دنیا کے سارے مذاہب، دانشور، مفکرین، مذہبی اور دنیوی علوم کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی ابتدا تخلیق آدم سے ہوئی۔ لیکن دنیا کے یہ سارے مذاہب، مفکرین، مذہبی اور دنیوی علوم کے ماہرین تو ایک طرف خود کھسرے اس بارے میں مکمل خاموش ہیں کہ دنیا میں پہلا کھسراکب، کہاں اور کیونکر وجود میں آیا۔ اس کی آمد سے پہلے دنیا کے حالات کیسے تھے اور اس کی آمد کے بعد دنیا کی سماجی، معاشرتی، سیاسی، دینی، ثقافتی، اور عمرانی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ تاہم بعض مذہبی مفکرین کی رائے ہے کہ کھسرے اللہ کے ایک نبی حضرت لوط علیہ السلام کے دور سے پہلے اپنی سرگرمیاں شروع کر چکے تھے۔ اور ان پیغمبر علیہ السلام کے دور میں کھسروں کا کاروبار عروج پر تھا۔ اور یہی عروج ان کھسروں کے ساتھ ساتھ اس پوری قوم کی تباہی کا سبب بنا۔
تہذیبوں کی ترقی اور کھُسروں کے اعمال و خصائص میں جدے دیت کے ساتھ ساتھ ان کے ناموں میں بھی تغیر و تبدل ہوتا رہا۔ کہیں انہیں زنخا کہا جانے لگا، کہیں یہ خواجہ سرا بن گئے، مختلف زبانوں کے علم و ادب میں ان کا حوالہ تیسری نسل یا تیسری مخلوق سے بھی دیا جانے لگا۔ کہیں انہیں خسرا تو کہیں کھُسرا لکھا جانے لگا۔ کھسرے کے لئے اردو زبان میں بعض دوسرے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً ہیجڑا، مخنث وغیرہ۔ لیکن صاحبو! کھُسرا تو کھُسرا ہی ہوتا ہے۔ اسے کوئی بھی نام دے لیں اس کی تاثیر اور افادیت مسلمہ ہے۔ وہ چاہے کسی بھی رنگ میں ہو یا کوئی بھی ڈھنگ اختیار کر لے۔
اس وقت دنیا میں کھُسرے تین حالتوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو پیدائشی طور پر خاص صفات سے محروم ہوتے ہیں۔ گویا ان میں ایسی کیمیائی تبدیلیاں قدرتی طور پر رونما ہو چکی ہوتی ہیں جو لوٹائی نہیں جا سکتیں۔ دوسرے وہ جو عمل جراحی کے ذریعے کھسرے بن جاتے ہیں۔ جیسے دودھ سے دہی بنایا جاتا ہے۔ ان کو بھی واپس ’’دودھ‘‘ نہیں بنایا جا سکتا۔ تیسرے ’’حادثاتی کھُسرے‘‘ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ظاہری شکل و شباہت، حرکات و سکنات، چال ڈھال سے کھسرے ہی نظر آتے ہیں۔ لیکن پسِ پردہ حربی اسلحے سے پوری طرح لیس ہوتے ہیں۔ یہ کھسروں کی سب سے زیادہ خطرناک قسم ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر ان گھروں میں راہ و رسم بڑھا نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جہاں روزگار کے سلسلے میں گھر کے مرد بیرون ملک یا دوسرے شہروں میں ہوتے ہیں۔ ان گھروں میں سودا سلف لانے کے علاوہ بعض ’’اہم فرائض‘‘ بھی سرانجام دیتے ہیں۔ گویا رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ کی عملی تفسیر ہوتے ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں سے خاص طور پر یورپ میں انہیں پھر عروج حاصل ہو رہا ہے۔ اور وہاں انہیں آپس میں شادی کا قانونی تحفظ بھی حاصل ہو رہا ہے۔ اب آہستہ آہستہ یہ حقوق دنیا میں موجود تمام کھسروں کو حاصل ہوتے جا رہے ہیں۔ تاہم اس عالمی نقشے پر ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں کھسروں کو کوئی حقوق حاصل نہیں۔ فروری ۷۱۰۲ ء کے آخر میں پاکستان کے ایک انگریزی اخبار ’’ایکسپریس ٹریبون‘‘ میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ سعودی دارالحکومت ریاض میں پولیس نے ایک مکان پر چھاپہ مار کر ۵۳ خواجہ سراؤں کو حراست میں لے لیا۔ خواجہ سراؤں کا یہ اجتماع اپنے نئے گرو کا انتخاب کرنے کے لیے ہوا تھا۔ خبر کے مطابق باقی کھسروں کو سبق سکھانے کے لئے پولیس سٹیشن میں دو خواجہ سراؤں کو بوریوں میں بند کر کے ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مرنے والوں میں سے ایک۵۳ سالہ آمنہ کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے مینگورہ سے اور ۶۲ سالہ مینو کا تعلق پشاور سے تھا۔ گیارہ خواجہ سراؤں کو ڈیڑھ لاکھ ریال جرمانے کی سزا کے بعد رہا کر دیا گیا جبکہ۲۲ کو نظر بند کر دیا گیا تھا۔ اس سانحہ کی اطلاع ملتے ہی پوری دنیا کے کھسروں میں خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ بعد میں کسی نے ان کھسروں سے یہ پوچھنے کی بھی جرات نہ کی کہ اتنی بڑی تعداد میں کھُسرے اتنے عظیم اسلامی ملک میں کرنے کیا گئے تھے۔
برصغیر پر کئی صدیاں حکمرانی کرنے والے مغل بادشاہوں کے دور میں کھسروں کو بڑا عروج حاصل رہا۔ ان کی رسائی براہ راست حرم خانوں کے اندر تک ہوا کرتی تھی۔ ملکاؤں اور شہزادیوں کا دل بہلانے کے ساتھ ساتھ وہ بادشاہوں اور شہزادوں کے لئے بھی بڑی مفید چیز تھے۔ اور ’’مشکل وقت‘‘ میں ان کے کام آتے تھے۔ ظلِ الٰہی اور ملکاؤں اور شہزادیوں کے درمیان رابطے کا بڑا ذریعہ یہی کھسرے تھے۔ کسی رنگین مزاج شہزادے کی منظور نظر تک پیغام رسانی کے لئے یہی کھسرے کام آتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اندرون خانہ کی جتنی معلومات ان کھسروں کو حاصل تھیں۔ اتنی خود اہل خانہ کو بھی حاصل نہ ہوتی تھیں۔ بادشاہ سلامت ان کھسروں کو ملکاؤں اور شاہزادیوں کی خدمت پر مامور کر کے اپنی طرف سے بے فکر ہو جاتے تھے۔ کہ ان کی ’’عزت محفوظ‘‘ ہاتھوں میں ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان میں سے بیشتر صرف اپنی ظاہری شکل اور اداؤں میں ہی کھسرے تھے۔ جبکہ اندر خانے ان کی حربی صلاحیتیں کسی بڑے ’’جنگجو‘‘ سے کم نہ تھیں۔ یوں وہ بڑی بے فکری سے محل کی چاردیواری میں قید ان شاہی خواتین کی ’’ساری ضروریات‘‘ پوری کر دیا کرتے تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں حرم خانے کے کھسروں نے شہنشاہوں اور شہزادوں کی طرف سے اپنے اوپر ہونے والی تمام زیادتیوں کا بدلہ اکیلے بے چارے بہادر شاہ ظفر کی شہزادیوں سے لیا۔ جب غدر مچا۔ محل سے شہزادے اور ملکائیں فرار ہونے لگے تو کھسروں نے ’معصوم‘‘ شہزادیوں کو محفوظ پناہ گاہوں تک لے جانے کے بہانے، کہیں اور ہی پہنچا دیا۔ جہاں سے انہیں کوڑیوں سے بھی کم دام پر تماش بینوں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا۔
گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں ہماری وارڈ سے خواجہ سرور نامی ایک اچھا بھلا شخص بھی بطور امیدوارسامنے آیا۔ اشتہاری مہم کے سلسلے میں بڑے بڑے پینافلیکس بورڈ تیار کروائے گئے۔ جس دن بورڈ آویزاں کئے گئے اسی رات مخالف گروپ کے کسی منچلے نے تمام بورڈوں پر ’’خواجہ سرور‘‘ کو اس مہارت سے ’’خواجہ سرا‘‘ میں تبدیل کر دیا کہ ان دونوں ناموں میں کوئی فرق ہی نہ رہا۔ دوسرے دن لوگوں کو ’’تبدیلی الفاظ‘‘ کا پتہ چلا تو ان کے چہرے کھلکھلا اٹھے۔ خواجہ صاحب نے وہ بورڈ فوری طور پر اتروا دئیے۔ لیکن غضب اس وقت ہوا جب شام کو محلے کے لڑکوں نے ’’بھاری جلوس‘‘ نکالا۔ اس جلوس میں ایک لڑکے نے ایک خواجہ سرا کو کاندھوں پر بھی اٹھا رکھا تھا۔ جلوس کی قیادت ایک مخالف امیدوار کا چہیتا کر رہا تھا، جو بڑے جوش و خروش سے نعرے لگا رہا تھا۔ ’’خواجہ سرا‘‘ اور شرکاء بیک زبان کہتے ’’زندہ باد‘‘۔ خواجہ سرور صاحب اس وقت اپنے الیکشن آفس میں بڑی اہم میٹنگ میں مصروف تھے۔ انہوں نے سمجھا شاید محلے والوں نے اس کی حمایت میں جلوس نکالا ہے۔ وہ سینہ پھُلائے اور مسکراتے ہوئے باہر آئے۔ اوراس سے قبل کہ وہ ہاتھ ہلا ہلا کر خود بھی زندہ باد کہتے، انہیں کاندھوں پر بیٹھا ’’دوسراخواجہ‘‘ نظر آ گیا اور نعرے باز کے الفاظ کی بھی سمجھ آ گئی۔ اب انہیں پتہ چل گیا کہ ان کے بورڈوں پر نام کی تبدیلی کیسے اور کس نے کی۔ اپنی اس قدر نا قدر شناسی دیکھ کر انہوں نے نہ صرف دوبارہ بورڈ لگانے کا ارادہ ترک کر دیا بلکہ الیکشن مہم سے ہی دستبردر ہو گئے۔
بعض ماہرین تبدیلی جنس کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے دنیا پر ایک ایسا بھی دور آیا ہو جب عورتوں کے مردوں پر مظالم حد سے بڑھ گئے ہوں۔ عورتوں کی مردوں سے عدم تعاون کی تحریکیں زور پکڑنے لگی ہوں۔ مردوں کے جائز حقوق بھی سلب کئے جانے لگے ہوں۔ انہیں صرف کماؤ مشینیں اور آمدنی کا ذریعہ سمجھا جانے لگا ہو۔ تب مردوں نے گڑ گڑا کر خدا سے عورتوں کے خلاف شکایات کے انبار لگا دئیے تو خدا نے ان کی سن لی ہو اور ان کی تسلی، تشفی اور دل جوئی کے لئے دنیا میں کھسرا بھیج دیا ہو۔ یوں پہلی اور دوسری جنس کے عین درمیان ایک ایسی مخلوق کی تخلیق کی گئی جسے بعد میں تیسری دنیا کے نام سے بھی موسوم کر دیا گیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس سب سے آخر میں آنے والی بظاہر بے ضرر مخلوق نے اس قدر ترقی کی کہ افادیت کے لحاظ سے اپنے سے پہلے آنے والی دونوں مخلوقات سے کہیں آگے نکل گئی۔
آج اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیے۔ آپ کو ایوان اقتدار سے لے کر غلام گردشوں تک، جزوی یا مکمل کھسرے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ زندگی کی جد و جہد میں شامل نظر آئیں گے۔ حتیٰ کہ دنیا کے نقشے پر بھی تیسری دنیا وجود میں آ گئی جس کا کام پہلی اور دوسری دنیا کے ہر کام پر واہ واہ کرنے کا کام سونپ دیا گیا۔ اس کا کام اپنی بھوک پیاس، دکھ، غم، محرومیاں بھلا کر بس پہلی اور دوسرے دنیا کے لئے راحت و شادمانی کے وسائل پیدا کرنا، اپنی روٹی کا آخری نوالہ تک ان کے سامنے رکھ دینا اور ان کی ترقی و سلامتی کے گیت گانا رہ گیا ہے۔ اگرتیسری دنیا کی مخلوق، ان ذی وقار قوموں کو اپنی محرومی کی طرف ذرا سا بھی احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے تو اسے دہشت گرد کا خطاب دے کر دنیا کے نقشے سے ہی غائب کر دیا جاتا ہے۔ اسی لئے اس کھسری دنیا (تیسری دنیا) کے مقدر میں ایسے حکمران لکھ دئے گئے ہیں جو سہرا گانے میں ماہر اور شکوؤں شکایتوں سے دور ہوتے ہیں۔
اردو ادب کی ترقی میں جہاں کلاسیک ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں نے اہم کردار ادا کیا وہیں کھسروں نے بھی اردو زبان میں کئی اصناف متعارف کرائی ہیں۔ اس دور میں جب لکھنؤ نوابوں اور رئیسوں کا گڑھ تھا وہاں کھسرے بھی انہی کے سائے تلے ایک پھوڑے کی طرح پل رہے تھے۔ جب ادب اور تفریح کی ایک شکل ڈرامے کا آغاز ہوا تو زنانہ کرداروں کے لئے عورتیں میسر نہ ہوتی تھیں حتیٰ کہ طوائفیں بھی سر عام اداکاری پر رضا مند نہ ہوتی تھیں۔ یا ان کے دام بہت زیادہ تھے۔ تو اس وقت زنانہ کرداروں کی کمی پوری کرنے اور اردو ادب کے اس مشکل دور میں کھسرے ہی کام آئے۔ اردو ڈرامہ کھسروں کا یہ احسان کبھی نہیں بھلا سکتا۔
اردو شاعری میں ’’ریختی‘‘ یعنی مردوں کی زبان سے عورتیں کی باتیں، کی ایجاد بھی خالص کھسروانہ ہے۔ مثلاً
سجن آویں تو پردے سے نکل کر بھار بیٹھوں گی
بہانہ کر کے موتیا کا پروتی ہار بیٹھوں گی
قائد اعظم کے تین اصولوں اتحاد، ایمان اور تنظیم کو باقی قوم نے یاد رکھا ہو یا نہیں لیکن کھسروں نے اسے نہ صرف یاد رکھا بلکہ ان کو اپنی عملی زندگیوں پر لاگو بھی کیا۔ آج جو اتحاد کھسروں میں نظر آتا ہے وہ کوؤں میں بھی نہیں جن کے متعلق یہ مشہور ہے کہ ایک کوے کو تکلیف پہنچے تو چند لمحوں میں سینکڑوں کوے کائیں کائیں کرتے اکٹھے ہو کر حال چال پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔ گزستہ دنوں ہمارے شہر میں ایک مشہور سرکس آیا جس کے ساتھ موت کا کنواں اور دوسری تفریحات کے علاوہ کھسروں کی خاصی بڑی تعداد بھی تھی۔ جو سرکس اور موت کے کنوئیں کے باہر اپنے جوہر دکھانے میں مصروف تھی۔ کچھ منچلوں نے، جن کی پہنچ سے یہ کھسرے بہت دور تھے، انتقام لینے کے لئیے ان کے خلاف محلے کی مسجد کے امام سے فتویٰ حاصل کیا اور پہنچے تھانے۔ ان ’’عوامی شکایات‘‘ پر فوری نوٹس لیتے ہوئے مقامی پولیس نے بطور نمونہ چند ایک کو پکڑ لیا اور تھانے لے جانے لگی۔ لیکن ہو ایہ کہ مبینہ کھسرا ملزمان اور پولیس کے تھانے پہنچنے سے قبل ہی کافی تعداد میں کھسرے تھانے کے باہر اکٹھا ہو گئے اور ڈھولکی کی تھاپ پر تھانیدار اور پولیس کی ہجو گانے لگے۔ تھانے والوں نے انہیں بھگانے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی اپنی گرفتار ’’منہ بولی بہنوں‘‘ کی حمایت میں جیل بھرو تحریک شروع کرنے کی دھمکی دے دی۔ طویل مذاکرات کے بعد طے پایا کہ اگر واقعی ان سے کوئی ’’غیر قانونی‘‘ فعل سرزد ہوا ہے تو گرفتار کھسروں کے خلاف پرچہ دینے کی بجائے انہیں چھترول کر کے فارغ کر دیا جائے۔ اس متفقہ فیصلے کی روشنی میں جب چھترول کے لئے ایک کھسرے کو لٹایا گیا۔ تو تھانے کے اندر اور باہر کھسروں نے ڈھولکیوں کی تھاپ پر احتجاجی گیت اور پولیس والوں کو کوسنے دینا شروع کر دئے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سر پر جوتے لگا لیں لیکن ’’روزی والے اڈے‘‘ کو نقصان نہ پہنچائیں۔ تھانیدار اور پولیس والے آخر بال بچوں والے تھے۔ وہ بھلا کسی کی روزی کیسے چھین سکتے تھے۔ وہ ان کے ’’روزی والے اڈے‘‘ کو نقصان پہنچا کر اپنے لئے وبال اکھٹا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی جیب سے پانچ دس والے نوٹ نکال کر اپنے سروں پر پھیرے دئیے اور کھسروں کے حضور پیش کرتے ہوئے انہیں ’’بغیر تادیبی کار روائی‘‘ واپس اپنے اڈوں پر جانے کی اجازت دے دی۔
(برقی مجلہ ارمغان ابتسام۔ اپریل، جون 2017)