رات ميں سونے کا وقت آيا تو تب بھی واہب نے زيبا کو اس کمرے ميں سونے سے منع کرديا۔
“آپ آرام سے ريسٹ کريں روزہ بھی رکھنا ہوگا صبح۔۔ بے آرام رہيں گی تو بی پی شوٹ کرجاۓ گا۔ ميں ہوں نا يہاں" واہب کے اصرار پر راديا کا دل کيا اسے بہروپيے کا دماغ ٹھکانے لگادے۔ وہ کيوں اب مہربان ہو رہی تھا۔ اب جب اسے ضرورت نہيں تھی۔ نہ اسکی نہ اس تعلق کی ۔ يہ آخری دھچکا بہت شديد لگا تھا۔
کيا تھا اگر وہ انسانيت کے ہی ناطے اسے اس دن تھام ليتا مگر جس طرح اس نے راديا کا ہاتھ جھٹکا۔ وہ جھٹکنا اسکے دل پر گھونسے کی طرح لگا تھا۔
اس چوٹ کی درد اب کبھی نہيں جانے والی تھی۔
“ديکھ لو بيٹا۔۔ تمہيں تنگی ہوگی۔۔" زيبا نے راديا کا خطرناک حد تک سنجيدہ چہرہ دیکھ کر کہا۔
وہ تو ماں باپ تھے انہوں نے واہب کو معاف کرديا تھا مگر وہ جس نے نجانے کيا کيا سہا تھا وہ کيسے معاف کرتی۔
“ميں نے فی الحال کچھ دن کا آف لے ليا ہے جو کوئی کام ہوگا وہ ميں گھر پر ليٹ ٹاپ پر کر لوں گا۔باقی ابو سنبھال ليں گے" اس نے رسانيت سے کہا۔
“اچھا چلو۔ کوئ مسئلہ ہو تو ہميں جگا دینا" وہ بادل نخواستہ وہاں سے اٹھيں۔
“زرينہ سے کہيں يہاں ليٹے۔۔" زيبا کے جاتے جيسے ہی واہب نے دروازہ بند کيا۔ راديا کی سپاٹ آواز سنائ دی۔
“ميں ہوں نا آپکے پاس" اس نے جیسے تسلی دلائ۔
“آپ ہين اسی لئے پريشانی ہے۔۔ رات کو اٹھ کر گر بھی گئ بيڈ سے تو آپ کيوں اٹھائيں گے" وہ زہر خند لہجے ميں بولی۔ واہب نے بڑے سکون سے اس کا يہ لہجہ برداشت کيا۔
کسی قسم کا ری ايکشن نہ ديکھ کر راديا حیران ہوئی۔
بڑے آرام سے اسکی دوائياں چيک کرکے اس نے نائٹ بلب آن کيا۔ لائٹ آف کرکے۔ اسکی جانب بڑھا وہ سانس روکے اسے اپنی جانب بڑھتا ہوا ديکھ رہی تھی۔
جھک کر اسے شانوں سے تھام کر آگے کيا۔ راديا کو لگا ايک سنسنی سی پورے جسم ميں پھيل گئی ہو۔ جو تين تکيے اسکے پيچھے ٹيک لگانے کے لئے رکھے تھے ان ميں سے دو ہٹاۓ۔
پھر اسے بازوؤں آگے کيا کيونکہ اس نے ابھی ٹانگ پر زيادہ زور نہيں دينا تھا۔
پھر دوبارہ سے اسے بيڈ پر اس طرح بٹھايا کہ وہ کمر سيدھی کرتی تو آرام سے ليٹ جاتی۔
راديا اسکے وجيہہ چہرے کو حيرت بھری نظروں سے ديکھ رہی تھی۔ نہ کوئ ناگواری تھی نہ کوئ بيزاری۔
ايسے جيسے محبتيں ٹپک رہی تھيں۔ وہ گم سم اسکی ايک ايک حرکت نوٹ کررہی تھی۔ اسے دوبارہ کندھوں سے تھام کر لٹايا۔
اسکی حيرت بھری نظروں ميں دیکھتے ايک جاندار مسکراہٹ اسکے چہرے پر پھيلی۔
پھر سيدھے ہوکر اسکی ٹانگوں پر کپڑا ديا۔
“کيوں کر رہے ہيں آپ یہ۔۔۔۔" آخر حیرت کو الفاظ ملے۔
“ميرا فرض ہے" بڑے آرام سے جواب ديا گيا ۔
“ميری کمزوری تو ويسے بھی اب آپکی نظروں ميں آگئ ہے ۔۔اب تو راستہ صاف ہے۔۔ اسے بہانہ بنا کر مجھے زندگی سے نکال ديں اور کسی اور کا ہاتھ تھام ليں۔" وہ اسکے قريب تکيہ رکھ کر ليٹا۔ ايک ہاتھ سر کے نيچے رکھے بڑی فرصت سے اسکی زبان کے تير سہہ رہا تھا۔۔
“وہ خير ميں لے ہی آؤں گا کسی کو زندگی ميں ۔۔۔۔ليکن آپ کو نہيں نکالنا۔۔ اگر نکال ديا تو لڑوں گا کس سے" شرارتی مسکراہٹ ہونٹوں ميں دباۓ وہ اسے پھر سے چڑا رہا تھا۔
“ہونہہ۔۔۔" راديا کو جب جواب سمجھ نہيں آيا تو غصے سے منہ دوسری جانب موڑ ليا۔
“ذہن پر اتنا بوجھ مت ڈاليں سوجائيں" تکيے پر سر رکھتے اسکا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ ميں تھاما۔ راديا نے جھٹکنا چاہا تو اور بھی مضبوطی سے تھاما۔
“ہاتھ ہٹائيں۔۔۔ کيوں پکڑا ہے" وہ دبے دبے انداز ميں چيخی۔
“اسی لئے کہ رات کو جب آپ ہلکی سی بھی جنبش کريں تو ميری آنکھ کھل جاۓ" محبت سے گندھا لہجہ راديا کے زخموں پر جيسے نمک بن کر لگا اور تکليف بڑھا گيا۔
“اتنی زحمت کی ضرورت نہيں تھی۔۔ اسی لئے کہا تھا زرينہ کو يہيں رکنے ديں" وہ سرد اور خشک لہجے ميں بولی۔
“کچھ دن کے لئے مجھے زرينہ سمجھ لو۔۔ اور اب خاموش ہو کر سوجاؤ۔۔پتہ نہيں کيسی نيند کی دوائی ڈاکٹر نے دی ہے لگتا ہے آپکی نيند اڑ گئی ہے" بڑبڑاتے ساتھ ہی وہ پھر سے آنکھيں بند کرکے ليٹ گيا۔
خاموشی چھائی تو راديا کو بھی نيند نے جکڑ ليا۔
___________________________
رات ميں کسی پل اس کا گلا خشک ہوا ايسے جيسے کانٹے چبھنے لگ گۓ ہوں۔ آنکھ کھول کر دائيں جانب سوئے واہب کی طرف ديکھا۔ اس کا ہاتھ ابھی اسکے ہاتھ ميں تھا۔
مگر گرفت اتنی مضبوط نہيں تھی۔
اس کا احسان لينے کی بجاۓ اس نے سوچا خود اٹھ کر پاس پڑے جگ سے پانی پی لے۔ ابھی ہاتھ آہستہ سے اسکے ہاتھ کے نيچے سے نکال ہی رہی تھی کہ واہب نے پٹ سے آنکھيں کھوليں۔
سرعت سے اٹھ بيٹھا۔ راديا نے کوفت سے اسے ديکھا۔
“کيا ہوا۔۔ کيا چاہئيے" تيزی سے اٹھ کر بيٹھا۔
“پانی لينا ہے ميں لے ليتی ہوں يہاں ہی تو پڑا ہے" اس کا بيزار سا لہجہ نظر انداز کرتے واہب اٹھا۔
اسکی سائيڈ پر آکر اسے اٹھنے ميں مدد دی۔
پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگايا جب راديا نے ناگواری سےاس کا ہاتھ جھٹک کر پيچھے کيا۔
“ٹانگ خراب ہے ہاتھ سلامت ہيں۔ ميں خود پی سکتی ہوں" راديا کی بات پر اس نے خاموشی سے گلاس اسکے ہاتھ ميں پکڑايا۔ پانی پی کر وہ واپس ليٹ گئ۔
“کيوں اتنے اچھے بن رہے ہيں۔۔ اب کون سا ڈرامہ رہ گيا ہے جو پلے کرنا باقی ہے" وہ الجھتی جارہی تھی۔ اسکی کسی تلخ بات پر وہ غصہ ہی نہيں ہورہا تھا۔ آخر ان چند دنوں ميں ايسی کيا کايا پلٹ ہوگئ تھی کہ وہ سب بھول گيا تھا۔ يہ بھی کہ وہ ايک ان چاہے رشتے کے سبب اسکے گھر۔۔ اسکے پاس موجود ہے۔
“صرف اتنی غرض ہے کہ شايد ميرے ايسا کرنے سے آپکی کوئ دعا مجھے لگے اور ميرے وہ کام جو سب الٹے ہوگۓ تھے سيدھے ہو جائيں" پرشوق نگاہوں سے اس کا الجھا بکھرا روپ ديکھا۔
“دعا تو کبھی نہيں نکلے گی اب" وہ تلخ لہجے ميں بولی۔
“لگی شرط" واہب نے يکدم اسکے سامنے اپنی چوڑی ہتھيلی پھيلائ۔
“مجھے ايسی بے ہودہ حرکتيں کرنے کا کوئ شوق نہيں" چہرہ موڑ کر وہ سپاٹ لہجے ميں بولی۔
اسی لمحے کمرے کا دروازہ بجا۔
واہب اٹھ کر بيٹھا۔
“آجائيں" زيبا نے اسکی اجازت ملتے ہی قدم اندر رکھے۔
“کيسی ہو بيٹا" محبت سے راديا کے قريب آتے اسکے ماتھے پر پيار کيا۔
“بہتر ہوں" اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر جواب ديا۔
واہب نے حسرت سے اسکی مسکراہٹ ديکھی۔
“بيٹا روزہ رکھنا ہے؟" اب ان کا رخ واہب کی جانب تھا۔
“جی جی کيوں نہيں۔۔" کہتے ساتھ ہی وہ واش روم منہ ہاتھ دھونے چل پڑا۔
“ميں نے بھی رکھنا ہے" اس نے ضد کی۔
“بيٹا ويسے تو کوئ مسئلہ نہيں۔۔ليکن دوائياں لينی ہوں گی تمہيں تو" وہ ہچکچائيں۔
“آنٹی ميں نے اور کرنا ہی کيا ہے سارا دن تو بس يہيں بيٹھے رہنا ہے کون سا کوئ کام کرنا ہے کہ روزہ لگے گا" اس نے پھر سے کہا۔
واہب باہر آکر انکی تکرار سن رہا تھا۔
“اوکے آج کا رکھ کر ديکھ لو۔۔ اگر صحيح رہا تو جاری رکھ لينا" واہب نے مسئلہ کا حل نکالا۔
“ڈاکٹر سے نہيں پوچھا نا بيٹا" زيبا نے پھر سے کہا۔
“آپ سحری تيار کروائيں ميں ڈاکٹر سے ابھی کال کرکے پوچھ ليتا ہون۔ وہ بھی تو اس وقت سحری کے لئے اٹھے ہوں گے نا" اس نے موبائل پکڑتے ہوۓ ايک اور حل نکالا۔
راديا نے چور نظروں سے اسکی چوڑی پشت ديکھی۔
پھر ڈاکٹر کی اجازت ملتے ہی واہب اس کی اور اپنی سحری کمرے ميں ہی لے آيا۔ بيڈ پر زرينہ نے سب سليقے سے رکھا۔
واہب نے اسکی پليٹ ميں سالن نکالا۔۔روٹی اسے تھمائ۔۔
سحری کرنے کے بعد راديا نے وضو کرنے کی بھی ضد کی۔
“ميں بيٹھ کر تو نماز پڑھ سکتی ہوں نا" اسکی بات پر واہب نے اثبات ميں سر ہلاتے اسے سہارا دے کر کھڑا کيا۔ آہستہ آہستہ اسے چلاتے واش روم تک لے کر گيا۔
اس کی کمر کے گرد بازو باندھتے اسے وضو کرنے کا اشارہ کيا۔ راديان نے بازوؤں تک سب وضو آرام سے کرليا۔ اب پاؤں دھونے کی باری تھی۔
“باہر چلو ميں ايک باؤل مين پانا لاتا ہوں ہاتھوں پر لگا کر ہلکا سا مسح کرلينا" واہب کی بات پر اس نے ہولے سے سر ہلايا۔ واہب نے دوبارہ اسکے کندھوں کو تھام کر ہولے ہولے چلاتے بيڈ کے قريب لايا پھر بٹھاکر اسکی ٹانگ آہستہ سے تھام کر اوپر رکھی۔
ايا باؤل ميں پانی لايا راديا نے مسح کرکے دوپٹہ نماز کے انداز ميں باندھا اور بيٹھ کر نماز ادا کی۔
واہب بھی اتنی دير ميں نماز سے فارغ ہوا۔
“مجھے قرآن پکڑا ديں گے؟" ايک اور خواہش۔۔
واہب سر ہلاتے باہر گيا۔ واپسی پر اسکے ہاتھ ميں قرآن تھا۔
راديا کو پکڑايا۔ اور خود دوسری جانب جاکر ليٹ گيا۔
راديا زير لب قرآن پڑھ رہی تھی۔
“سنو" يکدم واہب نے اسے پکارا۔ راديا نے سواليہ نظروں سے اسکی جانب ديکھا۔
“اونچی آواز ميں قرآت کرو" اسکی فرمائش پر راديا نے لب بھينچے۔ وہی دن پھر سے ياد آيا۔
ٹھنڈی سانس لے کر اونچی آواز ميں پڑھنے لگی۔
واہب نے سر اسکے قريب اسی انداز ميں رکھا۔
اسکی آواز کی مٹھاس اس کے اندر گھلتی جارہی تھی۔
____________________________
وہ تيزی سے ری کور کررہی تھی۔ بوتيک کا کام اسکی اسسٹنٹ سنبھال رہی تھی۔ ايک آدھ دن بعد زيبا چکر لگا ليتی تھيں۔ وہ سب اسے ہتھيلی کا چھالا بناۓ ہوۓ تھے۔
باقی سب کی محبتوں پر تو اسے شک نہيں تھا ليکن واہب کا خيال رکھنا اور يوں اسے اہميت دینا اسکے اندر آگ لگا ديتا تھا۔
اپنی کم مائيگی کا ايک ايک لمحہ ياد آتا تھا۔
اسکے لفظوں سے دئيے جانے والے زخم ابھی ہرے ہی تھے۔
سارا دن اسکے پاس ہی کمرے ميں رہتے وہ آفس کا کام کرتا رہتا۔ اور اس دوران اس کا ايک ايک کام خود کرتا۔
آخری عشرہ بھی اختتام کو تھا۔ جب اس دن وہ مارکيٹ گيا اور واپسی پر راديا کے لئے ڈھيروں شاپنگ کرکے لايا۔
رات ميں جس وقت وہ اسے چيزيں دکھا رہا تھا اس کا دل کيا سب کچھ اٹھا کر گھر سے باہر پھينک دے۔۔ وہ کيوں يہ سب عنايتيں کررہا تھا۔ اب کيا مقصد تھا اس کا۔
“بس کريں۔۔۔ اتنے اچھے بننے کی ضرورت نہيں۔۔ آپ کا اصل روپ ديکھ چکی ہوں تو پھر اب يہ اچھائی کا ماسک پہن کر کيا ثابت کررہے ہيں۔۔ ہاں" وہ غصے ميں بھڑکتی ہوئ سب چيزيں ہاتھ مار کر بيڈ سے گرا چکی تھی۔
“اگر آپ کی يادداشت کھو چکی ہے تو بتاتی چلوں کہ آپ سے عمر ميں پانچ سال بڑی ہوں ميں۔۔ايک ان چاہی بيوی۔۔۔مجھ سے تو نفرت تھی آپ کو ۔۔ پھر يہ نوازشيں کيوں۔۔
۔ بے فکر رہيں کسی کو آپکے بارے ميں کچھ نہيں بتاؤں گی۔۔ جب دوسری شادی کا کہيں گے آپ کا ساتھ دوں گی۔ مگر يہ سب کرکے ميری اذيتوں ميں اضافہ مت کريں۔۔۔۔ پليز" وہ بے اختيار ہو کررو پڑی۔
“اگر ميں اپنے کئے کی معافی مانگوں کيا پھر بھی يقين نہيں آۓ گا" واہب ايک ايک چيز اٹھا کر سامنے پڑے صوفے پر رکھ کر اسکی جانب آيا۔ اسکے قريب نيچے بيٹھتے ہوۓ بولا۔
“کيوں ۔۔ کيوں چاہئيے معافی۔ آپ درست تھے۔۔ اور آپ درست ہيں۔۔ مجھے اپنے ماں باپ کی مجبورياں نظر نہ آتيں تو کبھی ايسا ابنارمل رشتہ نہ جوڑتی۔۔ ہر لمحہ ہر لمحہ آپ نے مجھے يہ احساس دلايا کہ ميں کوئی عمر رسيدہ عورت آپکے پلے بندھ گئی ہوں۔۔۔ مجھے اب آپکی معافی سے کوئ سروکار نہيں۔۔
ہمدردی کررہے ہيں نا۔۔ معذور ہوں مگر اتنی نہيں کہ اپنا بوجھ خود نہ اٹھا سکوں گی۔ بس اپنے ٹھيک ہونے کا انتظار کررہی ہوں جيسے ہی چلنے پھرنے لگی۔ آپ کی زندگی سے چلی جاؤں گی" اس کا ايک ايک لفظ واہب کو تکليف سے دوچار کررہا تھا۔
“يہ ہمدردی نہيں ہے بے وقوف" وہ ہولے سے مسکرايا۔
“اوہ۔۔بس کريں۔۔ محبت کے جھوٹے ڈھونگ مت رچائيں۔ صرف اسی لئے کہ ميں آپکی شخصيت سے متاثر ہوکر آپکے عشق ميں گرفتار نہيں ہوئ۔ آپ سے رحم کی بھيک نہيں مانگی۔۔۔ تو اس سب کا بدلہ يوں لے رہے ہيں۔ مجھ سے فلرٹ کرکے۔۔۔”
“ آنسو بے دردی سے صاف کرتی وہ بدگمانيوں کی انتہا پر تھی۔
“ہمارے معاشرے کا الميہ يہ ہے کہ بڑی عمر کی عورت سے شادی نہيں کرنی۔ ہاں فلرٹ جائز ہے۔
نجانے کتنی لڑکياں مجبوريوں کی آڑ ميں گھروں ميں بيٹھی ہيں۔ مگر لڑکوں نے ناجائز تعلقات تو بنا لينے ہيں مگر کسی بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرکے اسے عزت نہيں دينی۔
اگر يہ ايسا ہی گناہ کا کام ہوتا تو ہمارے اسلام ميں ۔۔ ہمارے آخری پيارے نبی اپنی پہلی ہی شادی ايک بڑی عمر کی عورت کے ساتھ نہ کرتے۔ دس سال ۔۔۔پندرہ سال۔۔ حتی کے بيس بيس سال چھوٹی لڑکيوں سے شادی کرتے ہوۓ آپ جيسے لڑکوں کو شرم نہيں آتی ۔ مگر بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرتے غيرت جاگ پڑتی ہے۔ ناانصافی لگتی ہے۔
چار شاديوں کے لئے تو آپ مردوں کو دين ياد آجاتا ہے کيونکہ وہاں اپنی غرض شامل ہوتی ہے۔
ہاں ليکن بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرتے وقت اسے گناہ تصور کيا جاتا ہے ايسے جيسے وہ اچھوت ہو۔
آپ نے بھی مجھے اچھوت سمجھا۔ شروع دن سے بس يہی باور کروايا۔ ميری عمر بڑی ہے۔۔ ميری عمر بڑی ہے
کيا سوچ کر اب آپ محبت کے دعوے کررہے ہيں۔مطلب بھی جانتے ہين محبت کا۔۔ احساس۔۔ پيار۔۔۔ ايک دوسرے کو سمجھنا۔ ايک دوسرے کے لئے قربانی۔ آپ تو ميرا ہاتھ نہيں تھام سکتے مجھے سہارا نہيں دے سکتے۔
ہا۔۔۔ محبت کريں گے مجھ سے"جب وہ بولے پر آئ تو اگلے پچھلے تمام حساب چکا دئيے۔ واہب نے اسے ايک پل کو بھی نہيں ٹوکا۔
جتنی نفرت اسے دی تھی اسکے حساب سے تو يہ کچھ بھی نہيں تھا۔
“ہاں ميں جانتا ہوں مجھ سے يہ سب غلطياں سرزد ہوئيں۔ وہ شايد ردعمل تھا۔
کوئ بھی ميری بات سمجھنے کو تيار نہيں تھا۔ اور پھر لوگوں کی رشتہ داروں کی چہ مگوئياں۔ ہماری شادی پر بہت سے لوگوں کو مين نے يہ کہتے سناکہ' زيبا بھابھی اور سميع بھائ کو اتنی کيا جلدی تھی واہب کی شادی کی۔ اچھے بھلے لڑکے کی پانچ سال بڑی سے شادی کردی' تو کوئ يہ کہہ رہا تھا کہ' شہاب کا کيا دھونے کی خاطر بيچارے واہب کو پھنسا دیا’
خود سوچو ہم ايک معاشرے ميں رہتے ہيں جہاں ہر سوچ اور ذہن رکھنے والے لوگ موجود ہيں۔ اور لوگوں کی باتيں اتنی کاٹ دار ہوتی ہيں کہ وہ اچھے بھلے انسان کا دماغ خراب کرديں۔
ميں پہلے ہی الجھا ہوا تھا اس پر لوگوں کی باتيں۔
بس ميں وہ سب کرگيا جو مجھے نہيں کرنا چاہئيے تھا۔
مگر آپ اگر تھوڑا سا مجھے سمجھ ليتی شايد حالات بہتر ہوتے۔
آپ کا دل شکن رويہ ميری ہر بات پر پورا مقابلہ۔۔" اسکی بات ختم نہيں ہوئ تھی کہ راديا کچھ کہنے کے لئے منہ کھولنے لگی۔
“پليز پوری بات سن لو" واہب نے اسے روکا۔
“ميں آپ کو قصوروار نہيں کہہ رہا کيونکہ شروع ميں نے کيا تھا۔ ظاہر ہے آپ کو اپنا بھرم رکھنے کے لئے اتنا تو کرنا ہی تھا۔
بہرحال جو بھی ہوا ميں اپنے کئے پر بے حد نادم ہوں۔ بس اتنی خواہش ہے کہ مجھے معاف کردو۔
آپکا ہاتھ جھٹکنے کا کفارہ تو ساری عمر دينا ہوگا۔
مگر آپ اب ميرا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک کر بدلہ لے رہی ہو" واہب اسے اپنے رويے کی ايک ايک وجہ بتاتا چلا گيا۔
“نہيں واہب ميں اتنی آسانی سے وہ سب نہيں بھول سکتی۔ بنا کسی قصور کے آپ نے اتنا کچھ کہہ ديا۔۔مجھے عجيب نفرت ہونے لگ گئ ہے خود سے" وہ کھوۓ ہوۓ لہجے ميں بولی۔
“اچھا بتاؤ کيا کروں کہ آپ ان سب باتوں کو بھول جاؤ" واہب نے ہتھيار پھينکتے ہوۓ مصالحت بھرا لہجہ اپناتے ہوۓ کہا۔
“مجھے اپنی زندگی سے جانے ديں" راديا کی بات پر وہ سن رہ گيا۔
“اور کتنی اذيت دوگی" کيا کچھ نہيں تھا اس بے بس لہجے ميں۔
“جب تک ميری اذيت کم نہيں ہوتی" وہ گود ميں رکھے ہاتھوں کی جانب دیکھتے کھردرے لہجے ميں بولی۔
واہب نے لب بھينچے۔ اس کے پاس سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔
چند لمحے اسکے جھکے سر کو دیکھتا رہا۔
پھر جھک کر اسکی پيشانی پر محبت کی مہر ثبت کر کے پيچھے ہٹ گيا۔
راديا نے نفرت سے ماتھا رگڑا۔
جيسے اس کا لمس مٹانے کی کوشش کررہی ہو۔
واہب نے تکليف سے يہ منظر دیکھا۔
خاموشی سے گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گيا۔
راديا اب خود کافی ہل جل ليتی تھی۔
گردن موڑ کر اسے باہر جاتا ديکھا۔
پھر خاموشی سے آگے ہوئ اور تکيے پر سر رکھ کر ليٹ گئ۔ دل کی بھڑاس تو نکال چکی تھی مگر نيند پھر بھی آنکھوں سے کوسوں دور تھی
______________________________
وہ بے مقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا۔ ايک ہاتھ اسٹيرنگ پر تھا تو دوسرا بالوں ميں پھير رہا تھا
راديا کا ايک ايک لفظ سچ تھا۔ واقعی اس معاشرے ميں ہم نے ايک نہايت جائز رشتے کو گناہ بنا ديا ہے۔
جہاں کوئ لڑکا بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرے۔ نہ صرف لڑکے کو باتيں سنائ جاتی ہيں۔ ب
بلکہ لڑکی کو سب سے زيادہ تضحيک کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔ بار بار يہ جتايا جاتا ہے کہ'اپنی عمر ديکھے اور يہ لچھن’
‘ہو ہاۓ۔۔چھوٹے لڑکے سے شادی کرلی اتنا بھی کيا بے شرمی۔’
‘اس کو ديکھو اسکی جوانی ہی ختم نہيں ہورہی اپنے سے چھوٹے سے شادی کرڈالی۔' اور نجانے کتنے ہی ايسے زہر ميں ڈوبے الفاظ استعمال کئے جاتے ہيں۔
ايک لڑکا اور لڑکی چاہے جس بھی عمر کے ہوں وہ ناجائز تعلق قائم کرليں۔ ہميں وہ گوارا ہے مگر کيا جائز رشتے ميں بندھ جائيں تو اسے ہم ناجائز بنانے پر تل جاتے ہيں۔
واہب کو اپنا آپ بالکل خالی محسوس ہورہا تھا۔
پڑھا لکھا ہو کر بھی اس نے کتنی گھٹيا حرکت کی تھی۔
وہ جب جب اسکے ساتھ کھڑی ہوتی اسے ماں کے الفاظ ياد آتے۔' تم اس سے بڑے لگتے ہو وہ چھوٹی ہی لگتی ہے' وہ اتنی نازک سی تھی کہ واہب کو کئ بار ماں کی کہی يہ بات سچ لگی۔
اور اگر وہ اتنی کامنی سی نہ بھی ہوتی تو بھی کيا۔
بہت سی لڑکياں شادی کے بعد اتنی بے ڈول ہوجاتی ہيں کہ مياں سے بڑی لگتی ہيں۔ چاہے دس سال چھوٹی ہوں۔
‘افف ميں نے کيوں اتنی جلدبازی اور بے وقوفی کا ثبوت دیا تھا' اسے رہ رہ کر خود پر غصہ آرہا تھا۔
کيسے وہ اسکے دل سے اپنے الفاظ کو کھرچ ڈالے۔
صحيح کہتے ہيں 'زبان سے نکلے الفاظ اور کمان سے نکلا تير کبھی واپس نہيں آتے' بس پچھتاوا رہ جاتا ہے۔
اور وہ پل پل اب اس پچھتاوے کی آگ ميں جھلس رہا تھا۔
There’s a time of day
When the night it seems like it’s never gonna fall
But I find a way
Yeah I’ll fight and if I can’t walk you know I’ll crawl
When I close my eyes
Well I’m back to where I wish I was for now
Going back in time
And I stay as long as my mind will allow
So tell me once, tell me twice
Tell me three times, tell me four
Tell me what ya want to do
Tell me what you need
Tell me what you seem to dream the most
Cause I’ll be anything for you
Well I don’t know why
But time can’t seem to temper my regret
Sometimes I lie
To myself and say I’ve learned how to forget
Well it seems to me
That you couldn’t help yourself but to deceive
And I came to see
That the way I’ve learned to live is justly
I’m running circles
I’m outta my mind
I lost my grip
On this thing called time
I’m gone
It’s gone
I’m empty still
But I’ll keep moving
I always will
I’m gone
وہ پل پل اس آگ ميں جھلس رہا تھا کہ کاش وہ وقت کو پيچھے لے آتا۔۔ کاش وہ اپنے اور راديا کے رشتے کو يوں بگاڑنے کی بجاۓ کچھ وقت دے ديتا۔
مگر اب لگتا تھا کچھ نہيں بچا۔ وہ تو واپس پلٹنے کو تيار ہی نہيں تھی۔
________________________