معزز ارکان اسمبلی اور عزیز ہم وطنو! اسلام و علیکم۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہماری احمقستان اسمبلی کے ارکان میں ’’اُٹھا پٹک‘‘ کچھ زیادہ ہی ہونے لگی ہے۔ یہاں تک کہ اب تو ایک دوسرے کے نوالوں پر بھی نظر رہنے لگی ہے کہ کس کا لقمہ بڑا تھا یا کس نے دس کھائے اور کس نے بیس، یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ان الجھنوں میں الجھ کر بجٹ وقت پر پیش نہ کر سکے۔ اب ہم آپ کے سامنے بجٹ کہ جس کو ’’کڑوا بجٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے پیش کر رہے ہیں۔ پلیز! خاموش ہو جایئے کہ میں بجٹ تقریر شروع کرنے والا ہوں۔
معزز ارکان! میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ ہمارا ارادہ بالکل ٹیکس لگانے کا نہ تھا لیکن کیا کریں۔ ’’ایک لڑکی‘‘ بے چاری کن کن محاذوں پر لڑے۔ مجبوراً کچھ ہمدردیاں حاصل کرنے، کچھ کا منہ بند کرنے اور کچھ کو نوازنے کے لئے ہمیں سرمائے کی ضرورت ہے۔ اور اس کا واحد حل یہی نکلا تھا کہ عوام سے مدد لی جائے۔ اب عوام سے مدد کا مطلب تو ان پر ٹیکس لگانا ہی ہے۔
معزز ارکان اسمبلی! ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ اگر آپ نے اس بجٹ کو پاس کر دیا تو ہم آپ کو عوام سے حاصل کردہ پیسے سے نہال کر دیں گے۔ نہ صرف آپ کی تنخواہ اور الاؤنس میں اضافہ ہو گا بلکہ آپ کے بیٹوں بھتیجوں اور دیگر رشتہ داروں کے لئے سرکاری نوکریوں، پلاٹوں اور بلا سود قرضوں کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ اگر عوام میں سے کسی احمق نے اس کی مخالفت کی تو نہ صرف اسے پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا بلکہ اس کی ایسی ایسی فائلیں کھولیں گے کہ اس کا ککھ کنڈا نہیں رہے گا۔ آیئے اب میں آپ کو بجٹ برائے سال ۹۵۔ ۱۹۹۶کے موٹے نقوش سے آگاہ کرتا ہوں۔
ہانڈی ٹیکس: اس دفعہ حکومت نے اپنی آمدنی میں اضافے کے لئے ایک نیا ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کا نام ’’ہانڈی ٹیکس‘‘ ہو گا۔ اس وقت جبکہ ملک کی کثیر آبادی کو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسر ہے لیکن ایسی اطلاعات حکومت کو موصول ہو رہی تھیں کہ بعض گھروں میں روزانہ گوشت اور دیگر قیمتی اشیاء خورد نوش پکائی اور کھائی جاتی ہیں۔ ہمارا دین ہمیں غریبوں کو بھی پیٹ بھر کر کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ بہت بری بات ہے کہ ایک گھر میں تو طرح طرح کے لذیذ کھانے پکائیں جائیں اور دوسری طرف غریب سوکھی روٹی کو بھی ترسیں۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر بازار کے ہر سرے پر ایک سرکاری اہلکار تعینات کیا جائے گا جو لوگوں کے تھیلے چیک کیا کرے گا تاکہ اندازہ ہو سکے کہ وہ آج اپنے گھر میں پکانے کے لئے کیا لے کر جا رہا ہے۔ اس حساب سے اس پر ہانڈی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ مزید برآں حکومت کو یہ بھی اختیار ہو گا کہ مزید تسلی کے لئے لوگوں کے گھروں سے سالن منگوا کر چیک کیا کرے گی کہ اس گھر میں وہی پکایا گیا ہے جس کا ٹیکس ادا کیا ہے یا اس میں ہیرا پھیری کی ہے۔ غلط بیانی کرنے والوں کو تین سے ایک ماہ تک بھوسہ کھانے اور پچاس سے ڈیڑھ سو تک نقد جوتے کھانے کی سزادی جائے گی۔
اخبار ٹیکس: حکومت نے اخبار پڑھنے والے افراد پر بھی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو شخص بھی اخبار خریدے گا اسےے ہ حلف نامہ داخل کرنا پڑے گا کہ اس اخبار کو اتنے افراد ہی پڑھیں گے۔ اسی حساب سے اس شخص کو اخبار ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ غلط بیانی کرنے والے کو اخبار گھول کر پلانے کی سزا دی جائے گی۔
نقل ٹیکس: معزز ارکان اسمبلی! یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پہلے طالب علم اپنا دماغ خرچ کر کے اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوا کرتا تھا لیکن اب چونکہ اس بچارے کو عشق بازی، نشہ بازی، فلم بازی اوراس طرح کے دیگر اہم ضروری کاموں سے فرصت نہیں ملتی پھر بھلا وہ تعلیم جیسے غیر اہم موضوع پر کیا توجہ دے گا۔ اس مشکل کے حل کے لئے اگرچہ پہلے ہی پرائیویٹ طور پر تعلیمی قبضہ گروپ اور بوٹی مافیا گروپ طالب علموں کی انتہائی قلیل معاوضے پر بھر پور خدمت کر رہے ہیں۔ اب حکومت نے بھی فروغ علم کے اس منصوبے میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اب نقل کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو گی۔ اور فی کلاس‘ فی پرچہ کے حساب سے طالب علم کو انتہائی معمولی ٹیکس ادا کر کے کمرہ امتحان میں نقل کی اجازت ہو گی۔ اس طرح ایک طرف قومی خزانے میں اربوں کی آمدنی ہو گی۔ دوسری طرف طالب علموں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کا بھی بھلا ہو گا جوسات سات آٹھ آٹھ دفعہ امتحانی فیس بھر کر بھی اپنی اولاد کو پاس نہیں کرواسکتے تھے۔
ڈاکہ ٹیکس: معزز ارکان اسمبلی! یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت ڈاکے اور چوریاں کے واقعات جتنی بڑی تعداد میں ہو رہے ہیں اس سے قبل کبھی نہیں ہوئے تھے۔ پہلے یہ صنعت ٹیکس سے پاک تھی۔ حکومت نے اس صنعت کی ترقی کے لئے مزید مراعات کا اعلان کیا ہے۔ اب ڈاکوؤں اور چوروں کو پولیس کی وردی مفت فراہم کی جائے گی اور انہیں ارکان اسمبلی اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی مکمل حمایت و پشت پناہی حاصل ہو گی۔ اس کے بدلے میں ڈاکوؤں اور چوروں کو متوقع مال غنیمت کا دس فی صد پیشگی سرکاری خزانے میں جمع کرا کر رسید حاصل کرنا ہو گی۔ لُوٹ کا مال کم ہونے کی صورت میں جمع شدہ زائد رقم واپس کر دی جائے گی۔ اگر واردات کے دوران کسی ڈاکو یا چور کی غفلت سے کوئی بندہ ضائع ہو جائے تو پھر پانچ فیصد زائد ٹیکس ادا کرنا ہو گا تاکہ تھانے کچہری کے چکروں سے آزاد کرایا جا سکے اور مقتول کے ورثا کو معقول معاوضے پر راضی کیا جا سکے۔
دعا ٹیکس: جیسا کہ آپ جانتے ہیں ملک احمقستان کا نعرہ ’’احمقستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔ جو ملے کھائی جا‘‘ اس لئے زبان زد خاص و عام ہے کہ اسے لوٹو خواہ کسی بھی نام پر۔ لوگوں نے وارداتوں کے علاوہ اس ملک کو دعاؤں کے ذریعے بھی لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ ے ہ لوگ اپنی ترقی کے لئے مزاروں پہ جا جا کے مانگیں دعائیں۔ دعا کی قبولیت سے ان لوگوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں لیکن حکومت کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر مزار کے باہر ایک رجسٹر رکھا جائے گا۔ جس میں ہر آنے والا اپنی دعا کا مقصد تحریر کرے گا۔ اس طرح کاروبار میں ترقی، محبت میں کامیابی، ساس نندوں پر جادو‘ اولاد نرینہ، شوہر کی کمائی پر قبضہ‘ ساس سسر کی موت اور میکے والوں کی بھلائی اور اس طرح کی دیگر دعاؤں کے لئے مختلف شرح سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ انٹیلی جنس کے افراد ان آنے والوں پر بعد میں کڑی نظر رکھیں گے اور دعا کے اثرات نمایاں ہونے کی صورت میں ایسے شخص کے لئے اضافی ٹیکس کا اہتمام کیا جائے گا۔
پیدل ٹیکس: گزشتہ سال حکومت نے پیدل چلنے والوں پر ٹیکس عائد کیا تھا۔ اس مقصد کے لئے جوتوں میں خاص میٹر نصیب کئے گئے تھے تاکہ پیدل چلنے والوں پر طے شدہ مسافت کے حساب سے ٹیکس عائد کیا جا سکے لیکن بعض شر پسندوں نے جوتے بغل میں داب کر ننگے پاؤں سفر کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس سے ایک طرف جوتے بنانے والی کمپنیوں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا تو دوسری طرف حکومت کروڑوں روپے کے ٹیکس سے محروم ہو گئی۔ اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر شخص کے پاؤں میں بذریعہ آپریشن ایک آلہ لگا دیا جائے۔ جو اس شخص کے طے شدہ سفر کے بارے میں ٹھیک ٹھیک معلومات فراہم کرے گا۔
نظر بازی ٹیکس: معزز ارکان اسمبلی! جب سے ’’ایک لڑکی‘‘ نے حکومت احمقستان کا اقتدار سنبھالا ہے۔ لوگوں نے سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ اب مردوں پر زنانیاں حکومت کرنے لگی ہیں اور عورتوں کو کھلے عام گھومنے پھرنے کی آزادی ملنے لگی ہے۔ اس آزادی کو بعض نظر بازوں نے اپنی تسکین کا ذریعہ بنا لیا ہے اور وہ ہر معصوم دوشیزہ کو مفت میں تکنے لگتے ہیں۔ بعض شریف بیبیاں جو اس آزادی کی نعمت سے ’’اوچھے جٹ‘‘ کی طرح نئی نئی مستفید ہوئی ہیں ان پر ان نظر بازوں کی نظر التفات کچھ زیادہ ہی پڑنے لگی ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر مرد کو لازمی طور پر ایک خاص قسم کی عینک پہنائی جائے گی۔ جو اس کی نظر بازی کا حساب رکھے گی۔ ہر نظر باز کو یہ عینک قریبی تھانے میں شام کو دکھانی پڑے گی اور حساب کے مطابق ٹیکس ادا کر کے رسید حا صل کرنی ہو گی۔ امید ہے اس سے حکومت کو اربوں روپے کا فائدہ ہو گا۔
حقوق ٹیکس: معزز ار کان اسمبلی! ملک پر ایک لڑکی کی حکومت ہے بعض بیویوں کو ہی خطرہ لاحق ہونے لگا ہے کہ عورتوں کو جو آزادی ملی ہے اس سے ان کے شوہر بدک کر ’’میرا جسم میرا حق‘‘ کا نعرہ لگانے والی آزادی پسند عورتوں کے پیچھے زیادہ بھاگنے لگے ہیں۔ اور بیوی کی نظروں سے بچ جانے والا تنخواہ کا کثیر حصہ ان عورتوں کی حوصلہ افزائی پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے گھریلو بیویوں کی فلاح کے لئے ایک نئی سکیم شروع کی ہے۔ جس کے تحت کوئی بھی بیوی معمولی ٹیکس ادا کر کے ہماری خفیہ ایجنسی کی خدمات حاصل کر سکتی ہے۔ جو اس بیوی کو مکمل اطلاعات فراہم کرے گی کہ اس کے شوہر کی اصل آمدنی کیا ہے، اگر وہ دفتر میں باس ہے تو اس کی سیکرٹری اصل میں اس کی کیا لگتی ہے اور اگر وہ ماتحت ہے تو دفتر سے نکلتے ہی پہلے سلام کرنے کسی کے در پر جاتا ہے۔
طالب علم عشق ٹیکس: اس وقت ہمارے طلباء و طالبات کی کثیر تعداد سکولوں اور کالجوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ عشق فرمانے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ جن میں سے بعض کل وقتی اور بعض جزوقتی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ حکومت کوا س سلسلے میں مختلف حلقوں کی طرف سے پر زور اپیل کی گئی ہے کہ معاشرتی آزادی‘ انڈین اور بے ہودہ فلموں کی بھرمار کے باوجود طالب علموں کی زیادہ تعداد مکتب عشق میں ناکام رہتی ہے۔ کیونکہ بعض طالب علم غلطی سے سکولوں اور کالجوں کو محض تعلیم حاصل کرنے کا ذریعہ ہی سمجھ بیٹھے ہیں۔ حکومت نے اس مسئلے کو سدھارنے کے لئے اور طالب علموں کے لئے زیادہ سے زیادہ عشقیہ ماحول پیدا کرنے کے لیے ’’طالب علم ٹیکس‘‘ لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مسئلے کا ایک حل تو اوپر بیان کر دہ نقل ٹیکس بھی ہے۔ جس سے طالب علم پڑھائی کی اذیت سے بے نیاز ہو کر مکمل ذہنی سکون کے ساتھ عشق بازی کیا کریں گے۔ مزید برآں ’’طالب علم عشق ٹیکس‘‘ سے حاصل ہونے والی آمدنی کو سو فیصد طالب علموں میں عشق بازی کے رجحان میں اضافہ کرنے اور انہیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اسی مقصد کے لئے مخلوط نظام تعلیم کا اجراء، نصابی کتب میں عشقیہ اور جنسی معلومات پر مبنی مضامین اور نسوانی شاعری کے ابو اب کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا۔
عوام کے لئے مراعات اورٹیکسوں میں چھوٹ: معزز ارکان اسمبلی! آپ نے حکومت کے نئے عائد کردہ ٹیکسوں کے بارے میں سنا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت صرف عوام کا خون نچوڑنا چاہتی ہے اسے اور کسی کام سے فرصت ہی نہیں یقین کیجئے، ہم نے اس دفعہ عوام کی بہتری کے لئے ایسے ایسے منصوبے بنائے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے ہمیں کھربوں ڈالر کی امداد دینے پر فوراً تیار ہو گئے ہیں۔ جسے سو فیصد عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ کیا جائے گا۔ حکومت نے عوام کو جن ظالمانہ ٹیکسوں سے فوری نجات دلائی ہے اور عوامی مفاد میں جو کام عالمی مالیاتی اداروں کے تعاون سے شروع کئے ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
(الف) کھانا کھانے پر قطعاً کوئی ٹیکس نہیں ہو گا۔ ہر شخص آزادی سے کھا سکتا ہے۔ اس طرح ہر شخص آزادی سے پانی پی سکتا ہے۔ پانی پینے پر بھی قطعاً کوئی ٹیکس نہ ہو گا۔ کڑھنے، دانت پیسنے، خون جلانے اور غم کھانے کو بھی ہر قسم کے ٹیکس سے پاک رکھا گیا ہے۔ ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق اس سہولت سے استفادہ کر سکتا ہے۔
(بے) ملک میں فقیروں اور فاقہ زدگان کی تعداد میں بے انتہا اضافے کے پیش نظر عالمی مالیاتی اداروں نے ایک ارب روپے کا بلا سود قرضہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس قرضے سے امریکہ اور جاپان سے ایسے پتھر منگوائے جائیں گے جنہیں پیٹ پر باندھ کر بھوک سے نجات حاصل کی جا سکے گی۔ ہر شخص حسب توفیق، حسب ضرورت اور گھر کے افراد کی تعداد کے مطابق حکومت کے مقرر کردہ ڈپوؤں سے مفت پتھر حاصل کر سکتا ہے۔
(جیم) غمی کے موقع پر رونے دھونے پر کوئی ٹیکس نہ ہو گا۔ بلکہ اس سلسلے میں عالمی بنک ایک لاکھ ڈالر کی امداد مفت دے رہا ہے جس سے رونے دھونے والوں کو آنسو پونچھنے کے لئے رومال، ٹشو پیپر وغیرہ مفت مہیا کئے جائیں گے۔ اسی طرح خوشی کے موقع پر ہر قسم کے قہقہے لگانے کی آزادی ہو گی۔ ان پربھی کوئی ٹیکس نہ ہو گا۔
(دال) عوام کی سہولت کے لئے رات کو مرضی کے مطابق سونے، دن کو مرضی کے مطابق جاگنے اور صبح کو منہ دھونے یا نہانے پر کوئی ٹیکس نہ ہو گا۔ برسات کے موسم میں بارش میں نہانے، ندی نالوں، نہروں، دریاؤں میں نہانے کو بھی ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ نہروں دریاؤں اور نالوں میں نہانے کے دوران ڈوب جانے والوں کو حکومت کی طرف سے مفت دفنانے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔
(سین) اس کے علاوہ سردیوں میں دھوپ تاپنے، بازاروں اور چوراہوں میں کھڑا ہونے پر بھی کوئی ٹیکس نہ ہو گا۔
(شین) ایسے نوجوان جو سکول یا کالج اپنی بہن کو چھوڑ کر آتے ہیں اور واپسی پر کسی دوسرے کی بہن سے عشق فرمانے لگتے ہیں یا وہ بہنیں جو سکول یا کالج تو بھائی کے ساتھ آتی ہے اور بھائی کے جانے کے بعد کسی دوسری کڑکی کے بھائی سے عشق فرمانے نکل کھڑی ہوتی ہیں ان کی سہولت کے لئے حکومت نے خصوصی رومان سنٹر قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ جس کے لئے فرانس نے مفت لٹریچر اور خفیہ ہوٹلوں، ریستورانوں کی تعمیر کے لیے پچاس کروڑ ڈالر کی فوری امداد کا وعدہ کیا ہے۔ اس سے عشق باز بھائیوں اور چالباز بہنوں کو ایسے تفریحی مقام میسر آ سکیں کے جہاں وہ سماج اور رواج سے دور سکون سے بیٹھ سکیں گے۔
معزز ارکان اسمبلی احقستان! یہ تھے بجٹ ۵۹۔ ۴۹۹۱کے موٹے موٹے بلکہ بھاری بھرکم نقوش۔ آپ نے دیکھا کہ ہم نے صرف انتہائی مجبوری کی حالت میں ہی ٹیکس عائد کئے ہیں۔ بلکہ ایسی شاندار عوامی فلاحی سکیمیں شروع کی ہیں جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ان سہولتوں میں مزید اضافہ کریں گے۔
(تیس روزہ چاند، اگست 1994)