میرے بہت محترم اور مخلص اشفاق ایاز صاحب کی ہنستی مسکراتی اور کہیں کہیں نشتر چبھوتی تحریروں کا مجموعہ۔۔ چاند کی گود میں۔۔۔ قارئین کے ہاتھوں میں ہے اور قابل مبارکباد ہیں اشفاق بھائی کہ اس افراتفری اور انسان کشی کے دور میں انہوں نے قارئین کے لیئے چند لمحے مسکرانے اور مسکرانے کے ساتھ غور و فکر کا سامان کیا ہے
میری ان سے بالمشافہ فقط دو ملاقاتیں ہوئی ہے اور زیادہ تر ملاقات فیس بک یعنی کتاب چہرہ پر ہی رہتی ہے جہاں وہ اپنے فرمودات اور تجربات تصاویر کے ساتھ شائع کرتے رہتے ہیں۔ میں نے ان کو جیسا ان کی تحریروں میں دیکھا ویسا ہی بالمشافہ پایا گویا وہ قلم سے تصویر بناتے اور تصویر سے لفظ پروتے ہیں۔ میرے لیئے یہ باعث عزت ہے کہ اشفاق بھائی نے مجھے اس کتاب پر چند سطور لکھنے کو کہا ہے اگرچہ میں نہ کام اور نہ نام کے اعتبار سے ایسا آدمی ہوں کہ جس کی بات کی کوئی بہت زیادہ اہمیت سمجھی جائے لیکن ان کے حکم کو ٹالنا مشکل تھا اس لیئے لکھنے کی حامی بھر لی۔
گجرات کے ہی معروف شاعر حضرت استاد امام دین گجراتی ایک دفعہ اشفاق ایاز کے شہر جانے والی سڑک کے قریب چہل قدمی فرما رہے تھے۔ ایک منچلے نے کہا استاد جی اس سڑک پر بھی کچھ ہو جائے۔ وہ فوراً بولے:
یہ سڑک
سیدھی جلال پور جٹاں کو جاتی ہے
استاد سے پوچھا گیا کہ جناب اس شعر میں پہلا مصرعہ بہت چھوٹا ہے اور دوسرا بہت طویل، اس میں توازن نہیں۔ استاد نے فرمایا‘‘ اے مردِ ناداں، شاعری سے عاری شخص، جب میں یہ لکھتا ہوں کہ "یہ سڑک" تو آپ اپنی مرضی کے مطابق سڑک کو لمبا کر سکتے ہیں۔ جہاں شعر میں توازن آ جائے اتنی سڑک رکھ لیں باقی چھوڑ دیں‘‘۔
حضرت استاد امام دین گجراتی کا یہ واقعہ مجھے اشفاق بھائی کی مناسبت سے اس لیئے یاد آیا کہ ان کا مسکن بھی جلال پور جٹاں ہی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ شاید نثر نگاری کی دنیا میں سب سے مشکل کام طنز اور مزاح لکھنا ہے اور بالخصوص جس عہد میں ہم زندہ ہیں یہاں زندہ رہنے کے لیئے روز دن میں کئی کئی بار مرنا پڑتا ہے ایسے ماحول اور حالات میں طنز و مزاح لکھنے کے لیئے بہت دل گردہ چاہیئے اور مجھے خوشی ہے کہ اشفاق ایاز کا دل بھی مضبوط ہے اور گردے بھی بفضل تعالیٰ خوب کام کر رہے ہیں۔ اس علمی اور فکری بحث میں غوطہ زن ہوئے بغیر کہ طنز کی تعریف کیا ہے اور مزاح کسے کہتے ہیں مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ میں نے قرآنی فال کی طرح اس مسودے کو جستہ جستہ پڑھا ہے اور جو بھی صفحہ آنکھیں بند کر کے اور بسم اللہ پڑھ کے کھولا ہے اسے پڑھ کے ہنسی بھی بے ساختہ آئی ہے اور طنز کی چبھن بھی محسوس ہوئی ہے۔
جعفر زٹلی (1658ء ۔ 1713ء ) کے ہاں باقاعدہ اردو مزاح کی روایت کے اولین نقوش ملتے ہیں اور در حقیقت جعفر اردو کے اولین مزاح نگار مانے بھی جاتے ہیں لیکن جعفر کی موت کا باعث بھی اس کے طنزیہ اشعار ہی بنے اللہ کریم اشفاق بھائی عمر خضر عطا کرے - جعفر زٹلی اور شاہ حاتم کے بعد اردو میں مزاح انیسویں صدی کے برسوں تک دستیاب نہیں تا آنکہ پھر انشا خان انشا، ڈپٹی نذیر احمد، منشی سجاد حسین، اکبر الہ آبادی، پنڈت رتن ناتھ سرشار، مرزا فرحت اللہ بیگ، سید محفوظ علی بدایونی، عظیم بیگ چغتائی، مہدی افادی، عبد العزیز فلک پیما، خواجہ حسن نظامی، کرشن چندر، ابراہیم جلیس، احمد علی، پریم چند، اخترحسین رائے پوری- عصمت چغتائی- عزیز احمد- پطرس بخاری- شوکت تھانوی، عزیز نیسن، مشتاق یوسفی، ابن صفی، پطرس بخاری، شفیق رحمان، انور مقصود، کرنل محمد خان، خالد اختر، محسن مگھیانہ، مجتبیٰ حسین کے نام نظر آتے ہیں اور اب ان ناموں میں ایک مضبوط، موقر اور مستند نام اشفاق ایاز کا بھی ہے۔ یہ میری رائے ہے آپ کو اسے اختلاف کا پورا حق ہے۔
میں اوائل سے ہی اس کے حق میں کبھی نہیں رہا کہ قاری کے لیئے قلم کار کی تحریروں میں سے اقتباسات پیش کر کے صفحے کالے کروں اور اس کی انگلی پکڑ کے کہوں کہ یہ یہ پڑھے۔ کتاب شائع ہونے کے بعد قاری کا حق ہے کہ وہ مطالعہ کرے اور اپنی رائے قائم کرے اور اسی اصول کو میں یہاں بھی استعمال کر رہا ہوں۔ قارئین چاند کی گود میں بیٹھ کر چاند کی گود میں لکھے طنزیہ مزاحیہ تحریروں کا مطالعہ کیجئے اور اشفاق بھائی کی قلم کی جوانی کی دعا کیجئے۔
مجھ کو صفدر یہ سب پڑھ کے ایسا لگا
چاند خود آ گیا چاند کی گود میں
دعا گو، صفدر ہمدانی، بینسٹد، سرے، برطانیہ
٭٭٭
گل نوخیز اختر
محمد اشفاق ایاز صاحب طنز و مزاح میں منفرد انداز رکھتے ہیں -ان کے ہاں مسکراہٹ دھیرے دھیرے ہنسی اور پھر قہقہے کا روپ دھار کر قاری کا موڈ خوشگوار کر دیتی ہے - میرے لیے ہر مزاح نگار اس لیے بھی قابل احترام ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو کچھ دیر کے لیے ہی سہی لیکن اس گھٹن اور ذہنی تناؤ میں پستے ہوئے معاشرے میں لوگوں کو غم بھلانے میں مدد تو دیتے ہیں - محمد اشفاق ایاز صاحب بھی مزاح کے تھراپسٹ ہیں اور ایسی تھراپی کرتے ہیں کہ سڑیل سے سڑیل بندہ بھی خوشگواریت کو انجوائے کیے بغیر نہیں رہ سکتا-