اگلے دن صبح ناشتے پر واہب کن اکھويں سے راديا کی تيارياں ديکھ رہا تھا۔
ليمن اور گرے کلر کا ديدہ زيب سوٹ پہنے لائٹ سا ميک اپ کئے بالوں کو اچھے سے سيٹ کئے وہ کہين جانے کو تيار تھی۔
تياری ديکھنے کے باوجود اس نے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔
اسے کيا جہاں مرضی جاۓ۔
"بيٹا راديا کو اسکے بوتيک ڈراپ کردينا۔" واہب کو اٹھتا ديکھ کر زيبا نے چاۓ پيتے ہوۓ سر سری انداز ميں کہا۔
"کيا۔۔۔۔کس خوشی ميں" وہ يکدم بھڑکا۔
راديا نے ايک نظر اسے ديکھا پھر جلدی جلدی ناشتا ختم کرنے لگی۔
"کوئ ضرورت نہيں ہے جاب کی۔ بند کرو يہ بوتيک" مزے سے اسے حکم سنا کر وہ ڈائيننگ ہال سے جانے لگا جب اپنے پيچھے سے اسکی چبھتی ہوئ آواز سنائ دی۔
"ميں نے اتنے سال لگا کر يہ بوتيک اسی لئے سيٹ نہيں کيا تھا کہ شادی کے بعد اسے بند کردوں۔ يہ ميرا پروفيشن ہے اور مجھے يہ کرنا ہے" وہ دو ٹوک انداز ميں بولی۔
"کيا مسئلہ ہے تمہيں۔۔۔ کوئ معيوب کام نہيں ہے اس کا۔۔ لے کر جاؤ" سميع نے بھی واہب کو جھاڑ پلائ۔ وہ غصے ميں تن فن کرتا کمرے کی جانب بڑھ گيا۔
"ميری کسی بات کی تو کوئ ويليو ہی نہيں۔۔ نہ ماں باپ کی نظر ميں نہ اب۔۔۔۔ اس نام نہاد بيوی کی نظر ميں" غصے سے اونچی اونچی بولتا وہ گھڑی پہن کر والٹ اور موبائل اٹھاتے ہوۓ باہر نکلا۔
گاڑی کے قريب ہی وہ کھڑی اس کا انتظار کررہی تھی۔
وہ جو تھوڑی دير پہلے دل کو کچھ اچھی لگی رہی تھی اس وقت پھر سے اس سے نفرت محسوس ہورہی تھی۔
غصے ميں ڈرائيونگ سيٹ پر بيٹھتے ہوۓ دھماکے دار آواز سے دروازہ بند کيا۔
راديا اپنی جگہ کانپ گئ۔
لرزتے ہاتھوں سے دروازہ کھول کر اسکے برابر والی سيٹ پر بيٹھ کر ايک نظر اسے ديکھا جو آنکھوں پر گاگلز لگاۓ جبڑے بھينچے چہرے پر سخت تاثرات لئے ہوۓ تھا۔ گاڑی ريش انداز ميں ريورس کی۔
راديا نے جلدی سے سيٹ بيلٹ پہن لی۔ مبادا ادھر ادھر ٹکراتی پھرتی۔
تھوڑی ہی دير بعد گاڑی ہوا سے باتيں کرنے لگی۔
"ايڈريس بتاؤ" غصے بھری آواز اسکے قريب سے آئ۔ جو گاڑی سے باہر بھاگتے دوڑتے منظر ميں گم تھی۔
شرافت سے اسے راستہ بتايا۔
"يہ سب ثابت کرکے کيا سمجھ رہی ہو" تھوڑی ہی دير بعد واہب کی آواز پھر سے آئ۔
"مجھے کچھ ثابت نہيں کرنا۔ کل کو جب دوسری شادی کرليں گے تو ميں کيا در در کی ٹھوکريں کھاؤں گی۔ ميں خودمختار ہوں۔ اور خود مختار ہی رہنا چاہتی ہوں" وہ بھی سنجيدگی سے اپنا نکتہ نظر بيان کرنے لگی۔
"اور ويسے بھی جب مجھے بيوی نہيں مانتے۔ نا مجھ سے نا اس رشتے سے آپکا کوئ لينا دينا ہے تو پھر ميں جو مرضی کروں آپکا اتنا واويلا کرنا بنتا نہيں ہے" اس کا بہت کچھا جتاتا ہوا لہجہ واہب کو مزيد تلملا کر رکھ گيا۔
"اوہ تو آگے کی پليننگ ہورہی ہے" وہ ہونٹوں کو سيٹی کی شکل بناتے ہوۓ بولا۔
"جب آپ پليننگ کرسکتے ہيں تو ميں کيوں نہيں" وہ کندھے اچکا کر بولی۔
"تو پھر اپنی گاڑی بھی لو۔۔ اتنی ہی خودمختار ہو۔۔ ميں کيوں ڈرائيور بنوں" وہ پھر چڑ کر بولا۔
"شوہر نہيں بن رہے تو کچھ تو بنيں ڈرائيور ہی بن جائيں" راديا کا شوخی لئے لہجہ اسے ايک آنکھ نہ بھايا۔
جانتا ہوں ميری پرسنيلٹی سے بری طرح متاثر ہو اب يوں جلی کٹی سنا کر اپنے جذبات آشکار مت کرو"" واہب کی بات پر اس کا دل کيا پھر سے کيا کہے گھٹيا سوچ اور گھٹيا انسان۔ مگر پھر خاموش ہوگئ۔
"جيسا انسان خود ہوتا ہے ويسی سوچ ہوتی ہے" خود کو کچھ سخت کہنے سے روکتے روکتے بھی وہ اسکی طبيعت صاف کرگئ۔
کيا وہ چاہتا تھا کہ وہ اتنی فضول گوئ سے اسے زچ کرے کہ وہ خود اسے چھوڑ کر چلی جاۓ۔
ہاں اب اسے واہب کے ارادے ايسے ہی لگ رہے تھے۔
مگر وہ بھی دل مضبوط کئے اسکی ہر الٹی سيدھی بات سن ليتی تھی اور برداشت کرليتی تھی۔
اپنی سوچوں سے گھبرا کر اس نے يوں ہی ہاتھ بڑھا کر اسٹيريو آن کيا۔ ابھی راستہ کافی تھا۔ اسے مزيد واہب کی گل افشانياں نہيں سننيں تھيں۔ اسی لئے اسٹيريو آن کرليا
I'll be your ghost
I'll be right here when you need me the most
I'll always stand here in times that you go
I'll watch as you walk away
Lend me your fears
Loan me your doubts if you need to see clear
I'll always hold them when your nowhere near
I'll take the weight when you say
So find, find me a secret that you can't help but hide
There in your heart where it keeps you alive
While I wait right here
I'll be your ghost
I'll be right here when you need me the most
I'll always stand here in times that you go
I'll watch as you walk away
شکر تھا کہ واہب خاموش ہوچکا تھا۔
گانا سنتے راديا کی آنکھوں ميں آنسو ٹھہرے۔ اس نے اور چاہا ہی کيا تھا ايک قدر کرنے والا ساتھی۔ مگر قسمت نے اسکے ساتھ کيا کھيل کھيلا تھا۔
کبھی کبھی دل کرتا تھا اسکی ذات کو يوں ادھيڑنے والے پر دو حرف بھيجے اور چھوڑ چھاڑ چلی جاۓ کہيں بھی۔
جہاں کم از کم واہب کی طنز ميں ڈوبی باتيں نہ ہوں۔ وہ نہيں جانتا تھا وہ کس بری طرح اس کا دل دکھا رہا ہے۔
"اللہ کرے تمہيں محبت ہو اور تمہاری محبت تمہارے ساتھ وہی کچھ کرے جو تم آج ميرے ساتھ کررہے ہو" چند دنوں ميں ہی اس کی ہمت جواب دے گئ تھی۔ نجانے کيوں آج يہ بددعا اسکے دل ميں آئ۔ اور اس نے پورے دل سے خاموش بددعا اپنے سے چند گز کے فاصلے پر بيٹھے اپنے ہی شوہر کو دے ڈالی۔
اور اللہ خاموش صبر کرنے والوں کے صبر کو رائيگاں جانے نہيں ديتا۔
_____________________
"کس قسم کی بوتيک چلاتی ہو۔۔ خود تو کبھی کوئ ڈھنگ کے کپڑے نہيں پہنے" اگلے دن واپسی پہ اسے پک کرتے ہوۓ وہ جان بوجھ کر اسے چھيڑ رہا تھا۔
واہب کو اتنی تو سمجھ آگئ تھی کہ وہ زيادہ خاموش رہتی ہے تاکہ لڑائ نہ ہو۔ مگر واہب نجانے کيوں اسے بار بار تنگ کرتا تھا۔ ہر وقت اپنی باتوں سے عاجز کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ تاکہ وہ تنگ آکر خود ہی چلی جاۓ۔
"لڑکوں کو لڑکيوں کی کيا ڈريسنگ سيسنس ہوتی ہے؟" وہ چڑے بغير بڑے آرام سے بولی۔
"بالکل لڑکيوں کا تو ڈريسنگ سينس ہوسکتا ہے۔۔۔ بڑی عمر کی عورتوں کا نہيں ہوسکتا" وہ پھر سے اسے عمر کا طعنہ دے گيا۔
اب کی بار وہ خاموش رہی۔
مگر دل ميں کہيں اسکی بات نے تکليف پہنچائ تھی۔ انسان تھی وہ کيسے نفی کرتی اس بات کی کہ واہب کی جانب سے چلاۓ جانے والے تير اسے گھائل نہيں کرتے۔
"آپ کی بہت ريسرچ ہے۔ لگتا ہے ساری جوانی اسی ميں ضائع کردی ہے" آخر سوچ کر اسے جواب ديا۔
واہب کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"ابھی ميری جوانی چل رہی ہے محترمہ" پھر سے لہجے کا طنز راديا نے محسوس کيا۔
"تو پھر کب دوسری شادی کررہے ہيں" اچانک اسکی جانب رخ کرتے وہ اعتماد سے بولی۔
"جلد ہی۔۔۔" چہرے پر بڑی خوبصورت مسکراہٹ نے چھب دکھائ۔ ايسے جيسے جس لڑکی سے کرنا چاہتا ہو وہ وہيں کہيں ہے
راديا نے حسرت سے اسکی يہ مسکراہٹ ديکھی۔ اور رخ پھر سے سامنے کرليا۔
"ملنا ہے اس سے" دل جانے والی مسکراہٹ سے اسے ديکھتے کہا۔
"نہيں پہلے انکل آنٹی کو ملائيں وہ زيادہ خوش ہوں گے آپکی پسند کی لڑکی کو ديکھ کر۔۔۔۔" راديا نے اسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ اب مسکرانے کی باری اس کی تھی۔
"بلکہ کہتے ہيں تو کل ہی ميں اور آنٹی اسکے گھر جاکر اس سے مل آتے ہيں" اس نے معصوم سی شکل بنا کر ايک اور مشورہ ديا۔
واہب نے غصے سے ہونٹ بھينچے۔ انہی کی وجہ سے تو يہ ان چاہا رشتہ باندھا تھا۔ يکدم خاموش ہوکر گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔
راديا نے بھی سکون کا سانس ليا۔
________________________
رمضان شروع ہونے ميں فقط چند ہی دن رہ گۓ تھے۔ اس شام گھر آتے ہی زيبا نے راديا کو گروسری کے لئے چلنے کا کہا۔
"پليز ماں اس وقت ميرا ہر گز موڈ نہيں ہے جانے کا" زيبا راديا کو بلانے ان کے کمرے ميں آئيں وہيں واہب کپڑے چينج کئے ٹی وی آن کرے بيڈ پر آرام دہ انداز ميں بيٹھا ہوا تھا۔ جب زيبا کے کہنے پر کہ وہ ان دونوں کو گروسری کے لئے لے کر چلے۔ اس کا منہ بن گيا۔
نہايت بے زاری سے ماں کو کہا۔
"حد ہے واہب اب ہم دونوں کہاں خوار ہوتے پھريں گے۔ تمہارے ابو بھی گھر پر نہيں ۔۔۔۔ نہيں تو انہی کے ساتھ چلے جاتے" انہوں نے اسے گھرکا۔
"يار ۔۔۔کل کر لينا سچ ميں بہت تھکا ہوا ہوں" وہ بيڈ پر مزيد پھيلتے ہوۓ بولا۔
راديا واش روم ميں کپڑے چينج کرنے گئ ہوئ تھی۔
جيسے ہی باہر نکلی زيبا کو يکدم کچھ ياد آيا۔
"اچھا پھر ايسا کرو گاڑی کی چابی راديا کو دو۔۔ اسے گاڑی چلانی آتی ہے۔ ہم دونوں خود ہی چلی جاتی ہيں۔" راديا جو دھلے دھلاۓ چہرے پر کريم لگا رہی تھی يکدم شيشے ميں سے ان دونوں کو ديکھتے ہوۓ اسکے ہاتھ تھمے۔
واہب نے بھی گردن موڑ کر ايک نظر اسے ديکھا۔
"بيٹا۔۔۔تمہيں آتی ہے نا چلانی" زيبا نے اس سے تصديق چاہی۔ شادی سے پہلے گھر کے زيادہ تر کام وہی کرتی تھی۔ لہذا ابا سے بہت چھوٹی عمر ميں گاڑی چلانی سيکھ لی تھی۔
"جی آنٹی۔۔" اس نے ہولے سے کہا۔
واہب کی پرتپش نظريں ابھی بھی اسی پر تھيں۔ راديا نے قصدا اسکی جانب ديکھنے سے احتراز کيا۔ اب وہ چھوٹے سے ٹاپس پہن رہی تھی۔
"بس ٹھيک ہے ميں اپنا بيگ پکڑتی ہوں تم چابی لے کر نيچے آجاؤ" زيبا جلدی سے پروگرام تہہ کرتيں کمرے سے باہر نکل گئيں۔
واہب نے سائيڈ ٹيبل سے چابی اٹھائ۔
"اب کہيں ميرا غصہ ميری گاڑی پر نکال کر ادھر ادھر مت مار دينا۔ويسے بھی اس عمر ميں دکھائ اور سنائ کم ديتا ہے" واہب نے ايک ابرو اچکا کر پھر سے اس پر طنز کيا۔
راديا نے ايک لمحے کو آنکھيں بند کرکے گہرا سانس کھينچا۔ جيسے اس کا طنز برداشت کررہی ہو۔
"آپ رہنے ديں۔ ہم کيب کروا ليں گے" بمشکل اسکے طنز پرخود کو نارمل رکھتے ہوۓ وہ دماغ کو اپنی جگہ پر رکھتے ہوۓ بولی۔ پہلی بار اپنے طنز پر اسکے چہرے پر لہرانے والا سايہ اسے بھی برا لگا۔
جيسے ہی اسکے پاس پڑا اپنا بيگ اٹھانے کے لئے جھکی نجانے واہب کے دل ميں کيا سمائ۔ يکدم اسکا ہاتھ تھام گيا۔
"اچھا يار مذاق کررہا تھا۔ يہ لو لے جاؤ چابی" دوسرے ہاتھ سے اسکی ہتھيلی کھولتے چابی اسکے ہاتھ پر رکھی۔
اسکے لمس نے عجيب سی تکليف دی بجاۓ خوشگوار احساس دينے کے راديا نے غصے سے ہاتھ کھينچا۔
واہب نے حيرت سے اسکا ردعمل ديکھا۔
"آئندہ مجھے ہاتھ مت لگائيے گا۔ آپکی زبان کے وار ہی بہت ہيں" يکدم آنکھوں ميں لہرانے والی نمی ديکھ کر واہب دنگ رہ گيا۔ اس نے تو بہت عام سے انداز ميں اس کا ہاتھ تھاما تھا۔
بيگ جھپٹنے کے سے انداز ميں بيڈ سے اٹھاتی وہ تن فن کرتی کمرے سے باہر نکل گئ۔
"اوہ تو محترمہ کو ميرا ہاتھ لگانا ميری باتوں سے کہيں زيادہ برا لگا۔۔" واہب کے دماغ ميں ايک اور خيال ابھرا۔
"چلو اب اور ہی طرح کے وار کے لئے تيار ہوجاؤ۔۔ انٹرسٹنگ" چہرے پر شرير مسکراہٹ ابھری۔ آنکھيں شرارت سے چمکيں۔
راديا کا تمام وقت دماغ سنسناتا رہا۔
اسی کی سيٹ پر اسی کی گاڑی ميں بيٹھنا بھی کسی امتحان سے کم نہيں تھا۔ نجانے کيوں آنکھيں بار بار بھر آئيں۔ کيا وہ اتنی ہی بے وقعت ہے۔ کتنی بڑی تھی فقط پانچ سال۔ وہ چھبيس کا تھا تو وہ اکتيس سال کی تھی۔
مگر وہ ہر وقت اسے ايسے بڑی عمر کا طعنہ ديتا تھا جيسے وہ پچاس سال کی ہو۔
"يا اللہ کس مصيبت ميں زندگی پھنس گئ ہے" گروسری ليتے وقت بھی زيبا سے نظر بچا کر بار بار بھر آنے والی آنکھيں صاف کرتی رہی۔ ہاتھ پر ابھی بھی ايسا لگ رہا تھا جيسے کوئ انگارہ دہک رہا ہو۔
بے شک اسکے محرم نے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ مگر يہ ہاتھ محبت ميں نہيں مجبوری ميں اس نے آج تھاما تھا۔ اسی لئے اپنی بے وقعتی اور بھی محسوس ہورہی تھی۔
تمام راستہ خود سے جنگ کرتی رہی کہ اسکے سامنے خود کو بالکل نارمل رکھنا ہے۔ 'اسے احساس بھی نہ ہونے پاۓ کے اس کی يہ حرکت مجھ پر کيا کيا ستم ڈھا چکی ہے' دل ميں سوچتے خود کو مضبوط کيا۔
مگر وہ نہيں جانتی تھی۔ اب ايک اور محاذ اسکے آگے کھل جاۓ گا۔
_______________________
انہيں گھر آتے سات بج چکے تھے۔ زيبا نے فورا زرينہ (کام کرنے والی) کو روٹياں پکانے کو کہا۔
سميع بھی گھر آچکے تھے۔ واہب اور وہ دونوں لاؤنج ميں بيٹھے کوئ ميچ دیکھنے ميں مصروف تھے۔
راديا بھی وہيں ايک صوفے پر ٹک گئ۔
واہب اسکے سامنے والے صوفے پر سميع کے ساتھ بيٹھا تھا۔
اسے بيٹھتا ديکھ کر دماغ ميں سوچا گيا پلين ذہن ميں آيا۔
اٹھ کر کچن ميں گيا وہاں سے پانی کا گلاس لا کر عين رادياکے قريب اسکے دائيں جانب بيٹھا۔ اس طرح کے اس کا صوفے پر پھيلا ہاتھ راديا کو مکمل طور پر اسکے گھيرے ميں لئے ہوۓ تھا۔
راديا نے چونک کر اور کسی قدر حيران ہو کر اسکی يہ بے تکلفی ديکھی۔
زچ کرنے والی مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ وہ پانی پينے ميں مصروف تھا۔
وہ غصے سے اس کو گھورتی ہوئ اٹھ کر جانے لگی جب اس نے بازو بڑھا کر اسکے کندھے پر رکھتے اسکی يہ کوشش ناکام بنائ۔
سميع سامنے نہ بيٹھے ہوتے تو وہ اچھی طرح اسکی خبر ليتی۔ زيبا بھی وہاں آکر بيٹھ چکی تھيں۔ اب وہ کيسے اسکا ہاتھ اپنے کندھوں سے ہٹاتی۔ اس سے کوئ بعيد نہيں تھی وہ انکے سامنے ہی کوئ بات کرکے اسکی بے عزتی کرديتا۔
اس نے بڑی مشکل سے ان دونوں کے سامنے اپنے اور اسکے رشتے کا بھرم رکھا ہوا تھا۔
"مل گئيں سب چيزيں" اب اسکا مخاطب زيبا تھيں۔
"ہاں شکر ہے سب کچھ مل گيا۔ اب روزوں ميں بار بار خوار نہيں ہوا جاتا۔" انہوں نے سکون کا سانس بھرتے ہوۓ کہا۔
راديا دم سادھے اس کے پاس بيٹھی تھی۔ جبکہ دل کررہا تھا اسکے ہاتھ ميں موجود گلاس اٹھا کر اسی کے سر ميں دے مارے۔
اور پھر يہ سلسلہ يہيں تک رکا نہيں کھانے کی ميز پر بھی وہ بار بار اسکا ہاتھ تھام کر اسے کہتا رہا يہ ڈال دو۔۔ وہ ڈال دو۔ پانی دو۔۔۔
يا پھر يوں ہی باتوں کے درميان اسے شامل کرکے اسکے کندھے پر ہاتھ مار ديتا۔
راديا کا بس نہيں چل رہا تھا الٹے ہاتھ کی ايک اسے ديتی۔
جيسے ہی کھانا ختم ہوا۔ برتن سميٹ کر وہ فورا کمرے کی جانب آئ۔
"سمجھا کيا ہوا ہے اس نے خود کو جو مرضی کرے گا۔ اور ميں چپ بيٹھوں گی۔" کمرے ميں آتے ہی سائيڈ ٹيبلز کی درازيں کھنگاليں۔
"بہت ہوگيا۔۔ اب ميں مزيد برداشت نہيں کروں گی۔ اسے بھی بتا مزہ دوں گی۔۔ ابھی وہ اجازت نامہ آنٹی اور انکل کو دکھاتی ہوں۔ انہيں بھی اسکے کرتوت پتہ چليں۔ ايسے پيش آرہا ہے جيسے محبتوں کے خزانے لٹاتا رہا ہے مجھ پر" کيچر سے نکل کر چہرے پر آنے والے بالوں کو بار بار پيچھے کرتے وہ غصے سے بڑبڑائ۔ ابھی ايک سائيڈ ٹيبل ديکھنے کے بعد دوسری ديکھنی شروع ہی کی تھی کہ واہب بھی آدھمکا۔
پہلے تو چونک کر اسکی حرکت ملاحظہ کی پھر چہرے پر مخصوص دل جلانے والی مسکراہٹ سجاۓ ايسے سر ہلايا جيسے بہت کچھ سمجھ آگيا ہو۔
"کيا ڈھونڈا جارہا ہے ڈئير مسز" لہجے ميں بھی شرارت واضح تھی۔
راديا نے ہاتھ روک کر تيکھی نظروں سے اسے ديکھا۔
"کيا مسئلہ ہے آپکے ساتھ۔۔۔شرم نہيں آتی يوں ماں باپ کے سامنے مجھ سے چپکتے اور اتنی گھٹيا حرکتيں کرتے۔ بالکل ہی شرم مری ہوئ ہے" وہ پہلی بار غصے ميں اس پر چلا رہی تھی۔ نہيں تو ابھی تک بڑے صبر سے اسکی باتيں سہتی آئ تھی۔
"بيوی ہو ميری۔۔۔۔ کسی کے بھی سامنے ہاتھ لگا سکتا ہوں" ہاتھوں کو دائيں بائيں پھيلاۓ کندھے اچکاتے مزے سے کہا۔
"ہونہہ بيوی۔۔۔۔۔۔" راديا نے کاٹ دار لہجے ميں کہا۔
"ميں وارن کررہی ہوں آئندہ اگر يہ گھٹيا حرکتيں کيں تو ميں انکل اور آںٹی کے سامنے ايک ايک بات رکھ کر اس شرافت کے چولے کو اتروا دوں گی" انگلی اٹھا کر اسکی آںکھوں ميں آنکھيں ڈالے اسے وارن کرنے والے انداز ميں بولی۔
"اوہ رئيلی" واہب پر اسکے غصے کا کوئ اثر نہ ہوا۔
"ميں خاموشی سے ہر بکواس اگر ابھی برداشت کررہی ہوں ناتو بس يہيں تک رہو۔۔۔ جو ہاتھ کسی غرض کے تحت ميری جانب بڑھتا ہے نا اسے ميں توڑنا بھی اچھے سے جانتی ہوں"نظروں ميں کاٹ لئے پھر سے واہب کو باور کروايا۔
اس کے بڑے بڑے دعوے سن کر واہب کا بھی دماغ گھوم کيا۔
يکدم اپنے سے چند گز کے فاصلے پر کھڑی راديا کی جانب تيزی سے بڑھ کر اسکی کلائ غصے سے تھامی۔
"لو پکڑ ليا پھر سے ہاتھ توڑ کے دکھاؤ اب" راديا اس اچانک افتاد کے لئے تيار نہيں تھی۔ اسکی جرات پر ہکا بکا رہ گئ۔
"بس يہيں تک دعوے تھے" واہب کا تمسخرانہ انداز نجانے کيوں اسکی آنکھيں جھلملا گيا۔
واہب نے خاموشی سے اسکی آنکھوں ميں موجود نمی ديکھی۔
ايک تو وہ تھی ہی قاتلانہ نقوش کی حامل اور پھر جب آنکھوں ميں نمی لے آتی تھی واہب کو اپنے ہر ارادے سے ڈگمگا دیتی تھی۔
چند پل کی خاموشی انکے درميان آئ۔ اور پھر يکدم راديا نے اپنی کلائ پر موجود اسکے ہاتھ پر تيزی سے دانت گاڑھے۔
واہب نے سی کرکے اس جنگلی بلی کو حيرت سے ديکھا۔
ايسے ردعمل کی اميد اسے ہر گز نہيں تھی۔
راديا نے نمی اپنے اندر اتارتے فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ اسے ديکھا۔
"اب پتہ چلا ميں کيا کچھ کرسکتی ہوں" واہب ہاتھ جھٹک کر اسکے دانتوں سے پڑنے والے سيک کو کم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
"کس چيز سے دانت رگڑتی ہو۔۔ اس قدر نوکيلے" گھور کر پاس سے گزرتی راديا سے پوچھا۔۔
جو الماری ميں منہ دئيے اگلے دن پہننے والے کپڑے نکال رہی تھی۔
"صحيح کہتے ہيں عورت کے آنسوؤں پر دل کو بے قابو مت ہونے دو۔۔بڑے دھوکے والے آنسو ہوتے ہيں" واہب زير لب بڑبڑايا۔