کالج میں عبدالرحمان نامی ہمارا ایک ساتھی تھا۔ سیاہ گھنی داڑھی، دراز قد، گم سم، ہر وقت یا تو خلا میں گھورتا رہتا یا پھر زمیں پر نظریں گاڑے رکھتا۔ ایک دن وہ کلاس سے باہر لان میں بیٹھا آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں چپ چاپ اس کے قریب جا کر بیٹھ گیا اور اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اسے احساس ہوا کہ کوئی اس کے قریب ہے۔ اس نے نظریں نیچے کیں تو مجھے بیٹھے پایا۔ اس کی یہ بھی عادت تھی کہ پہلے خود سوال نہیں کیا کرتا تھا۔ میں نے ایک دفعہ پھر اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو پریشان ہو گیا۔ میں نے پوچھا ’’حضور آسمان سے تارے توڑ کر لانے کا ارادہ تھا کیا؟‘‘۔ وہ مزید پریشان ہو گیا۔ اور نظریں نیچے گھاس پر گاڑھ دیں۔
’’میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ یہاں زمین کے نیچے خزانہ دفن ہے‘‘۔ میں نے کہا۔ عبدالرحمان کو میری با محاورہ زبان کی سمجھ آ گئی۔ وہ کسی سوال کا جواب دئیے بغیر اٹھ کر جانے لگا۔ میں اس سے بھی زیادہ تیزی سے اٹھا اور کہا: ’’نہ تمہیں آسمان پر کوئی تارہ نظر آتا ہے جسے توڑ سکو۔ نہ زمین کے نیچے دفن خزانہ نظر آتا ہے۔ تو پھر یہاں بیٹھ کر وقت ضائع کرنے کی بجائے دوستوں میں بیٹھا کرو اور گپ شپ لگایا کرو‘‘۔ لیکن اس پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ تنہا اور گم سم رہنا اس کی عادت بن چکی تھی۔
عبدالرحمان کی ایک اور عادت تھی۔ جو ہم سب ہم جماعتوں کے لئے بڑی حیران کن تھی۔ وہ عین گرمی کے آخری دنوں میں گرم کپڑے پہننا شروع کرتا اور جہاں کہیں جگہ ملتی آگ جلا کر ہاتھ گرم کرتا۔ جب سردی اپنے اختتام کو ہوتی تو وہ ہلکے کپڑے پہنتا اورکلاس روم میں تنہا ہوتا تو پنکھا جلا کر بیٹھ جاتا۔ کالج میں آخری دن تھے۔ ایک دن میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا ’’حضور ابھی گرمی ختم نہیں ہوتی تو آپ آگ تاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور سردی ختم نہیں ہوتی کہ آپ پنکھے کے نیچے بیٹھنا شروع کر دیتے ہیں‘‘۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ وہ واحد سوال تھا جس کا جواب عبدالرحمان نے کالج کی پوری زندگی میں دیا تھا۔
’’یہ میری عادت ہے۔ میں گرمی کے اختتام پر سردی اور سردی کے آخر میں گرمی کے استقبال کی تیاری شروع کر دیتا ہوں‘‘۔ اس نے بڑے مدبرانہ انداز میں کہا۔ مجھے یقین واثق ہے کہ اگر وہ کسی ترقی یافتہ ملک میں پیدا ہوا ہوتا جہاں ذہین لوگوں کی قدر کی جاتی ہے تو شایداس کی مفکرانہ سوچ کے اعتراف میں اسے کسی بڑے اعزاز سے نوازا جاتا۔
تو صاحبو! ہر انسان خطا کا نہیں عادتوں کا پتلا نظر آتا ہے۔ ہر خطے، علاقے، ملک، قبیلے، محلے، ذات، برادری کی اپنی اپنی عادتیں ہوتی ہیں۔ گھاس خوری (سبزی خوری) سے لے کر گوشت خوری تک، جانوروں سے لے کر آدم خوری تک، سادے پانی سے لے کر اعلیٰ برانڈ کی شراب تک، اور دیسی کپڑوں سے لے کر برانڈڈ کپڑوں تک سفر کرتی ہوئی عادتیں حیثیت اور مرتبے کا تعین کرتی ہیں، بلکہ یہی عادتیں انہیں دوسروں سے منفرد بناتی ہیں۔ آپ کسی شاعر کے ساتھ چند لمحے گزاریں آپ کو اس کے اندر کی عادت کا پتہ لگانے میں دیر نہیں لگے گی۔ یہ ثابت کرنا اس کی عادت بن چکی ہوتی ہے کہ ملک میں اس سے بڑا شاعر نہ ہوا نہ ہو گا۔ کسی نثر نگار، افسانہ نگار، کالم نگار وغیرہ سے دوستی کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اس کی نا پختہ تحریر کو بھی ادب کا شاہکار کہنے کی عادت بنا لیں۔ فی زمانہ کامیابی چاہتے ہیں تو سچ بولنے کی عادت سے پرہیز کریں۔ جھوٹ بولنے کی عادت نہیں تو چپ رہنے کی عادت ڈالیں۔
عادتوں کی بھی کئی قسمیں اور حالتیں ہیں۔ انفرادی طور پر حماقت کریں تو لوگ کہتے ہیں ’’چھوڑیں جی یہ تو اس کی عادت ہے‘‘۔ اور اگر اجتماعی طور پر ایسی حرکت کریں تو وہ ’’رسم‘‘ کہلاتی ہے۔ جیسا کہ بعض ہندو علاقوں میں عادت ہے کہ وہ مرنے والے کے ساتھ رسم کے طور پر اس کی بیوہ کو بھی جلا کر ’’خس کم جہاں پاک‘‘ کی عمدہ مثال قائم کرتے ہیں۔ جب تک میرے والد محترم زندہ تھے۔ قریبی گاؤں سے ان کے دوست ملنے آیا کرتے تھے۔ اور اکثر اوقات ان سے وہ چیز مانگتے جن کا ہمارے ساتھ کوئی واسطہ یا تعلق ہی نہ ہوتا۔ ایک دن میں نے پوچھا ’’ابا جی، جب یہ چیز ہمارے پاس ہوتی ہی نہیں تو وہ مانگتے کیوں ہیں‘‘۔ والد محترم بولے ’’یہ ان کی عادت ہے۔ یہ دہ تین دفعہ ہمیں ایسے ہی شرمندہ کریں گے اور پھر چوتھی دفعہ وہ چیز مانگ لیں گے جو ہمارے پاس ہے۔ اور ہم انکار نہیں کر سکیں گے‘‘۔ مجھے ان کی یہ عادت بہت اچھی لگی۔
بعض عادتیں بڑی خوفناک ہوتی ہیں۔ مثلاً مجھے اس کہاوت سے بہت خوف آتا ہے، بلکہ جسم میں جھرجھری آ جاتی ہے کہ ’’عادتیں سروں کے ساتھ جاتی ہیں‘‘۔ اس کہاوت کو سنتے ہی میرا دھیان افغانی طالبان کی طرف چلا جاتا ہے جو لوگوں کی ’’کچھ عادتیں‘‘ ختم کرنے کے لئے دھڑا دھڑا ان کے سر جسموں سے الگ کئے جا رہے ہیں۔ اور کچھ عادتیں بہت میٹھی لگتی ہیں۔ جیسے اگر میں اپنے سسرالیوں کی کسی بات کی تعریف کروں تو بیگم انعام میں اپنی مسکراہٹ کا تحفہ عنایت کرتی ہے۔ اور اگر بھولے سے بیگم کے کسی سسرالی رشتہ دار کی تعریف کروں تو فوراً کہتی ہے ’’تمہیں تو بھونکنے کی عادت ہو چکی ہے‘‘۔
آپ نے گلی محلوں میں چلتے پھرتے پٹھان سیلز میں دیکھے ہوں گے۔ جو من من بھرکا بوجھ اٹھائے قالین، الیکٹرانکس اور دیگر گھریلو اشیاء فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ ان سے کوئی چیز خریدنے کے لئے قیمت پوچھیں تو ہزاروں میں بتانا ان کی عادت ہے۔ اور پھر وہی چیز چند سو میں بیچ دینا ان کی عادت کا دوسرا مرحلہ ہے۔ اور عوام کی عادت ہے کہ وہ ان کی کسی بات پر اعتبار نہیں کرتے۔ آپ کے گھر بجلی کاسوئچ وغیرہ خراب ہو جائے، نلکے سے پانی آنا بند ہو جائے، کسی ٹونٹی میں مسئلہ ہو۔ آپ الیکٹریشن یا پلمبر کی دکان پر جائیں۔ تو چاہے وہ تین دن سے بیکار بیٹھا ہو۔ آپ کے ساتھ فوری طور پر جانے کو تیار نہیں ہو گا۔ یہ ان کی عادت ہے۔ ’’بس تھوڑی دیر میں پہنچا‘‘ کہہ کر آپ کو فارغ کر دے گا۔ اور اس کے انتظار میں گھر کو الرٹ رکھنا آپ کی عادت بن جاتی ہے۔
سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے افسران اور ماتحتان کی اپنی اپنی عادتیں ہوتی ہیں۔ جن کا سراغ لگانا بعض ’’کھوجی‘‘ قسم کے لوگوں کی عادت بن جاتی ہے۔ پھر یہی لوگ عوام اور سرکاری افسران کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ عوام بھی خوش اور افسران بھی شاد و آباد۔ ہمارے ایک افسر تھے۔ وہ جب بھی کسی دوسرے دفتر پہلی دفعہ جاتے تو وہاں کسی نہ کسی اہلکار سے خوامخواہ جھگڑ پڑتے۔ بعد میں بڑے فخر سے اس کی توجیح پیش کرتے ’’تعارف پکا کرنے کے یہ ضروری ہوتا ہے۔ اب جب بھی میں یہاں آؤں گا یہ فوراً پہچان لیا کریں گے‘‘۔ اس نرالی منطق کی وجہ سے میں ان کے ساتھ کہیں بھی جانے سے کنی کترا جاتا تھا۔ مبادا ان کی لڑائی کا ملبہ مجھ مسکین پر نہ آن گرے۔ ہمارے ایک اور افسر تھے۔ جن کے متعلق مشہور تھا کہ بیگم پر ان کا بڑا رعب ہے۔ کیا مجال کہ بیگم ان کے سامنے اونچا بول جائے یا ان کے کسی حکم کی سرتابی کرے۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا۔ جو تھوڑا سا معذور تھا۔ بیگم جب بھی پر پرزے نکالنے کی کوشش کرتی وہ یہ کہہ کر اس کی جھاگ بٹھا دیتے ’’چل چل دیکھ لیا تجھے۔ ایک ہی بچہ جنا ہے اور وہ بھی ٹیڑھا میڑھا‘‘۔ اور یوں وہ بیچاری چپکی بیٹھ رہتی۔ یہ ان دونوں کی عادت بن چکی تھی۔
دفتر میں میرے ایک ساتھی کی عادت تھی۔ کہ رمضان المبارک میں وہ گھر سے بچوں کے ساتھ روزہ رکھ کر دفتر تشریف لاتے۔ دوپہر ہوتی تو نزدیکی ہسپتال کی کینٹین سے کھانا کھا کر اور دو تین سگریٹ پھونک کر اپنی نکوٹین کی مقدار پوری کر آتے۔ گھر جاتے ہوئے اپنی شکل اور چال ایسی بنا لیتے گویا روزے سے ان کی جان نکلی جا رہی ہو۔ بچے اپنے ابا جی کی دینداری کو مثال سمجھتے۔ اب ذرا ان صاحب کی عادت پر بھی نظر ڈالئے۔ یہ میرے دوست شاہد ہیں۔ ان کی بیگم سکول ٹیچر ہیں۔ ان کی بیگم نے شاہد صاحب سے سگریٹ نہ پینے کا حلف لے رکھا ہے۔ مگر شاہد صاحب بھی اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ انہوں نے دفتر میں اپنی میز کی دراز میں الائچی، سونف اور ماؤتھ واش کا بندوبست کر رکھا ہے۔ سگریٹ پینے کے بعد الائچی یا تھوڑی سی سونف پھانک لیتے ہیں۔ اور گھر جانے سے پہلے ماؤتھ واش سے اپنی سانسوں کو مہکانا ان کی عادت بن چکی ہے۔ اگر بیگم کو ان کے جسم کے کسی کونے سے سگریٹ کی بو آ جائے تو فوراً بولیں گے ’’راستے میں رش بہت ہوتا ہے گاڑیوں کا دھواں تو کپڑوں کے ساتھ چپک جاتا ہے۔ یہ گاڑیوں کا دھواں ہے جسے تم سگریٹ کا دھواں سمجھ رہی ہو‘‘۔ کیسا فلسفہ ہے۔ اور بعض خواتین جانتے بوجھتے شوہروں کی ہر غلطی کو برداشت کرنا اپنی عادت بنا لیتی ہیں۔ کیونکہ اس کے سوا ان کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں ہوتا۔ اور یہی عادت ان کی خوشگوار ازدواجی زندگی کی علامت بن جاتی ہے۔
آپ کو روزانہ اخبارات میں کچھ خون کھولا دینے والی خبروں کے ساتھ کچھ عادتاً دل لگی کی خبروں سے بھی واسطہ پڑتا ہو گا۔ حکومت کسی عام استعمال کی چیز کی قیمت بڑھا دیتی ہے۔ اور ہمارے لیڈر عادتاً بیان داغتے ہیں ’’قیمتوں میں اضافہ برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘۔ ان کی برداشت کو پرکھنے کے لئے کچھ عرصہ بعد حکومت پھر اضافہ کر دیتی ہے۔ یہ اضافے اور عدم برداشتی بیانات ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ ’’وہ بھی نہ ہارے میں بھی نہ ہارا‘‘۔ پھر عوام کو ان دونوں کا تماشا دیکھنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ ’’جائیں تو جائیں کہاں‘‘۔
انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی بھی عادتیں ہوتی ہیں۔ دلہن کی طرح بھینسیں بھی جس کھونٹے پر کچھ عرصہ گزارتی ہیں تووہ اسے یاد رکھتی ہیں۔ زندگی میں پھر کبھی ادھر سے گزر ہو تو وہ ایک نظر ادھر ضرور ڈالتی ہیں جہاں کچھ عرصہ قبل وہ چارہ کھایا کرتی تھیں۔ ہمارے محلے کے شیدے کمہار کے گدھے سارا دن مار کھاتے اور سڑکوں پر مشقت کرتے گزار کر شام کو واپس لوٹتے ہیں تو سیدھا گھر کا رخ کرتے ہیں اور سارے دن کی مار بھول کر ’’کھانا تناول فرمانے‘‘ اور آرام کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ ان کی اچھی عادت ہے جو بہت کم انسانوں میں نظر آتی ہے۔ انسان کو جہاں سے ایک دفعہ پھینٹی لگے وہ مہینوں اس شہر، محلے یا گلی سے نہیں گزرتا۔ یہی نہیں بلکہ پھینٹی لگانے والے سے انتقام لینے کی ترکیبیں سوچتا رہتا ہے۔ مگر شاباش ہے ان گدھوں کی عادت پر جو ہر صبح گزشتہ کل کی مار بھول کر، نئی مار نئی مشقت کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
(برقی مجلہ ارمغان ابتسام۔ جنوری فروری 2018)