ایک پاؤ کدو، آدھ پاؤ دال چنا، ایک ٹماٹر، ایک پیاز، دو ہری مرچیں، یہ تھی آج کی کل خریداری، جسے میاں لچھن اپنے کالے کپڑے کے تھیلے میں ڈالے، سوچوں میں گم، بڑے بوجھل قدموں کے ساتھ بازار سے گھر جانے والی گلی میں یوں داخل ہوئے، جیسے گندم کی دو تین بوریاں سر پر لاد رکھی ہوں۔ ابھی انہوں نے گھر کے اندر داخل ہونے کے لئے دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ پیچھے سے مانوس سی آواز آئی ’’میاں جی اس دفعہ کس کی قربانی کر رہے ہیں‘‘۔ انہیں یوں لگا جیسے کسی نے ان کی کمر میں کند چھرا گھونپ دیا ہو۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ شریف نائی کھڑا تھا۔ ایک تو نائی اور اوپر سے مسکرا بھی رہا تھا۔ میاں لچھن نے اپنا نیفہ ٹٹولا کہ شاید کوئی پسٹل نکل آئے۔ اپنے تھیلے کو ہلا یا کہ کوئی کلاشنکوف چھپی ہو تو نظر آ جائے۔ جس سے اس شریفے کا بھیجا اڑا دیں۔ میاں جی نے گلی میں ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں اینٹ پڑی نظر آ جائے۔ جسے اٹھا کر اس ناہنجار گستاخ کے سر پر دے ماریں۔ اتنے میں بیگم لچھن اپنی چھٹی حس کے ساتھ دروازے پر آ گئیں۔ اور بیرونی حالات سے بے خبر میاں جی کو کھینچ کر اندر لے گئیں۔ شریف نائی حیرت زدہ سا ہو کر کچھ بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ یوں چشم فلک گلی میں، میاں لچھن کے گھر کے عین سامنے، خون کی ندیاں بہتے دیکھنے سے محروم رہ گئی۔
بات در اصل یہ تھی کہ بڑی عید کو دس روز رہ گئے تھے۔ مگر میاں لچھن کا آنگن کسی میمنے کی مے مے یا بکرے کی بے بے کی گونج سے خالی چلا آ رہا تھا۔ میاں لچھن ہر سال قربانی ضرور کرتے تھے۔ کبھی حصہ ڈال کر اور کبھی چھوٹا جانور خرید کر۔ بکرا ایک ماہ پہلے ہی خرید لیا جاتا۔ میاں صاحب کے پاس اور کوئی مصروفیت تو تھی نہیں ایک ماہ تک بکرے کو ٹہلاتے، نہلاتے اورسیر کے بہانے گلیوں میں بکھرے سبزیوں کے پتوں اور پھلوں کی باقیات کھلاتے، سیوا کرتے جاتے۔
لیکن اب کی بار ایسا لگتا تھا جیسے یہ گھر کسی کی چشم بد کی زد میں آ چکا ہو۔ گزشتہ چھ ماہ سے آمدنی میں خسارہ ہی خسارہ چلا آ رہا تھا۔ چھ ماہ قبل بیگم لچھن کی ایک دور کی رشتہ دار پندرہ دن میں واپسی کا وعدہ کر کے میاں لچھن کی دو ماہ کی تنخواہ کے برابر رقم ادھار لے گئی تھی۔ ابھی تک اس دور کی رشتہ دار کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ کہاں چلی گئی۔ پھر بھلا یہ رقم کہاں سے واپس آتی۔ افواہ یہ تھی کہ وہ کب کی اپنے دو یتیم بچے سابقہ سسرالی گھر چھوڑ کر چپکے سے نئے جیون ساتھی کے ساتھ نئی ازدواجی مہم پر روانہ ہو چکی تھی۔ مزید ستم یہ ہوا کہ میاں لچھن کی تنخواہ چند ماہ سے برآمد نہیں ہو رہی تھی۔ اکاؤٹس برانچ والوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے تنخواہ ان کے بنک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی تھی۔ اب وہ جانیں اور بنک والے جانیں۔ جبکہ بنک والوں کا کہنا تھا کہ اکاؤنٹس برانچ نے ان کی تنخواہ کے بل پر بنک اکاؤنٹ نمبر درست نہیں لکھا تھا۔ اس لئے ایک ماہ کی تنخواہ کسی اور اکاؤنٹ میں چلی گئی تھی۔ اب جب تک وہ حساب برابر نہیں ہوتا۔ نئی تنخواہ جاری نہیں ہو گی۔ دو اداروں کے درمیان چپقلش کا نتیجہ میاں لچھن کے گھر میں فاقوں کی صورت میں جلوہ گر ہو رہا تھا۔
بیگم لچھن، میاں صاحب کی حالت سے نہ صرف واقف تھی بلکہ گاہے بگاہے ان کی ڈھارس بندھاتی، انہیں ہمت اور حوصلے سے کام لینے کی تلقین بھی کرتی جاتیں۔ اس شام، کدو دال نصف نصف روٹی کے ساتھ تناول فرمانے کے بعد میاں جی اور بیگم پر مشتمل دو رکنی اجلاس میں جب حالات حاضرہ پر تبصرہ شروع ہوا تو بیگم نے ایک دفعہ پھر انہیں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی تلقین کی۔ میاں لچھن جو حالات سے زیادہ بیگم کی آمرانہ پالیسیوں سے تنگ تھے، تڑاخ سے بولے
’’کچھن کی ماں، تم نے کئی بار مجھے پیٹا، میرے اوپر سختیاں کیں، مختلف قسم کی پابندیاں لگائیں، کئی بار اس سے بھی زیادہ تلخ حالات پیدا کئے، اس کے باوجود میں نے آج تک تمہارا دامن نہیں چھوڑا، صبر کا دامن کیسے چھوڑسکتا ہوں‘‘۔
بیگم لچھن نے فوراً بات کا رخ موڑنے کی کوشش کی اور لجاتے ہوئے کہا: ’’اگر کہیں تو عید کے دنوں میں ہم فیصل آباد خالہ زری کی بیٹی رمشا کے گھر نہ چلے جائیں۔‘‘
’’پاگل ہوئی ہے کیا‘‘ میاں لچھن چیخے۔
’’کیوں؟ کیا ہوا؟‘‘ بیگم حیرانی سے بولیں ’’چند سال پہلے بھی تو ہم وہاں گئے تھے۔ وہ بہت خوش ہوئی تھی‘‘
’’اس وقت بات اور تھی‘‘ میاں بولے ’’اس کے اب پورے چھ بچے ہیں۔ عید کا موقع ہے ایک ایک کو پانچ پانچ سو روپے عیدی دئے تو۔۔۔۔‘‘
’’یہ چھوٹی عید تھوڑی ہے جو انہیں عیدی دینی ہے‘‘۔
’’بس یہی تم میں عقل کی کمی ہے‘‘ میاں لچھن بڑی عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوئے بولے ’’عید عید ہوتی ہے۔ چھوٹی ہو یا بڑی۔ نہ بابا میں تو نہ جاؤں گا۔ میر ادل تو کچھ اور ہی کرنے کو چاہ رہا ہے۔ آمدنی کی آمدنی اور ثواب کا ثواب‘‘
’’ہائیں‘‘ بیگم لچھن مسکراتے ہوئے بولیں۔ جیسے انہیں میاں لچھن کی بات پر یقین نہ ہو۔ ’’اب تک تو سوائے نوکری کے کوئی ڈھنگ کا کام تو کیا نہیں۔ آمدنی والا کام کہاں سے ڈھونڈھ نکالا ہے‘‘۔
’’بات تو سن لیا کرو‘‘ میاں لچھن نے پر اعتماد لہجے میں کہا، ’’میرا دوست ہے پریس والا۔ اس نے فضائل قربانی پر ایک کتابچہ شائع کرایا ہے۔ آج کل ہزاروں کی تعداد میں لوگ قربانی کے لئے ٹرین اور بسوں کے ذریعے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ کیوں نہ میں اس موقع سے فائدہ اٹھاؤں اور کتابچے کی کچھ کاپیاں لے کر ٹرین پرسوار ہو جاؤں۔ لوگ ثواب دارین کے لئے ضرور خریدیں گے۔‘‘ میاں لچھن نے اس منصوبے سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’آج کل کئی جیب کترے ہاتھوں میں نماز اور اسی طرح کے کتابچے لے کر بسوں اور ٹرینوں میں وارداتیں کرتے ہیں۔ تمہاری تو شکل بھی . . . . .۔‘‘ بیگم نے ایک پیاری سی چپت ان کے سر پر لگاتے ہوئے کہا ’’کسی نے جیب کترا سمجھ کر پولیس کے حوالے کر دیا تو؟ میں کہاں ضمانت کرواتی پھروں گی‘‘۔
میاں لچھن اپنے اس عظیم منصوبے کی بیگم کے ہاتھوں یوں درگت بنتے دیکھ کر اداسی اور مایوسی کی گہری لپیٹ میں آ گئے۔ پھر اچانک یوں اچھلے جیسے جوانی کے دنوں میں انہیں بیگم چٹکی بھرا کرتی تھی۔ بیگم کو وہ دن یاد آ گیا۔ فوراً بولیں ’’اب میں نے تو کچھ نہیں کیا‘‘۔
’’کیوں نہ میں لاہور جا کر کسی باغ میں جھولے لگا لوں۔ بچے خوش ہوں گے۔ کچھ تو پیسے ہاتھ آئیں گے‘‘۔ میاں لچھن کی آنکھوں میں چمک تھی۔ لیکن یہ چمک بھی بیگم نے اسی لمحے یہ کہہ کر چھین لی ’’اسی لئے میں کہتی ہوں ہر وقت گھر میں پڑے رہنے کی بجائے کچھ باہر جا کر دنیا کے حالات بھی معلوم کر لیا کرو۔ بڑی عید پر بڑے تو کیا بچے بھی جھولے لینے نہیں آتے۔ وہ گھروں میں سیخ کباب اور گوشت سے تیار کئے پکوانوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ یا پک نک پر چلے جاتے ہیں۔‘‘
میاں لچھن اس استعماری انکشاف پر ایک دفعہ پھر چکرا گئے۔ لیکن پھر سنبھلے اور ایک مزید وار کیا ’’اچھا اب اعتراض نہ کرنا۔ اپنے فلسفوں کی پوٹلی بند ہی رکھنا‘‘
’’اب کیا ترکیب اس ذہن نا رسا و بے صدا میں آئی ہے‘‘ ، بیگم لچھن یوں سنبھل کر بیٹھ گئیں جیسے بارڈر پر انڈیا اور پاکستان کی فوجیں اس خوف سے مورچہ بند ہو جاتی ہیں کہ کب دشمن کی طرف سے گولی آئے اور وہ توپوں کے منہ کھول دیں۔
’’بیگم ذرا ہوش کے ناخن لو۔ ہمیں پیسوں کی بھی سخت ضرورت ہے۔ اور عید پر گوشت کی بھی۔ وہ عید قربان ہی کیا جس میں چھٹانک بھر گوشت بھی کھانے کو نہ ملے۔‘‘ میاں لچھن کے ذہن میں کوئی نیا منصوبہ پکتا ہوا محسوس کیا جا سکتا تھا۔ پھر وہ خود ہی بولے ’’میرا خیال ہے کسی بڑے شہر میں جا کر ٹنڈ کروا لوں اور ہرا چولا پہن کر گوشت اکٹھا کروں۔ جس گھر سے گوشت نہ ملے گا وہاں سے پیسے ہی سہی‘‘۔
ٹنڈ کا سنتے ہی بیگم لچھن کو جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔ انہوں نے صحن میں ادھر اُدھر یوں دیکھا جیسے کوئی ڈنڈا نما چیز ڈھونڈھ رہی ہوں جس سے میاں جی کی اس جرأت پر ان کی تواضع کی جا سکے۔ ’’دیکھیں جی میں اس گھر میں ہر زیادتی برداشت کر سکتی ہوں لیکن ٹنڈ والا بندہ برداشت نہیں کر سکتی‘‘ بیگم لچھن نے دو ٹوک فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ’’وہ دن بھول گئے جب تمہارے سر میں جوؤں نے زخم کر دئے تھے اور تم ٹنڈ کروا کر گھر آئے تھے۔‘‘ بیگم لچھن کا چہرہ پہلے سرخ پھر غضب ناک ہو گیا۔
میاں لچھن نے بیگم کا موڈ بگڑتے دیکھا تو خوابوں کی دنیا سے واپس اصل دنیا میں آ گئے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ عید سے دس روز قبل ان کی بیگم کے ہاتھوں دھلائی ہو جائے۔ اب میاں لچھن کے سامنے ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا۔ انہوں نے فوراً ہار مانتے بلکہ ہاتھ باندھتے ہوئے کہا: ’’بیگم آخر تم ہی بتاؤ، ہم یہ دن کیسے گزاریں۔ ایک طرف پائی پائی کے محتاج ہو چکے ہیں۔ جب تک ہم اپنے گھر میں قربانی کیا کرتے تھے تو محلے میں کچھ عزت تھی۔ اب تو وہ بھی سلامت رہتی نظر نہیں آتی۔ کچھ ایسا کرو کہ .......بس لوگوں کی نظروں میں بھی نہ آئیں‘‘۔
’’میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا ہے‘‘۔ بیگم لچھن بولیں۔
’’کیا؟ کیا؟ جلدی بولو‘‘۔ میاں لچھن یوں اچھلے جیسے بیگم انہیں نقد رقم دینے کا اعلان کرنے والی ہو۔
’’تم ایسا کرو۔ یہ جو دس دن باقی بچے ہیں ناں۔ تم شیدو قصائی کی دکان پر بیٹھا کرو۔ اور اس سے جانور ذبح کرنے اور گوشت بنانے کا طریقہ سیکھو۔ پھر کسی بڑے شہر جا کر قربانیاں کرو‘‘
’’لیکن مجھے تو گائے اور بڑے جانور کے پاس جانے سے ہی ڈر لگتا ہے؟‘‘
’’بڑے نہ سہی۔ ایک دو بکرا ہی سہی‘‘ بیگم بولیں ’’بڑے شہروں میں کون کسی سے پوچھتا ہے کیسے ذبح کر رہے ہو۔ گھر والے بھی ہاتھ بٹا دیتے ہیں، وہاں پیسے بھی ملتے ہیں اور گھر والے تھوڑا بہت گوشت بھی دے دیتے ہیں۔‘‘
بیگم کی بتائی یہ ترکیب کامیاب رہی۔ میاں لچھن کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔ ان کے مردہ جسم میں گویا تازہ خون دوڑنے لگا تھا۔ اور وہ وینٹی لیٹر سے زندہ سلامت باہر آ گئے تھے۔
’’اس طرح گھر میں گوشت بھی آ جائے گا اور خرچہ کے لئے پیسے بھی آ جائیں گے۔‘‘ بیگم لچھن نے بڑے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’لیکن ایک بات کا ڈر ہے‘‘۔ میاں لچھن کے ذہن میں یہ خیال ابھی ابھی آیا تھا۔ ’’اگر وہاں کوئی رشتہ دار، یا واقف کار مل گیا، اور پوچھ بیٹھا تو میں کیا جواب دوں گا‘‘۔
’’اوہ، ہو، لاہور بہت بڑا شہر ہے۔ اول تو وہاں ہمارا کوئی رشتہ دار ہے ہی نہیں۔ اور جہاں تک میں جانتی ہوں تمہارا کوئی گہرا دوست بھی وہاں نہیں رہتا۔‘‘ بیگم لچھن کا اختراعی دماغ بڑی تیزی سے حرکت کر رہا تھا۔ ’’تم ایسا کرنا لاہور کی نواحی بستی میں چلے جاتا۔ وہاں سب چلتا ہے۔‘‘
میاں لچھن کی ڈوبتی ہوئی نبض ایک دفعہ پھر بحال ہو گئی اور اس میں خون پوری رفتار سے دوڑنے لگا۔ وہ اسی وقت مزید بحث کئے بغیر اٹھے۔ اوراس نئے انوکھے منصوبے کے پہلے مرحلے میں سیدھا شیدو قصائی کی دکان پر جا پہنچے۔
(برقی مجلہ ارمغان ابتسام۔ اکتوبر، دسمبر 2016)