''ارے یہ کیا کررہی ہو؟ امی نی حیرت سے پوچھا۔ ''کچھ نہیں بس بور ہو رہی تھی تو سوچا کچن ہی صاف کر لیا جاٰئے۔''صیم نے جواب دیا۔ ''اچھا پہلے تو کبھی میری بیٹی کو یہ خیال نہیں آیا، چلو دیر سے ہی سہی میری فکر تو ہوئی تمہیں''۔ واہ یہ خوب کہی آپ نے پرسوں جو میں نے آپکو چائے بنا کر دی تھی، اور کل بھی تو میں نے آپکا ہاتھ بٹایا تھا کچن میں''۔ صیم نے خفگی سے کہا۔ ''ہاں ہاں وہ تو میں بھول ہی گئی میری بیٹی نے کھانا بنانے میں کتنی مدد کی تھی نمک کی جگہ چینی اور ہلدی کی جگہ زردہ کا رنگ ڈال دیا تھا''۔ امی نے اسے چیڑتے ہوئے کہا ۔ ہاں تو پہلی مرتبہ تو کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا ہے، ہر کوئی آہستہ آہستہ سیکھتا ہے''۔ صیم منہ بنا کر بولی۔ "اچھا ناراض کیوں ہوتی ہو میری بیٹی بہت جلد سب سیکھ جائے گی اور یونیورسٹی جانے کا کیا ارادہ ہے؟ امی نے پوچھا۔''ہاں کل سے جاؤں گی آج تو ویسے بھی ویکیشنز کے بعد پہلا دن تھا، اچھا عباد نہیں آیا ابھی تک آنا تھا نہ اسنے؟ صیم نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔ ''ہاں آنا تو تھا ،ویسے تم کیوں پوچھ رہی ہو ویسے تو ہر وقت جھگڑتی رہتی ہو اس سے''۔ امی نے حیرت سے پوچھا۔ ''ہاں وہ بس ایسے ہی پوچھ لیا ورنہ مجھے کیا ضرورت ۔۔۔۔ '' صیم نے جھجھکتے ہوئے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
''یہ کہاں کی تیاری ہے جناب کی وہ بھی اتنی کٹ شٹ کر کے،کہاں نکل رہے ہو؟؟ سلمان نے اسے چھیڑتے ہوئے پوچھا۔''اب تم کیا کہتے ہو میں بھی تمہاری طرح نہانہ چھوڑ دوں ؟ جب بھی نہا کہ آؤ پہلے اپنے شکوک کا اظہار کرنے چلے آتے ہو''۔عباد نے بھی اسے چھیڑا۔ ''یعنی میرا اندازہ ٹھیک نکلا''۔ سلمان نے کہا۔ ''کیا مطلب؟؟ عباد نے پوچھا۔ بھئی مطلب یہ کہ تم ڈیٹ پر جا رہے ہو، کیوں یار اکیکے اکیلے گرل فرینڈ بھی بنا لی اور ہمیں خبر تک نا ہوئی۔ٹھیک کہتے ہیں لوگ لڑکی ملی نہیں اور بچپن کے دوست بھی پرائے ہو جاتے ہیں جاؤ میں نہیں بولتا تم سے''۔ سلمان نے کسی فلم کا ڈائیلاگ مارا۔''میں خالہ جان کے گھر جا رہا ہوں''۔عباد نے جواب دیا۔'' تمہارا دماغ تو ہر وقت ایسی واحیات باتوں کی طرف لگا رہتا ہے''۔۔۔ ''اچھا۔۔۔۔۔! کہیں صومی کا ہاتھ مانگنے اکیلے تو نہیں جا رہے؟ سلمان نے ڈھٹائی برقراررکھتے ہوئے پھر اسے چھیڑا۔''پہلے تو میں یہ کلیئر کردوں کہ اسے صومی کہنے کا حق صرف میرا ہے اور رہی بات ہاتھ مانگنے کی تو اسکے ہاتھ کا تھپڑ کھانے کا شوق مجھے نہیں یہ شعبہ تمہارا ہے،میں تو پوری کی پوری صومی کو مانگوں گا لیکن ابھی نہیں''۔عباد نے اطلاع پہنچائی۔''ہممممم۔۔۔۔اور وہ تو جیسے مان جائے گی،دیکھا نہیں کیسے تمہیں جوتے کی نوک پر رکھتی ہے آجکل''۔ سلمان نے چوٹ کی۔ اسکی یہی بات تو مجھے پسند ہے کہ وہ کسی کو بھی ایویں ای لفٹ نہیں کراتی''۔ عباد نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ''لیکن پھر بھی یار ہم لوگوں کا بچپن کا ساتھ ہےپتہ نہیں کیوں وہ تم سے اب رووڈ بیہیو کرتی ہے''۔سلمان نے پوچھا۔ ''شاید اب میں اسے اچھا نہیں لگتا ، لیکن کیا فرق پڑتا ہے مجھے تو وہ بہت اچھی لگتی ہے''۔عباد نے جواب دیا اور گاڑی کی چابی اور والٹ اٹھا تا باہرنکل گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صیم کے حلق سےنکلی چیخ نے سمیرا بیگم کے ہاتھ پاؤں پھلا دیے وہ دوڑتی ہوئی لان کی طرف لپکیں۔ ''تم لوگ۔۔۔۔۔ اوہ گاڈ کتنا انتظار کرایا تم نے پتہ ہے میرے تین دن تم لوگوں کے بغیر تین سال کے برابر تھے''۔ صیم نے پر جوش انداز میں بیتے دنوں کا حال سنایا۔''اف خدایا کمال کرتی ہو صیم مجھے تو ڈرا ہی دیا''۔ امی نے ماہی اور ایمی کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔''تمہارے تین دن تین سال کے برابر تھے اور ہمارے تین سو سال کے برابر''۔ ایمی نے صیم سے ملنے کے بعد جواب دیا۔''اف اللہ ماہی تم تو پہلے سے بھی زیادہ ویک ہو گئی ہو''۔صیم نے فکر مندی سے اپنی عزیز ازجاں دوست کو دیکھا۔ ''بالکل ٹھیک کہا تم نے تمہارے غم میں آدھی ہو گئی ہے بیچاری''۔ایمی نے وجہ بتائی تو صیم اور ماہی کی آنکھیں بھر آئیں، اتنے عرصے بعد صرف تین دن کی جدائی نے دونوں کا یہ حال کر دیا تھا۔ بچپن سے ہی تینوں کی دوستی کی مثالیں دی جاتی تھی بائیس سال کی دوستی اور اس پورے عرصے میں ہمیشہ ساتھ رہی اسلئے تو یہ تین دن انکی زندگی کے سب سے مشکل ترین دن تھے۔ ماہی اور ایمی کی دادی جان کی اچانک طبیعت خراب ہونے سے انکو اچانک اسلام آباد جانا پڑا یہاں سمیرا بیگم کی طبیعت بھی کچھ ناساز تھی اسلئے صیم کا انکے ساتھ جانے کا پروگرام کینسل ہو گیا ورنہ یہ تین دن بھی تینوں یقیناً ساتھ ہی گزارتی۔'' یار ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی فلم کے اینڈ میں بچھڑے ہیرو ہیرو ئن مل رہے ہوں، ہاؤ رومینٹک نا۔۔۔'' ایمی نے جملہ کسا۔ ''تم تو ہمیشہ بکواس ہی کرنا''۔ ماہی نے اسے زوردار چپت لگائی۔''اف اتنی ظالم ہو تم اتنی ذور سے مار دیا''۔ ایمی نے بازو سہلاتے ہوئے کہا۔ ''اچھا کیا تمہارے ساتھ تو ایسا ہی ہونا چاہئےتھا''۔ صیم نے بھی ایمی کی خبر لی۔ ایمی بیچاری برا سا منہ بنا کر رہہ گئی۔ ''چلو اب اندر بھی چلو گی یا یہیں بیٹھنا ہے سارا دن ''۔ صیم نے یاد دلایا تو تینوں لاؤنج کی طرف چل دیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
آغا ولی اور ظفر محمود کے گھرانے میں گہرے مراسم تھے،دونوں کی دوستی کالج کے زمانے سے چلی آ رہی تھی اسلئے ان کے بچوں کے خون میں بھی اس دوستی کا اثر اتر گیا تھا۔ آغا ولی کی دونوں بیٹیاں ماہین اور ایمان جڑواں ہونے کے ساتھ ہی ولی صاحب کی جان تھیں اور ظفر محمود کی اکلوتی بیٹی صائم کو بھی وہ اپنی دونو بیٹیوں کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ ولی صاحب جب لندن شفٹ ہونے لگے تو انکی بیٹیوں نے صاف انکار کردیا کہ وہ اپنا ملک اپنا پاکستان چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گی اور خاص کر اپنی بیسٹ فرینڈ صیم کو چھوڑ کر تو کبھی نہیں،انکی ضد سے تو ولی صاحب اچھی طرح واقف تھے اسی لئے وہ اس تسلی کے ساتھ اپنی بیگم شزا کے ساتھ لندن شفٹ ہو گئے کہ ظفر محمود کے گھر بھی انہیں اتنا ہی پیار ملے گا جتنا وہ انہیں دیتے ہیں۔ اور یہ سچ ہی ہے ظفر محمود انکی ہرخوشی کا خیال رکھتے اور صیم کی طرح انہیں کسی چیزکی کمی کا احساس نا ہونے دیتے،تینوں کی دوستی اتنی گہری ہو چکی تھی کہ سب کالج فرنڈز کہتی شادی کے بعد تم لوگوں کا کیا بنے گا یہاں ایک دن اکیلے کالج نہیں آتی وہاں پوری لائف کیسے گزارو گی؟؟ صرف کالج فرینڈز ہی نہیں عباد اور سلمان بھی انہیں چھیڑتے، عباد کہتا '' لگتا ہے تم لوگوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ ایک ہی بندے سے شادی کرو گی''۔اس بات پے ماہی اسے مُکّہ رسید کرکے چپ کراتی اور کہتی''جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا،پر بات تو سوچنے والی ہے پتہ نہیں ہمارا کیاہوگا''۔ عباد اور سلمان چچا زاد ہونے کے ساتھ ساتھ جوائنٹ فیملی میں رہتے تھے۔ عباد اور سلمان سے ان تینوں کی بہت بنتی تھی۔ شہلا اور سبطین عثمانی کے دو بچے عباد اور حمیرا تھے حمیرا عباد سے بڑی تھی اور انکی شادی کو چھ سال گزر چکے تھے جبکہ سلمان اور زین دو بھائی تھے والد کی وفات کے بعد زین نے انکا بزنس سمبال لیا تھا کیونکہ سلمان ابھی پڑھ رہا تھا اور سلمان کی والدہ تحسین بیگم کی بھی یہی خواہش تھی، یہ سب ایک ہی ایریا میں رہتے تھے ایک ہی اسکول،کالج اور اب ایک ہی یونیورسٹی اور مزے کی بات یہ کہ ایک ہی ڈیپارٹمنٹ میں،عباد اور سلمان لوگوں کو ایریا شفٹ کئے ایک سال ہوا تھا اور صیم عباد کی کچھ مشکوک حرکتوں کی وجہ سے اس سے ناراض رہنے لگی تھی، عباد کا نام سنتے ہی غصہ اسکی آنکھوں میں اتر آتا جبکہ عباد اپنی صومی کو شدّت سے چاہتا تھا۔ بچپن کی دوستی کب محبت میں بدل گئی یہ تو شاید عباد بھی نہیں جانتا تھا۔ عباد کو صیم کے بدلے روّیےنے پریشان کر دیا تھا اور آج وہ یہی سوچ کر گھر سے نکلا تھا کہ اس روّیے کی وجہ جان ہی لی جائے۔