دیکھو یہ تسبیح اور جائے نماز دادی جان نے تمہارے جہیز کے لئے بھیجی ہے، اچھی ہے نا؟؟؟ ایمی نے دادی جان کا تحفہ صیم کو دکھاتے ہوئے چھیڑا۔ ''ہاں اچھی ہے پر تم میرے جہیز کی فکر مت کرو کیونکہ ابھی میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں''۔ صیم نے اطلاع پہنچائی۔ ''ایمی تم تو ہر وقت واحیات با تیں کیا کرو بس کہیں سے نہیں لگتا کہ میری بہن ہو''۔ ماہی نے اسے دپٹا۔''ہاں اور تم بھی مجھے ڈانٹتی رہا کرو ہر وقت، مانا کہ تم مجھ سے ایک منٹ بڑی ہو پر یاد رہے کہ صرف ایک منٹ بڑی ہو ایک سال نہیں،خیر میرا بھی تمہارے بارے میں وہی خیال ہے جو تمہارا میرے بارے میں''۔ایمی نے بھی ڈھٹائی دکھائی۔ ''کیا باتیں ہو رہی ہیں بھئی؟؟ سمیرا بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔'' دیکھیں نا آنٹی دادی جان نے اتنے پیار سے صیم کے جہیز کے لئے تسبیح بھیجی ہے اور محترمہ فرما رہی ہیں کہ انکا شادی کا کوئی ارادہ نہیں''۔ ایمی نے شکایتی انداز میں جواب دیا۔''اچھا کیوں بھئی؟ اگرارادہ نہیں ہے تو بنا لو کیونکہ تمہارےلئے پروپوزل آیا ہے لڑکا ابھی پڑھ رہا ہے اچھے گھر سے ہے، آج اپنی والدہ کے ساتھ آئے گا تم زرا تیار ہو جانا وہ لوگ شام تک آئیںگے''۔ سمیرا بیگم نے گویا تینوں کے سر پربم پھوڑا۔۔۔۔
''کیا۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ تینوں نے بے ساختہ کہا۔''ہاں بھئی اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا بات ہے،بیٹیاں جتنی جلدی اپنے گھر کی ہو جائیں اتنا ہی اچھا ہے''۔انہوں نے روایتی ماؤں کا روایتی جملہ بولا۔''لیکن آنٹی اتنی جلدی۔۔۔۔؟؟ ماہی نے متفکرانہ انداز میں کہا۔''اور آپ نے پہلے تو ہمیں نہیں بتایا''۔ ایمی نے بھی حصہ ملایا۔''کیسے بتاتی تم لوگ یہاں ہوتے تو بتاتی ناں، اور ویسے بھی ابھی ہم نے کوئی بات تھوڑی پکی کی ہے وہ توبس آج ایسے ہی ملنے آئیں گے''۔ سمیرا بیگم تینوں کو حیران کر کے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔''کس کی اتنی ہمت کے ہماری صیم کے لئے پروپوزل بھیجے،آنے دو۔۔۔۔ اسے اپنا اسپیشل ڈرنک پلائیں گے''۔ ایمی نے اپنا فیورٹ شیطانی مشورہ دیا۔''ہاں ہاں ضرور پلائیں گے لیکن پہلے دیکھ تو لیں لڑکا ہے کون اور دکھتا کیسا ہے؟ اور یہ عباد ابھی تک کیوں نہیں آیا تم تو کہہ رہی تھی آج آئے گا''۔ ماہی نے صیم سے پوچھا۔''پتا نہیں آتو جانا چاہئے تھا، لیکن خیریت تم کیوں پوچھ رہی ہو؟ صیم نے خفگی سے پوچھا۔''بھئی یونہی پوچھ رہی ہوں آخر دوست ہے ہمارا،اور تمہارے ساتھ تو دو دو رشتے ہیں''۔ ماہی نے جواب دیا۔'' ہونہہ مجھے نہیں چاہئے ایسا دوست جو اتنا۔۔۔۔صیم کچھ کہتے کہتے رک گئی۔''کیسا دوست۔۔۔۔''ایمی نے کچھ نا سمجھتے ہوئے پوچھا۔'' اسلام علیکم ''! عباد کے زوردار سلام کی آواز پر تینوں نے پلٹ کر دیکھا۔''واعلیکم السلام ! لو شیطان کو یاد کیا اور۔۔۔۔ فرشتے حاضر۔۔''سلمان نے ایمی کی بات کاٹتے ہوئے جملہ مکمل کیا۔''تم بھی آگئے ؟ ایک بات بتاؤ تم کبھی چین سے گھر میں نہیں بیٹھ سکتے، ہمیں تو پتا چلا تھا کہ مسٹر عباد اکیلے آ رہے ہیں''۔ ایمی نے سلمان کی کلاس لی۔'' خدا کا خوف کرو پورا ایک ہفتہ ہو گیا تم لوگوں سے ملے ہوئے، سوچا عباد جا ہی رہا ہے تومیں بھی چلا جاتا ہوں بس پھر کیا تھا ِادھر عباد نے گاڑی اسٹارٹ کی اُدھر میں گاڑی پر لٹک کر یہاں تک پہنچ گیا''۔ سلمان نے مزے لے کر اپنی بات مکمل کی۔''سچ میں تم گاڑی پر لٹک کر آئے ہو؟؟ ایمی نے انتہائی حیرت اور معصومیت سے پوچھا۔ ''ہاں جب عباد نے کار اسٹارٹ کی تو میں لٹک گیا تھا لیکن پھر عباد کو ترس آگیا تو کار میں بٹھا لیا''۔سلمان نے جواب دیا۔ '' دفع ہو جاؤ تم تو''۔ ایمی نے منہ بنا کر کہا جبکہ باقی سب مسکرانے لگے۔''کیسے ہو عباد کافی دنوں بعد ملاقات ہو رہی ہے،ایریا سے شفٹ ہوئے ہو کوئی شہر سے نہیں کہ ملنے کا ٹائم نا ملے''۔ ماہی نے عباد کی خبر لی۔''مجھے کیا ہونا ہے ،میں ویسے ہی ہینڈسم، ڈیشنگ اور خوبرو نوجوان ہوں، تم سناؤ اتنی کمزور کیوں ہو آئی ہو؟ عباد نے پوچھا۔ '' ظاہر ہے صومی اوہ آئی مین صیم کی جدائی میں''۔ سلمان نے حسبِ عادت ٹانگ اڑائی۔'' ہے چلو لان میں چلتے ہیں دیکھو کتنا اچھا موسم ہو رہا ہے''۔ایمی نے باہر کا نظارہ کرتے ہوئے کہا۔''ہاں واقعی چلو''۔ صیم نے تائید کی۔''مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہا تم لوگ تو تین ہفتوں کے لئے گئے تھے پھر اتنی جلدی واپسی؟ سلمان نے پوچھا۔''ارادہ تو یہی تھا لیکن وہاں جا کر ہم خود بیمار ہو گئے اور دادی جان کی طبیعت بھی پہلے سے بہتر تھی تو انہوں نے واپس آنے کی اجازت دے دی''۔ ماہی نے تفصیل سے آگاہ کیا۔ '' تم کیوں چپ بیٹھی ہو تمہارے بولنے پر پابندی ہے کیا؟عباد نے صیم کو مخاطب کیا۔''سب باتیں کر تو رہے ہیں میرے بولنے کی کیا ضرورت ہے،اور ویسے بھی تم سے بات کرنے کا مجھے کوئی شوق نہیں رہا''۔ صیم نے روکھا سا جواب دیا۔'' تم مجھ سے اتنی ناراض کیوں ہو آخر میں نے کِیا کیا ہے؟عباد نے جواب طلب نگاہوں سے صیم کو دیکھا۔''کیوں کیا تم نہیں جانتے؟ مجھ سے اس بارے میں بات نا ہی کرو تو اچھا ہے''۔ صیم نے دو بدو جواب دیا۔ ''لیکن مجھے تو جواب چاہئے''۔ وہ بھی آج پکا ارادہ کر کے آیا تھا کہ وجہ جان کر رہے گا۔''شرم تو نہیں آتی تمہیں اپنی گھٹیا حرکتیں مجھ سے سننا چاہتے ہو،لیکن میں ایسے کیریکٹر لیس انسان سے بات کرنا پسند نہیں کرتی یقین نہیں ہوتا تم وہی عباد ہو جسے میں بچپن سے جانتی تھی''۔ صیم غصے سے کہتی وہاں سے جانے لگی مگر عباد نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روک لیا ماہی اور سلمان بت بنے حیرت سے سب دیکھ رہے تھے اور ایمی تمام معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔''یہ کیا بدتمیزی ہے عباد ہاتھ چھوڑو میرا، جانے دو مجھے''۔ صیم نے سختی سے کہا۔''آنہاں۔۔۔اب تو مجھے اپنا گھٹیا پن تمہارے منہ سے ہی سننا ہے''۔وہ بھی بضد تھا۔''چھوڑو مجھے میں تم جیسے انسان کو دیکھنا بھی پسند نا کروں''۔ صیم نے بے دردی سے کہا۔''یہ کیا ہو گیا ہے تم دونو کو؟ صیم۔۔ تم نے میری بات نہیں مانی نا یہ تمہاری غلط فہمی بھی تو ہو سکتی ہے ورنہ ہم سب بچپن سے ساتھ ہیں پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا''۔ ماہی نے صیم کو سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی۔''نہیں میں غلط نہیں ہوں''۔صیم نے پر یقین لہجے میں کہا۔''ہاں تم غلط نہیں ہو سکتی''۔ عباد بولا۔''تم کبھی غلط نہیں ہو سکتی،یاد ہے جب ہائے فِیور کی وجہ سے مجھے ڈر تھا رزلٹ اچھا نہیں آئے گا تو تم نے کہا تھا تم اچھے نمبرز سے کلیئر ہو گے تم نے ٹھیک کہا تھا A+گریڈ سے ٹاپ کیا، تم نے کہا تھا ایف ایس سی کرنا ہمارے لیئے اچھا ہوگااور واقعی اچھا رہا۔۔ میری لائف کی ہر ٹنشن تمہارے کہنے سے ختم ہو جاتی ہے،اور اب یونی میں بھی ہم ساتھ ہوتے ہیں، آدھے سے زیادہ دن ہم سب ساتھ گزارتے ہیں تو میں نے کب کوئی ایسی حرکت کی جو تمہیں گھٹیا لگی، میں کیسے کیریکٹر لیس ہوگیا؟؟ عباد نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔ ''اچھا وہ جو تم اس دن ڈونز Dons)) گینگ کے ساتھ اسموکنگ کر رہے تھے، تمہیں پتا ہے نا کہ مجھے اسموکرز سے سخت نفرت ہے،تم نے میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے،اور وہ تانیہ پرویز ساری یونیورسٹی جانتی ہے وہ کیسی لڑکی ہے، تم اسکے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اور اگلی رات تم اسکے ساتھ گاڑی میں بھی۔۔۔۔صیم ایک ہی سانس میں بولتے بولتے رک گئی۔''اوہ گاڈ ۔۔۔۔! تم اس بات پر مجھ سے ناراض ہو؟اتنا گھٹیا سمجھتی ہو مجھے؟؟عباد نے افسوس اور حیرت سے اسے دیکھا'' Donz کے ساتھ میں اسموکنگ نہیں کر رہا تھا بلکہ انکی آفر کی گئی سگریٹ لے کر پھینک رہا تھا،تم وہاں رک کر دیکھتی تو سہی''۔عباد نے صفائی پیش کی۔'' اپنی جھوٹی داستانیں اپنے پاس رکھو''۔ صیم نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔ '' اب میں سمجھی۔۔۔!یہ باتیں مجھے کیوں نہیں بتائی تم لوگوں نے؟؟ اگر پہلے بتا دیتے یا پوچھ ہی لیتے تو اتنا سب کچھ نا ہوتا''۔ ایمی نے ناراضگی سے کہا۔ ''۔ کیا مطلب ؟ ماہی نے ایمی کو نا سمجھی سے دیکھا۔ ''اف او وہ تو میں نے عباد سے شرت لگائی تھی کہ اگر میرا پریکٹیکل اچھا ہوا تو وہ وہی کرے گا جو میں کہوں گی اور عباد صاب نے کہا اچھا نہیں ہوگا اور وہ شرت ہار گیا، میں نے اسے کہا کہ تانیہ پرویز سے ہنستے ہوئے پورا آدھا گھنٹہ بات کرے مرتا کیا نہ کرتا بیچارے کو جانا پڑا،ورنہ یہ تو اسکے سائے سے بھی دور بھاگتا ہے پتہ تو ہے تم لوگوں کو۔۔اور اگلی رات اتفاقاً عباد کی کار سے تانیہ کا چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا اسے مجبوراًہاسپٹل تک ڈروپ کرنا پڑااور تم نے پتہ نہیں کیا کچھ سوچ لیا اپنی مرضی سے''۔ایمی نے ساری تفصیل سنائی۔'' ہم نے نہیں بتایا تو تم نے ہم سے کیوں چھپایا؟؟ ایمی نے ماہی کو گھورا۔ ''ویسے ہی نہیں بتایا بھئی، اب اسمیں بتانے والی کیا بات تھی؟ مجھے کیا پتہ تھا کہ صیم عباد کے بارے میں اتنا کچھ غلط سوچ رہی ہے''۔ ایمی نے غصے سے صیم کو گھورا۔ صیم شرمندگی کے مارے اپنی جگہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔'' اب اسمیں اتنا گلٹی فیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو ہونا تھا ہو گیا''۔عباد نے صیم کو سمجھایا۔'' ہاں اب تو سب کلئیر ہو گیا ہے آخر غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے ''۔ ماہی نے بھی تسلی دی۔ صیم بے ساختہ رونے لگی۔''ارے اس میں رونے کی کیا بات ہے دوستوں میں ایسی باتیں ہو جاتی ہیں''۔ ماہی نے صیم کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔''آئی ایم سوری ، میں نے تمہیں اتنا غلط کیسے سمجھ لیا میں بہت بری ہوں''۔ صیم نے روتے ہوئے کہا۔''ہئے اٹس اوکے تم رونا تو بند کرو، مانا کہ روتے ہوئے بھی تم کم حسین نہیں لگتی لیکن ہنستے ہوئے اور ذیادہ پیاری لگتی ہوچلو آنسو صاف کرو اپنے''۔ عباد کے اپنائیت سے کہنے پرصیم نے آنسو پونچھ لئے۔''ارے یہ کیا۔۔۔۔۔ حضرت جی!!! ماہی نے گیٹ سے داخل ہوتے ہوئے بہزاد کو دیکھ کر کہا تو سب نے نظریں گیٹ کی جانب کردیں۔''اوہ ساتھ میں مدر انڈیا (بہزاد کی والدہ)بھی ہیں''۔ایمی نے گویا خبر پہنچائی۔''اوہ نو۔۔۔۔! کہیں آنٹی کی دی گئی انفارمیشن کے مطابق یہ وہی لڑ کا تو نہیں جسکا پروپوزل صیم کے لئے آیا ہے''۔ ایمی متفکر ہوئی۔عباد کے پیروں تلے تو جیسے زمین ہی نکل گئی۔'' عباد تو نے کہیں دیر تو نہیں کردی''۔سلمان کی سرگوشی پر عباد نے صیم کو دیکھا جوایمی کی بات پر خود خوفزدہ کھڑی تھی۔