صبح جس وقت وہ لوگ ناشتہ کررہے تھے تب اچانک زيبا کی نظر واہب کے ہاتھ پر پڑی۔ جہاں راديا کے دانتوں کے نشان لال ہونے کے بعد اب گہرے رنگ ميں بدل چکے تھے ايسے جيسے نيل کا نشان ہو۔
"تمہارے ہاتھ پہ کيا ہوا ہے؟" زيبا کے سوال پر سميع اور راديا کی نگاہ بھی اچانک اسکے ہاتھ پر پڑی۔ راديا نے تو سرعت سے نگاہ ہٹائ۔
مگر سميع نے بھی پريشان ہو کر ديکھا۔
واہب کی گہری نگاہوں نے پل بھر کو اس بے نياز کو ديکھا جس کی يہ کارستانی تھی۔ وہ سامنے والی کرسی پر زيبا کے ساتھ بيٹھی تھی۔
"پتہ نہيں شايد رات مين کسی بہت ہی زہريلے کيڑے نے کاٹ ليا ہے" اسکی آواز کی گھمبیرتا پر راديا کی پلکيں لرزيں۔
"تو ڈاکٹر کو دکھاؤ ايسے لائٹ مت لو" سميع نے اسے تنبيہہ کی۔
"جی بس ابھی آفس جاتے ہوۓ دکھاتا جاؤں گا" اس نے سر اثبات ميں ہلاتے کہا۔
"راديا بيگ کہاں ہے تمہارا" زيبا نے اس سے نظر ہٹا کر راديا کو مخاطب کيا۔
"جی وہ ابھی اوپر کمرے ميں ہے۔ ميں اپنا ہينڈ بيگ لينے جاتی ہوں تو لے آتی ہوں" راديا اور زيبا کی باتيں اسکی سمجھ ميں نہيں آرہی تھين۔ کس بيگ کی وہ بات کررہی تھيں۔
"چلو ٹھيک ہے امی ابو کو بہت سلام کہنا۔ اور بس دو دن ميں واپسی کرلينا ميں بہت اداس ہوجاؤں گی" واہب نے پھر ناسمجھی کے انداز سے ساس بہو کے اس پيار کو ديکھا۔
"جی ضرور" وہ محبت سے کہتی ڈائننگ روم سے نکل کر سيڑھيوں کی جانب چل پڑی۔
"کہيں جارہی ہے يہ؟" اسکے سوال پر سميع اور زيبا نے ايک نظر ايک دوسرے کو ديکھا۔
"ہاں اپنی امی کی طرف۔"
"کيوں؟" نجانے کيا ہوا ايک دم سے پوچھ بيٹھا۔
آگے رمضان آنے والا ہے تو پھر کہاں نکلا جاۓ گا اسی لئے۔۔کيوں تمہيں نہيں بتايا راديا نے؟" اسے تفصيل بتاتے انہوں نے الٹا اس سے سوال کيا۔
"نہيں شايد بتايا تھا ميرے ذہن سے نکل گيا ہے" وہ بات بنا کر اپنی کرسی سے اٹھا۔
تھوڑی ہی دير بعد وہ سميع اور زيبا سے مل کر اسکے ساتھ گاڑی ميں آکر بيٹھی۔
نجانے کيوں واہب کو غصہ آرہا تھا۔ حالانکہ انکے درمیان جو حالات تھے اس بناء پر اس کا غصہ کرنا بنتا نہيں تھا۔ اور وہ يہ بات جانتا تھا مگر پھر بھی نجانے کيوں غصہ آرہا تھا۔
"اس وقت چھوڑوں تمہارے گھر يا شام ميں؟" آخر جب گاڑی مين روڈ پر ڈالتے بھی اس نے کچھ نہيں بتايا تب واہب نے لہجے کو سادہ رکھتے ہوۓ پوچھا۔
"نہيں ابھی تو بوتيک ہی جاؤں گی۔ وہاں سے شام ميں ابا پک کرليں گے" وہ بڑے آرام سے اپنا پروگرام بتا کر بولی۔
"يہ بھی امی کو کہنا تھا مجھے بتا ديتيں۔ آپ کو بتانے کی زحمت گوارا نہ کرنی پڑتی" وہ دانت کچکچکا کر بولا۔
راديا نے حيرت سے اسکے چہرے پر موجود نافہم سے تاثرات ديکھے۔
"ميں آپ کو بتاؤں بھی تو کس ناطے سے؟" الٹا اس سے سوال کيا۔
"يہ جو روز ميرے ساتھ جاتی ہو يہ کس ناطے سے؟" اس نے بھی سامنے ديکھتے ہوۓ الٹا سوال کيا۔
"يہ تو آنٹی نے کہا اسی لئے انکی بات کا مان رکھنے کے لئے جاتی ہوں۔" اس کی بات پر واہب سلگ کر رہ گيا۔
"اوہ اچھا۔۔ ماں باپ نے کہا شادی کرلو۔۔ کرلی۔۔۔ آنٹی نے کہا۔ واہب کے ساتھ جاؤ۔۔۔ تو چل ديں۔۔ اتنی ہی معصوم ہيں آپ" وہ جل کر بولا۔ راديا کو سمجھ نہيں آرہی تھی کہ وہ اتنا الجھ کيوں رہا ہے اسکے ساتھ۔
"ہاں بالکل ايسے ہی جيسے آپ نے پہلی رات کہا اجازت نامے پر سائن کردو ميں نے کردئيے" وہ بوتيک کے نزديک آچکے تھے جب راديا نے جواب ديا۔ گاڑی روک کر متحير نظريں اسکی کچھ جتاتی نظروں کو ديکھنے لگيں۔
راديا نے بيگ پکڑا اسے خداحافظ کہتی گاڑی سے اتر گئ۔
صحيح تو کہہ رہی تھی وہ۔۔۔۔۔ اسکے ساتھ تعلق شروع کرتے بھی تو راديا نے اسی کی بات مانی تھی۔ پھر يہ واويلا کيسا تھا۔
اور تعلق تو اس نے کوئ نہيں رکھا تھا۔ وہ تو نبھا رہی تھی۔
______________________
اگلے دو دن واہب کے انتہائ بيزاری کے عالم ميں گزرے۔ ہر کسی کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ خاص کر کمرے ميں آتے ہی عجيب وحشت ہولے لگتی۔
پھر گاڑی کی چابی اٹھاتا اور بے مقصد آدھی آدھی رات تک باہر سنسان سڑکوں پر گاڑی لئے پھرتا رہتا۔
اسے خود اپنی کيفيت سمجھ نہيں آرہی تھی۔
ہر وقت دماغ ميں راديا کی باتيں۔ اس کا انداز اسکا ہنسنا اور اسکے آنسوؤں سے بھری آنکھيں گھومتی رہتیں۔
'کيا ہوگيا ہے۔۔۔ پاگل ہوں ميں بھی' خود کو بے طرح جھٹلاتا رہا کہ يہ چند دن اسکے ساتھ گزارنے کی وجہ سے ہے۔ ہر وقت اسے نيچا دکھانے کی وجہ سے وہ اسکے حواسوں پر سوار ہوچکی ہے۔
مگر کچھ کيفيتيں ايسی ہی ہوتی ہيں۔ بے نام سی۔ جنہيں انسان محسوس کرتے ہوۓ بھی محسوس نہيں کرنا چاہتا۔
جب دل شدت سے کسی ايک ہستی کی جانب کھيچ رہا ہو۔ جب ہر منظر اسکے بغير ادھورا لگ رہا ہو۔ ہر رنگ بے رنگ لگے تو وہ بے نام سی کيفيت محبت کے سوا اور کچھ نہيں ہوتی۔
مگر واہب تو اسے اپنی زندگی سے نکالنے پر تلا تھا کجا کہ اپنے دشمن سے محبت۔
بہت بار گہری نفرت گہری محبت ميں تبديل ہوجاتی ہے اور يہی کچھ واہب کے ساتھ ہورہا تھا۔ ہر لمحہ اسکے قريب رہنے ۔۔۔ اسے جان بوجھ کر مخاطب کرنے کے چکر ميں اسے پتہ ہی نہيں لگا وہ کب اس کا عادی ہوا۔
اور پھر يہ عادت محبت ميں بدل گئ۔
مگر وہ اتنی آسانی سے حقيقت ماننے والوں ميں سے نہيں تھا۔
________________________
آفس سے واپسی پر جس لمحے وہ گھر ميں داخل ہوا۔ راديا کی چہکتی آواز يوں محسوس ہوئ جيسے اسکے کانوں ميں رس گھول گئ ہو۔ ساری بے چينی، اکتاہٹ اور چڑچڑا پن لمحوں ميں رفوچکر ہوگيا۔
'کيا اب بھی خود کو جھٹلاؤ گے' دل نے گويا اسکی آنکھيں کھولنا چاہيں۔ مگر وہ سختی سے اسے ڈپتا ہوا آگے بڑھا۔
سامنے ہی وہ دشمن جاں صوفے پر بيٹھی پتہ نہيں کون سے قصے زيبا کو سنا رہی تھی۔ جو وہ کبھی ہنستيں اور کبھی اسے غور سے سننے لگتيں۔
"السلام عليکم" وہ سنجيدگی سے سلام کرتا ايک صوفے پر ٹک گيا۔
اسے ديکھ کر راديا کی بولتی بند ہوچکی تھی۔
"وعليکم سلام" زيبا نے بڑے پرجوش انداز ميں اسکے سلام کا جواب ديا۔ جس سے سننے کی خواہش تھی وہ زيرلب سلام کا جواب دے کر خاموش ہوچکی تھی۔
"کل سے کيا ٹائمنگز ہيں تمہاری" زيبا نے رمضان کے حوالے سے پوچھا۔
"دس سے چار کردی ہے ميں نے۔" سميع کا سب بزنس وہی سبھالتا تھا۔
"چلو اچھا ہے ٹائم سے گھر آکر ريسٹ کرليا کرنا" زيبا نے سراہا۔
"ميرے کمرے ميں چاۓ بھجوا ديں" دل تو نہيں کررہا تھا کہ اس کے سامنے سے اٹھے۔ ليکن دو دن کی ادھوری نينديں بھی تو پوری کرنی تھيں نا۔ اٹھ کر ايک خاموش مگر کسی قدر گہری نظر اس پر ڈال کر وہ اوپر چلاگيا۔
راديا کو اسکی نظروں کی تپش بری طرح محسوس ہوئ۔
'سوچ رہا ہوگا پھر آگئ ڈھيٹ' دکھ سے سوچتے وہ اور بھی دل برداشتہ ہوئ۔
کب تک اسکی يہ بے رخی سہتی۔ آخرتو نازک مزاج رکھنے والی لڑکی تھی۔وہ لمحہ بہ لمحہ اندر سے ٹوٹ رہی تھی۔ گھل رہی تھی۔ مگر وہ اپنے اندر ہونے والی توڑپھوڑ کس کو بتاتی۔ سبھی تو اسکی زندگی کو پرفيکٹ سمجھ رہے تھے۔ ماں باپ سے کہتی يا یہاں انکل آنٹی سے۔
___________________
صبح سحری کے لئے راديا نے الارم لگا ديا تھا۔ جيسے ہی الارم بجا وہ فورا اٹھ کر منہ ہاتھ دھونے چل پڑی۔ باہر آئ تو واہب ويسے ہی بے سدھ پڑا تھا۔
ٹھنڈی سانس کھينچ کر دوبارہ سے الارم لگايا اور اسکے سرہانے رکھ کر باہر نکل آئ۔
نيچے آئ تو زرينہ پہلے سے ہی وہاں موجود تھی۔ راديا نے اسکے ساتھ مل کر سحری بنانی شروع کی۔ وہ اچھی کوکنگ کرليتی تھی۔ جلدی جلدی پراٹھے بنانے شروع کئے۔ زيبا بھی تھوڑی دير بعد ان دونوں کی مدد کروانے پہنچ گئيں۔
"بيٹا جاؤ واہب کو اٹھا آؤ" جيسے ہی اس نے آخری پراٹھا توے سے اتارا زيبا نے لسی بناتے ہوۓ اسے کہا۔
"آنٹی ميں انکے سرہانے موبائل پر الارم لگا کر رکھ آئ تھی اب تو اٹھ گۓ ہوں گے۔" اس نے جانے سے کنی کترائ۔
"چلو پھر بھی ايک بار ديکھ آؤ" وہ اسے بھيجنے پر بضد تھيں راديا اب کی بار خاموشی سے کچن سے نکل کر سيڑھيوں کی جانب بڑھی۔
کمرے ميں داخل ہوئ تو وہ ويسے ہی سو رہا تھا۔
فورا آگے بڑھ کر الارم چيک کيا تو وہ بج بج کر بند ہوچکا تھا۔
"توبہ ہے آج کيا گھوڑے گدھے بيچ کر سوئے ہيں حضرت۔۔ اٹھ ہی نہيں رہے۔" اب کی بار دوبارہ سے ايک منٹ کا الارم لگا کر خود بھی وہيں کھڑی رہی۔ واہب جو سيدھے ہاتھ کی جانب کروٹ لئے ليٹا تھا۔ آنکھوں کی جھری سے اسکا جھنجھلايا روپ ديکھا۔
اس وقت وہ اتنی پياری لگ رہی تھی کہ دل يوں ہی اسے ديکھتے رہنے کی ضد کرتا رہا۔
"جب تک بازو سے پکڑ کر نہيں ہلاؤ گی۔ ميں نہيں اٹھوں گا" واہب کی آواز پر اسکے موبائل پر الارم سيٹ کرتے ہاتھ ساکت ہوۓ۔
"اٹھ جائيں شرافت سے اب اگر نہ اٹھے تو ميں آنٹی کو بھيجوں گی" اس نے جل کر دھمکی دی۔
'نخرے تو دیکھو جيسے ميں کوئ بڑی چہيتی بيوی ہوں' اس نے دل ميں جل کر سوچا۔
"ٹھيک ہے بھيج دو۔۔ ميں بھی کہوں گا اس نے تو مجھے اٹھايا ہی نہيں۔۔" وہ مزے سے اپنی سوچی سمجھی سکيم شئير کرنے لگا۔
"کيا مصيبت ہے اٹھيں۔۔ ٹائم نکل جاۓ گا سحری کا۔۔ چونچلے تو دیکھو" جھنجھلا کر بولتی آخری کے لفظ منہ ميں بڑبڑا کر رہ گئ۔
"تو اٹھاؤ نا آکر" وہ مزے سے کروٹ بدلتے ہوۓ مسکراتے لہجے ميں بولا۔
سحری کا ٹائم نکلنے کا ڈر نہ ہوتا تو کبھی اسکی بات نہ مانتی۔
غصے سے آگے بڑھ کر زور زور سے اس کا کندھا ہلايا۔
"اچھا بس اب کندھا توڑنا ہے ميرا" واہب اپنی فتح پر مسکراتا ہوا اٹھا۔
"اللہ کرے دوسری شادی کے بعد ہر سحری پر اٹھ پيرا روزہ رکھنا پڑے" غصے سے اسے بددعا ديتی وہ کمرے سے نکل گئ۔ واہب کے قہقہے نے کمرے سے نکلتے وقت اس کا پيچھا کيا۔
شرافت سے نيچے آکر اس نے سب کے ساتھ بيٹھ کر سحری کی۔
راديا نے سب چيزيں سميٹ کر کچن صاف کيا۔ سميع اور واہب مسجد جاچکے تھے نماز پڑھنے۔
زيبا بھی اپنے کمرے ميں نماز پڑھنے جاچکی تھيں۔
اس نے بھی اپنے کمرے کا رخ کيا۔ واش روم سے وضو کرکے نکلی۔ الماری کھول کر نيچے والے خانے سے جاءنماز نکالنے لگی کہ نظر واہب کی سامنے ہينگ ہوئ شرٹس پر پڑی۔
سب سے آگے وہ شرٹ تھی جو اس نے صبح پہن کر جانی تھی۔ کچھ سوچ کر آنکھوں ميں شرارت لئے اسکے سارے بٹن توڑ دئيے۔
الماری بند کرکے خود کو شاباشی دی۔ کچھ دير پہلے سحری پر اٹھانے کا بدلہ اس نے لے ليا تھا۔
جو بھی ہوگا کچھ دير تو وہ جھنجھلاۓ گا۔ اتنا ہی راديا کے لئے کافی تھا۔
نماز پڑھ کر اسکے آنے سے پہلے سوگئ۔
____________________
صبح جس وقت واہب نے شرٹ نکال کر شيشے کے سامنے کھڑے ہوتے بٹن بند کرنا چاہا تو وہ ندارد۔
راديا بھی وہيں موجود کمرے کی چيزيں سميٹتے مسکراہٹ ہونٹوں ميں دباۓ گاہے بگاہے اسکی پريشان حالت ديکھ کر مزہ لے رہی تھی۔
ايک بٹن کے بعد ہاتھ دوسرے بٹن کی جانب کيا وہ بھی غائب پھر تيسرا چوتھا سب غائب۔۔ فورا کف کے بٹن چیک کئے وہ بھی نہيں۔ يہ تو بالکل نئ شرٹ تھی ڈرائ کلين کے لئے بھی ابھی تک نہيں گئ تھی۔
پريشان صورت لئے اسکی نظر شيشے ميں نظر آتے راديا کے مسکراہٹ روکتے چہرے پر پڑی۔ يکدم بہت کچھ سمجھتے۔ مڑ کر اسے ديکھا۔ اس نے سرعت سے رخ موڑا۔
آنکھيں سکيڑے وہ اسے گھورنے ميں مگن تھا۔
"ادھر آؤ" يکدم اسکی آواز پر راديا نے مڑ کر اسکی جانب حيرت سے ديکھا۔ پھر اپنی جانب اشارہ کرکے گويا تصديق چاہی کہ اسی کو بلايا ہے۔
"يہاں کيا آپکے بھوت رہتے ہيں جنہيں بلا رہا ہون۔ ادھر آؤ" يکدم دھاڑا۔
"جو کہنا ہے يہيں سے کہيں" وہ بھی اپنی جگہ ٹس سے مس نہ ہوئ۔
"اس سب بکواس کا مطلب" وہ بھنا کر بولا۔ اس قدر مہنگی شرٹ اس نے خريدی تھی جس کا وہ تيا پانچہ کرچکی تھی۔
"اس سب بکواس کا جواب ۔۔۔۔۔۔ جو آپ نے سحری سے پہلے کيا تھا" مزے سے اسے جتا کر اپنے بيگ ميں موجود چيزيں چيک کرنے لگی۔
"وہ مذاق تھا"
"اوہ اپنی بار مذاق۔۔ تو يہ بھی مذاق ہے۔۔"
"ادھر آؤ اور وہ بٹن ڈھونڈ کر انہيں لگاؤ" وہ حکميہ لہجے ميں بولا۔
"اس شرٹ کو اتار کر سببھال ليں۔ دوسری بيوی کو پہلی رات گفٹ کرکے اسی سے بٹن لگوائيے گا" مزے سے اسے مشورہ دیتی کمرے سے باہر جا چکی تھی۔
"جاہل" وہ غصے سے شرٹ اتارتے ہوۓ بولا۔
____________________
واہب بھی سلگتا ہوا شرٹ بدل کر گاڑی ميں بيٹھ چکا تھا۔ تھوڑی دير بعد راديا بھی مزے سے اسکے برابر آکر بيٹھ گئ۔
گاڑی گھر سے باہر نکالتے اس سے بدلہ لينے کے لئے دل مچلا۔ تھوڑی ہی آگے جاکر گاڑی روکی۔
"اترو" واہب کے تنے نقوش اور سنجيدہ تاثرات پر اس نے حيرت سے اسے ديکھا۔
"مجھے بوتيک جانا ہے" اس نے جيسے حيران ہو کر اسے ياد دلانا چاہا۔
"ڈرائيور نہيں ہوں۔۔۔۔اترو۔۔ کوئ بھی کيب يا رکشہ پکڑو اور اپنے بوتيک جاؤ" راديا کو سمجھ آگيا صبح کی کھولن اب نکال رہا ہے۔
وہ خاموش ہوکر موبائل کھول کر بيٹھ گئ۔
"سنائ نہيں ديا" اب کی بار وہ غرايا۔
"اچھا نا۔۔ اتر جاتی ہوں اس شاہی سواری سے۔ کريم منگوا رہی ہوں۔ آتی ہے تو اتر جاؤں گی" وہ مزے سے ہاتھ اٹھا کر بيزار انداز ميں بولی۔
وہ حيرت سے اس شاہانہ مزاج کو ديکھ رہا تھا جس پر اسکی کسی ڈانٹ پھٹکار کا کوئ اثر نہيں ہوتا تھا۔ جبکہ اسکے مقابلے ميں اسکی کسی بھی بات کے ردعمل کے طور پر وہ اپنا خون جلانے لگ جات تھا۔ اپنا ٹمپر لوز کر جاتا تھا۔
"نہيں ابھی اترو" وہ پھر سے اپنی بات پر ڈٹا رہا۔
اب کی بار راديا نے ايک تيز نظر اس پر ڈالی۔
"اچھا ٹھیک ہے ميں انکل کو کال کرکے کہتی ہوں واہب مجھے سڑک پر اتارنا چاہ رہے ہيں۔ پھر انکل جانيں اور آپ" وہ ہميشہ ايسی شچويشن ميں اسے سميع يا زيبا کی دھمکی دے کر چپ کروا ديتی تھی۔ اب بھی يہی ہوا تھا۔ دو منٹ بعد ہی ايک گاڑی انکے قریب رکی۔
وہ آرام سے اترنے لگی۔
"واپسی پر بھی آنے کی ضرورت نہيں ہے" مڑ کر اسے وارن کرتی چلی گئ۔
واہب نے غصے سے گاڑی سٹارٹ کی۔ ہواؤں ميں اڑاتا آفس پہنچا۔
آفس آکر جيسے ہی غصے ٹھنڈا ہوا اسکی فکر ستانے لگی۔
'پہنچ گئ ہوگی کہ نہيں۔۔" بے چينی سے اپنی سيٹ کو دائيں بائيں گھما رہا تھا۔ ستم يہ تھا کہ اسے فون کس منہ سے کرتا۔
کچھ سوچ کر گھر فون کيا۔ زيبا نے اٹھايا۔
"کيا ہوا خيريت ہے" ابھی تھوڑی دير پہلے ہی تو وہ آفس کے لئے نکلا تھا۔
"جی وہ اصل ميں ميری گاڑی راستے ميں خراب ہوگئ تھی تو راديا کو کيب لے دی تھی۔ جيسے ہی گاڑی ٹھيک ہوئ ميں آفس آگیا۔ اب اسکا فون ملا رہا ہوں تو بزی جارہا ہے۔ آپ ذرا کال کرکے پتہ کريں کہ وہ پہنچ گئ ہے۔ کيونکہ اسکی بوتيک کا نمبر ميرے پاس نہيں" جلدی سے دماغ ميں منصبوبہ بنايا۔
"اوہ اچھا چلو ميں چيک کرليتی ہوں" انہوں نے فورا سے يقين کرتے ہوۓ کہا۔ فون بند کرديا۔ دس پندرہ منٹ بعد زيبا کا پھر سے فون آيا۔
"ہيلو ہاں وہ خير خيريت سے پہنچ گئ ہے" انکے بتانے پر اس نے سکون کا سانس ليا۔
"تھينکس ماں" محبت سے کہتے فون بند کيا۔
'بيٹا يہ محبت تجھے بہت خوار کروانے والی ہے' خود سے مخاطب ہوتے اور اظہار افسوس کرتے سامنے پڑی فائل کھولی۔
محبت کے اثرات محسوس اور نظر بھی آنا شروع ہوگۓ تھے