صبح جس لمحے وہ نماز کے لئے اٹھا راديا ابھی سو رہی تھی۔
واہب نے محبت بھرا لمس اسکی پيشانی پر چھوڑا۔ پھر اپنا موبائل پکڑ کر کچھ ٹائپ کرکے اسکے نمبر پر سينڈ کيا۔ اور واش روم کی جانب بڑھ گيا۔
تھوڑی دير بعد شاور لے کر سفيد شلوار کرتا پہنے باہر آيا۔ تب بھی راديا سوئ ہوئ ملی۔
اس پر ايک مسکراتی نگاہ ڈال کر کمرے سے چلا گيا۔
____________________
وہ گہری نيند ميں تھی کہ دروازہ ناک ہوا۔
مندی مندی آنکھيں کھوليں تو زيبا کمرے ميں آتی دکھائی ديں۔
"عيد مبارک بيٹا۔ تمہارے ابو اور واہب نماز ادا کرنے گئے ہيں تم بھی انکے آنے تک اٹھ کر تيار ہوجاؤ" زيبا نے مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ اسے کے ماتھے سے الجھے بال سميٹتے ہوۓ کہا۔
"خير مبارک آنٹی۔۔ بس ميں اٹھ گئ سمجھيں" محبت سے اٹھ کر انکے گلے لگتے ہوۓ بولی۔جو بيڈ پر اسکے قريب بيٹھ چکی تھيں۔
"شاباش ميرا بچہ۔ تمہارے کپڑے رات کو زرينہ سے کہہ کر پريس کروا دئے تھے اٹھو چينج کرو" اٹھتے ہوۓ اسکے چہرہ کو پيار سے تھپتھاتے ہوۓ کہا۔
"جی"
"اور سنو" کمرے سے جاتے جاتے وہ مڑيں۔
"جی" اس نے استفہاميہ نظروں سے انہيں ديکھا۔
"جب اس رشتے کو قبول کرلو تو ہميں بھی ماں باپ کی حيثيت سے قبول کرلينا" اتنی محبت سے انہوں نے اپنی خواہش بيان کی۔
"جی۔۔جی" راديا ان کی بات پر چند لمحے کے لئے ششدر رہ گئی۔ تو وہ جانتی تھيں اسکے اور واہب کے درميان کے تعلقات۔ ہاں ظاہر ہے دونوں نے ہی کسی سے چھپانے کی ضرورت نہيں سمجھی تھی نہ نفرت اور بيزاری کو
اور نہ اب واہب نے اپنی محبت کو۔۔
وہ شفقت سے مسکراتے ہوۓ کمرے سے باہر چلی گئيں۔
اس نے بيڈ سے اٹھنے سے پہلے موبائل کھول کر ديکھا تو واٹس ايپ پر واہب کا ميسج موجود تھا۔
فورا کھول کر پڑھا
Open up the gates please let me in
everybody needs someway to start again
I have been rude not always kind
Since it’s been a long heart to climb
So lay your hand in mine
Sometimes we just carry hopes to down
But letting go is hard I have found
So let me be like the leaves on the trees
They come back in the spring and go to green
So let me be like a stream full of rain
It comes back eventually to the sea
Tell me where we could reach the promise land
There is nothing that we can do to change the past
But baby now
I have found a way back to you
So please find a way back to me
واہب کے ميسج ميں درج الفاظ راديا کو گھٹنے ٹيکنے پر مجبور کررہے تھے
اس نے اسٹک ڈھونڈی۔
پھر دل ميں نجانے کيا سمايا اٹھ کر کوشش کی کہ اپنے سہارے ہی چلے۔ ہلکی سی لڑکھڑاہٹ کے ساتھ وہ کسی حد تک کامياب ہوگئ۔
پہلے واش روم گئ۔ منہ ہاتھ دھو کر باہر آئی۔
کمرے ميں بنی قد آور الماری کی جانب رخ کيا۔
الماری کے دونوں پٹ کھولے تو سامنے ہی سفيد گھيردار فراک پاجامہ اور چنا ہوا دوپٹہ نظر آيا جو اس دن واہب نہايت محبت سے اسکے لئے لے کر آيا تھا۔
ايک گہری سانس فضا کے سپرد کی۔
"اے اللہ ميں اس وقت اس جگہ پر کھڑی ہوں جہاں آگے کا کچھ نہيں پتہ۔ ميں نہيں جانتی جس محبت کا دعوی آج يہ شخص کررہا ہے ميری محبت پالينے کے بعد بھی يہ اپنی بات پر قائم رہے گا يا نہيں۔
اگر اس کو چھوڑ ديتی ہوں تو کہيں کفران نعمت کی مرتکب نہ ہو جاؤں۔ اگر يہ ميرے لئے بہتر ہے تو ميرے دل سے ہر وسوسہ ہر شک نکال ديں" تيار ہوتے وقت وہ مسلسل اپنے رب سے مخاطب تھی۔
کيونکہ دلوں کے بھيد تو وہی جانتا ہے اور واہب کے دل کا بھيد اس سے بہتر اور کس کو پتہ ہوگا۔
بس اس نے آج بھی اپنا معاملہ اس رب کے سپرد کرديا جس کے سپرد يہ شادی ہونے سے پہلے کيا تھا۔
وہ پلٹا تھا۔۔ اسکی محبت سے لبريز ہوا تھا تو يقينا يہ اللہ کا ہی حکم تھا۔
اسے ايسے ہی پلٹنا تھا۔ اپنی غلطيوں پر نادم ہوکر۔
______________________
جس لمحے وہ لاؤنج ميں داخل ہواٹھٹھک کر دروازے کے قريب ہی رک گيا۔
اسکے لائے ہوۓ سفيد فراک جس پر خوبصورت دھاگے کا کام ہوا تھااور چوڑی دار پاجامے پر ايک کندھے پر چنا ہوا دوپٹہ ڈالے۔ کانوں ميں بڑی بڑی بالياں پہنے خوبصورت سے کئے گۓ ميک اپ اور کھلے بالوں ميں وہ واہب کو کسی حور سے کم نہ لگی۔
خوشگوار سا احساس لئے وہ اندر بڑھا۔
جہاں وہ سميع سے سر پر پيار لے رہی تھی۔
"عيدمبارک" اسکی شوق کا جہاں لئے آنکھوں ميں بمشکل ديکھتے ہوۓ اس نے عيد مبارک کہنے ميں پہل کی۔
واہب نے بمشکل اسکے پريوں سے روپ سے نظريں ہٹائيں۔
واہب ماں کی جانب بڑھا۔
"چلو بيٹا گاڑی کی چابی پکڑو۔۔ چچا کی طرف جانا ہے" ان کا معمول تھا کہ وہ عيد والے دن بھائ کے گھر جاتے وہاں سے سب مرد مل کر ماں باپ کی قبروں پر جاتے اور پھر کھانا کھا کر باقی رشتہ داروں کی طرف جاتے۔
"آپ لوگ ريڈی ہيں؟" واہب نے ان دونوں سے دريافت کيا جو بيگز پکڑے تيار ہی کھڑی تھيں۔
سميع اور زيبا اپنی گاڑی کی جانب بڑھے۔
جس لمحے وہ بھی انکے پيچھے لاؤنج سے نکلنے لگی۔ کہ واہب نے راستہ روکا۔
راديا کے دل کی دھڑکنيں بڑھيں۔
"آپ کون ہيں مس" جان بوجھ کر اسے چھيڑا۔
"آپکے پيرنٹس کی چہيتی بہو" وہ کہاں زيادہ دير گھبرانے والی تھی۔
مزے سے جواب دیتی اسکے ايک سائيڈ سے نکلنے لگی۔
جب مڑتے ہوۓ واہب نے اسکا ہاتھ تھام کر اپنی بازو پر رکھا۔
راديا نے نظر اٹھا کر محبت کے يہ انداز ديکھے۔
وہ واقعی اس کا سہارا بن گيا تھا۔
وہ دونوں واہب کی گاڑی کی جانب بڑھے۔
اسے بٹھا کر واہب اپنی سيٹ پر آکر بيٹھا۔
گاڑی چلاتے تمام وقت اسکی پرشوق نظريں اس کا طواف کرتی رہی تھيں۔
"مجھے لگتا ہے اگر ميں لنگڑی نہيں ہوئی تو آج آپکی حرکتيں مجھے لنگڑا کرکے چھوڑيں گی" راديا کی بات پر وہ اسکی بات کی تہہ تک تو نہيں پہنچا مگر قہقہہ بھی نہيں روک سکا۔
"وہ کيسے؟"
"جس حساب سے آپکی نظريں سامنے کی بجاۓ بائيں جانب ہيں ايکسيڈنٹ لازمی ہے" وہ اسکے ديکھنے پر چوٹ کرگئی۔
"ہاہاہاہا۔۔۔کيا کروں۔۔۔ نظروں پر کس کا زور ہے" محبت سے گندھا لہجہ اسے نروس کرگيا۔
"ميں ابو سے کہتی ہوں۔ آپ کا بيٹا نيم پاگل ہوچکا ہے۔۔ مجھے اس سے خطرے کی بو آرہی ہے پليز مجھے اپنی گاڑی ميں شفٹ کرليں" اسکے ابو کہنے پر وہ چونکا
"ابو؟" سواليہ نظروں سے اسکی جانب ديکھا۔ کيونکہ اپنے ابو کو وہ ابا کہتی تھی۔
"ميرے اور آپکے ابو سميع احمد" وہ اسکی حالت سے حظ اٹھاتے ہوۓ بولی۔
"تو کيا۔۔۔۔"واہب کو اپنی حيرت بيان کرنے کے لئے الفاظ نہيں ملے۔
"نہيں خير اب اتنی جلدی بھی ميں ماننے والی نہيں۔۔ رات کو اپنے اجازت نامے کے بعد کچھ کہوں گی" راديا کی بات پر وہ الجھا۔ کچھ دير پہلے کا جو خوشگوار سا احساس تھا وہ يک لخت ختم ہوا۔
تو کيا وہ اب بھی دوريوں کی بات کرے گی۔
اس کے بعد سارا دن وہ الجھا الجھا رہا اور راديا اسکی حالت پر دل ہی دل ميں مسکراتی رہی۔
___________________________
گھر واپس آتے انہيں رات ہوگئ۔ زيبا اور سميع تو سيدھا اپنے کمرے ميں چلے گۓ۔ جبکہ وہ واہب کے ساتھ کچن ميں آئ۔
"مجھے چاۓ پينی ہے" اسکی فرمائش پر وہ اسے لئے کچن ميں آيا۔
سب چيزيں اسکے پاس رکھين تاکہ اسے بار بار پکڑنے کے لئے زيادہ چلنا نہ پڑے۔
راديا نے پانی ابلتے ساتھ ہی سب چيزيں ڈاليں۔
وہ اسکی ايک ايک حرکت ديکھ رہا تھا۔
ہونٹوں پر قفل لگا تھا۔
يکدم نجانے کيا ہوا۔ آگے بڑھ کر پيچھے سے اسکے کندھے پر سر رکھا۔
"بس کردو يار کب تک يہ سردمہری قائم رکھو گی۔" راديا اس اچانک افتاد کے لئے تيار نہين تھی۔ اتھل پتھل سانسوں کو بمشکل ہموار کيا۔ چہرہ موڑ کر اسکے گھنے بالوں والے سر کو ديکھا۔
"جب تک آپ اجازت نامے پر سائن نہيں کرتے" وہ سرد لہجے ميں بولی۔
واہب نے سرعت سے سر اٹھا کر اسکے چہرے کو دیکھا۔
"سب کچھ مانگ لينا مگر جدائ نہ مانگنا" اسکے لہجے ميں کيا کيا نہ تھا۔
خوف۔۔۔التجا۔۔۔گزارش۔
راديا خاموش رہی چاۓ کپوں ميں انڈيل کر ٹرے واہب نے تھامی اسے لئے کمرے ميں آيا۔
بيڈ پر بيٹھ کر اس نے سائيڈ ٹيبل کے دراز سے ايک کاغذ نکالا واہب نے بيڈ پر بيٹھتے کن اکھيوں سے اس کاغذ کو ديکھا۔ جس کی تہين اب وہ کھول رہی تھی۔
"يہ اجازت نامہ اور شرائط نامہ دونوں ہے" مزے سے پيپر پکڑے رخ واہب کی جانب کئے بولی۔
واہب سانس روکے اسے سن رہا تھا۔
"پہلی شرط۔۔ کبھی مجھے بڑی عمر کا طعنہ نہيں ديں گے" اسکی بات سنتے اس نے چونک کر اسکے چہرے کی جانب ديکھا۔
مطلب وہ زندگی کی شروعات سے پہلے اس سے کچھ منوانا چاہتی تھی۔ اعصاب يکدم ڈھيلے ہوۓ۔
"ڈن" چہکتی آواز پر راديا نے کاغذ سے نظر اٹھا کر اسکے مطمئن چہرے کی جانب ديکھا۔
"مجھے بوتيک بند کرنے کا کبھی نہيں کہيں گے" ڈن
اب کی بار واہب نے سر اسکی گود ميں رکھا۔
"فضول ميں ہر وقت اوور نہيں ہوں گے۔۔ " اس کا اشارہ اسکا سر گود ميں رکھنے کی طرف تھا۔
"ہاہاہا۔۔۔ ہاف ڈن"
"ہاف ڈن؟" اس نے سواليہ نظريں اسکے چہرے پر ڈاليں۔
"ہاں نا۔۔۔ اب فضول حرکتيں بيوی کے ساتھ نہ کروں تو کس کے ساتھ کروں" اسکی بات پر اس نے منہ بنا کر دوبارہ کاغذ کو پڑھنا شروع کيا۔
"آخری اور سب سے اہم شرط نہ کسی لڑکی کو ديکھيں گے اور نہ دوسری شادی کی بات کريں گے"
"ڈن ہی ڈن ۔۔۔ميری جان" محبت سے اسکا ہاتھ تھام کر وہ سيدھا ہوا۔
"اس قدر ميرا خون خشک کيا ہے صبح سے۔۔ اور عيد بھی نہيں ملی" وہ منہ پھلاۓ شکايتين کھول چکا تھا۔
"ميری عيدی کا ہوش ہے۔۔ وہ کب دی مجھے؟" وہ الٹا اس پر چڑھ دوڑی۔
"ابھی دوں گا۔ پہلے بتاؤ معاف کرديا مجھے" واہب نے پھر سے تصديق چاہی۔ اس نے اثبات ميں سر ہلايا۔
"وہ سب سہنا آسان نہيں تھا۔ ليکن ميں خود کو اور آپ کو اور اس رشتے کو ايک اور چانس دينا چاہتی ہون۔ آپ کا يوں پلٹ آنا يقينا اللہ کی رضا ہے اور ميں اسکی رضا ميں راضی رہنا چاہتی ہون۔ بس مجھے کبھی پھر سے يوں بے وقعت نہيں کرنا" وہ آس سے اسے ديکھتی اپنا فيصلہ سنا رہی تھی۔
واہب نے محبت سے اسے خود سے سمويا۔
"کبھی بھی نہيں کروں گا۔۔۔بہت دعائيں مانگيں ہين آپ کا دل ميری جانب مائل ہوجانے کی۔
ايک بار پھر سے ان سب تلخيوں کے لئے مجھے معاف کردو۔۔ اصل محبت تو اس رشتے ميں ہے۔۔ عمروں کے فرق ميں کہاں" وہ آنکھيں موندے محبت کو خود پر نچھاور ہوتے دیکھ رہی تھی۔ محسوس کررہی تھی۔
___________________
ختم شد