سردی کی طویل رات کا نصف پہر گزر چکا تھا۔ گلی کے کتے سردی اور بھوک سے تنگ بھونک بھونک کر نڈھال ہو چکے تھے۔ اور دیواروں کے ساتھ لگے آنکھیں بند کئے صبح کا انتظار کر رہے تھے۔ ماحول پر قبرستان کی سی خاموشی چھا چکی تھی۔ ایسے میں میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ اس وقت یہ آواز اتنی کرخت لگی جیسے چھت گر گئی ہو۔ یا گیس سلنڈر پھٹ گیا ہو۔ اگر یہ فون مجھے کسی نے چوری کر کے تحفے میں دیا ہوتا، میں نے خود کسی کا اٹھایا ہوتا یا کسی سسرالی رشتے دار کی طرف سے تحفہ میں ملا ہوتا، تو اسی وقت اسے دیوار پر پٹخ دیتا۔ لیکن یہ میری بیگم نے اپنی تین ماہ کی تنخواہ سے کٹوتی کر کے خرید کر مجھے دیا تھا۔ جو ہر روز صبح شام میری خیریت دریافت کرنے کی بجائے یہی سوال کرتی ہے ’’موبائل کیسا ہے؟‘‘۔ میں نے کال سننے سے پہلے نمبر دیکھا، یہ تو اپنا ارشاد تھا۔ جو اسی شہر کے آخری محلے میں رہتا تھا۔ اس نے اطلاع دی کہ ہمارا مشترکہ دوست صوبیدار عنایت المعروف بابا ملنگ اس دنیا سے کوچ کر گیا ہے۔ اور کل صبح دس بجے اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔
مجھے اپنے دوست صوبیدار عنایت المعروف بابا ملنگ کی اس بے وقت موت کا اس قدر صدمہ ہوا کہ نیند غائب ہو گئی۔ ابھی دو روز قبل ہی اس نے کہا تھا کہ اسے تین ماہ کی پنشن ملی ہے اور وہ میرے پینتیس ہزار واپس کرنا چاہتا تھا۔ جو اس نے ایک سال قبل بھینس خریدنے کے لئے ایک ہفتہ کے اندر لوٹانے کے اقرار پر لئے تھے۔ وہ اس انتظار میں رہا کہ یہ بھینس دودھ دے گی۔ کسی بچھڑے بچھڑی کو جنم دے گی تو وہ میرا قرض لوٹا دے گا۔ لیکن کسی نوسر باز نے سستی بھینس کا جھانسہ دے کر اس کے ہاتھ فروخت کر دی تھی۔ لیکن جب سے وہ صوبیدار کے کھونٹے پر بندھی تھی اس نے بھی عنایت کی طرح چپ سادھ لی تھی۔ کچھ دن تو وہ یہی سمجھتا رہا کہ نئی جگہ آ کر بھینس دودھ دے نے سے شرما رہی ہے۔ لیکن بعد میں ثابت ہو گیا کہ نہ اس سے دودھ حاصل ہو سکتا تھا اور نہ ہی یہ کوئی وارث پیدا کرنے کے قابل تھی۔ میں نے سوچا جہاں ایک سال بیت گیا چند دن مزید انتظار کر لیتے ہیں۔ میں دفتر سے چھٹی کے دن کا انتظار کرتا رہا کاس کے گاؤں جاؤں گا۔ پیسے تو مل ہی جائیں گے۔ اسی بہانے اس کے گاؤں کی کوئی سوغات بھی لیتا آؤں گا۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اور وہ میرے پینتیس ہزار کا قرض لئے اللہ کی پناہ میں جا چکا تھا۔ میں اس ناگہانی موت کی آڑ میں اپنے پینتیس ہزار کی موت پر دھاڑیں مار مار کر رونا چاہتا تھا مگر اسی کمرے میں میرے ساتھ بیگم اور بچے بھی سورہے تھے۔
صوبیدار عنایت المعروف بابا ملنگ ہمارا بچپن کا دوست تھا۔ وہ شہر سے دس گیارہ کلومیٹر دور ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ گاؤں کے سکول سے پانچویں کلاس پاس کر کے چھٹی کلاس میں داخلہ کے لئے شہر آیا تو اسے ہمارے سکول میں ہماری کلاس میں داخلہ مل گیا۔ وہ دراز قد اور خوبصورت لڑکا تھا۔ عمر میں ہم سے چار پانچ سال بڑا ہی تھا۔ اس کے جواز میں وہ صرف اتنا کہتا کہ ’’چاچے کو بہت دیر بعد خیال آیا کہ مجھے بھی سکول جانا چاہئے‘‘۔ ہم تو اس کی آمد کو شغل سمجھتے تھے اور پینڈو جان کر اسے شہری مار مارنا چاہتے تھے۔ مگر وہ معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھا۔ نہ کسی فالتو بات کا جواب دیتا نہ اس میں حصہ لیتا۔ ہم جو لطیفے سناتے ان کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ ہمارا خیال تھا کہ اس قدر آسان اور جامع لطیفوں پر کہیں وہ گھر جا کر تو نہیں ہنستا۔ اس کے گاؤں کا ایک لڑکا آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ ایک دن اس سے پوچھ ہی لیا کہ ہم عنایت کو اتنے آسان اور جامع لطیفے سنتے ہیں مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ کہیں وہ گھر جا کر تو نہیں ہنستا۔ اس نے قسمیں اٹھا اٹھا کر ہمیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ گھر جا کر سوائے اپنی بھینس کے ساتھ کھیلنے کے اور کوئی کام نہیں کرتا۔ گویا اس کو لطیفے سنانا ایسا ہی تھا جیسے وہ خود بھینس کو سیف الملوک سنا رہا ہو۔
عنایت وقت کے ساتھ ساتھ کھُلتا گیا۔ اور ہماری دوستی پکی ہوتی گئی۔ شہر میں اس کی ایک خالہ رہتی تھی۔ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد وہ اسی خالہ کے گھر رہنے لگا۔ عجیب فلسفی طبیعت پائی تھی۔ گرمیوں کے آخر میں آگ تاپنا شروع کر دیتا۔ کہتا سردیاں آ رہی ہیں اس کی تیار کر رہا ہوں۔ اورسردی کے موسم کے عین بیچ میں دھوپ میں بیٹھنا بند کر دیتا کہ گرمیوں کی تیاری کرنی ہے۔ ہر وقت اپنے ہی خیالوں میں گم رہتا۔ بہت خوش ہوتا تو سیف الملوک کا کوئی شعر گنگناتا۔ قصہ ہیر رانجھا سے بھی اسے کچھ شعر یاد تھے۔ ایک دفعہ گرمیوں کی چھٹیوں میں اس نے ہمیں اپنے گاؤں آنے کی دعوت دی۔ اب مسئلہ یہ تھا اس کے گاؤں پہنچا کیسے جائے۔ یہ مسئلہ بھی اس نے خود حل کرا دیا۔ دن طے ہوا اور اس کا چچا زاد جو شہر میں تانگہ چلاتا تھا۔ وہ ہم چار دوستوں کو تانگے پر بٹھا کر گاؤں لے گیا۔ مختصر سا گاؤں۔ سڑک کے ایک طرف دور دور تک کھیت اور دوسری طرف ایک بڑا برگد کا درخت جس کے ساتھ مستطیل نما بڑا سا چھپڑ تھا۔ جس میں دو بچے قدرتی لباس میں ہر چیزسے بے نیاز غوطے لگا رہے تھے۔ ان کے ساتھ کچھ فاصلے پر چار پانچ بطخیں اور چند بھینسیں مشرکہ طور پر غسل فرما رہی تھیں۔ ایک بوڑھی خاتون چھپڑ کنارے برگد کے نیچے ان بھینسوں کی حرکات پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھی۔ چھپڑ کے ساتھ ہی کچے پکے مکانات تھے۔ ہم جب اس چھپڑ کنارے اترے۔ دو تازہ دم بھینسیں اس میں داخل ہو رہی تھیں اور دونوں ہی گوبر بھی اگل رہی تھیں۔ جیسے دونوں نے ہر کام اکٹھا کرنے کی شرط لگا رکھی ہو۔ ہمارے ایک ساتھی عامر نے جب بھینسوں کا ’’سب کچھ‘‘ چھپڑ کے پانی میں گرتے دیکھا تو منہ بسورنے لگا۔ تاہم اسے حوصلہ دیا کہ انہیں اپنا کام کرنے دو ہم نے کون سا اس چھپڑ سے پانی پینا ہے۔ تانگے والے نے زور سے عنایت کو آواز دی۔ اس کا گھردوسرے کنارے کے ساتھ ہی تھا۔ ایک گھر کا دروازہ کھلا۔ اس سے عنایت برآمد ہوا۔ ہم تک پہنچنے کے لئے اسے چھپڑ کا طویل چکر کاٹنا پڑا۔ اس وقت دن کے بارہ بج چکے تھے۔ اور ہمیں بھوک بھی ستانے لگی تھی۔ عنایت بڑے تپاک سے ملا۔ کلاس میں اس کی زبان مشکل سے کھلتی تھی مگر گاؤں میں اس نے ہمیں نہ صرف سلام کیا بلکہ حال احوال بھی پوچھا۔ وہ ہمیں اسی برگد کی چھاؤں میں کھڑا کر کے گھر سے چارپائیاں لے نے چلا گیا۔ واپسی پر اسے پھر ایک طویل چکر کاٹنا پڑا۔ چارپائیاں بچھا کر ہمیں بیٹھنے کا کہہ کر چلا گیا۔ اب وہ ہمارے لئے گنے اٹھا لایا۔ ابھی ہم نے گنے چوسنا شروع ہی کئے تھے۔ کہ وہ سینہ پھلائے چھپڑ کے عین وسط میں جگالی کرتی ایک بھینس کی طرف اشارہ کر کے بولا ’’وہ ہے میری بھینس۔ شام کو چاچا اس کا دودھ دھوئے گا تو آپ لوگوں کو خالص دودھ پلائیں گے‘‘۔ شام کا سن کر ہم چاروں چیخ اٹھے ’’شام کو؟۔ نہیں بابا ہمیں شام سے پہلے گھر پہنچا دو۔ ورنہ ہمیں ساری عمر کے لئے بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔‘‘
’’نہیں جی یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ دو چار دن تو رکیں گے‘‘۔ عنایت نے فیصلہ سنایا۔ ہمارے ہاتھ رک گئے۔ رفیق ہم سب میں چھوٹا تھا۔ وہ بے چارہ رونے لگا۔ ’’میں تو گھر سے پوچھ کر نہیں آیا۔ میں تو گھر جاؤں گا‘‘۔ اور یوں دودھ پینے کا پروگرام آئندہ کے لئے ملتوی کر دیا گیا ’’بھئی گنے تو چوسو‘‘۔ عنایت بولا۔ اس نے ہمارا موڈ تاڑ لیا تھا۔ وہ اتنا بھی پینڈو نہیں تھا۔ اس نے ہمارا دھیان بٹانے کے لئے کہا ’’گرمی لگ رہی ہے آؤ نہائیں‘‘۔
’’چلو پھر پہلے نہا لیں‘‘۔ سب بولے۔ ’’لیکن کہاں؟‘‘
’’اسی چھپڑ میں‘‘ وہ بے نیازی سے بولا۔ ’’میں تو روز اس میں نہاتا ہوں۔ بلکہ گاؤں کے سب بچے بڑے شوق سے نہاتے ہیں۔ تم دیکھنا دھوپ ذرا نیچے ہوتے ہی یہاں بچوں کا میلہ لگ جاتا ہے‘‘۔ عامر جو بھینسوں کو چھپڑ میں گوبر کی کھاد ڈالتے دیکھ چکا تھا۔ اس کے چہرہ دیکھنے لائق تھا۔ باقی دوست بھی نہانے کی خواہش سے دستبردار ہو گئے۔ اور گنے وہیں چھوڑ واپسی کا مطالبہ کرنے لگے۔ اگر گاؤں دور نہ ہوتا تو دو چار سچ مچ وہاں سے دوڑ لگا دیتے۔ اب ہمارا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ہمیں کسی طرح شہر پہنچا دیا جائے۔ ہم نے گاؤں دیکھنا تھا دیکھ لیا۔ تانگے والا تو ہمیں چھوڑ کر کہیں اور نکل چکا تھا۔ اس سے قبل کہ سب بچے رونا شروع کر دیتے۔ اتفاق سے ایک خالی ٹریکٹر ٹرالی شہر کی طرف جا رہی تھی۔ کچھ عنایت نے اور کچھ ہم نے التجا کی اور ہم گنے وہیں چھوڑ، ٹرالی میں بیٹھے، اور شہر چلے آئے۔ اس کے بعد کم از کم سکول دور میں ہم میں سے کسی کو دوبارہ عنایت کے گاؤں جانے کی ہمت نہ ہوئی۔
دسویں کا امتحان دے کر عنایت مستقل اپنے گاؤں چلا گیا تو ہماری ملاقاتوں میں لمبے وقفے آنا شروع ہو گئے۔ اسی دوران پتہ چلا اسے گاؤں کی ایک لڑکی سے ’’کچھ کچھ‘‘ ہونے لگا ہے۔ رضیہ نام تھا اس کا۔ ماشاء اللہ جب اس نے پوری سات جماعتیں پاس کر لیں تو گھر والوں نے اسے سکول سے اٹھا لیا اور گاؤں کے رواج کے مطابق اسے بھینس کے لئے چارہ لانے، اپلے تھاپنے اور روٹی سالن پکانے پر لگا دیا۔ کسی کھیت کے کنارے ہی ان دونوں کی ملاقات ہوئی۔ اور بس۔ رضیہ جو پہلے بھینس کو چرانے میں بڑی بڑ بڑ کرتی تھی۔ اب بڑی باقاعدگی سے باہر جانے لگی۔ گاؤں کے کنارے پر ایک دربار بھی تھا۔ جو پیر ہرا ملنگ کے نام سے مشہور تھا۔ اس دربار پر کچھ ملنگ ہر وقت بیٹھے رہتے۔ بھنگ کا دور بھی چلتا۔ لوگ یہاں منتیں مانگنے آیا کرتے تھے۔ اور ساتھ ہی ان ملنگوں کی خدمت بھی کر دیا کرتے تھے۔ رضیہ اور عنایت نے بھی اس مزار پر جانا شروع کر دیا۔ عشق سلامت رہنے کا دھاگہ بھی باندھا۔ ان ملنگوں میں سے ایک نے، جو خود رضیہ کا طلبگار تھا، نے جب رضیہ کو ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو اس کے گھر والوں کو رضیہ اور عنایت کے خفیہ گٹھ جوڑ کی مخبری کر دی، تاہم انہوں نے اس ملنگ کی باتوں کی طرف دھیان نہ دیا۔ اور یوں مزید تین چار سال اسی چھپا چھپی میں گزر گئے۔
عنایت کی عمر تئیس سال کی حد عبور کرنے لگی تو اس کے دل میں بھی شادی کا خیال آیا۔ ماں کا سایہ بچپن میں اٹھ گیا تھا۔ اب صرف چاچا (گاؤں میں باپ کو اکثر چاچا ہی کہتے ہیں) تھا اور وہ یا ان کی اکلوتی بھینس۔ ایک دن حوصلہ اور موقع پر کر اس نے چاچا سے رضیہ کے بارے میں بات کی۔
’’میرے پُتر۔ تیری ماں تیرا رشتہ تیری شہر والی خالہ کے گھر کر گئی تھی۔ اب میں انہیں کیا منہ دکھاؤں گا‘‘۔ چاچا بولا
’’لیکن چاچا میں اور رضیہ ایک دوسرے سے قسمیں وعدے لے چکے ہیں۔ میں شادی رضیہ سے ہی کروں گا‘‘۔
’’اگر اس کے گھر والے نہ مانے تو؟‘‘
’’ٹھیک ہے نہ مانیں۔ میں پھر ایسے ہیں رہوں گا‘‘۔ دھمکی کارگر رہی۔
’’میں ایک دفعہ رضیہ کے گھر والوں سے بات کر کے دیکھوں گا‘‘ ؟
عنایت خوش ہو گیا۔
ایک دن عنایت کا چاچا گاؤں کی تنگ گلی سے گزر رہا تھا۔ رضیہ کی ماں اس وقت اُپلے تھاپ کر گھر کی دیوار کو قدرتی ایندھن کی فیکٹری بنا رہی تھی۔ وہ گاؤں بھر میں منہ پھٹ اور لڑاکی مشہور تھی۔ عورتیں تو کیا مرد بھی اس سے کنی کترا کر گزرتے تھے۔ اسے ایسی ایسی گالیاں زبانی یاد تھیں جو شاید مرد بھی زبان پر لاتے ہوئے شرماتے تھے۔ چاچے نے ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی اور نہ تھا۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور جھٹ رضیہ اور عنایت کے رشتے کی بات کی۔ رضیہ کی ماں جو گوبر اٹھانے کے لئے جھکی ہوئی تھی ایک دم سیدھی کھڑی ہو گئی۔ دائیں ہاتھ میں پکڑا تازہ گوبر کا گولہ زور سے چاچے کے منہ پر دے مار ا۔ اور بولی ’’اس نکمے سودائی سے، جو کام وام تو کرتا نہیں اور سارا دن سیف الملوک پڑھتا رہتا ہے۔ کسی عاشق کی اولاد‘‘۔ اس سے قبل کہ رضیہ کی ماں دوسرا کچا اُپلا اٹھا کر چاچے کو دے مارتی وہ تیزی سے کھسک گیا۔ وہ تو بھلا ہوا کہ رضیہ کی ماں نے کچے اُپلوں پر ہی اکتفا کیا۔ ورنہ گالیوں کی پٹاری کھُل جاتی تو اور زیادہ برا ہوتا۔ در اصل رضیہ کی ماں بھی سیانی تھی۔ وہ زبان کھول کر اپنی بیٹی کی مشہوری نہیں کرنا چاہتی تھی۔
چاچا وہاں سے سیدھا گھر پہنچا۔ عنایت گھر میں اس کا ہی انتظار کر رہا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی چاچا ایسے چارپائی پر گرا جیسے کوئی لاش پھینکتے ہیں۔ عنایت کے پوچھنے سے پہلے ہی چاچا نے اسے مذاکرات میں ناکامی سے آگاہ کر دیا۔ عنایت کو غصہ تو بہت آیا۔ لیکن اس گاؤں میں وہ اکیلا تھا۔ شام تک یہ خبر گاؤں میں پھیلنے کے ساتھ ساتھ رضیہ تک بھی پہنچ چکی تھی۔ کہ اس کی ماں نے عنایت کے چاچے کی کیسے آؤ بھگت کی ہے۔ رضیہ عنایت سے سیف الملوک اور ہیر رانجھا کا قصہ تو سنتی چلی آ رہی تھی۔ لیکن اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ خود کوئی ایسا کردار ادا کرتی۔ عنایت اس کی کمزوری سے واقف تھا۔
چاچے سے مایوس ہو کر وہ خود کوئی حل ڈھونڈنے لگا۔ پھر ایک دن بیٹھے بٹھائے پتہ نہیں کس کیڑے نے عنایت کے سر میں ڈنک مارا کہ اس نے خود رضیہ کے بھائی سے بات کرنے کی ٹھانی۔ رضیہ کا بھائی شیدا اس کا واقف تو تھا ہی۔ جب برگد کے نیچے گاؤں کی محفل لگتی تھی تو شیدا ہی اسے سیف الملوک سنانے کی فرمائش کیا کرتا تھا۔ چند دن بعد ہی جب صبح ہی صبح شیدا اپنا بیل لے کر کھیتوں کی طرف جا رہا تھا۔ عنایت اس کے سامنے آ گیا۔ اور دونوں ہاتھ جوڑ کر اس سے دل کی بات کہہ دی۔ شیدا جو پہلے ہی گاؤں میں خر دماغ کے نام سے مشہور تھا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے سے عنایت کی خوب پٹائی کی۔ عنایت بھی گاؤں کا پلا بڑھا تھا۔ مار کھاتا رہا۔ شیدے نے جب دیکھا کہ اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا اس نے پوری قوت سے ڈنڈا اس کے سر پر مارا۔ چند ثانئے اسے شیدے کی شکل نظر آئی۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ جب دماغ کی بتی میں ذرا سی لو ہوئی۔ اس وقت وہ گھر کی چارپائی پر پڑا تھا۔ چاچے کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور ہاتھ میں ہلدی ملا دودھ کا پیالہ۔
’’میریا پُترا۔ میں اس سے زیادہ اور نہ کچھ کر سکتا ہوں اور نہ دیکھ سکتا ہوں۔ اب بس کرو‘‘۔
عنایت کسی نہ کسی طرح رضیہ سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ ان کی آخری ملاقات تھی۔ رضیہ کو شیدے کے ہاتھوں مار کا پتہ چل چکا تھا۔ اس دن بھائی نے اماں کو گھر آ کر فخر سے بتایا کہ اس نے عنایت کا کام تمام کر دیا ہے۔ اس آخری ملاقات میں دونوں نے ایک دوسرے کے لئے جینے کی قسمیں کھائیں۔ اور پھر جدا ہو گئے۔ عنایت کا چاچا ایک ڈیڑھ ماہ بعد عنایت کو اکیلا چھوڑ کر عنایت کی ماں کے پاس چلا گیا۔ اب عنایت گھر میں بھی اکیلا تھا اور دنیا میں بھی۔ اس نے وقت گزاری کے لئے اور اپنے دلی سکون کے لئے بابا پیر ہرا ملنگ کے دربار پر جانا شروع کر دیا۔ پہلے تو وہ یہاں مرادیں مانگنے آیا کرتا تھا۔ اب اس نے یہاں موجود ملنگوں کی محفل میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ ملنگوں تک بھی اس کی ناکامیِ عشق کے قصے پہنچ چکے تھے۔ لیکن وہ خود نکمے، کام چور، اور بھنگی مانے جاتے تھے۔ وہ رضیہ اور عنایت کے ملاپ میں کیا کردار ادا کرتے۔ پہلے ہی دن ایک ملنگ نے اپنا بھنگ کا آدھا پیالہ اسے پیش کیا تو اس پر عقدہ کھلا کہ وہ خواہ مخواہ ملنگوں کو برا بھلا کہتا تھا۔ اصل دنیا تو یہی ہے۔
ملنگوں کی محفل میں اس نے نہ صرف سیف الملوک کے کچھ باقی شعر بھی یاد کئے۔ بلکہ قصۂ ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، قصہ حضرت یوسف و زلیخا کے کچھ حصے بھی یاد کر لئے۔ ملنگوں نے اپنا سارا علم مع بھنگ کے اس میں انڈیلنے کی کوشش کی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ عنایت خود بھی شعر جوڑنے لگا۔ وہ ان قصوں کے بعض شعروں میں گالیاں اس مہارت سے پیوست کرتا کہ لگتا اصلی شعر ہی یہی ہے۔ بھنگ کے اثر اور ملنگوں کے فیض سے جوڑے گئے ان شعروں میں رضیہ کی ماں، اس کے بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی شان میں ایسے ایسے لفظ استعمال کئے جاتے کہ ہنس ہنس کر عام آدمی کے پیٹ میں بل پڑ جاتے۔ ان میں محاوروں، تلمیحات وغیرہ کی بجائے ایسے انکشافات بیان کرتا جس سے رضیہ کا خاندان اپنے اصلی پس منظر میں سامنے آ جاتا۔ خاص طور پر یہ کہ رضیہ کی ماں لڑائی میں جو بے دریغ گندی زبان استعمال کرتی ہے۔ اس کے پیچھے کیا کہانی ہے۔
فیض رسانی کا یہ سلسلہ جاری رہتا لیکن ہوا یہ کہ انہی دنوں فوج کی بھرتی کی اطلاع آ گئی۔ ملنگوں کے منع کرنے کے باوجود عنایت نے فوج میں جانے کی تیاری کی۔ اس کا قد کاٹھ، جسم وغیرہ اور تعلیم معیار پر پورا اترتی تھی۔ یوں وہ فوج میں سپاہی بھرتی ہو گیا۔ اس نے بھینس فروخت کر دی۔ گھر کو تالا لگایا اور فوج میں چلا گیا۔ فوج کی سخت ٹریننگ تک وہ سب کچھ بھول گیا۔ لیکن جب وہ اپنی یونٹ میں آیا اور کچھ فراغت ملی تو اس کے اندر پھر رضیہ جاگ اٹھی۔ اس کے شعری ذوق کے مطابق اسے کچھ قدردان اور ایک دو استاد بھی مل گئے۔ اسے یوں لگا جیسے سب اپنی اپنی رضیہ کا غم بھلانے فوج میں آئے ہیں۔ انہی دنوں وہ دو دن کی چھٹی پر گاؤں آیا۔ اسے گاؤں کی فضا عجیب عجیب سی لگی۔ دربار پر اپنے سنگی ساتھی ملنگوں کو ملنے گیا۔ وہیں اسے پتہ چلا کہ چند ماہ قبل ماہ رضیہ کی شادی دوسرے گاؤں میں کر دی گئی تھی۔ لیکن دوسرے ہی دن رضیہ پو پھٹنے سے پہلے خود گھر واپس آ گئی۔ اور اعلان کر دیا کہ وہ اب کبھی اپنے سسرال نہیں جائے گی۔ اس کے بھائی نے اسے اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گئی۔ لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہی۔ اس دن کے بعد سے رضیہ کی ماں کو ایسی چپ لگ گئی تھی، کہ اگر کوئی اس کے منہ پر تھوک بھی دیتا تو وہ کوئی جواب نہ دیتی۔
کئی سال بعد عنایت فوج سے ریٹائر ہو کر گھر آیا تو صوبیدار بن چکا تھا۔ پنشن سے کافی رقم ہاتھ آئی۔ کہاں وہ دن کہ اس کے باپ اور خود اس نے رضیہ کے لئے اتنی بے عزتی برداشت کی۔ اور کہاں یہ دن کہ اچھی خاصی پینشن کی رقم دیکھ کر اس عمر میں بھی گاؤں کی دو خواتین اس سے شادی کے لئے تیار تھیں۔ مگر رضیہ اب بھی اس کے دل میں بسی ہوئی تھی۔ اس کے لئے یہی کافی تھا کہ رضیہ نے بھی ابھی تک شادی نہ کی تھی۔ یوں صوبیدار عنایت نے بھی بقیہ زندگی اسی کی یاد میں گزارنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ پنشن سے جو یک مشت رقم ملی اس سے اس نے گاؤں کی مسجد کو وسیع اور پختہ کرا دیا۔ اکیلی جان تھی۔ اس کی گزر بسر کے لئے پنشن ہی کافی تھی۔ اور رہنے کے لئے پیر ہرا ملنگ کا دربار۔ یوں وہ صوبیدار عنایت سے بابا عنایت ملنگ مشہور ہو گیا۔
تاریخ اس بارے میں خاموش ہے کہ فوج سے آنے کے بعد عنایت کی رضیہ سے کوئی ملاقات ہوئی یا نہیں۔ لیکن ایک بات طے تھی۔ کہ دونوں اپنے وعدے پر قائم رہے۔ نہ رضیہ نے کہیں اور شادی کی اور نہ عنایت نے۔ عنایت ملنگ کی موت کی خبر سن کر مجھے دلی دکھ بھی ہوا اور اس لحاظ سے اطمینان بھی کہ وہ جو خود اذیتی کی سزا بھگت رہا تھا۔ اس سے اسے نجات مل گئی تھی۔ حسب پروگرام ہم دوستوں نے ایک وین کرائے پر لی اور عنایت کے گاؤں پہنچ گئے۔ پتہ چلا جنازہ دربار سے اٹھایا جائے گا اور کچھ فاصلے پر واقع قبرستان میں دفنایا جائے گا۔ ہم جب دربار پر پہنچے تو جنازہ اٹھایا جا رہا تھا۔ ہماری وین کچھ فاصلے پر رک گئی۔ ہم تیرہ چودہ افراد وین سے اترے اور جنازہ کو کندھا دینے آگے بڑھے۔ وہاں اتنا رش نہ تھا۔ وہاں موجود لوگ ہمیں دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ کہ شہر سے لوگ کیسے اور کیونکر جنازے میں شریک ہونے آئے ہیں۔ ہم نے وہاں لوگوں سے ملنگ کے فوت ہو جانے پر افسوس بھی کیا اور اپنی دوستی کا حوالہ دیا۔ کچھ دوستوں نے کندھا دیا اور باقی جنازے کے آگے آگے چلنا شروع ہو گئے۔ جناز گاہ قبرستان کے اندر ہی تھی۔ جونہی ہم جناز گاہ میں داخل ہونے لگے دو سفید پوش اندر سے اٹھ کر باہر آئے۔ حیرت سے ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ان میں ایک زندہ سلامت ہمارا صوبیدار عنایت ملنگ تھا۔ قریب تھا کہ جن دوستوں نے جنازہ کو کندھا دیا ہوا تھا وہ پرے ہٹ جاتے اور میت کو پھینک دیتے۔ عنایت ملنگ اپنی جگہ حیران اور گنگ بنا ہمیں دیکھ رہا تھا۔ اس نے بڑھ کر جنازے کو اندر لے جانے کے لئے سہارا دیا اور پوچھا ’’آپ لوگ کدھر‘‘۔ موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے میں نے کہا ’’نماز جنازہ پڑھ لیں۔ پھر بتاتے ہیں‘‘۔
نماز جنازہ کے بعد لوگ میت لے کر تدفین کے لئے وہاں سے چلے گئے اب وہاں صرف ہم تھے اور ہمارا عنایت بابا ملنگ۔ کوئی اس کو چھو کر اس کے زندہ ہونے کی تصدیق کر رہا تھا تو کوئی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ بابا عنایت خود حیران تھا۔ ’’کچھ بولو بھی‘‘ بابا ملنگ بولا۔ ہم نے اسے بتایا کہ رات اطلاع ملی تھی کہ بابا ملنگ فوت ہو گیا ہے۔ ہم تو تمہاری نماز جنازہ پڑھنے آئے تھے۔ اس پر ایک زور دار مشترکہ قہقہہ بلند ہوا۔ وہ تو شکر ہوا ہمارے آس پاس کوئی نہیں تھا۔ ورنہ توہین جنازہ کے تحت گاؤں والوں سے تادیبی کار روائی کا اندیشہ تھا۔
بابا عنایت ملنگ کو زندہ دیکھ کر ایک طرف مجھے قلبی سکون محسوس ہوا۔ میرے پینتیس ہزار ابھی مرے نہیں تھے۔ بابا عنایت نے انکشاف کیا کہ مزار پر جتنے بھی درویش رہتے ہیں انہیں ملنگ ہی کہتے ہیں۔ کل ہمارا ایک ملنگ زیادہ گھوٹا لگانے سے دنیا سے ہی گزر گیا تھا۔ اس کا گاؤں کی مسجد میں اعلان ہوا۔ سننے والے نے آپ کو اطلاع دی۔ آپ سمجھے شاید میں فوت ہو گیا ہوں۔
’’بھئی ایک بات کی مجھے بہت خوشی ہے‘‘ بابا عنایت ملنگ بولا ’’آپ لوگ میرے مرنے پر آئے ہیں۔ مجھے آپ پر فخر ہے۔ میں آپ کو اپنے جنازے پر تو نہیں دیکھ سکوں گا۔ اب اگر آپ میرے جنازے پر نہ بھی آئیں تو مجھے دکھ نہیں ہو گا۔ مگر اطمینان ہو گا کہ آپ لوگ میرا کس قدر خیال رکھتے ہیں‘‘۔ قہقہوں کی اس گونج میں ہم نے رضیہ کا پوچھا۔ پتہ چلا دو ماہ قبل اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ اب اسی قبرستان میں دفن ہے۔ اب وہ زیادہ وقت یہیں جناز گاہ میں گزارتا اور اگلے جہاں رضیہ سے جلد ملاقات کی دعا مانگتا ہے۔ اس دن بابا عنایت نے گھر سے پینتیس ہزار لا کر مجھے واپس کئے۔ شکریہ بھی ادا کیا۔ اور وعدہ کیا کہ گاؤں میں اس دفعہ بہت زیادہ تربوز اگے ہیں۔ جونہی تیار ہوئے بوری بھر کر آپ کو بھیجوں گا۔ پھریوں ہوا کہ چند ہفتوں بعد شہر میں تربوز آتے رہے لیکن ان میں کوئی بھی بوری میرے نام کی نہ نکلی۔ اس کے تقریباً چار ماہ بعد یونہی شہر کے بازار میں عنایت کے گاؤں سے آئے ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اپنے ملنگ کا پوچھا۔ کہنے لگا: ’’آپ کو پتہ نہیں چلا؟۔ دو ماہ قبل اس کا بھی انتقال ہو گیا ہے‘‘۔
میرے پاس اس سے پوچھنے لئے مزید کچھ نہ تھا۔ (برقی مجلہ ارمغان ابتسام۔ جولائی ستمبر2017)