صبح ميں جس لمحے واہب کی آنکھ کھلی راديا کمرے مين نہيں تھی۔ وہ اب اسٹک پکڑ کر آہستہ آہستہ خود چل ليتی تھی۔ مگر ابھی اسے سيڑھياں چڑھنے سے منع کيا گيا تھا۔ اسی لئے فی الحال وہ دونوں گيسٹ روم ميں ہی تھے۔
واہب منہ ہاتھ دھو کر باہر لاؤنج ميں آيا تو وہ اخبار پڑھنے ميں مگن تھی۔ راديا نے ايک نظر اٹھا کر سامنے سے آتے واہب کو پر ڈالی پھر واپس اخبار کی جانب متوجہ ہوگئ۔ واہب تھوڑا سا فاصلے پر اسی کے صوفے پر بيٹھ گيا۔
راديا کو اميد تھی کہ کل رات کی باتوں کے بعد واہب اب اس سے کوئ اميد نہيں لگاۓ گا۔
مگر اسکی حيرت کی انتہا نہ رہی جب وہ اسکے گھٹنے پر مزے سے کشن رکھ کر اس پر سر رکھ کر ليٹ گيا۔
راديا نے گھبرا کر ايک نظر اندر کام کرتی زيبا اور زرينہ کو ديکھا۔
پھر گھور کر واہب کے گھنے بالوں والے سر کو ديکھا۔
"يہ کيا بے ہودگی ہے" وہ دبے دبے لہجے ميں چٹخی۔
"کيا؟" واہب نے آنکھوں پر رکھا ہاتھ ہٹا کر اچھنبے سے اسکا سرخ چہرہ دیکھا۔
"يہاں کيوں ليٹے ہيں۔۔ اٹھيں يہاں سے" وہ يکدم اٹھ نہيں سکتی تھی نہيں تو کب کی اسکا سر نيچے پٹخ کر اٹھ چکی ہوتی۔
"آپ کو سمجھ کيوں نہيں آتی کہ اب مجھے ان سب حرکتوں سے کوئ فرق نہيں پڑتا" وہ اسکی معصوميت پر زچ ہوکر بولی۔
"مگر آپ کو يہ کيوں نہيں سمجھ آتی کہ آپ کی اس بے زاری سے اب مجھے بھی کوئی فرق نہيں پڑتا۔" وہ بھی اسی کے انداز ميں بولا۔
"آپ کيوں اپنی زندگی فضول ميں تباہ کررہے ہيں جب مجھے آپ کے ساتھ اب رہنا ہی نہيں" راديا نے قطعيت بھرے لہجے ميں کہا۔
"ميں اب ہی تو اپنی زندگی کے ساتھ سب صحيح کررہا ہوں۔۔" وہ کھوۓ ہوۓ انداز ميں بولا۔
"مگر يہ سب اب ميرے ساتھ ٹھيک نہیں ہے۔ ميں اب اپنی آئندہ زندگی کا فيصلہ خود کروں گی۔ بہت کرليا دوسروں پر انحصار۔ جس ہمدردی کا بخار آپ کو چڑھا ہے نا۔۔۔
وہ چار دن ميں ختم ہوجاۓ گی" وہ تلخی سے بولی۔
"چلو ٹھيک ہے ايسا کرتے ہيں اپنی اپنی جگہ بدل ليتے ہيں" واہب نے يک لخت اٹھ کر اسکے قريب ہوتے ہوۓ سرگوشی نما لہجے مين کہا۔
"اس بار نفرت کے کنارے پر آپ کھڑی ہوجاؤ اور محبت کے کنارے پر ميں۔ جس کا جذبہ زيادہ طاقتور ہوا وہ جيت جاۓ گا اور پھر دوسرے فريق کو اسی کی بات ماننی پڑے گی" واہب کی بات پر وہ اور تپ گئی۔
"مين نے پہلے بھی آپ سے محبت نہيں کی تھی" صاف گوئ سے بولتی وہ اسے آئينہ دکھا گئی۔
"ليکن رشتہ نبھانے کا ارادہ تو کيا تھا نا" واہب کی بات پر وہ چند لمحے خاموش ہوئی۔
"ميں ايک انچ بھی اپنی جگہ سے ہلنے والی نہيں" وہ دھمکی آميز انداز ميں بولی۔
"مت ہلنا ميں بازوؤں ميں اٹھا کر اپنی طرف لے آؤں گا" واہب کے چہرے پر گہری دلکش مسکراہٹ بکھری جس نے راديا کی پلکوں کو لرزنے پر مجبور کيا۔
"فضول باتيں" اسٹک اپنے قريب کرکے وہ اٹھنا چاہتی تھی جب اس سے بھی پہلے واہب نے اٹھ کر اسے سہارا ديا۔
"ميں اب خود چل سکتی ہوں" وہ پھر اسکے ہاتھ کو جھٹک دينا چاہتی تھی۔ وہ اسے پل پل دھتکار رہی تھی بالکل ايسے ہی جيسے کچھ دن پہلے واہب اسے دھتکارتا تھا۔
مگر وہ اپنے حوصلے مضبوط رکھے ہوۓ تھا۔
"الحمداللہ ۔۔۔ ليکن ميں چاہتا ہوں جيسے آپ نے مجھے اپنا عادی بناکر اس محبت ميں جکڑا۔ ميں بھی اب آپکو اپناعادی بنا کر اس محبت ميں ہميشہ کے لئے قيد کرلوں" اسکی جانب جھکتے اسکی ناراض نظروں ميں اپنی محبت پاش نظريں گاڑھے اسکے ايک ايک لفظ سے محبت ٹپک رہی تھی۔
"چار دن کی چاندنی پھر اندھيری رات" راديا نے ويسے ہی طنز کيا جيسے کبھی وہ کرتا تھا۔
" وی ويل سی" واہب نے اسے گويا چيلنج کيا۔
______________________
اور پھر اس نے جو کہا وہ سچ کر دکھايا۔ راديا کی ہر بيزاری کے جواب ميں اسکے پاس اسے دينے کو صرف محبت ہوتی ۔۔ احساس ہوتا۔
انہی دنوں ميں چاند رات بھی آگئ۔
واہب عشاء کی نماز پڑھ کر آيا تو اسکے سر ہوگيا۔
"چلو۔۔ مہندی لگوا کر لاؤں" وہ جو بيڈ پر مزے سے بيٹھی موبائل پر مصروف تھی اس اچانک افتاد پر تيوری چڑھا کر اسکی جانب ديکھا۔
"مجھے کہيں نہيں جانا اور کوئ مہندی وہندی نہيں لگانی" وہ کڑوے کسيلے لہجے ميں اسے جواب دے دوبارہ موبائل ميں مصروف ہوگئ۔
"جانا تو پڑے گا۔۔ ميڈم کے نخرے ختم نہيں ہورہے" وہ بھی اپنی ضد پر قائم تھا۔
"بوڑھی عورتوں کو مہندی اور ميک اپ سے کيا سروکار" وہ پھر سے اس پر طنز کرکے بولی۔
وہ جو بيڈ کے دوسری سمت بيٹھا تھا محبت سے اسکے چہرے پر اپنے دائيں ہاتھ کی انگلياں پھيريں۔
راديا اسکی جرات پر خشمگيں نظروں سے اسے ديکھنے لگے۔ سرعت سے پيچھے ہوئ۔
"کتنی بار کہا ہے دور رہ کر بات کيا کريں" ناگواری اسکے چہرے کا احاطہ کرچکی تھی۔
"اور کتنی بار ميں نے کہا ہے کہ اب دوريوں کی باتيں جانے دو۔۔ اٹھو"اسکے ہاتھ سے موبائل لے کر رکھا۔
"کيا مصيبت ہے زندگی عذاب ہوگئ ہے" وہ زبردستی اسکی جانب آکر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کرنے لگا۔ جب وہ کوفت سے بولی۔
"اوکے باقی کے کوسنے واپس آکر دے لينا۔" واہب نے بھی ہار نہ مانی اسے کھڑا کرکے ہی دم ليا۔ جيسے ہی اس نے اسٹک کی طرف ہاتھ بڑھايا۔ واہب نے اسٹک اسکی پہنچ سے دور کی۔
"جب ميں ہوں تو ان کھوکھلے سہاروں کی کيا ضرورت ہے" اس کا دوپٹہ کندھوں پر ٹھيک کرتے ہوۓ وہ جس توجہ سے بولا راديا کی ايک بيٹ مس ہوئ۔
"مجھے اس سہارے پر اعتبار نہيں" راديا نے نگاہيں جھکا کر کانپتے لہجے ميں کہا ۔ واہب کے لبوں پر مسکراہٹ رينگی۔
"اعتبار بھی آہی جاۓ گا۔
چلو تو سہی
راستہ کوئ مل ہی جاۓ گا" وہ دھيرے سے اپنا سر اسکی پيشانی کے ساتھ ٹکاتے گنگنايا
"ايک آخری موقع دے دو" حسرت سے درخواست کی۔
"ابھی مجھے سوچنے ديں" واہب نے شکر کيا کہ اس نے نہ نہيں کی۔
"اوکے۔۔سوچ لو"پيچھے ہوتے ايک نظر اسکے صبيح چہرے پر ڈالی۔
پھر اسے لئے باہر کی جانب بڑھا۔
تمام راستہ اس کا ايک ہاتھ اسٹيرنگ پر دھرے ہاتھ کے نيچے دباۓ گاڑی چلاتا رہا۔
راديا نے تمام راستہ کوئ بات نہ کی نہ ہی واہب نے اسے مخاطب کيا بس دونوں ايک دوسرے کی موجودگی کو محسوس کرتے رہےاور پہلی بار ان کے درميان موجود خاموشی بے حد معنی خیز تھی۔ محبت کی وائبز ايک کے دل سے دوسرے کے دل پر اثر انداز ہورہی تھيں۔
________________________
جس وقت وہ مہندی لگوا کر باہر آئ واہب نے تيزی سے آگے بڑھ کر اسے سہارا ديا۔پھر اسی طرح تھامے گاڑی کی جانب لايا۔
مہندی ابھی گيلی تھی۔
"کس مصيبت ميں پھنسا ديا ہے سچی۔۔ اب جب تک سوکھے گی نہيں تب تک بندہ کچھ نہيں کرسکتا۔" گاڑی ميں بيٹھ کر اسکی دہائياں شروع ہوچکی تھيں۔ جنہيں زير لب مسکراتے واہب مزے سے سن رہا تھا۔
اسکا کيچر بالوں ميں بالکل ڈھيلا ہوچکا تھا۔
وہ بازو کو اوپر لے جاکر کہنی سے بار بار بالوں کو پيچھے کرتی بھنا گئ۔
"کيا ہوا ہے" واہب اسکی يہ حرکت ديکھ کر سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ کہنی بار بار چہرے تک کيوں لے جارہی ہے۔
"يہ جو زلفيں کھل گئ ہيں ميری۔۔۔ کيسے باندھوں" وہ روہانسی آواز ميں بولی۔
واہب نے نفی ميں سر ہلايا۔ پھر گاڑی سڑک کے ايک کنارے پر روکی۔
"مڑو" اسے گاڑی روکتا ديکھ کر وہ الجھی کہ ايک اور حکم آگيا۔
"کيوں؟" اس نے مشکوک نظروں سے اسے ديکھا۔ جو اسٹيرنگ چھوڑے پورے کا پورا اسکی جانب مڑا ہوا تھا۔
"بال باندھوں نا" واہب نے وضاحت دی۔
وہ سانس بھر کر مڑی کہ اس وقت واہب کی مدد لئے بغير گزارا نہيں تھا۔
واہب نے کيچر اتار کر اسکے سب بال سميٹے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر چہرہ اسکے بالوں کے پاس لے جاتے محبت بھرا لمس ان پر چھوڑا۔ راديا اس کا لمس اپنے سر پر محسوس کرکے يکدم کانپی۔ واہب نے جيسے ہی کيچر لگايا وہ چيخی۔
"آہ۔۔ اتنے زور سے نہيں لگانا تھا سارے بال کھچ رہے ہيں" اسکے چلانے پر پھر سے اس نے کيچر اتارا۔
"يار اب مجھے کيا پتہ کيسے لگاتے ہيں۔ ميرے خیال ميں روزانہ دو مرتبہ اسکی پريکٹس کرنی چاہئيے پھر ميں ايکسپرٹ ہوجاؤں گا" کيچر تھوڑا سا ڈھيلا کرکے لگاتے اب کی بار وہ شرارتی لہجے ميں بولا۔
راديا نے خاموش نظروں سے گھورا۔
"آئسرکريم کھاؤ گی" گاڑی سٹارٹ کرتے ہوۓ مزے سے پوچھا۔
"کيسے کھاؤں گی۔۔۔ ہاتھوں پر تو يہ لگی ہے" آئسکريم کے نام پر دل للچايا مگر ہاتھوں کی طرف بے چارگی سے ديکھا۔
"ڈونٹ وری اسکا بھی حل ہے" وہ اسکے منع نہ کرنے پر خوش ہوتا گاڑی آئسکريم پارلر کی جانب بڑھاتے ہوۓ بولا۔
پتہ نہيں کيوں اس لمحے واہب کا ساتھ۔۔ اسکی نظروں کی گرمائش۔۔ لہجے کی محبت سب اچھا لگ رہا تھا۔
کيا دل نے بند دروازے کھول دئيے تھے۔ کيا زخم سلنا شروع ہوگۓ تھے۔
اس نے گردن موڑ کر مردانہ وجاہت کے شاہکار اپنے شريک سفر کو ديکھا۔
واہب نے ايک آئسکريم پارلر کے سامنے گاڑی روکی۔ وہاں موجود لڑکا تيزی سے گاڑی رکتے ديکھ کر انکی جانب آيا۔
واہب نے اپنی جانب کا شيشہ نيچے گرايا۔
"سر يہ ليں۔۔ آپ کو کون سا فليور چاہئيے اس ميں سے" وہ لڑکا اپنے پروفيشنل انداز ميں واہب کو ايک کارڈ پکڑا کر مودب کھڑا پوچھ رہا تھا۔
واہب نے اس کارڈ پر موجود درج مختلف آئسکريم کے ناموں پر نظر دوڑائ۔
"کون سا لوگی" واہب نے ايک نظر راديا کو ديکھا۔
"ميں کھاؤں گی کيسے" وہ اپنے ہی مسئلے ميں الجھی ہوئ تھی۔
اس نے بنانا فج سوائرل کا آرڈر ديا۔
"کتنی سر؟" لڑکے نے پھر مودب ہو کر پوچھا۔
"دو" راديا اسے گھورے جارہی تھی۔
جيسے ہی لڑکا گيا واہب نے راديا کی جانب ديکھا تو قہقہہ لگاۓ بغير نہ رہ سکا۔
"آئسکريم کھانا ابھی مجھے کيوں کھانے کا ارادہ کررہی ہو" اپنے قہقہے کو بمشکل روک کر اسے بھرپور نظروں سے ديکھتے ہوۓ بولا۔
"کھاؤں گی کيسے۔۔ يہ ديکھيں ابھی بھی گيلی ہے" اس نے ہاتھ اسکے آگے کرتے ہوۓ ناراضگی سے کہا
"ميں کس لئے ہوں" واہب نے گہری نظروں سے ديکھتے گمبھير لہجے ميں کہا۔
راديا اسکی نظروں سے نروس ہوئ۔ چہرہ موڑ کر ونڈ سکرين سے باہر ديکھنے لگی۔
ليکن واہب کی ٹکٹکی بندھی رہی۔
راديا اسکی نگاہوں کی تپش کو خود پر بہت اچھی طرح محسوس کررہی تھی۔ نجانے کيوں مزاحمتی لہجہ آجکل ماند پڑ چکا تھا۔
"کيا مسئلہ ہے؟" آخر رخ موڑ کر دوبارہ اسے گھور کر ديکھا۔
ماتھے پہ بل نماياں تھے۔
واہب کی جان ليوا مسکراہٹ اسکے دل ميں شور برپا کر گئ۔
محبت سے اسکے ماتھے پر موجود بلوں پر شہادت کی انگلی پھيری۔
"اگر ميں تھوڑی بہت باتيں مان رہی ہوں نا تو فضول حرکتيں کرنے کی ضرورت نہيں" لڑکھڑاتی آواز پر بمشکل قابو پاتے اس نے رعب جمانا چاہا۔
"اتنی سی ہو آپ۔۔ يہ رعب کہاں سے لے آتی ہو؟" ہاتھ پيچھے کرکے سينے پر ہاتھ باندھے اپنی بولتی آنکھيں اسکی ناراض آنکھوں ميں گاڑے مزے سے بولا۔
اتنی دير ميں لڑکا آئسکريم لے کر آگيا۔
واہب نے شکريہ ادا کرتے دونوں کونز پکڑ ليں۔
"چلو لڑکی شروع ہوجاؤ" سيدھے ہاتھ والی آئسکريم اسکی جانب بڑھاتے اسے الرٹ کيا۔ راديا نے کچھ جھجھک کر آئسکريم کی پہلی بائٹ لی۔
پھر آہستہ آہستہ کھاتی رہی۔ واہب بھی شرافت سے اسے کھلاتارہا اور اپنی کھاتا رہا۔
"جس اسپيڈ سے کھارہی ہو مسز۔۔ يہ پگھل کر ميرے اوپر گر جانی ہے" واہب نے اسکی سست روی پر ٹوکا۔
"اب آپ کی طرح اتنا بڑا بڑا منہ نہيں کھول سکتی" وہ مزے سے اس پر چوٹ کرگئ۔
"اچھاويسے بے نيازی ہے مگر نظريں پوری طرح رکھی ہوئ ہيں مجھ پر" واہب نے آنکھيں سکيڑ کر کہا۔
پھر يکدم اسکی آئسکريم اپنی والی کے ساتھ ايکسچينج کردی۔
"يہ کيا؟" راديا اس حرکت پر حيرت سے بولی۔
"اب آپ يہ والی ٹيسٹ کرو ميں يہ ٹيسٹ کروں گا" آنکھوں ميں شرارت واضح ناچ رہی تھی۔
"دونوں ايک ہی تو فليور ہيں" اس نے پھر کندھے جھٹکتے ہوۓ کہا۔
"ہاں۔۔۔ مگر اس ميں آپکا ذائقہ گھل گيا ہے اس ميں ميرا۔ دونوں بدل کرديکھتے ہيں کس کی زيادہ ذائقہ دار ہے" راديا نے تيز نظر اسکے ہونٹوں ميں دبی مسکراہٹ پر ڈالی۔
"مجھے نہيں کھانی۔" يکدم پيچھے ہٹی۔
"چپ کرکے کھاؤ نہيں تو منہ پہ مل دوں گا" وہ بھی اپنے نام کا ايک تھا۔
"نہيں کھانی تو بس نہيں کھانی" وہ بضد ہوئ۔
"آپ جانتی ہونا اپنی منوا کر دم ليتا ہوں۔ کھاؤ شاباش۔۔ واہ آپکی والی ميں تو کھٹا ميٹھا ٹيسٹ ہے۔۔ آپ کی طرح" اسکی آئسکريم سے ايک بائٹ ليتے شرارت سے اسے ديکھتے ہوۓ کہا۔
اس نے بھی اب غصے ميں اسکی آئسکريم سے بائٹ لی۔
"اور يہ بالکل آپکی طرح ہے کڑوی کسيلی" اس کے غصے سے کہنے پر واہب اپنا قہقہہ نہيں روک سکا۔
"ويری گڈ۔۔ اچھا مشاہدہ ہے۔۔ چلو شاباش کھاتی جاؤ اور تبصرے کرتی جاؤ" وہ اسے پچکار کر بولا۔
"واہ۔۔۔۔ کيا ايک اور ذائقہ ۔۔۔ ميٹھا اور تھوڑا تھوڑا سڑيل" واہب نے ايک اور بائٹ ليتے اس پر تبصرہ کيا۔
اس نے بھی ايک اور بائٹ لی۔
"انتہائ گندا ذائقہ ہے۔۔ بے وفا اور مطلبی" دونوں بائٹ ليتے رہے اور ايک دوسرے پر تبصرے کرتے رہے۔
جب کھا چکے تب واہب نے ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر بڑے دھيان سے اس کا منہ صاف کيا۔
"واہ آج کيا سير حاصل آئسکريم کھائ ہے۔۔ بھرپور تبصروں کے سنگ" واہب نے اپنا منہ صاف کرکے گاڑی سٹارٹ کی۔
لہجے ميں اب بھی شرارت تھی۔
"آئندہ کبھی يہ مصيبت نہيں لگواؤں گی" راديا نے تيکھی نظر اس پر اور پھر اپنے ہاتھوں پر لگی مہندی پر ڈالی۔
"اب تو وقتا فوقتا يہ مصيبت آپ کو مول لينی پڑے گی۔ کيونکہ مجھے يہ ان ہاتھوں پر لگی بے حد اچھی لگ رہی ہے" واہب نے ايک سرسری مگر بھرپور نظر اس پر ڈالی۔
راديا اب کی بار خاموش ہی رہی۔
__________________________