مجھے لگتا ہے آج ميں اپنا سر کسی ديوار سے دے ماروں گا" سعد کو فون کئيے وہ اپنا دکھڑا سنانے لگا۔
"ہوا کيا ہے" سعد بيڈ پر نيم دراز ليٹا اسکے رونے سن رہا تھا۔
"ميں تجھے بتا رہاہوں ميں آج اپنا سر کہين مار بيٹھوں گا" اصل بات بتانے کی بجاۓ وہ کوئ اور ہی لن ترانياں کررہا تھا۔
"پہلے منہ سے پھوٹ کہ ہوا کيا ہے پھر ميں بتاؤں گا تجھے ديوار پر سر مارنا چاہئيے يا لوہے کہ سريے پہ" سعد اسکے رونے کو کسی خاطر ميں نہيں لايا۔
"يہ سب سننے سے پہلے ميرا دماغ کيوں نہيں پھوٹ گيا" واہب پھر وہی راگ الاپنے لگا۔
"ميری جان وہ تو ميں کچھ دير بعد آکر پھوڑ دوں گا۔ بتاتا ہے پوری بات يا فون بند کروں" سعد کوفت زدہ لہجے ميں بولا۔
"يار امی کہہ رہی ہيں انہوں نے ميری بات راديا کے ساتھ پکی کردی ہے" سعد کے دھمکانے پر وہ اصل ٹاپک کی جانب آيا۔
"کيا" سعد اپنی جگہ پر اٹھ کر بيٹھ گيا۔
"جی۔۔ اب بتاؤ کيا يہ مرنے کا مقام ہے يا نہيں" واہب نے جتانے والے انداز ميں کہا۔
"ميں کل تمہاری طرف آتا ہوں پھر بات کرتے ہيں" سعد بھی الجھ گيا تھا۔
"اب بات وات کا کوئ فائدہ نہيں ميں نے امی اور ابو دونوں سے اپنے طور پر بات کرلی ہے مگر دونوں ميری ايک بھی ماننے کو تيار نہيں۔" واہب نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوۓ کہا۔
"انکے مطابق ميں بھی شہاب بھائ کے نقش قدم پر چلوں گا۔ اب اگر انہوں نے کسی گوری سے شادی کرلی ہے تو اس ميں ميرا کيا قصور ہے کہ مجھے اس راديا ميڈم سے نتھی کرنے پر تل گۓ ہيں" وہ کوفت زدہ سا راديا کے بارے ميں بول رہا تھا۔
"يار ديکھا جاۓ تو وہ بری کہيں سے نہيں ہے مگر صرف عمروں کا تھوڑا بہت فرق۔۔۔" سعد جانتا تھا سميع اور زيبا بہت سخت گير ماں باپ تھے۔ کچھ اپنے بڑے بيٹے کے باہر جاکر اپنی پسند سے شادی کرنے کی بنا پر اور بھی سخت مزاج ہوگۓ تھے۔
اب انکی ساری اميدوں کا مرکز واہب ہی تھا۔
"تھوڑا فرق۔۔۔۔۔" سعد کی بات پر وہ گھٹی گھٹی آواز ميں چيخا۔
"يار ميرا مطلب ہے" سعد سے بات بنانی مشکل ہوگئ۔
"پانچ سال کا فرق تجھے تھوڑا لگتا ہے۔ ميں اسے باقی بڑی عمر کی کزنز کی طرح ہی ريسپيکٹ ديتا ہوں۔۔ پانچ سال وہ بڑی ہے مجھ سے۔۔ دو سال تک ہوتے تو چل جات مگر پانچ سال۔۔۔" اس کا غم کم ہونے ميں نہيں آرہا تھا۔
"يار لوگ دس دس سال بڑی عمر کی عورتوں سے شادی کرليتے ہيں۔ تيرے سے پانچ سال ہضم نہيں ہورہے" سعد نے ايک بار پھر اسے تسلی دينا چاہی۔
"تو جلتی پر تيل چھڑک دے بس۔۔۔۔ خداحافظ" سعد کو ہمدردی نہ کرتے ديکھ کر واہب چڑ گيا۔ غصے ميں فون بند کرديا۔
سعد پيشانی مسل کر رہ گيا ۔ اس کا واويلا غلط نہيں تھا۔ اگر وہ خود کو اسکی جگہ رکھتا۔ انسان اپنی شريک حيات اپنے سے بہت چھوٹی نہ صحيح مگر کچھ تو چھوٹی کی خواہش کرتا ہے۔ يا کم از کم ہم عمر تو ہو۔
اگلے دن اسکے گھر جانے کا ارادہ کرتے ہوۓ سعد لائٹس بند کرکے ليٹ گيا۔
_____________________
اگلے دن سعد واہب کے گھر موجود تھا۔ سعد اور واہب بچپن کے دوست تھے۔ اب تو دونوں کا يہ حال تھا کہ وہ ايک دوسرے کے گھر کے ہی فرد شمار ہوتے تھے۔
سعد واہب کے گھر بے دھڑک چلا جاتا تھا۔ اور واہب سعد کے گھر۔
سعد واہب کی فيملی اسکے کزنز سب سے واقف تھا اور واہب سعد کے سارے خاندان سے۔
"تم سمجھاؤ اسے کچھ" زيبا نے واہب کو کھا جانے والی نظروں سے ديکھتے ہوۓ کہا۔
جس وقت سعد ان کے گھر آيا واہب، زيبا اور سميع لاؤنج ميں ہی بيٹھے واہب کے رشتے پر بحث کررہے تھے۔
"مجھے سمجھانے کا کوئ فائدہ نہيں سمجھنے کی ضرورت آپ لوگوں کو ہو" وہ سرد لہجے ميں بولا۔ مگر لہجہ بے ادب نہيں تھا۔
"کيا عذاب آگيا ہے ايسا۔۔۔ اچھی بھلی بچی ہے" سميع نے ناگواری سے اسکے مسلسل انکار پر اسے ديکھا۔
"بچی اچھی بھلی ہے مگر آپ لوگوں کی اپروچ ٹھيک نہيں ہے۔ اگر اسکی بڑی بہن کو ہم سے دھوکا ملا ہے۔ شہاب نے اسکی بہن کو منگنی کے نام پر لٹکاۓ رکھا اور شادی کسی گوری سے کرلی اس ميں ميرا کيا قصور ہے۔" وہ جنجھلايا۔
"ميں اچھی طرح جانتا ہوں کہ يہ سب آپ شہاب کے کئے کا کفارہ ادا کرنے کے چکر ميں کررہے ہيں۔ يہ سوچے سمجھے بنا کہ فرح تو شہاب سے چار سال چھوٹی تھی۔ جبکہ راديا مجھ سے پانچ سال بڑی ہے۔ کچھ تو جوڑ ملاتے ۔۔ يقين کريں ميں کبھی منع نہ کرتا۔ مگر آپ صرف شہاب کی غلطی کو دھونے کے چکر ميں ايک بے جوڑ رشتہ بنانا چاہتے ہيں" وہ تھکے ہوۓ انداز ميں بولا۔
"سعد تم بتاؤ وہ کوئ اس سے بڑی لگتی ہے۔ ارے اتنی کامنی سی تو ہے۔۔۔ تم بلکہ اس سے دس سال بڑے ہی لگتے ہوگے" زيبا نے واہب کے کسرتی جسم اور لمبے قد کو ديکھتے ہوۓ سعد کو بھيچ ميں گھسيٹا۔
"واہب آنٹی غلط نہيں کہہ رہيں" سعد کی بات پر اس نے حيرت سے منہ کھولے اپنے جگری دوست کو دیکھا۔ جو بجاۓ اسکے ماں باپ کو سمجھانے کے الٹا اسے سمجھا رہا تھا۔
حيرت اب غصے اور افسوس ميں بدل چکی تھی۔
"ميں آپ سب کو بتا رہا ہوں۔ ميں نکاح والے دن گھر سے بھاگ جاؤں گا" اب کی بار وہ دھمکی آميز لہجے ميں بولا۔
"ٹانگيں توڑ دوں گا تمہاری" سميع غراۓ۔
"توڑ ديں۔ اچھا ہے لنگڑے سے شادی کرنے سے وہ خود انکار کردے گی" واہب نے ہاتھ جھاڑے۔
"اچھا تو چل ميرے ساتھ" سعد سميع کے غصے کو بہت اچھے سے جانتا تھا۔ کوئ پتہ نہيں تھا نکاح والے دن کی بجاۓ آج ہی واہب کی ٹانگيں توڑ ديتے۔
"تو اپنے گھر جا۔۔۔۔ آيا بڑا ميری ہمدردی کرنے" واہب نے ہاتھ جوڑے۔۔
"بالکل ہی بدتہذيب ہوگيا ہے يہ۔۔۔ مرو تم بھی شہاب کی طرح ميری طرف سے۔۔۔ جہاں مرضی منہ مارو" سميع اسکے اس انداز پر سيخ پا ہوگۓ۔ غصے سے دھاڑے۔
سعد نے زبردستی اسے بازو سے پکڑ کر اٹھايا۔
اور گھسيٹنے کےسے انداز سے سيڑھيوں تک لے آيا۔
واہب اس سے ہاتھ چھڑاتا دھب دھب کرکے سيڑھياں چڑھ گيا۔
"تم جاؤ ميں کچھ کھانے پينے کے لئے لے کر آتی ہوں۔ کل رات سے اس نے بھوک ہڑتال کی ہوئ ہے" زيبا نے سعد کومزيد اطلاع دی۔ اور کچن کی طرف بڑھ گئيں۔
سعد بھی تيزی سے سيڑھياں چڑھ کر اسکے کمرے ميں آيا۔
واہب اس طرح ہٹ دھرمی اور غصہ دکھانے سے کچھ نہيں ہوگا تھوڑا خود کو ٹھنڈا رکھو" سعد برا پھنسا تھا۔ اسے نہ سمجھاتا تو اسکے ماں باپ کی نظر ميں برا بنتا۔ اور اب جب سمجھا رہا تھا تو واہب کی نظر ميں برا بن رہا تھا۔
"کيسے ٹھنڈا رکھوں خود کو تم بتاؤ يہ ٹھنڈا رہنے والا وقت ہے۔۔ ايسے تو آجکل لڑکيوں کے ساتھ کوئ نہيں کرتا۔ ان سے بھی پوچھا جاتا ہے رضا مندی لی جاتی ہے پھر جا کر رشتے کی بات چلتی ہے۔ اور ميں۔۔۔۔۔ ميں لڑکيوں سے بھی گيا گزرا ہوں۔" واہب کا صدمہ کم ہونے ميں نہيں آرہا تھا۔
کمرے ميں موجود کافی ٹيبل کے قريب ليدر کی کرسی پر بيٹھا وہ شديد غمزدہ لگ رہا تھا۔
"کچھ حل نکالتے ہيں تم يوں دل چھوٹ مت کرو" دوسری کرسی پر سعد بيٹھ گيا۔
"اب کچھ نہيں ہوسکتا۔۔۔۔سواۓ اسکے کہ ميں اس وقت گھر سے غائب ہوجاؤں" وہ انتقامی سوچ رکھے ہوۓ تھا۔
"يار تو ۔۔۔۔۔صبر تو کر۔۔ ايک خيال آيا ہے ميرے ذہن ميں۔۔۔ ليکن تو ٹھنڈا ہو کر سوچے گا تو بتاؤں گا" سعد نے ٹھوڑی پر ہاتھ پھيرتے ہوۓ کہا۔ ايک ہاتھ واہب کی بازو پر دھرا تھا۔
"بتاؤ" وہ بے زار لہجے ميں بولا۔
"ايسے نہيں دماغ ٹھنڈا رکھ" سعد نے پھر سے کہا۔
"اب کيا فريزر ميں جا کر بيٹھ جاؤن ۔۔۔يا برف سر پر رکھ لوں۔ ٹھنڈا ہی ہے" وہ کوفت بھرے لہجے ميں بولا۔
سعد کا قہقہہ بلند ہوا۔
"اچھا اچھا سوری" واہب کے گھورنے پر وہ بمشکل اپنے قہقہے کو روک پايا۔
"تم راديا سے خود بات کرکے ديکھو۔۔ شايد وہ بھی اپنے گھر والوں کی وجہ سے مجبور ہو۔۔" سعد کی بات پر وہ چند لمحوں کے لئے سوچ ميں پڑا۔
"اور اگر اس نے ابو کو بتا ديا۔۔ تو بس پھر جو نکاح چںد دن بعد ہونا ہے وہ کل ہی ہوجاۓ گا" کچھ سوچ بچار کے بعد واہب نے اس کا آئيڈيا رد کيا۔
"يار تم مل لو اس سے ميں يہ نہيں کہہ رہا کہ صرف فون پر بات کرو" سعد نے پھر سے اپنی بات پر زور ديا۔
"ويسے لاسٹ ٹائم تم کب ملے تھے اس سے " سعد کی بات پر اس نے ايسا منہ بنايا جيسے منہ ميں کوئ کڑوی گولی ہو۔
"تو ايسے کہہ رہا ہے جيسے ميں تو دن رات اسکے ساتھ ڈيٹيں مارتا تھا" سعد کی بات کا رخ وہ کسی اور ہی جانب لے گيا۔
"ارے يار۔۔ اتنا سڑا ہوا نہ بن۔۔۔ ميرا کہنے کا مطلب ہے۔ کہ ميں بھی صرف اسے فرح کی بہن کی حیثيت سے جانتا ہوں مجھے اسکی شخصيت کے بارے ميں زيادہ علم نہيں مگر تو تو فيملی ميں آتا جاتا ہے تو تجھے اندازہ ہوگا کہ وہ دبو سی لڑکی ہے يا پھر غالب ہونے والی۔"سعد نے کھل کر بات کی۔
"نہيں اتنی کوئ دبو نہيں ہے بااعتماد ہے۔۔ ويسے بھی خود جاب کرتی ہے۔۔اور فرح تو اس سے چھوٹی ہے۔ دو بار اسکی منگنی بھی ختم ہو چکی ہے۔ وجہ کيا ہے ہميں نہيں معلوم" اب کی بار واہب نے کچھ تحمل سے جواب ديا۔
"اور اگر يہ لوگ فرح کی وجہ سے مجھ سے راديا کی شادی کروا رہے ہيں تو اسکی تو شادی ہو بھی چکی ہے اور وہ خوش ہے۔ شايد اسکے لئے شہاب بھائ بہتر نہيں تھے۔ مگر ميری گھر والے اس انداز ميں سوچيں تو تب ہے نا" وہ ايک بار پھر چڑا۔
"تم بہرحال اس سے مل کر بات کرو۔۔ اسکی رائے پتہ کرو۔ اگر وہ بااعتماد ہے تو يقينا تمہاری اس رشتے کے لئے ناپسنديدگی ديکھ کر انکار کردے گی۔ مجھے اميد ہے۔۔" سعد کے مشورے پر اس نے لمحہ بھر اسکی جانب ديکھا۔
جيسے کہہ رہا ہو'مرواۓ گا تو نہيں'
"ٹھيک ہے يہ بھی کرکے ديکھ ليتے ہيں۔۔" واہب نے حامی بھر لی۔ اس کے پاس اسکے علاوہ اور کوئ آپشن بھی نہيں تھی۔
کيونکہ رمضان سے پہلے نکاح اور رخصتی طے ہو چکی تھی۔
اب اسکے پاس صرف دو ہفتے بچے تھے اپنے لئے ہاتھ پاؤں مارنے کے لئے۔ "
___________________
سعد کے مشورے پر عمل کرتے ہوۓ اس نے اگلے دن راديا کا نمبر ڈائل کيا۔
شومئ قسمت دوسری بيل پر اس نے فون پک بھی کرليا۔
"السلام عليکم" نہايت مہذب انداز مين اس نے سلام کيا۔
"وعليکم سلام ميں۔۔۔۔۔ ميں واہب بات کررہا ہوں" نہ چاہتے ہوۓ بھی نجانے وہ کيوں گھبرايا۔
"جی مجھے پتہ ہے آپکا نمبر پچھلے سات آٹھ سال سے آپکے ہی نام سے سيو ہے" راديا کا ٹھنڈا ٹھار لہجہ واہب کو جزبز کرگيا۔
ان سب کے پاس ايک دوسرے کے نمبرز موجود تھے۔ لہذا گھبراہٹ ميں اپنا نام بتا کر اس نے انہائ بے وقوفی کا ثبوت ديا تھا۔
"مجھے پتہ ہے۔۔۔ مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے اور اس کے لئے مجھے کہيں باہر ملنا ہے" واہب کوفت زدہ لہجے ميں اصل بات کی جانب آيا۔
راديا نے کچھ چونک کر موبائل کان سے ہٹا کر ايسے موبائل کو ديکھا جيسے موبائل سے اسکی تصوير نظر آرہی ہے۔
"ملنے کی کوئ خاص وجہ؟" اس کے سوال پر وہ چڑا۔
"ہاں آپ سے اسٹاک ايکسچينج کی ابتری کے متعلق بات کرنی ہے" واہب کی بات پر وہ ہولے سے مسکرائ۔
"اتنی سير حاصل گفتگو آپ ميرے گھر آکر بھی کرسکتے ہين" کچھ کچھ وجہ تو اسے سمجھ آگئ تھی۔ مگر جان کر اسے چڑا رہی تھی۔
"اتنی بچی نہيں آپ کہ ميرے اور اپنے متعلق ہمارے گھروں ميں گردش کرنے والی خبروں سے انجان ہوں۔ اسی سلسلے ميں آپ سے کچھ بات کرنی ہے" واہب اسکی اور اپنی شادی کے الفاظ زبان پر نہيں لانا چاہتا تھا اسی لئے ايک ايک لفظ چبا چبا کر بولا۔
"اسکے متعلق ہمارے پيرنٹس بات کرچکے ہيں۔ مجھے مزيد کوئ بات نہيں کرنی" پتہ نہيں کيوں مگر واہب کے لہجے سے اسے شک ہوگيا تھا کہ وہ اس رشتے سے خوش نہيں لگ رہا۔ خوش تو وہ بھی نہيں تھی۔ اپنے سے پانچ سال چھوٹے لڑکے سے شادی کرنا اسکے لئے خوش ہونے کا مقام نہيں تھا۔
"مگر مجھے کرنی ہے اور آپ ہی سے بات کرنی ہے۔۔ورنہ نکاح والے دن ميں کيا کچھ کرجاؤں اسکی گارنٹی نہيں دے سکتا" اب کی بار اس نے صاف صاف لفظوں ميں جو کچھ کہا راديا چند پل فق چہرہ لئے سنتی رہی۔
"تو بہتر ہے کہ آپ کل مجھ سے مل ليں۔ جگہ اور وقت کا تعين آپ خود کرليں۔۔ مجھے ميسج کردينا ميں آجاؤں گا۔ اور يہ کل کے ہی دن ميں ہونا چاہئيے" رئيد کا سرد لہجہ راديا کو بے حد کھلا۔
اسکی اگلی بات سنے بنا واہب نے فون بند کرديا۔
کچھ سوچ کر اس نے ايک ريسٹورنٹ کا نام اسے سينڈ کيا جو اسکے اور واہب کے گھر کے درميان ہی پڑتا تھا۔
يہ وہی جانتی تھی کہ لڑکی ہو کر بھی اس نے اس رشتے کے نہ ہونے کے لئے کتنا واويلا کيا تھا مگر اسکی کوئ سننے کو تيار ہی نہيں تھا۔
اسی لئے اب وہ خاموش ہوگئ تھی۔ ماں باپ نے رو کر اسے اموشنلی بليک ميل کرہی ليا تھا۔
يہ نہيں تھا کہ وہ کوئ دبو قسم کی لڑکی تھی۔ اس کی اپنی بوتيک تھی۔ جو وہ بہت کاميابی سے چلا رہی تھی۔ اپنا کھاتی کماتی تھی۔ مگر شادی کے فيصلے پر وہ مکمل طور پر ماں باپ پر ہی ڈپينڈ کرتی تھی اب۔
ايک بار اپنی پسند سے ايک لڑکے سے منگنی ہوئ۔ مگر وہ منگنی توڑ کر کہيں اور نکل گيا۔ دوسری بار ماں باپ کی مرضی سے کی وہ بھی ٹوٹ گئ۔
اور اب پھر وہ اس بندھن ميں بندھ رہی تھی۔ مگر اب کی بار انہوں نے منگنی کی بجاۓ ڈائريکٹ شادی کو ترجيح دی تھی۔ نجانے اسکی قسمت ايسی کيوں تھی۔ حالانکہ کے کسی چيز کی کمی نہيں تھی اس ميں اچھا قد کاٹھ، پياری شکل و صورت مگر قسمت اچھی نہيں تھی۔
اپنی سے بڑی بہن کی منگنی کبھی واہب کے ہی بھائ سے ہوئ تھی مگر وہ باہر جاکر شادی کرچکا تھا۔
اسی کا ازالہ کرنے کے لئے اب اسکے ماں باپ چھوٹے بيٹے کا رشتہ لے آۓ تھے۔ راديا کو واہب کے ساتھ ہونے والی اس زيادتی سے کوئ خوشی نہيں تھی۔
وہ اسے ہميشہ ايک چھوٹے بھائ اور دوست کی طرح ٹريٹ کرتی تھی۔ مگر وہ بھی مجبور تھی۔ جانتی تھی جہاں کہيں بات چلے گی کچھ عرصے بعد ختم ہوجاۓ گی۔
سميع اور زيبا اس کو ہر حال ميں اپنانے کو تيار تھے۔
اسی لئے اسکے ماں باپ نے بھی مطمئن اور کچھ مجبور ہوکر اسکی بات واہب کے ساتھ طے کردی تھی۔
__________________
اگلے دن وہ دونوں راديا کے مقرر کردہ ريسٹورنٹ ميں ايک دوسرے کے روبرو بيٹھے تھے۔
واہب نے نظروں کو بار بار باور کروايا کہ جو سامنے ہے وہ پانچ بڑی ہے۔
مگر دل تھا کہ راديا کی بھولی سی من موہنی صورت کو ديکھ کر اسکی ماننے سے انکاری تھا۔
راديا خاموشی سے اسے نظر انداز کئيے ادھر ادھر لوگوں کو ديکھنے ميں ايسے مصروف تھی جيسے وہ آئ ہی يہاں اس کام پر ہے۔
واہب کو اپنا نظر انداز کيا جانا کھل رہا تھا۔
"ہہمم" آخر اسے گلا کھنکھارنا پڑا۔
راديا نے ايک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی۔
"ديکھيں ۔۔۔۔آپ کا اور ميرا کسی بھی طرح ميچ نہيں بنتا۔۔ضروری نہيں کہ ماضی ميں بھائ نے جو کچھ کيا اسکا کفارہ ادا کرنے کے لئے ہميں قربانی کا بکرا بنايا جاۓ" واہب دونوں ہاتھ ٹيبل پر رکھے۔ انگلياں آپس ميں پھنساۓ سوچ سوچ کر بول رہا تھا۔
گاہے بگاہے نگاہ اٹھا کر اسکے بے پرواہ چہرے پر بھی ڈال ديتا تھا۔
"پھر " واہب کے رکتے ہی وہ ايسے بولی جيسے وہ اسے کوئ خبر يا کہانی سنا رہا ہے۔ واہب نے اب کی بار تنی ہوئ نظريں اسکے ہو کيرز جيسے ايٹی ٹيوڈ پر ڈاليں۔
"پھر کا کيا مطلب ہے۔" وہ کڑک لہجے ميں بولا۔
"يہ سب آپکے خيالات ہيں۔ جبکہ ميرے خيالات بالکل مختلف ہيں۔۔ميرے لئے ميرے ماں باپ کی زبان اور مرضی سے بڑھ کر کچھ نہيں" راديا نے قطيعت بھرے لہجے ميں کہہ کر اسکا انکار کرنے کا ہر جواز رد کيا۔ اور اپنے لہجے سے باور کروايا کہ وہ اسکا ساتھ نہيں دے گی۔
"مجھے اس سے کوئ مطلب نہيں کہ وہ کس سے ميری شادی کرواتے ہيں۔ وہ چاہے آپ ہوں يا کوئ اور۔۔ آپ کو کوئ مسئلہ ہے تو اپنے پيرنٹس کو انکار کريں۔ مجھے يہ سب سنانے کا کوئ فائدہ نہيں ہے" وہ پھر سے بے لچک لہجے ميں اسکی آخری اميد کو بھی روندتے ہوۓ بولی۔
"آپ بڑی ہيں مجھ سے ايک دو نہيں پورے پانچ سال۔۔سوچيں لوگ کيا کہيں گے۔۔" واہب نے اسے اموشنلی بليک ميل کرنا چاہا۔
اسی اثناء ميں ويٹر انکے قريب مينيو کارڈ رکھنے آيا۔
"سنو بھائ" راديا نے يکدم اس ويٹر کو مخاطب کيا۔
"جی ميم" وہ مودب ہو کر کھڑا ہوگيا۔
"ہم دونوں ميں سے تمہيں کون بڑا اور کون چھوٹا لگتا ہے" جس سنجيدگی سے اس نے سوال کيا ويٹر تو ويٹر واہب اسکی جرات پر بھونچکا رہ گيا۔
"کيا بکواس ہےيہ" واہب يکدم آہستہ آواز ميں غرايا۔
"نہيں پوچھنے ميں حرج نہيں" وہ کندھے اچکا کر بڑے آرام سے بولی۔
"جاؤ يار آپ۔۔۔ ان کا دماغ ٹھکانے پر نہيں ہے" واہب نے دانت کچکچکا کر اسکی معصوم صورت کو ديکھا۔
ويٹر بيچارہ پريشان صورت لئے واپس چلا گيا۔
"کيا حرکت تھی يہ" اب وہ غصے سے ايک نظر جاتے ہوۓ ويٹر اور ايک نظر راديا پر ڈال کر بولا جو پرسکون چہرہ لئے کندھے اچکا کر اسکی جانب ديکھنے لگی۔
"آپ ہی نے تو کہا تھا کہ لوگ کيا کہين گے۔ ميں نے سوچا آج ہی يہ معاملہ بھی کلئير کرليں کہ لوگ ہمارے بارے ميں کيا کہتے ہيں" مزے سے واہب کے چھکے چھڑاتی وہ معصوميت بھرے لہجے ميں بولی۔
واہب کو اسکی يہ خوداعتمادی انتہائ خطرناک لگی۔
"ميں آپ کو ايک نارمل رشتہ نہيں دے پاؤں گا" اب کی بار وہ ٹھنڈی سانس بھر کر اپنے اعصاب کو نارمل رکھتے ہوۓ بولا۔ نہيں تو کچھ دير پہلے راديا کی حرکت پر اسکے اعصاب شديد تن چکے تھے۔
"مجھے ايسی کوئ خواہش نہيں" راديا کا لہجہ اسے عجيب سا لگا۔
"تو پھر بہتر نہيں کہ اس رشتے کو بننے ہی نہ ديا جاۓ" اس نے پھر سے راديا کو ٹريپ کرنے کی کوشش کی۔
"جس طرح آپ اپنے پيرنٹس کے آگے مجبور ہيں ميں بھی اتنی ہی يا شايد اس سے زيادہ مجبور ہوں۔ ادروائز آپ کوئ ايسے ٹام کروز نہيں کہ ميں آپ سے شادی کے لئے مری جاؤں" اب کی بار راديا نے اسے آئينہ دکھايا۔
اسکی بات پر واہب کے نقوش پھر سے تن گۓ۔
"ميں بالکل بھی آپ کو خوش نہيں رکھوں گا" اب اس نے راديا کو ڈرانا چاہا۔
"ميں اپنی خوشی کو کبھی لوگوں سے منسلک کرتی بھی نہيں۔ ميری ہر خوشی کا مرکز ميری اپنی ذات ہوتی ہے مجھے دوسروں سے کبھی خود کو خوش رکھنے کی خواہش رہی بھی نہيں" اس نے پھر سے بے لچک لہجے ميں کہا۔
"يہ شادی کرکے آپ بہت پچھتائيں گی" وہ پھر سے دھمکی آميز لہجے ميں بولا۔
وہ استہزائيہ انداز ميں ايسے ہنسی جیسے اسے کوئ فرق نہ پڑتا ہو۔
وہ غصے سے اپنی گاڑی کی چابی اٹھا کر تن فن کرتا ريسٹورينٹ سے نکل کھڑا ہوا۔
_________________________