چھٹی کا دن تھا۔ پھر بھلا سویرے کون اٹھے۔ میاں لچھن کی اکلوتی پیداوار باؤ کچھن کی گیارہ بجے آنکھ کھلی۔ اس وقت تک اماں حضور گھر کی صفائی ستھرائی سے بھی فارغ ہو کر ایک ہمسائی کے ساتھ داخلی و خارجی دُکھ سّکھ، بشمول باہمی دلچسپی آس پاس پڑوسنوں کی سرگرمیوں جیسے امور پر تبادلہ خیال کر رہی تھیں۔ ’’اس کا مطلب ہے ابا گھر میں نہیں ہیں۔ ورنہ اماں کی یہ مجال کہ ہمسائی سے یوں کھل کھلا کر بات کریں‘‘ باؤ کچھن کے چہرے پر رونق آ گئی۔ وہ بے فکر ہو کر کمرے سے نکلے اور صحن سے ہوتے ہوئے غسلخانے کی طرف بڑھے۔ ہمسائی کی نظر باؤ جی پر پڑی تو بڑی راز داری سے بولیں ’’کب تک اکیلے گھر کا کام کرتی رہو گی۔ کوئی بہو کیوں نہیں لے آتیں۔‘‘ بیگم لچھن نے حسرت بھری نظروں سے اپنے سوکھی ٹانگوں والے شہزادے کی طرف دیکھا اور بولیں ’’اسے کہیں نوکری ملے تو سہی۔ ہم نے کسی کی بیٹی کو بھوکا تو نہیں مارنا‘‘۔ باؤ کچھن کے دل پر گفتگو کے پہلے حصے کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ غسلخانے کی بجائے باہر گلی میں نکل گئے۔ گلی میں قدم رکھتے ہی ان پر حقیقت کھلی کہ اب وہ گلی کی نالی پر بیٹھ کر فارغ ہونے کی عمر سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ فوراً اندر آئے۔ غسلخانے کا رخ کیا، جہاں اندر داخل ہونے سے پہلے شیطان سے پناہ مانگنے کی دعا پڑھی۔ شیطان پر اس دعا کا اثر ہوا یا نہیں لیکن ہمسائی کے الفاظ ان کے دماغ کے ساتھ ایسے چپک گئے تھے۔ جیسے سفید کپڑوں پر مٹی کے داغ۔
غسلخانہ ایک ایسی جگہ ہیں جہاں ایک دو دوسری چیزوں کے ساتھ دماغ کی کھڑکیاں بھی کھُل جاتی ہیں۔ اورایسے ایسے خیالات و مناظر ذہن کے پردے پر نمودار ہونے لگتے ہیں جو عام حالات میں دماغ پر لاکھ زور دینے کے باوجود پکڑائی نہیں دیتے۔ ابھی باؤ کچھن فراغت کی نصف منزلیں ہی طے کر پائے تھے کہ اچانک ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ پاجامہ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اندر سے غسلخانے کا دروازہ پیٹنے لگے۔ ان کی اکلوتی اماں دوڑتی ہوئی آئی اور باہر سے بولی ’’کیا ہوا کمبخت مارے‘‘۔
’’اماں دروازہ کھولو‘‘۔
’’چمٹے کی اولاد، یہ اندر سے بند ہے‘‘۔ غسلخانے میں آتش فشاں پہاڑ کی طرح اچانک پھٹنے والے جذبات کی شدت نے باؤ کچھن کے احساسات شرمندگی کو کچل کر رکھ دیا تھا۔ وہ اپنے ’’کئے کرائے‘‘ پر پانی بہائے اور ہاتھ دھوئے بغیر لاسٹک والا پاجامہ سنبھالتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف دوڑے۔ جیسے اپنا ادھورا کام وہاں جا کر مکمل کریں گے۔ اماں، باؤ کچھن کی اس ہیجانی کیفیت پر کچھ بھی نہ بولیں۔ بولتیں بھی تو کیا ہو جاتا۔ ان کی ایک عمر اپنے ’’سارے جگ توں سوہنے شوہر نامدار‘‘ میاں لچھن کے انوکھے اعمال و افعال کو برداشت کرتے گزری تھی۔ اب اپنی اکلوتی اولاد کی جولانی طبع کے تماشے دیکھ دیکھ کرسوائے اللہ سے دعا کرنے کے اور کیا کر سکتی تھیں۔
چند منٹ بعد ہی باؤ کچھن اسی حالت میں کمرے سے باہر آئے۔ دونوں ہاتھوں سے پاجامے کو یوں پکڑ رکھا تھا جیسے ازاربند ٹوٹ گیا ہو۔ اور ابھی نیچے گرا کہ گرا۔ لیکن اس میں تو لاسٹک تھا۔ پاجامہ نیچے گرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ اپنی اماں کے پاس آئے۔ اماں نے پہلی دفعہ باؤ کچھن کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر رونق دیکھی تو حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ ’’کیا ہوا میرے لال۔ خیریت تو ہے‘‘۔ انہیں خوش دیکھ کر اماں کو تشویش لاحق ہو گئی ’’پیسے نہ مانگنا۔ تمہارے ابا کو اس ماہ پنشن نہیں ملی۔ اس کے علاوہ کوئی بات ہے تو کہو‘‘۔
’’نہیں اماں کچھ نہیں۔ تمہاری بہو کا بندوبست ہو گیا ہے‘‘ یہ سنتے ہیں اماں کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ انہیں یوں لگا جیسے باؤ کچھن نے ان پر گرم پانی انڈیل دیا ہو۔ اپنی لاڈلی اولاد سے اس انکشاف کی بالکل توقع نہ تھی۔ ابھی وہ اس بارے کچھ پوچھنے ہی والی تھیں کہ انہیں بُو کا احساس ہوا۔ ’’کم بخت مارے دھوئے بغیر ہی غسلخانے سے باہر آ گئے ہو۔ پاجامہ بھی خراب کر دیا ہو گا‘‘۔ باؤ کچھن کو کچھ کچھ ہوش آنے لگا تھا۔ فوراً اٹھ کر غسلخانے گئے۔ جہاں انہوں نے اپنا ادھورا مشن مکمل کرنے کے بعد پاجامہ کے متاثرہ حصے کو بھی دھویا اور باہر آ گئے۔
باؤ کچھن کی اس اچانک طوفانی ہل چل کے پیچھے ایک خوبصورت آئیڈیا تھا۔ اگر یہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو میاں لچھن فیملی کے مالی حالات پر مدتوں سے جمی کائی دنوں میں دور ہو سکتی تھی۔ بات در اصل یہ تھی اس گلی کے آخری میں میڈم نزہت کا گھر تھا۔ وہ ایک سکول میں ہیڈ مسٹریس تھی۔ چند سال پہلے اس کا شوہر انتقال کر گیا۔ جو خود کافی مال و دولت چھوڑ کر گیا تھا۔ ان کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لئے اب میڈم نزہت اس گھر میں اکیلی رہتی تھی۔ تقریباً ایک سال قبل وہ خود بھی ساٹھ سال عمر پوری ہونے پر ریٹائر ہو گئیں۔ اور انہیں پینشن وغیرہ کی مد میں لاکھوں روپے ملے تھے۔ اپنے رکھ رکھاؤ اور مالی آسودگی کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے کافی چھوٹی نظر آتی تھیں۔ غسلخانے میں جس خیال نے باؤ کچھن کے ہوش اڑا دئے تھے وہ یہ تھا کہ اگر میڈم نزہت اس کا جیون ساتھی بننے پر راضی ہو جائیں۔ تو دونوں کی بقیہ زندگی خوب نبھ سکتی ہے۔ آخر میڈم نزہت نے اتنا پیسہ کہاں خرچ کرنا ہے۔ میڈم نزہت باؤ کچھن سے اڑھائی گنا زیادہ عمر کی ہیں تو کیا ہوا۔ بس میڈم نزہت کی ہاں چاہئے۔ باؤ کچھن کو پوری امید تھی کہ اگر اس نے ایک دفعہ میڈم جی کو حال دل سنایا۔ اور ان کے بڑھاپے کا سہارا بننے کی نوید سنائی تو وہ مان ہی جائیں گی۔ اماں کی پریشانی بھی ختم ہو جائے گی اور باؤ کچھن کے بارے میں محلے والوں کے طعنے بھی اپنی موت مر جائیں گے۔
باؤ کچھن بغیر ناشتہ کئے گھر سے نکلے۔ پیچھے اماں آوازیں ہی دیتی رہ گئی۔ ’’بیٹا میں نے تمہارے لئے مولی والے پراٹھے خاص طور پر بنائے ہیں‘‘۔ پر اب تو وہ میکڈونلڈ کے برگر کے خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ سیدھا اپنے دوست المعروف سیٹھ بسنتہ کے پاس گئے۔ جو اکثر ان کے اعلانیہ اور خفیہ کاموں میں مددگار ثابت ہوتا تھا۔ اس سے اس کی پینٹ اور شرٹ یہ کہہ کر ادھار لی کہ ایک ضروری شادی پر جانا ہے۔ بس ایک ہفتے کی دیر ہے وہ اسے نیا سوٹ خرید کر دیں گے۔ ایک دوسرے دوست سے چند سو ادھار لئے۔ اس وعدے پر کہ اسی ماہ ڈبل واپس کریں گے۔ لیکن اگلی بات نہ بتائی۔ باؤ کچھن اپنے دوستوں اور محلے والوں کو سرپرائز دینا چاہتے تھے۔ انہیں پکا یقین تھا کہ میڈم نزہت ان کی طرف سے شادی کے پیغام کر رد کر ہی نہیں سکتیں۔
اپنے دونوں دوستوں کو حیران چھوڑ کر وہ سیدھا دولہا بیوٹی پارلر پہنچ گئے۔ دو اڑھائی گھنٹوں کی محنت شاقہ اور اڑھائی ہزار روپے کے خرچہ کے بعد ان کی ڈینٹنگ و پینٹنگ مکمل ہوئی۔ اب اگلا مرحلہ تھا کہ دل کی بات میڈم تک کیسے پہنچائی جائے۔ ’’میں کسی قاصد کا احسان کیوں لوں۔ دو دلوں کی بات فی الحال دو دلوں کے درمیان ہی رہے تو اچھا ہے۔ ولیمہ پر سب کو پتہ چل ہی جائے گا‘‘۔ تو گویا شادی کی بات ففٹی ففٹی پکی تھی۔ لڑکا تیار تھا صرف لڑکی کی ہاں کی ضرورت تھی۔ باؤ کچھن کو اپنی صلاحیتوں پر پختہ یقین تھا۔ بس ایک دفعہ لڑکی سامنے آ جائے۔ وہ انکار کر ہی نہیں سکتی۔ اور یوں باؤ کچھن بغیر سہرے کے دولہا بن کر میڈم نزہت کے مکان کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ میڈم کا مکان کچھ ایسا تھا کہ کہ سب سے پہلے ایک کمرہ تھا جس کا ایک دروازہ اور ایک کھڑکی گلی میں کھلتی تھی۔ یہ بطور بیٹھک استعمال ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ چھوٹی سی ڈیوڑھی تھی۔ اس کے آگے مختصر صحن اور آخر میں دو کمرے، کچن وغیرہ۔ مکان کا بیرونی دروازہ جالی دار تھا۔ جس کے ذریعے بغیر اسے کھولے دیکھا جا سکتا تھا کہ باہر کون کھڑا ہے۔ گلی سے گزرنے والے کسی شخص نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ باؤ جی آج بن سنور کر کیوں کھڑے ہیں۔ پورا محلہ جانتا تھا کہ باؤ کچھن کی روزمرہ حرکتیں کسی کے لئے بھی باعث نقصان نہیں ہو سکتیں۔ لیکن یہ صرف باؤ کچھن ہی جانتے تھے کہ ان کا یہاں کھڑا ہونا کس عظیم مقصد کے لئے ہے۔ وہ تو ایک بیوہ کی مدد کر کے اس کا بڑھاپا آسان بنانا چاہتے تھے۔
سخت گرمی کا موسم، دھوپ سے ان کا میک اپ پگھلنا شروع ہو چکا تھا۔ تین گھنٹے کے اذیت ناک انتظار کے بعد امید کی کلی کھلنے کے آثار پیدا ہو گئے۔ میڈم نزہت پھلوں کے چھلکے بیرونی دروازے پر رکھے کوڑے دان میں ڈالنے کے لئے جالی والے دروازے کے قریب آئی۔ اچانک ان کی نظر گلی میں سامنے کھڑے باؤ کچھن پر پڑی۔ ادھر جب باؤ کچھن نے میڈم کو جالی کی اوٹ میں دیکھا تو ان کے تن مردہ میں جان آ گئی۔ آنکھوں کی چمک کئی گنا بڑھ گئی۔ دوپہر کا وقت تھا۔ گلی میں سنسان کا عالم تھا۔ یہی وقت تھا ’’جھٹ منگنی پٹ بیاہ‘‘ کو ثابت کرنے کا۔ باؤ کچھن نے جھٹ دایاں ہاتھ دل کی جگہ پر رکھا، تھوڑا سا جھکے اور پھر فرشی سلام پیش کر دیا۔ میڈم جی اس اچانک دل نوازی پر حیران ہو گئیں۔ ان کی اس محلے میں اک عمر گزری تھی۔ کسی نے آج تک انہیں غلط نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ باؤ کچھن کی حرکات و کیفیات کا جائزہ لینے کے لئے تھوڑی دیر رکیں۔ اور اندر چلی گئیں۔ باؤ کچھن کا یقین پختہ ہو گیا کہ میڈم نزہت تک ان کے دل کی بات پہنچ گئی ہے۔ اسی لئے تو وہ اتنی دیر ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر جالی کی اوٹ سے انہیں دیکھتی رہی تھیں۔
’’آخر اکیلی عورت کے لئے مرد کا سہارا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اماں اور ابا نے مجھے سوائے بھوک اور طعنوں کے اور دیا ہی کیا ہے۔ میں میڈم کی اتنی خدمت کروں گا کہ وہ زندگی کے سارے غم بھول جائیں گی‘‘۔ اور دوسری طرف میڈم نزہت سوچ رہی تھیں ’’میں اس سوکھی ٹانگوں والی ٹیڑھی میڑھی مخلوق کو بے ضرر سمجھا کرتی تھی۔ اس کی اتنی ہمت۔ اس کا مستقل اور با عزت حل نکالنا ضروری ہے ورنہ۔۔۔۔‘‘۔ میڈم نزہت جالی والے دروازے سے پرے ہٹیں تو باؤ کچھن دل ہی دل میں شادمانیوں کی قلابازیاں کھاتے ہوئے گھر پہنچے۔
گھر میں قدم رکھتے ہی ان کا سامنا ابا حضور سے ہوا۔ جو غالباً انہی کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے باؤ کچھن کو یک طرفہ دولہا بنے دیکھا تو خاموشی سے گھر سے باہر نکل کر گلی میں جھانکا کہ ساتھ کوئی دوسری مخلوق تو نہیں۔ لیکن گلی سنسان تھی۔ وہ جلدی سے باؤ کچھن کے پیچھے پیچھے ان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ اماں حضور پہلے ہی وہاں قدم رنجہ فرما چکی تھیں۔ ’’یہ بہو کا کیا چکر ہے بھئی؟‘‘۔ ابا اور اماں کا مشترکہ سوال تھا۔
’’آپ دونوں مجھے نکما اور ٹیڑھا میڑھا کہتے تھے۔ اب چند دن اور انتظار کریں پھر دیکھیں اس گھر کے حالات کیسے بدلتے ہیں‘‘۔
’’لیکن وہ ہے کون؟‘‘ ابا بولے۔
’’ابا۔ آپ کو کھاتی پیتی بہو چاہئے یا نہیں‘‘ باؤ کچھن کا لہجہ یکدم تلخ ہو گیا۔ ’’لڑکی خوبصورت ہے اور بہت مالدار ہے۔ اس نے مجھے خود شادی کی پیش کش کی ہے‘‘۔ باؤ کچھن پر خود فریبی کا بھوت پوری طرح سوار ہو چکا تھا۔ ’’اب آپ جائیں اور مجھے کچھ سوچنے دیں‘‘۔ اماں اور ابا جو پہلے ہی اس کی حرکتوں سے پریشان رہتے تھے۔ اس کی باتیں سن کر آبدیدہ ہو گئے۔ اور سوچنے لگے اگر کسی نے ان کی اکلوتی اولاد کا بھوت اتارنے کے لئے اس کی ٹانگوں پر ہلکی سی چھڑی بھی مار دی تو ہڈیاں چورا چور ہو جائیں گی۔ باؤ کچھن کی اماں کی آنکھیں کسی آنے والے طوفان کے خوف سے نم ہو گئیں۔ دونوں چپ چاپ اٹھ کر صحن میں اُگے بکائن کے درخت کے نیچے بچھی چارپائی پر آ کر بیٹھ گئے۔
باؤ کچھن عشق کا پہلا مرحلہ کم ترین وقت میں اتنی کامیابی سے طے ہونے پر بہت خوش تھے۔ انہیں ان نوجوانوں کی قسمت پر رونا آ گیا جو اپنے محبوب کو پانے کے لئے کئی کئی مہینے بلکہ سال اس کے در کے چکر لگاتے ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ ’’بندے بندے میں بھی فرق ہوتا ہے ناں جی۔ بس لڑکی کو رام کرنے کے لئے اپنے اندر حوصلہ اور صلاحیت ہونا چاہئے۔ میرے اندر یہ دونوں چیزیں موجود ہیں‘‘۔ باؤ کچھن کی سوچ کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی تھی۔ اب گلا مرحلہ کیا ہو۔ بھوک اور پیاس سے بے نیاز وہ گہرے مراقبے میں چلے گئے۔ پھر ان کے ذہن میں غسلخانے کا چکر لگائے بغیر کمرے میں لیٹے لیتے ہی ایک خیال کوندا۔ انہوں نے مدعائے دل کے نفس مضمون پر غور کرتے کرتے پوری رات گزار دی۔ ادھر فجر کی اذانیں فضا میں بلند ہوئیں ادھر باؤ کچھن نے اپنا حال دل ایک رنگین اور منقش کاغذ پر منتقل کیا۔ اور صبح کا انتظار کئے بغیر چپکے سے اسے میڈم کی ڈیوڑھی کے جالی دار دروازے کے نیچے سے اندر دھکیل کر گھر چلے آئے مبادا کوئی انہیں دیکھ لے۔ اس کام میں راز داری بہت ضروری تھی۔ انہیں اس بات کا بھی اندیشہ تھا کہ ان کی دیدہ دلیری کو میڈم نزہت کی رضا مندی سمجھ کر محلے میں سے ایک بھی دوسرا امیدوار اس میدان میں کود پڑا۔ تو پھر باؤ کچھن کے لئے دریائے عشق کو پار کرنا نا ممکن ہو جائے گا۔ کیونکہ ابھی ان کا گھڑا کچا تھا۔
صبح دودھ والے نے میڈم نزہت کے دروازے پر دستک دی۔ وہ برتن لے کر جب ڈیوڑھی میں آئیں تو خوشبو کے ایک جھونکے نے ان کا استقبال کیا۔ ابھی وہ حیران ہوا ہی چاہتی تھیں کہ ان کی نظر نیچے پڑی جہاں ان کے ’’یک طرفہ عاشق‘‘ کا محبت نامہ شرف قبولیت کا منتظر تھا۔ دن کی بات کچھ اور تھی لیکن رات کے اندھیرے میں اس طرح کی حرکت سے میڈم پہلے تو تھرا گئیں۔ پھر سنبھل گئیں۔ وہ ایک جہاندیدہ عورت تھیں۔ انہوں نے اس سلسلہ جنبانی کو جلد سے جلد انجام تک پہچانے کا فیصلہ کر لیا۔ مبادا محلے میں کسی کو بھنک بھی پڑ گئی تو ساری عمر کی عزت سادات جاتی رہے گی۔ اس معاملے پر خوب سوچ بچار کرنے کے بعد بالآخر انہیں اس سے پیچھا چھڑانے کا شافی حل نظر آ گیا۔ انہوں نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر مختصر سی تحریر لکھی اور باؤ کچھن کو ایک ہفتہ بعد اپنے گھر میں چائے کی دعوت دے دی۔
میڈم نزہت کی ایک بھانجی رخشی راولپنڈی میں میڈیکل کالج کی طالبہ تھی۔ میڈم نے اسے فون کر کے بلا لیا اور تاکید کی کہ ہو سکے تو ایک دو انسانی کھوپڑیاں اور ہڈیاں بھی ساتھ لیتی آئے۔ شہر کی ایک پری میڈیکل کی طالبہ کو انہیں دیکھنے کا شوق ہے۔ رخشی تیسرے ہی روز اپنے بھائی کے ساتھ اپنی خالہ کے گھر آ گئی۔
دوسری طرف باؤ کچھن کے لئے تو ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل تھا۔ ایک ہفتہ کیسے گزارتے۔ ان کے کانوں میں گانا ’’اسی لئے ممی نے میری تمہیں چائے پے بلایا ہے‘‘ بار بار گونجنے لگا۔ لیکن یہاں تو خود ان کی یک طرفہ محبوبہ نے انہیں چائے کی دعوت دی تھی۔ اس کے لئے کوئی مناسب گانا ذہن میں نہیں آ رہا تھا۔ یکایک ان کے ذہن میں فوراً انڈین اداکار امیتابھ بچن آ گئے جنہوں نے ایشوریا رائے کو اپنی بہو بنانے کے لئے ننگے پاؤں حضرت خواجہ معین الدینؒ کے مزار پر حاضری دی تھی۔ ’’ہندو ہو کر بھی اس کی دعا قبول ہو گئی تھی۔ میں تو پھر مسلمان ہوں۔ میری دعا کیوں قبول نہیں ہو گی‘‘۔ باؤ کچھن نے یہی سوچ کر سات میں سے پانچ دن مختلف بابوں کے مزاروں کے چکر لگانے اور وہاں کا متبرک لنگر کھانے میں گزار دئیے۔ آخر کسی نہ کسی در سے تو دعا کی قبولیت کی سند ملے گی۔ انہوں نے یہ بھی سوچ لیا کہ نئی دلہن کے لئے اپنے آبائی گھر کو سجانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ انہوں نے کونسا اس گھر میں رہنا تھا۔ وہ تو نکاح بھی میڈم نزہت کے گھر پڑھوانے اور پھر ساری عمر وہیں پڑا رہنا چاہتے تھے۔ بھلا میڈم کو اس سے انکار بھی کیوں ہو سکتا تھا۔ وہ اس دنیا میں اکیلی تھی۔ باؤ کچھن اور میڈم نزہت آرام سے اس گھر میں گزر بسر کر سکتے تھے۔ رہی بات اماں اور ابا کی تو وہ اسی آبائی گھر میں خوش ہیں۔ ویسے بھی انہیں ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت ہے۔ کہیں ان کی وجہ سے میڈم ناراض ہی نہ ہو جائیں۔ باؤ جی اب میڈم کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ پانچ دن مختلف بابوں کے مزاروں پر دعا کرتے گزر گئے۔
باؤ کچھن نے گھر واپس پہنچتے ہی اپنے ایک تیسرے دوست سے ایک ہفتے کے وعدے پر خاصی رقم ادھار لی۔ میڈم کے لئے ایک مہنگا برانڈڈ سوٹ، جوتا اور پرفیوم خریدے۔ ان چیزوں کا گفٹ پیک اس انداز سے تیار کیا کہ اگر کوئی دیکھ بھی لے تو اسے شک نہ گزرے کہ یہ کیا، کیوں اور کس مقصد کے لئے ہے۔ دوپہر کے سوا دو بجے جب گلی سنسان ہو گئی تو باؤ کچھن، گفٹ پیک کے ساتھ میڈم نزہت کے گھر کے سامنے پہنچ گئے۔ میڈم نے یہی وقت دیا تھا۔ چند منٹ بعد ہی میڈم نزہت نے جالی دار دروازے کے پیچھے سے جھانکا۔ باؤ کچھن کوسامنے پا کر دروازہ کھولا اور اسے اندر آنے کا شارہ کیا۔ باؤ جی خوشی سے نہال، یوں لجاتے، شرماتے اندر داخل ہوئے جیسے وہ واقعی اس گھر کے داماد ہوں۔
’’جی تشریف لائیے‘‘۔ میڈم نزہت نے مسکراتے ہوئے استقبال کیا اور بیٹھک میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ باؤ جی نے میڈم کو گفٹ پیک پیش کرنا چاہا۔ لیکن انہوں نے ’’بہت شکریہ‘‘ کہہ کر اسے بیٹھک میں ہی میز پر رکھنے کا کہا۔ باؤ جی خوشی سے پاگل ہوئے سوچ رہے تھے ’’میڈم تو پہلے سے ہی تیار تھیں۔ کاش میں چند سال پہلے ہی انہیں اپنی محبت کا یقین دلا دیتا۔ کاش کاش کاش میں نکاح خواں کو بھی ساتھ ہی لے آتا۔‘‘ باؤ کچھن پرانی طرز کے صوفے پر سمٹ کر بیٹھ گئے۔ میڈم نے ایک کونے میں پڑی صاف ستھری میز گھسیٹ کر ان کے سامنے کر دی۔ اور میز کے دوسری طرف خود کرسی پر بیٹھ گئیں۔ باؤ جی نے گفٹ پیک میز کے ایک کونے پر رکھ دیا۔ فی الحال لب خاموش تھے۔ صرف مسکراہٹوں کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ میڈم نزہت، باؤ جی کی کیفیت سے خاصی محظوظ ہو رہی تھیں۔ اس بڑی میز کے ساتھ ایک چھوٹی میز تھی جس پر تین نیلے رنگ کے شاپر رکھے ہوئے تھے۔ باؤ کچھن کی نظر ان پر پڑی تو سوچا ’’یقیناً یہ میرے لئے قیمتی تحفے ہوں گے۔ ایک میرا، ایک ابا اور ایک اماں کے لئے۔ میڈم نزہت تو واقعی میری قدر دان اور دل کی بڑی امیر تھی۔‘‘
’’رخشی! چائے لے آؤ‘‘۔ میڈم نے اندر کی طرف منہ کر کے آواز دی۔ باؤ کچھن چونکے۔ میڈم فوراً بھانپ گئیں اور بولیں ’’یہ میری بھانجی ہے۔ دو دن پہلے راولپنڈی سے آئی ہے۔ اور آج ہی شام کو واپس چلی جائے گی‘‘۔ باؤ جی کی جان میں جان آئی۔ چند لمحے بعد ہی رخشی ٹرے میں دو کپ اور کچھ اعلیٰ قسم کے بسکٹ رکھے اندر داخل ہوئی۔ اگرچہ وہ میڈم سے زیادہ خوبصورت اور جوان تھی۔ لیکن باؤ جی کی نظر تو میڈم کی دولت پر تھی۔ جس کے وہ واحد مالک و مختار بننا چاہتے تھے۔ جب میڈم باؤ جی کو خود چائے کا کپ پکڑانے لگیں تو باؤ جی نے کپ کی بجائے ان کا ہاتھ چھونے کی کوشش کی۔ میڈم اس حملے کے لئے پہلے سے تیار تھیں۔ انہوں نے کپ کو دو انگلیوں میں پکڑا اور باؤ جی کے سامنے میز پر رکھ دیا۔ باؤ جی، میڈم کی اس ادا پر بھی مر مٹے۔ چائے کے دوران دونوں کے درمیان سوائے مسکراہٹوں کے تبادلے کے منہ سے کوئی بات نہ ہوئی۔
’’آپ نے خوامخواہ اس گفٹ کا تکلف کیا‘‘۔ میڈم نزہت نے باؤ جی کے گفٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر چائے کے بعد میڈم نے سلسلہ گفتگو شروع کیا۔ باؤ جی کو کوئی جواب نہیں سوجھ رہا تھا۔ مبادا ان کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جائے جس سے میڈم ناراض ہو جائیں۔ وہ بس میڈم کو تکے جا رہے تھے۔ کن انکھیوں سے کمرے کا جائزہ بھی لیتے رہے کہ نکاح کے بعد کونسی چیز کہاں رکھنی ہے اور کس کو نکال کر اس کی جگہ نئی چیز خریدنی ہے۔ رخشی اس وقت تک کمرے میں ہی انجان بنی بیٹھی تھی۔ میڈم نے اشارہ کیا اور وہ خالی کپ اور ٹرے اٹھا کر اندر چلی گئی۔
’’میں آپ کو اپنی کچھ خاندانی چیزیں دکھانا چاہتی ہوں۔ امید ہے آپ جیسی با ذوق شخصیت کو پسند آئیں گی۔‘‘ اپنی اس قدر پذیرائی دیکھ کر باؤ کچھن کا دماغ ساتویں آسمان پر جا پہنچا۔ انہوں نے سوچا خاندانی زیور ہوں گے۔ جو اب ان کی ملکیت بننے والے تھے۔ میڈم نے چہرے پر بدستور مسکراہٹ سجائے ایک شاپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے کھولنے کا کہا۔
’’آپ بھی کمال کرتی ہیں۔ اس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔ میں گھر جا کر کھول لوں گا‘‘۔ باؤ کچھن نہیں چاہتے تھے کہ ان کو ملنے والے تحفے راستے میں ہی کھُل جائیں۔ میڈم کی ہنسی چھوٹ گئی۔ انہوں نے چھوٹی میز سے ایک شاپر اٹھایا اور چائے والی میز پر رکھ دیا۔ ’’اسے میں کھولوں یا آپ زحمت کریں گے‘‘ ، میڈم کی شیریں بیانی نے باؤ جی کو مکمل گھائل کر دیا۔ باؤ جی نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو میڈم نے خود اسے کھولا۔ اس میں سے ایک انسانی کھوپڑی اور چند ہڈیاں نکال کر میز پر رکھ دیں۔ اب یہاں وہی انڈین فلم مغل اعظم والا سین شروع ہو گیا۔ مغل بادشاہ کا دربار لگا ہوا ہے۔ شہزادہ سلیم اور شہنشاہ اکبر، کنیز انارکلی سے گانا سنتے ہیں۔ ’’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘۔ جب گانا شروع ہوتا ہے تو جہاں پناہ کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ اور خوشی دوڑ رہی ہے۔ پھر جب گانے کے وسط میں انارکلی لہراتی، گاتی، مچلتی شہزادہ سلیم کے ڈب سے خنجر نکال کر خاص انداز سے جھومتی اس خنجر کو جہاں پناہ کے قدموں میں رکھتے ہوئے کہتی ہے ’’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘ تو بادشاہ سلامت کے چہرے سے یکدم مسکراہٹ غائب ہو کر غصے کی ایسی لہر نمودار ہوتی ہے کہ ان کی آنکھیں اور چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ ملکہ خوف سے سمٹ جاتی ہے۔ یہی عالم اب باؤ کچھن کا تھا لیکن انداز مختلف تھا۔ باؤ کچھن جو چند لمحے پہلے اپنے آپ کو اس گھر کا داماد سمجھ رہا تھا۔ ان کے چہرے سے بھی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ پھر یہ سوچ کر سنبھل گئے کہ شاید گھر داماد کی جوتیاں چھپانے یا اسے دودھ میں مرچیں ڈال کر پلانے کی جگہ مذاق کا یہ نیا طریقہ ایجاد ہوا ہے۔ وہ چپ بیٹھے رہے۔
’’میں نے سوچا آپ کو اس خاندانی حقیقت سے آگاہ کر دوں‘‘ میڈم نزہت بدستور مسکراتے ہوئے بولیں۔ ’’میری ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ایک روز میں کالج جانے کے لئے گھر سے نکلی تو دیکھا کہ ایک لڑکا میرا پیچھا کر رہا ہے۔ میں نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ میری خاموشی سے چند روز میں اس کی ہمت اتنی بڑھی کہ ایک دن اس نے مجھے لڑکیوں کے سامنے پھول پیش کر دیا۔ میں اس وقت خاموش رہی۔ گھر آ کر اماں کو سب بتا دیا۔ تیسرے دن میرا بڑا بھائی ایک خون آلود تھیلا لے کر گھر آیا۔ اس میں اسی لڑکے کا کٹا ہوا سر تھا۔ اس کا دھڑ اس نے چھ کلومیٹر دور دریا میں بہا دیا تھا۔‘‘ میڈم بغیر رکے داستان بیان کر رہی تھی ’’ہمارے خاندان میں رواج ہے کہ دشمن کا سر کاٹ کر اسے گھر میں سجا لیتے ہیں اور دھڑ کو ایسی جگہ پھینکتے ہیں کہ ساری عمر اس کا سراغ نہیں ملتا‘‘۔
باؤ کچھن کی زبان گنگ ہو کر رہ گئی۔ خوف سے ان کی پینٹ گیلی ہو گئی۔ پھر میڈم نے دوسرے دو شاپر بھی کھولے اور ان سے دو انسانی کھوپڑیاں اور ہڈیاں نکال کر میز پر رکھ دیں۔ ’’یہ بھی ان نوجوانوں کی ہیں جنہوں نے ہمارے خاندان کی لڑکیوں کو بری نظر سے دیکھا تھا‘‘۔ میڈم نے یہ کہا اور باؤ کچھن بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گئے۔ ’’اندر میرا بھانجا بھی آیا ہوا ہے۔ کیوں نہ میں آپ کا تعارف اس سے کروا دوں‘‘ میڈم ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اٹھ کر اندر جانے لگیں۔ جونہی انہوں نے ڈیوڑھی میں قدم رکھا۔ باؤ کچھن نے اپنا لایا ہوا گفٹ پیک وہیں چھوڑا اور تیزی سے باہر نکل گئے۔ گرمی ویسے بھی زوروں پر تھی۔ خوف سے ہانپتے کانپتے بڑی مشکل سے گھر پہنچے۔ یوں لگا جیسے کئی کلومیٹر پیدل چل کر آئے ہیں۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر دھڑام سے چارپائی پر گرے۔ دوسرے دن جا کر انہیں ہوش آیا۔ تو دیکھا بجلی بند ہے۔ اماں دیسی پنکھا جھل رہی ہیں۔ اور پسینے میں شرابور محلے کا ’’ڈاکٹر‘‘ انہیں ہوش میں لانے کے لئے ٹیکہ لگا رہا تھا۔ اماں اور ابا کا خیال تھا ان کی اکلوتی اولاد کو خوبصورت کپڑوں اور خوشبو میں لپٹے دیکھ کرکسی جننی نے وار کر دیا ہے۔
ادھر جب میڈم نزہت مسکراتی ہوئی اندر گئیں تو ان کی بھانجی نے باؤ لچھن کو تیزی سے باہر گلی میں جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس نے حیرانی سے پوچھا ’’آنٹی یہ کون تھے؟‘‘۔
’’یہ دوسرے محلے کا نوجوان تھا۔ اس کی رشتہ دار بھی میڈیکل میں داخلہ لینا چاہتی ہے۔‘‘ میڈم نزہت نے اپنی بھانجی کو اس ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے بات ہی بدل دی۔ ’’میں نے اسے تمہارے شاپروں سے کھوپڑیاں دکھائیں تو اس کی نظروں کے سامنے مردے ناچنے لگے اور وہ ڈر کر چلا گیا ہے‘‘۔
’’ڈرپوک کہیں کا‘‘۔ رخشی حیران ہو کر بولی۔ پھر وہ دونوں ہنسنے لگیں۔
’’دیکھو وہ تمہارے لئے کیا تحفہ لایا تھا۔ کام کا ہوا تو ساتھ لے جانا ورنہ وہاں گھر میں کام کرنے آنے والی یا کسی جاننے والی کو دے دینا‘‘۔ میڈم نزہت نے رخشی سے کہا۔
اس کے بعد کئی ہفتوں تک میاں کچھن اس گلی میں نہ دیکھے گئے۔
(سہ ماہی ارمغان ابتسام۔ مارچ۔ اپریل 2019)