وہ بے جان قدموں سے باہر تک آئی اور گاڑی میں بیٹھ گئی تبھی ایک آدمی نے اسے اسکا موبائل اور پرس پکڑایا اسنے پرس اور موبائل تھاما اور گاڑی میں بیٹھ گئی
اسکی آنکھیں خالی تھیں بلکل خالی!!!!
نہ ان میں آنسوں تھا نہ ہی کوئی سوال ….بس ایک کرب تھا اسنے کرب سے آنکھیں میچ لیں
ایک پل میں زندگی کیسے بدلتی ہے یہ کوئی مرہا سے پوچھتا ؟؟؟
مرہا کی آنکھوں میں بے یقینی سی بے یقینی تھی !!!
گاڑی چپ چاپ چل رہی تھی وہ بس بے حس ہوکر بھاگتے ہوے مناظرؤں کو دیکھ رہی تھی یا اسکی ساری حساسییات مفلوج ہوگئین تھیں جیسے صرف جسم باقی ہو اور روح …..روح کسی اور نے اپنی مٹھی میں جکڑ لی ہو
رات سیاہ سے سیاہ ہوتی جا رہی تھی سیاہ اور خاموش ….
وہ گاڑی سے مرے ہوے قدموں سے نیچے اتری جگمگ جگمگ کرتے تاروں نے آسمان کو سجا رکھا تھا
اس وہ سب تارے اور آسمان مرہا کو خامشی سے تک رہا تھا وہ اپنے گھر کے میں گیٹ تک پوھنچی اورنم آنکھوں سے دروازہ ہلکے سے کھٹکھٹایا !!!!
وہ خاموشی سے دروازے کے سامنے سے ہٹ گئی دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو شگفتہ بیگم کا چہرہ اسے دروازے کی چوکھٹ سے نظر آیا
بے اختیار اسکی آنکھوں میں تیرتی نمی جھلک پڑی دروازہ شگفتہ بیگم نے کھولا تھا اور مرہا کو سامنے دیکھ کر وہ بے اختیار اس کی طرف بڑھی اور مرہا کو خود سے لپٹا لیا
مرہا نے بھی اپنا ضبط کھو دیا اور دھاڑیں مار مار کر شگفتہ بیگم کے گلے لگ کر رو پڑی پتا نہیں کس پر رو رہی تھی اپنے اگوا ہونے پر یا جو قسمت اور وقت نے اسکے ساتھ کیا اس پر…؟؟؟
سارے کھیل ہی وقت اور قسمت کے تو تھے """
مرہا میری جان کہاں چلی گئی تھی تم تمہیں پتا ہے میری تمہارے بنا کیا حالت ہوگئی ہے؟؟؟
وہ مرہا کا ماتھ چومنے لگیں
امان !!! وہ اتنا کہ کر پھر سے ان سے لپٹ گئی
عظیم صاحب نے بھی آگے بڑھ کر اسے خود سے لپٹایا
اتنے میں روحیل بھی پولیس سٹیشن سے واپس آتا دکھائی دیا
مرہا کو دیکھ کر وہ فورن اس کی طرف لپکا
مرہا تم ….تم ٹھیک تو ہو نا..؟؟؟
کون تھے وہ لوگ…؟؟؟
کچھ کیا تو نہیںانہوں نے ؟؟
تم جواب کیوں۔ نہیں دے رہی مجھے بتاؤ وہ کون تھے میں زندہ نہیں چھوڑونگا انکو بس تم مجھے انکا پتا بتاؤ ؟؟؟ روحیل مرہا کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوے جذباتی ہوکر پوچھ رہا تھا
مجھے نہیں پتا وہ کون تھے میں نہیں جانتی مرہا نے اتنا کہ کر پھر سے رونا شروع کر دیا !!!
میں کچھ نہیں جانتی !!! وہ ہچکیؤں کے درمیان کہنے لگی
روحیل نے گہری سانس خارج کی اور اسکو خود میں بہینچ لیا پھر ہلکے ہلکے سے ااسکا سر سہلانے لگا
تم کمرے میں جاکر آرام کرو اور ٹرسٹ می میں….تمہارے ایک ایک آنسوں کا ان خبیث لوگوں سے حساب لونگا روحیل نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا ……
وہ کمرے میں آئی اور دروازہ لاک کر دیا پھر دروازے سے پشت لگا کر زمین پر بیٹھتی چلی گئی
پھر اس نے دونو ہاتھ چہرے پر دے دئے اور بے اختیار رونے لگی کس کس چیز کا حساب لوگے تم روحیل؟ ؟؟ قسمت کو میرے ساتھ غلط کرنا تھا تو میرے ساتھ غلط ہوگیا مجھے یوں ہی کسی کی زندگی میں آنا تھا میں آ گئی میں آ گئی روحیل کچھ نہیں ہوسکتا اب یہی میرا مقدر ہے درد آنسوں اور تکلیف بس یہی میرا مقدر ہے وہ آنسوں اور سسکیوں کے درمیان بولنے لگی روتے روتے اسکی آنکھیں خشک ہوگئین پھر وہ اٹھ کر واشروم میں چلی گئی وضو کیا اور دوپٹہ نماز کی طرف اوڑھ کر نماز پڑھنے لگی
میں نہیں جانتی اللہ یہ سب میرے ساتھ کیوں ہورہا ہے؟؟
لیکن میں یہ جانتی ہوں کے وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں
ہوتا یہی وقت کی اچھی عادت ہوتی ہے کے وقت جیسا بھی ہو آخر گزر ہی جاتا ہے شاید میرا وقت بھی گزر جاۓ بس مجھے صبر دینا میرے مالک اور میرے بھائی اور گھر والوں کو سلامت رکھنا میں اپنے بھائی پر کوئی پریشانی نہیں آنے دونگی اگر میرے مقدر میں وہ شخص لکھا ہے صرف برداشت کرنا ہی لکھا ہے تو ….. میں آپ سے یہی دعا کرتی ہوں کے میں اس کی ہر تکلیف کو برداشت کر جاؤں میرے مالک آنسوں ہنوز اسکے گالوں پر بہ رہے تھے رونے سے اس کی آنکھیں اور ناک گلابی پڑنے لگے تھے اسنے دعا مانگ کر چہرے پر ہاتھ پھیرے اور جاء نماز تہ کر کے رکھی اور بیڈ پر چت لیٹ کر چھت کو تکنے لگی
نا جانے مزید کتنے لمحے اسے یہاں رہنا تھا ایک دم سب اسکو اجنبی لگنے لگا تھا ہر چیز سے اسے خوف آنے لگا تھا ہر جگہ اسے وحشت ہی دکھائی دے رہی تھی !!!!
**************** ************
صبح وہ اٹھی تو اس کا سر بھاری ہو رہا تھا اسنے آنکھیں مسلیں اور موبائل اٹھا کر دیکھا جس پر 10بجے کا ٹائم بتایا جا رہا تھا اس نے موبائل پرے ڈال دیا اور لہاف ہٹا کر وارڈ روپ سے سفید رنگ کا پلین فراک نکالا اور واشروم میں چلی گئی باتھ لیکر جیسے ہی وہ باہر نکلی شگفتہ بیگم اس کے بیڈ پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہیں تھی ساتھ میں ناشتے کی ٹرے کی رکھی تھی مرہا کو دیکھ کر وہ اٹھ کر اس کے پاس چلی آئین اور اسکو گلے لگا لیا کیسی ہو میری بچی ؟؟
شگفتہ بیگم نے اس کے ہاتھ تھام لیے
ارے تمہیں تو بخار ہو رہا ہے شگفتہ بیگم نے مرہا کے گال اور ماتھا چھو کر ا پریشانی سے مرہا کو دیکھا
نہ….نہیں امان بس ٹھیک ہو جاؤنگی میں۔ایسے ہی ہورہا ہوگا موسم کی وجہہ سے اس نے ٹالنہ چاہا
شگفتہ بیگم نے اسے کندھوں سے تھام لیا اور اس کا چہرہ اپنی طرف موڑا
سب ٹھیک ہے نہ مرہا ؟؟؟ کیا تم ہم سے کچھ چھپا رہی ہو ؟؟؟ کہیں ان اگوا کاروں نے کچھ ….؟؟؟شگفتہ بیگم نے بات ادھوری چھوڑ دی پھر پریشانی سے مرہا کو دیکھا
نہیں امان کچھ نہیں ہوا میرے ساتھ اللہ نے میری جان اور عزت دونو محفوظ رکھی ہیں بس ۔۔۔
بس کیا مرہا مجھے بتاؤ کیا تم کچھ چھپا رہی ہو ؟؟؟
نہیں امان میں کیا چھپا سکتی ہوں میں یہ سوچ رہی تھی کے کبھی کبھی قسمت کے ہاتھوں آپ کتنا بے بس ہو جاتے ہیں نہ ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ہوتا تب ۔ نہ حالت نہ ہی قسمت مرہا نے کھوئے ہوے انداز میں کہا
جو لکھا تھا وہ ہو چکا ہے بیٹا ہم اسکو بدل نہیں سکتے نا بس دعا کر سکتے ہیں اور تمہیں تو شکر ادا کرنا چاہیے میری جان کے اللہ نے تمہیں سہی سلامت ہمارے پاس بھیج دیا شگفتہ بیگم نے پیار سے اس کا چہرہ تھپتھاپایا
اچہا تم ناشتہ کرو ٹھیک ہے میں چلتی ہوں وہ کہ کر اسکا ماتھا چومتی کمرے سے باہر چلی گئیں
سہی سلامت تو میں آ گئی امان بس میری روح میرے جذبات سب وہیں چھوٹ گئے …..
کبھی کبھی انسان کے پاس جان ضرور ہوتی ہے ….لیکن پھر بھی وہ ایک زندہ لاش بن جاتا ہے ایک ایسی زندگی وہ گزرتا ہے جس میں وہ اپنے جذبات اپنے احساسات جہاں تک کے خواب اور خوائشات بھی مار دیتا ہے مرہا کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا اسے نہ مستقبل کی پرواہ تھی نا اسے اپنے ماضی کے غم نے رلایا تھا کیوں کے اس کا ماںنہ ہے کے ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم نے پہلے ہی ہمیں مستقبل کے خوف اور ماضی کے غم سے آزاد کر دیا تھا
اس نے کرب سے آنکھیں بند کیں آنکھوں میں تیرتا آنسوں چھن سے اسکے گال پر بہ گیا اس نے سختی سے گال رگڑا اور موبائل اٹھا کر کال ملائی ….
پہلی گھنٹی پر ہی کال پک کر لی گئی اس کا چہرہ سپاٹ تھا بلکل سپاٹ !!!
زہ نصیب تو بالا خیر اپنے ہمیں یاد فرمانے کی زحمت کر ہی لی۔۔۔۔
فون پر زین کے ہنسی سنائی دی ''بناوٹی اور شیطانی ہنسی اندر تک جلا دینے والی ہنسی
مرہا نے نا گواری سے آنکھیں بند کر کے کھولین
میرے بھائی کا کیس واپس لے لو زین آفتاب !!! مرہا نے سپاٹ لہجے میں کھا
اچھا ؟؟؟
تو اپنے ہماری پیشکش قبول کر لی ؟؟ اچھا فیصلہ کیا اپنے زین نے اسے دات دی
آپنے مجھے فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا تھا محض فیصلہ سنایا تھا اس نے چبا چبا کر یاد دلایا
چلو عقل اور باتوں سے تو کافی ذہین لگتی ہو
پھر کب تکمیں آپ کے نکاح کی قید میں بند ہونے کا انتظار کروں ؟؟؟
آنسوں کا گولہ اس کے گلے میں اٹک نے لگا
بہت جلد انفیکٹ میں اسی ویک تمہاری خوائش پوری کر دیتا ہوں آخر اتنا تو حق بنتا ہے تمہارا
آپ صرف دوسروں کی خوائشات کا گلہ گھونٹتے ہیں خوائشات کی تکمیل سے آپ کی جانیں آپ جیسے لوگ صرف اپنی خوائش کے پیچھے دوسروں کی خوائش ان کے جذبات انکے خوابوں کو اپنے پیروں تلے روںدہتے ہیں اتنی بڑی بڑی باتیں کر کے آپ خود کے لیے میرے اندر اچھائی مت جگایں اس نے اپنا غصہ نکالتے ہوے کہ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا
اچھا ہے کے تمنے اس بات کو پہلے ہی تسلیم کر لیا
ابھی تو آپ کو اور بھی بہت سی باتوں کا پتا چلنا ہے اپنا یہ غصہ تھوڑا سا بچا کر رکھیں مرہا بی بی
مرہا نے کھٹاک سے فون بند کر دیا
اگر محبت اتنی ہی خودغرض ہوتی ہے تو مجھے نفرت ہے اس محبت سے لعنت بھیجتی ہوں میں۔ اس محبت پر اس نے موبائل ٹیبل پر پٹخا
ایک آگ تھی جو اس وقت سبکو ہونے لپیٹے میں لی ہوئی تھی اس آگ میں سب سے زیادہ نقصان کس کا ہوا ہے یہ تو وقت ہی بتاے گا
وقت ہاں ساری کھیل وقت کے ہی تو تھے لیکن وقت ہر وقت ایک جیسا تو نہیں ہوتا
وہ ایک شاندار دکان کے قد آدم آئینے کے سامنے ایک ایک شرٹ کو اپنے اوپر رکھ کر چیک کرتا
انہوں !! یہ پہن کرجاؤنگا تو وہ نک چڑہی پکا منا کر دیگی دو گھنٹے کی مغز ماری کے بعد بالاخیر اسے اپنے لیے کچھ پسند آیا تھا وہ سیلز بوئے کے پاس اپنی چیزوں کا بل پے کرنے چلا گیا
تبھی ایک گولڈ اور ڈائمنڈ کی خوبصورت چین اس کے سامنے جگمگا رہی تھی اسکی آنکھوں میں ایک عکس ابہرا
وہ مسکرا کر دکاندار کے پاس گیا اور وہ چین خرید لی
مرہا کے لیے اس نے مسکرا کر چین کو دو انگلیؤں سے اٹھا کر دیکھا
اس پر بہت اچھی لگیگی اس نے مسکرا کر سر جھٹکا اور دکاندار کو اس سے پیک کرنے کا کہا
سر یہ آپ اپنی گرل فرینڈ کے لیے خرید رہے ہیں ؟؟دکاندار نے مسکرا کر پوچھا
وہ جو ادھر ادھر آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا دکاندار کی بات پر مسکرا کر پلٹا
نہیں۔۔۔اپنی ہونے والی وائف کے لیے اس نے دل کش مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا
دکاندار کی مسکراہٹ گہری ہوئی
اسنے خوبصورتی سے مخمل کے ڈبے میں چین ڈال کر عریش کی طرف بڑھائی اسنے شکریہ کہ کر سر کو خم دیا اور بل پیک کر کے دکان سے باہر آ گیا
زین !!! وہ اپنے لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا کمرے میں سے آتی سگریٹ کی بو سے پتا چلا تھا کے اس نے ابھی ابھی سموکنگ کی ہے
زین حمنہ (زین کی ماں ) نے پھر سے زین کو پکارا لیپ ٹاپ کی نیلی روشنی اس کے چہرے پر پر رہی تھی مدھم روشنی سے بھی حمنہ بیگم با آسانی سے اس کے چہرے کی ناگواری کو واضح دیکھ سکھتی تھیں
انہوں نے سر جھٹکا اور ہاتھ مار کر کمرہ روشن کیا ایک پل کے لیے زین نے انہوں کہ کر آنکھیں بند کر لیں اسے ہمیشہ سے اندھیرا پسند تھا ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی اندھیرے میں بیٹھا کام کر رہا تھا
وہ قدم قدم چلتی اس کے پاس آئ
میں یہ کیا سن رہی ہوں زین؟؟ حمنہ بیگم نے دبے غصے سے پوچھا
مجھے نہیں پتا ماں آپ کیا سن رہی ہیں اس نے لا پرواہی سے کہ کر کندھے اچکائے دھیان ہنوز لیپ ٹاپ کی سکرین پر تھا
حمنہ بیگم نے تھکی ہوئی سانس خارج کی اور لیپ ٹاپ کی سکرین بجھا دی
زین نے نا گواری سے ان کی طرف دیکھا
میں کام کر رہا تھا امی اس نے بگڑے موڈ سے کہا
پہلے میری بات کا جواب دو میں سن رہی ہیں تم کی لڑکی سے نکاح کر رھے ہو
تو اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے ماں؟؟
نکاح تو سب کرتے ہیں وہ اٹھ کر جینس کی جیبؤں میں ہاتھ دال کر کمرے میں چکر کاٹنے لگا
حمنہ بیگم بھی اٹھ گئیں اور بازو پکڑ کر اسکا چہرہ اپنی اپنی طرف موڑا
نکاح کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن جس لڑکی کو تمنے خود کڈنیپ کروایا اسسے نکاح چھوٹی وجہہ یا ہمدردی سے تو تم کر نہیں سکتے انہوں نے زین کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا
مجھے ہمدردی کا رشتہ اسے رکھنا بھی نہیں ہے ماں اس لڑکی کے بھائی کی وجہہ سے میری بہن موت کے منہ سے باہر آتے آتے بچی ہے آپ مجھسے ان سے ہمدردی کی امید رکھ رہی ہیں اس نے غصے میں کہ کر سر جھٹکا
پھر تم اس لڑکی سے نکاح کیوں کر رھے ہو؟ اس سب میں نا اس لڑکی کا بھائی قصوروار ہے نا ہی وہ لڑکی_ تم پہلے ہی اسے کڈنیپ کر کے اسکی زندگی برباد کر چکے ہو زین اب نکاح کر کے تم کیا ثابت کرنا چاہتے ہو ؟؟
میں صرف اس کے بھائی کو سبق سکھانا چاہتا ہوں کے بہن کو جب تکلیف ہوتی ہے تو بھائی پر کیا گزرتی ہے اور میں یہ سب اس کی بہن کے ساتھ صرف اور صرف روحیل سے بدلہ لینے کے لیے کر رہا ہوں اور مجھے یہ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا آپ بھی۔نہیں کہ کر وہ کمرے سے باہر چلا گیا
حمنہ بیگم نے بے اختیار ماتھے پر ہاتھ مارا
اللہ خیر کرے اس بچی کا
وہ کمرے میں بازو گھٹنون کے گرد لپٹے تھوڑی گھٹنے پر رکھے سوچ میں غم تھی جب روحیل نے دروازہ نوک کیا اس نے چوںک کر سر اٹھایا
وہ چھوٹے چھوٹے قدم چلتا اس کے پاس بیڈ پڑ بیٹھ گیاتم آئ نہیں باہر وہ مرہا کا چہرہ تکنے لگا
میں تنہا رہنا چاہتی ہوں روحیل_ اسنے نظریں کسی غیر معرقی شے پر مرکوز کرتے ہوے جواب دیا
مرہا روحیل نے اسکے دونو ہاتھ اپنے ہاتھؤں میں تھام لیے
اگر حالت کا سامنا کرنے کے بجاے ہم یہ سوچ کر خود کو حالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں کے میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟؟ میرا کیا قصور تھا ؟اور خود کو ایک کمرے میں بند کردیں تو اس طرح سے تو ہمارے مسلے حل نہیں ہونگے نا
مسلوں کا حل اپنے آپ کو یوں بند کرنے میں نہیں ہے مرہا مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے خود کو مضبوط اور بہادر بنانا پڑتا ہے ایسے سب کچھ تیاک دینے سے تمہارا غم ختم نہیں ہوگا تم مزید ڈپریشن کا شکار ہو جاؤگی
ہمیں تکلیف اللہ اس لیے دیتا ہے کے وہ ہمیں مضبوط بنانا چاہتا ہے کمزور نہیں اگر تم یوں مایوس ہو جاؤگی تو آگے کیسے بڑھ پاؤگی
خود کو ایسے ضایح مت کرو حالت کا سامنا کرنا سیکھو وہ نرمی سے مرہا کے ہاتھ دبانے لگا
مرہا کی خاموشی میں کوئی کمی نہیں آئ وہ ہنوز کسی غیر معرقی شے کو گھور رہی تھی
روحیل نے گہری سانس لی اور افسوس سے سرجھٹکا
پتا ہے روحیل کبھی کبھی ہم ایسے مقام پر آجاتے ہیں جہاں ہمارا دل کچھ بھی کرنے کو نہیں چاہتا …..
اور پتا ہے وہ مقام کونسا ہوتا ہے ؟؟اسنے دھیرے سے پلکیں اٹھا کر روحیل کو دیکھا
وہ مقام ہوتا ہے جب ہمارے سارے جذبات مرچکے ہوتے ہیں اس نے زور دیکر کہا
روحیل نے استیہازیہ سر جھٹکا اور تاسف سے اپنی بہن کو دیکھا
اس مقام کو میری نظر میں مایوسی بھی کہتے ہیں وہ کہ کر کمرے سے باہر نکال گیا کمرے میں پھر سے خاموشی چھا گئی !!!!
وہ لیپ ٹاپ کی سکرین کھولے سکائیپ پر کال پر بات کر رہا تھا مسکراہٹ اسکے چہرے سے جدا نہیں ہو رہی تھی
بھائی آپ دبئی سے کب واپس آرہے ہیں ؟؟
بہت جلد عریش نے مسکرا کر جواب دیا
پھر گولڈ اور ڈامنڈ کی چین کیس سے نکال کر اپنی چھوٹی بہن کو دکھائی
واؤ بھائی ! یہ تو بہت ہی پریٹی ہے مناہل (عریش کی بہن ) نے ستائش سےکھا
یہ کس کے لیے لی ہے اپنے ؟؟
مناہل نے شرارت سے پوچھا
تمہاری…. بھابھی کے لیے عریش کے دائیں گال پر پڑتا گھڑا نمودار ہوا
بھابھی !!! مناہل نے حیرت اور خوشی سے چیخ ماری
آہستہ بولو کیا کان کے پڑدے پہاڑنے کا ارادہ ہے عریش نے کانوں میں انگلیان ٹھوس لیں
مناہل نے منہ بنایا پھر چہک کے تھوڑا آگے ہوکر پوچھا اچھا بھائی بتایں نا کیسی ہے بھابھی
بہت اچھی ہے عریش کے سامنے مرہا کا غصے والا چہرہ لہرایہ
کیا وہ دبئی میں رہتی ہیں مناہل نے جوش سے پوچھا
انہوں پاکستان کی ہے میں آکر تمہیں دکھا دونگا
آپ جلدی آجائیے گا بھائی مجھے اپنی بھابھی کے لیے ویٹ نہیں ہو رہا
اچھا بابا آجاؤنگا لیکن سنو تب تک یہ بات ہمارے درمیان ہی رہے گی ٹھیک؟؟ عریش نے تہنبیہ کرتے ہوے کہا
اوکے باس مناہل سر کو خم دیا
عریش نے خدا حافظ کہ کر لیپ ٹاپ کی سکرین بجھا دی
کیا لیکن ابا اتنی جلدی کیا ہے مرہا کی شادی کی؟؟ ابھی تو اسکی پڑھائی مکمل ہوئی ہے روحیل نے بے بسی سے باپ کو دیکھا
تمہارے ابا ٹھیک کہ رھے ہیں روحیل جو ہو گیا ہے اس کو بدلہ نہیں جا سکتا اور پھر یہ تو مرہا کی خوش نصیبی ہے کے اس کے لیے اتنا اچھا رشتہ آگیا ہے ہمیں تو شکر ادا کرنا چاہیے شگفتہ بیگم می روحیل کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے اسے شانت کرنا چاہا
لیکن امان مرہا نہیں مانےگی روحیل نے پریشانی سے چہرے پر ہاتھ پھیرے
مرہا نے ہاں کر دی ہے روحیل عظیم صاحب نے گویا روحیل کے سر پر بم پھوڑا
کیا ؟؟؟وہ فورن مرہا کے کمرے کی طرف بڑھا
حسب معمول وہ خاموشی سے ایک شے کو گھور رہی تھی
مرہا تمنے رشتے کے لیے ہاں کیوں کی روحیل کے چہرے پر غصہ تھا
مرہا خاموش رہی اس نے کوئی جواب نہیں دیا
میں ….کچھ پوچھ رہا ہوں؟؟ روحیل نے غصہ ضبط کرتے ہوے پوچھا
تو اور کیا کرتی میں ؟؟ جو کچھ ہوا اس کے بعد تم اور کیا امید کرتے ہو روحیل کے میں ساری زندگی بیٹھ کر ابا امام لی تکلیف کا باعس بنتی رہوں اور پھر جو رشتہ آیا ہے میں اس سے زیادہ کچھ ایکسپٹ نہیں کر سکتی مرہا نے دو ٹوک انداز میں کھا
لیکن _روحیل نے کچھ کہنا چھ لیکن مرہا نے مداخلت کر کے اسے روک دیا
بس روحیل اس نے زیرلب التجا کی
روحیل بس مرہا کو دیکھتا رہ گیا اسنے بے بسی سے آنکھیں بند کر لیں
میسج ٹون بجی تو مرہا نے چوںک کر موبائل اٹھایا
ہاں کر کے تم بہت سمجھداری کر کام کیا ہے مادام
زین کا میسج دیکھ کر مرہا نے موبائل اوف کر کے پرے ڈال دیا اور سختی سے آنکھوں میں آتی نمی کو رگڑا
میں نہیں رووں گی زین تمہاری یہ خوائش ہے نا کے تم۔ میری سسکیاں سنو میرے درد پر میرا مذاق اڑاؤ تو یہ تمہارا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا زین آفتاب !! میں اب سے ایک آنسو بھی نہیں بہاؤں گی اگر تمنے مجھسے اپنی بہن کے آنسوؤں کا بدلہ لیا ہے تو میرا ایک آنسوں بھی تمہارے سامنے نہیں بہے گا مرہا نے خود سے عزم کیا۔۔۔۔۔