یہ دنیا عجائبات سے بھری ہوئی ہے۔ عجائبات وہ ہی نہیں جن سے عجائب خانے بھرے ہوئے ہیں بلکہ روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے کچھ واقعات بھی ہیں جنہیں دیکھ کر یا پڑھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے اور دل بے اختیار کہہ اٹھتا ہے ’’کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟‘‘۔ حالانکہ اس وقت تک تو بہت کچھ ہو بھی چکا ہوتا ہے۔
سکاٹ لینڈ سے تازہ تازہ خبر آئی ہے کہ وہاں ایک مرغی کو قانون پر عمل نہ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اور یہ خبرپاکستانی اخبارات میں با تصویر ایسے شائع ہوئی ہے جیسے اس مرغی کا تعلق حکمران خاندان سے ہو۔ اور اس کے گھر سے فرار ہونے سے کئی خاندانی پوشیدہ راز افشا ہونے کا اندیشہ ہو۔ ہوا یوں کہ اسکاٹ لینڈ کے شہر ڈنڈی میں ایک مرغی ایسٹ مارکیٹ گیٹ کی ایک مصروف سڑک کو عین رش کے اوقات میں عبور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہاں سے گزرنے والی ایک گاڑی کے مالک نے جب مرغی کو یوں آزادانہ اور بے حجابانہ سڑک سے گزرتے دیکھا تو اس کی غیرت نے جوش مارا۔ حالانکہ اگر اس مرغی کی جگہ کوئی میم برہنہ حالت میں بھی گھوم رہی ہوتی تو اس کی غیرت ’’سائلنٹ‘‘ پر ہی لگی رہتی۔ کیونکہ وہاں شخصی آزادی کا احترام کیا جاتا ہے۔ مگر وہاں کوئی نوجوان لڑکی نہیں بلکہ ایک مرغی تھی جو سڑک کے بیچو بیچ کسی کو خاطر میں نہیں لا رہی تھی۔ اس شخص نے فوراًپولیس کو فون کر ڈالا۔ یہاں آ کر خبر نگار خاموش ہے کہ کہیں اس مرغی کو اکیلے دیکھ کر گاڑی کے مالک کی نیت میں فتور تو نہیں آ گیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس نے مرغی کو پکڑنے کی کوشش کی ہو۔ جب ہاتھ نہ آئی تو تھو کڑوی کا نعرہ بلند کیا اور پولیس کو بلا لیا۔ پولیس بھی ایسی فرض شناس، فوراً جائے وقوعہ پر پہنچی۔ گاڑی کے مالک نے اصل بات تو چھپا لی۔ صرف اتنا بیان دیا کہ اس مرغی کی وجہ سے لوگوں کو مصروف سڑک پر سفر جاری رکھنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ اس بیان کو حتمی جانتے ہوئے پولیس نے مرغی کو گرفتار کیا اور پولیس اسٹیشن لے گئی۔ اب پولیس نے اس مرغی کے اصل وارثوں کی تلاش کے لیے جانوروں کی تنظیم سے رابطہ کر لیا ہے اور مالک کے نہ ملنے تک اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی اس ادارے کو سونپ دی گئی ہے۔ خبر نگار نے یہ بھی کہا ہے کہ پولیس کی جانب سے یہ اپیل بھی کی گئی ہے کہ اگرکسی کو اس مرغی کے مصروف ترین سڑک پار کرنے کی وجہ معلوم ہو تو وہ رابطہ کر کے آگاہ کریں۔
ہمارے خیال میں خبر کا آخری حصہ بہت ہی اہم ہے۔ اس انگریز پولیس کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ لگتا ہے اسے مزید ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ ٹریننگ کے اس اہم حصے کے لئے اسے پاکستان کی پولیس سے رابطہ کرنا چاہئے۔ پاکستانی پولیس ہی اس مت ماری انگریز پولیس کو بتا سکتی ہے کہ ’’مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے‘‘ کی اصل تشریح کیا ہے۔ اور اس کا استعمال کہاں کہاں کیا جا سکتا ہے۔ جب اس مرغی کو پولیس سٹیشن لے ہی گئے تھے تو پھر اسے جانوروں کی تنظیم کے حوالے کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
انگریز باغی مرغی کے گھریلو، سماجی، رفاعی اور سیاسی کردار کے تعین کے لئے ضروری ہے کہ تفتیش کو آگے بڑھایا جائے۔ یہ پتہ چلانا ضروری ہے کہ مرغی صاحبہ گھر سے ناراض ہو کر نکلی تھی، بغاوت پر اتر آئی تھی، کسی کے بہکاوے میں آ گئی تھی یا حقوق مرغیاں کی میر کارواں بن کر روڈ بلاک کرنے کے چکر میں تھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ انڈے دے دے کر زندگی سے اتنا تنگ آ چکی ہو کہ خودکشی کے ارادے سے مصروف سڑک پر آ نکلی ہو۔
ایک ایسی ہی بے باک اور لیڈر نما مرغی پاکستان کے ایک تھانے میں چلی گئی۔ پھر ’’تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا پھر نہ جانے کدھر گیا ہو‘‘۔ جانا اس نے کہاں تھا، بڑے ادب اور احترام کے ساتھ تھانے کے باورچی خانے لے جائی گئی۔ جب تک اس کے مالک کو خبر ہوئی کہ وہ اس کی مرغی اسی تھانے میں داخل ہوتے دیکھی گئی تھی، اس وقت تک اس کا گوشت صاحب لوگوں کے خون کا حصہ بن چکا تھا۔ یہاں مجھے وہ میراثی یاد آ رہا ہے جس کے گھر چوہدری صاحب کا مرغا کچھ جگتیں کچھ لطیفے سننے چلا آیا۔ میراثی کو علم تھا کہ چوہدری صاحب کو یقین ہو گا کہ ان کا پیارا مرغا اسی کے گھر آیا ہے۔ میراثی نے مرغے کو ذبح کر کے اس کی کھال گھر کے دروازے پر لٹکا دی۔ اور گوشت پکا کر کھا گیا۔ حسب توقع تھوڑی دیر بعد چوہدری صاحب اس کے گھر میں داخل ہوئے اور اس سے مرغے کا پوچھا۔ میراثی بھی خاندانی تھا۔ فوراً بولا ’’جی چوہدری صاحب آپ کا مرغا ادھر آیا تھا۔ اس نے اپنی وردی یہاں اتاری اور بھیس بدل کر کسی مرغی کے ساتھ گاؤں سے باہر چلا گیا ہے۔‘‘
یہ تو پھر مرغیوں کا حال ہے۔ ایک اچھے بھلے انسان کو ایک رات تھانے کی حوالات میں گزارنا پڑ جائے تو صبح تک اسے اپنا نام ٹھیک طرح یاد نہیں رہتا۔ تھانے والے اسے کچھ اس طرح ’’روحانی و جسمانی مراقبے‘‘ کی مشق کراتے ہیں کہ نہ اس کا ذہن پہلے جیسا رہتا ہے نہ جسم۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اگر کوئی گاڑی ایک رات کے لئے تھانے کی چار دیواری میں کھڑی رہے تو صبح تک اس کا مالک بھی اسے پہچان نہیں سکتا۔ میوزک ڈیک، ایل سی ڈی وغیرہ اس مہارت سے غائب ہو جاتی ہیں کہ جیسے یہ گاڑی میں تھی ہی نہیں۔ اس کے ٹائر اگر نئے ہوں تو پھر وہ خود بخود اس گاڑی سے کھسک کر گھومتے ہوئے ’’صاحب‘‘ کی گاڑی کے نیچے لگ جاتے ہیں۔ انجن اگر اچھی حالت میں ہو تو۔۔۔۔ بس وہاں اتنا نشان رہ جاتا ہے کہ گاڑی اگر واپس کرنی ہی ہو تو ایک دفعہ سٹارٹ ہو کر گھر تک خیریت سے پہنچ جائے۔ آگے اللہ مالک ہے۔
گزشتہ دنوں ایک قصاب گدھے کو ذبح کر کے اس کا گوشت بناتے گرفتار کر لیا گیا۔ وہ شخص انتہائی ایماندار تھا۔ جب مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ تو اس نے اپنے اقبالی بیان میں اعتراف کیا کہ وہ گدھے ہی نہیں کتے بھی ذبح کرتا تھا لیکن ان کا گوشت دکان پر عام لوگوں کو فروخت کرنے کی بجائے ’’صاحب‘‘ لوگوں کے ان کارندوں کو دیا کرتا تھا جو ’’صاحب لوگوں‘‘ کے نام پر اس سے ہر دوسرے تیسرے دن لے جایا کرتے تھے۔ گدھوں کے ساتھ چھوٹے گوشت کے نام پر اس نے علاقے کے آوارہ کتوں کو بھی ان ’’صاحب‘‘ لوگوں کے باورچی خانوں تک پہنچا دیا تھا۔ وجہ پوچھی گئی تو بغیر ہچکچاہٹ بولا ’’یہ ہر دوسرے تیسرے روز میرا چالان کر دیتے تھے۔ اور مطالبہ کرتے تھے کہ میں انہیں مفت گوشت مہیا کیا کروں۔ مجھے اس کا یہی حل نظر آیا۔ آج تک مجھے کسی ’’صاحب‘‘ کے گھر سے شکایت نہیں آئی‘‘۔ اس قصاب کے اعترافی بیان سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر سرکاری ’’صاحب‘‘ ڈھیٹ کیوں ہوتے ہیں کہ ’’بڑے صاحب‘‘ کی گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہیں ہوتے یا اگرکسی سائل کی ذرا سی بات بھی ناگوار گزرے تو بھونکنا کیوں شروع کر دیتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی انگریز باغی مرغی کی جسے پولیس نے جانوروں کی تنظیم کے حوالے کر دیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس مرغی نے اس تنظیم کی تحویل میں انڈے دینے کا سلسلہ شروع کر دیا تو وہ انڈے کس کی ملکیت تصور ہوں گے۔ کیا انہیں پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا یا اصل مالک کے انتظار میں انہیں فریج میں اکٹھا کیا جاتا رہے گا۔ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اگر اصل مالک کا پتہ چل گیا تو وہ کہیں پولیس اور جانوروں کی تنظیم پر مرغی کو حبس بے جا میں رکھنے کے الزام میں ہرجانے کا دعویٰ ہی نہ کر دے۔ کیونکہ معمولی معمولی بات پر ہرجانے کے دعوے یورپ میں عام سی بات ہے۔ ہم لوگ جو سمجھتے ہیں کہ یورپ والے ایماندار ہیں تو وہ ایویں ہی ایماندار نہیں، انہیں ہرجانے کا خوف ایماندار بنائے رکھتا ہے۔
ہم پاکستانیوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ یہ مرغی سکاٹ لینڈ میں پکڑی گئی۔ اگر یہ ہندوستان میں پکڑی جاتی تو الزام پاکستان پر آ جاتا کہ اسے دہشت گردی کی کاروائیوں کے لئے انڈیا بھیجا گیا ہے۔ پہلے ہی انڈین آرمی کئی کبوتر پکڑ کر عالمی میڈیا کو دکھا چکی ہے۔ جن کے متعلق عالمی رہنماؤں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انہیں پاکستان نے اپنے خاص دہشت گردانہ مقاصد کے لئے انڈیا بھیجا گیا ہے۔ کمپیوٹر کی دنیا کے ارب پتی بل گیٹس نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ وہ غریب ممالک میں ہر خاندان میں مرغیاں تقسیم کریں گے۔ مقصد یہ کہ اس مرغی پال سکیم سے غریب خاندان اچھی خاصی رقم کما کر اپنے بچوں کی کفالت کر سکتے ہیں۔ لیکن ستم یہ ہے کہ بل گیٹس کی مرغیاں پاکستان پہنچنے سے پہلے برائلر مرغیاں پہنچ چکی ہیں۔ جو پاکستانی گھریلو لڑکیوں کی طرح اتنی حیا دار ہیں کہ جہاں بٹھاؤ، ذبح ہونے تک وہیں بیٹھی رہتی ہیں۔ دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارہ کرتے ہیں مگر یہ برائلر مرغیاں دور بیٹھی چپ چاپ اپنے سامنے اپنی ہم جنسوں کو ذبح ہوتے اور خون میں لت پت پھڑکتے دیکھتی ہیں، مجال ہے کہ ایک حرف بھی شکایت کا اپنی زبان پر لائیں۔ انہیں ان کے مائیکے (مرغی خانے) سے نکال کر دو دو دن کھانے پینے کو کچھ نہ دیں پھر بھی کوئی شکوہ زبان پر نہیں لاتیں۔ ان مرغیوں کو دیکھ کر صدیوں پرانا محاورہ غلط ہو گیا ہے ’’کڑ کڑ کہیں اور انڈے کہیں‘‘۔ یہ کیسی مرغیاں ہیں نہ ان کی کڑکڑ سنائی دیتی ہے اور نہ انڈے دکھائی دیتے ہیں۔
ان مرغیوں سے ہمیں اپنا بچپن یاد آ گیا۔ جب ہمارے ماسٹر جی ذراسی غلطی یا سبق یاد نہ کرنے پر ہمیں مرغا بنا دیا کرتے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ طالبات کو بھی سکولوں میں مرغا ہی بنایا جاتا تھا۔ ساری عمر سر کھپانے کے باوجود ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ماسٹر جی ہمیں مرغا ہی کیوں بنایا کرتے تھے۔ مرغی کیوں نہیں؟۔ ایک بزرگ ماسٹر جی سے جب ہم نے یہی سوال کیا تو شرما کر کہنے لگے ’’تہذیب اس کی اجازت نہیں دیتی‘‘۔ اب بھلا مرغے سے مرغی بننے میں کونسی تہذیب آڑے آ گئی۔ لیکن ہمیں جواب نہ مل سکا۔ اب زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ نہ وہ ماسٹر جی رہے اور نہ سکولوں میں مرغے بننے بنانے کا رواج رہا۔ پہلے مار کھا کر بھی ماسٹر جی کا احترام کیا جاتا تھا۔ اب ’’مار نہیں پیار‘‘ نے ماسٹر جی سے پیار اور شاگرد سے احترام دونوں چھین لئے ہیں۔
تو صاحبو! اس باغی مرغی کی مزید کوئی خبر ہم تک نہیں پہنچی۔ ہو سکتا ہے بعد میں کسی بات پر سمجھوتا ہو گیا ہو۔ اور خبر اور مرغی دونوں کو دبا دیا گیا ہو۔
( سہ ماہی ارمغان ابتسام۔ جنوری، مارچ 2017)