم چلو میں زرا بال بنا کر آتی ہوں''۔ حمیرا نے بالوں میں برش کرتے ہوئے کہا۔''اوکے''۔۔۔۔ تینوں کمرے سے باہر نکل آئی سیڑھیاں اترتے ہوئے ماہی کا پاؤں حبہ کے اسکیٹنگ شوز پر گیا وہ توازن برقرار نا رکھتے ہوئے لڑکھڑا کر گرنے ہی لگی تھی کہ ہال سے اوپر آتے کسی نے اسے تھام لیا۔ ماہی نے گھبرا کر اپنے سامنے کھڑے زین کودیکھا جویک ٹک اس نازک سی لڑکی کو دیکھے جا رہا تھا۔ ''تھینکس۔۔لیکن اب میں بچ گئی ہوں سو لیو می''۔ماہی نے اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں کو سمبھالتے ہوئے کہا۔'' زین خود اپنی اس حرکت پر بری طرح شرمندہ ہو کر رہ گیا،جو شخص کبھی کسی لڑکی کو مڑ کر دیکھتا تک نہیں تھا آج کیسے ماہی پر اسکی نظریں جم کر رہ گئی تھی۔'' سوری ویری سوری''۔ زین سے بس یہی کہا گیا۔'' اٹس اوکے''۔ ماہی نے کہا اور آگے بڑھ گئی۔ '' واؤ یار تم دونو ایک ساتھ کتنے پیارے لگ رہے تھے''۔ ایمی نے حسبِ عادت ماہی کو چھیڑا جس پر ماہی اسے گھور کر رہ گئی۔ حبہ، رومان سے ملتے ہی تینوں کے چہرے کھِل اٹھے تھے۔ بچے ہوتے ہی ایسے ہیں کوئی کتنا ہی دکھی کیوں نہ ہو انکی معصوم شرارتیں مسکرانے پر مجبور کردیتی ہیں، اور حبہ، رومان سے تو تینوں ویسے ہی کافی اٹیجڈ تھی۔ '' یہ لو یہ ساری چاکلیٹس آپ دونوں کے لئے''۔ ایمی نے بیگ سے ڈھیر ساری چاکلیٹس نکالتے ہوئے کہا۔'' تھینکس آنو دونوں نے معصومیت سے مسکراتے ہوئے کہا۔ '' تم لوگوں نے آخر کیا جادو کر دیا ہے ہماری بھانجیوں پر تمہارے سامنے تو ہماری کوئی اوقات ہی نہیں''۔ سلمان نے عباد کے ساتھ ہال میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔'' کیا مطلب جادو کر دیا؟ بھئی تم جیسے لنگور سے تو بچے صرف ڈر ہی سکتے ہیں''۔ماہی نے اسے چھیڑا۔'' ہاں اور ہم جیسی حسین دوشیزاؤں کے ساتھ ہی اٹیجڈ ہوتے ہیں''۔ صیم نے بھی اپنا غم بھلاتے ہوئے حصہ لیا۔'' اچھا تو میں لنگور لگتا ہوں؟؟ سلمان نے خفگی سے کہا۔ ''ہاں تو اور کیا''۔ جواب ایمی کی طرف سے آیا تھا۔ ''اچھا۔۔۔۔۔۔'' سلمان نے عجیب نظروں سے ایمی کو دیکھا جس پہ وہ نظریں چرا گئی۔''مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے صومی''۔ عباد نے کہا۔ ''ہاں تو کرو میں نے منہ کیا ہے کیا''۔ صیم نے جواب دیا۔ ''مجھے اکیلے میں بات کرنی ہے تم سے''۔ عباد سنجیدہ ہوا۔ ''کیوں بھئی ہمارے سامنے کیوں نہیں ہو سکتی بات؟ آخر ایسی کیا بات ہے''۔ ماہی نے جاننا چاہا۔ ''تمہیں خود ہی پتا چل جائے گا''۔عباد نے جواب دیا۔'' ٹھیک ہے چلو چھت پر چلتے ہیں''۔ صیم نے کہا اور دونوں نے اوپر کی طرف قدم بڑھا دئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عباد کی بات پر صیم کو کرنٹ ہی تو لگا تھا۔'' کیا کہا تم نے؟؟۔۔۔ صیم نے بے یقینی سے پوچھا۔'' آئی لو یو صومی''۔ عباد نے سنجیدگی سے کہا۔'' مجھے نہیں پتا یہ ٹھیک ہے یا نہیں،اس وقت جب تمہاری شادی ہونے والی ہے تمہیں اپنی فیلنگز بتانا، جو بھی ہو میں چاہتا ہوں تمہاری شادی سے پہلے تمہیں دل کی ہر بات بتا دوں۔ یہ بھی کہ تم سے کتنی شدت سے محبت کرتا ہوں، تب سے جب تم نوٹس ریڈی کرنے کی ٹنشن میں بیٹھی ہوتی تھی، کتنی پیاری لگتی تھی۔ بالوں کو ہالف کیچ کئے سمپل سے حلئے میں بغیر میک اپ کے تم کتنی کیوٹ لگتی تھی، سب سے الگ، اور مجھ سے روٹھ کر ناراض ہو کر کتنی معصوم لگتی ہو ،میرے دل کے کتنے قریب ہو تم صومی۔ خیر۔۔۔۔ میں کل امریکہ جا رہا ہوں، ہمیشہ کے لئے''۔عباد نے ایک اور بم پھوڑا۔ ''۔کیا۔۔۔لیکن۔۔۔۔ '' صیم کے تو جیسے تمام الفاظ ہی کہیں کھو گئے تھے۔'' ہاں میں یہ کیسے دیکھ لوں کہ جسے میں نے اتنا چاہا وہ کسی اور کی دلہن بن کر بیٹھی ہو''۔ عباد نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا۔ ''تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا عباد؟؟ اگر پہلے بتا دیتے تو میں امی اور بابا سے بات کر لیتی''۔ صیم کا لہجہ زخم سے چُور تھا۔'' ڈرتا تھا کہیں تم مجھسے ہمیشہ کے لئے روٹھ نا جاؤ،ویسے تم کیوں بات کرتی خالہ جان سے؟؟ عباد نے چونک کر حیرت سے پوچھا۔'' کیوںکہ۔۔۔ صیم نے جھجھکتے ہوئے کہا۔'' اسلئے کیوںکہ میں بھی تمہیں پسند کرتی ہوں''۔صیم نے حسرت بھری نگاہ عباد پر دالتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔ ''اچھا۔۔۔ کب سے میں تو سمجھتا تھا تم مجھے اپنی محبت کے قابل سمجھ ہی نہیں سکتی''۔عباد بھی حیران تھا۔'' پتہ نہیں کب سے، لیکن اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں اور ویسے بھی یہ ضروری تو نہیں جسکی ہم تمنا کریں وہ ہمیں مل بھی جائے۔ شاید ہمارا ساتھ یہں تک ہو''۔ صیم کی آواز بھرا گئی۔'' میری ایک خواہش ہے پوری کرو گی؟؟ عباد نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔'' ہاں اگر میرے بس میں ہوا تو''۔ صیم بھی بھیگی آنکھوں سے مسکرائی۔ ''میں چاہتا ہوں تم اپنی شادی کے دن وہ ڈریس پہنو جو میں نے تمہارے لئے لیا ہے''۔ صیم نے کچھ سوچتے ہوئے اثبات میں سر ہلا کر ہامی بھر لی۔ ''پتا نہیں کیا باتیں ہو رہی ہونگی انکی مجھے تو ٹینشن ہو رہی ہے''۔ایمی نے فکر مندی ظاہر کی۔ ''لو آگئے، ہاں بھئی ہو گئیں تمہاری پرسنل باتیں''۔ ماہی نے انہیں آگے پیچھے سیڑھیان اترتے دیکھ کر کہا۔ '' ایسی کونسی راز و نیاز کی باتیں کرنی تھی جو اتنا ٹائم لگ گیا''۔ سلمان نے بھی خبر لی۔ ''عباد کل امریکہ جا رہا ہے ، ہمیشہ کے لئے''۔ صیم کی اطلاع پر گویا تینوں پتھر کے ہو گئے تھے۔