نیم سردیوں کی ایک سہ پہر جب میاں لچھن دفتر سے گھر لوٹے تو دیکھا کہ گھر کے دروازے کو خلاف توقع اندر سے کنڈی نہیں لگائی گئی۔ میاں لچھن بھی دبے پاؤں اندر داخل ہوئے یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ بیگم صاحبہ مصلے پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی ہیں۔ اپنی نو سالہ ازدواجی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ بیگم لچھن مصلے پر نظر آئیں تھیں۔ میاں لچھن کو اچھی طرح یاد تھا کہ یہ مصلہ ان کی ایک سالی نے انہیں شادی کے موقع پر الگ سے تحفہ دیا تھا۔ اس مصلے کی قسمت تقریباً نو سال بعد اب کھلی تھی۔ میاں لچھن نے ایک نظر مصلے پر بیٹھی بیگم کی طرف دیکھا تو بیگم صاحبہ نے بھی پلٹ کر ایک نظر اپنے مجازی خدا کی طرف دیکھا جو حیرت میں گم ابھی تک کھڑا مصلے کی تنگ دامنی اور بیگم کے وسیع دامن پر غور کر رہا تھا۔
بیگم نے ہولے سے مسکراتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھا۔ میاں لچھن ذرا قریب گئے اور پوچھا ’’گھر میں سب خیر تو ہے ناں؟‘‘
’’ہاں سب خیر ہے‘‘ بیگم نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا
’’کہیں کوئی خوشخبری تو نہیں‘‘۔ میاں لچھن مصلے کے نزدیک ہی فرش بیٹھتے ہوئے بولے۔ وہ اس خیال میں تھے کہ شاید خدا نے ان کی دوسری بار سن لی ہو۔ ان کی پہلی اولاد باؤ کچھن کو اپنی سوکھی ٹانگوں کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے ماشاء اللہ ساڑھے سات سال کے ہو چکے تھے۔ وقفہ اچھی چیز ہے لیکن باؤ کچھن کے بعد یہ کچھ زیادہ ہی لمبا ہو گیا تھا جس سے قریبی رشتہ داروں میں میاں لچھن کی صحت کے بارے میں بعض ’’نازیبا‘‘ قسم کی چہ میگوئیاں بڑے زور و شور سے جاری تھیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے سسرال میں بھی جانا بہت کم کر دیا ہوا تھا۔
’’جی تو باؤ کچھن کے بعد کوئی سجن، سجنی وغیرہ وغیرہ؟‘‘۔ میاں لچھن نے چہکتے ہوئے منہ بیگم کے کان کے قریب کرتے ہوئے کہا۔ حالانکہ اس وقت گھر میں کوئی دوسرا ان کی گفتگوسننے والا موجود نہیں تھا۔
’’ہائے ہائے وغیرہ وغیرہ کیا ہوا؟ میں کوئی چوہیا یا بکری ہوں جو ایک دم سے تین چار کی لائن لگا دوں گی‘‘۔ بیگم نے انہیں پرے ہٹاتے ہوئے کہا۔ ’’میری تو دعا ہے کہ بس ایک ہی اور آ جائے۔ اپنے باؤ کچھن کی جوڑی بھی بن جائے گی اور لوگوں کے منہ بھی بند ہو جائیں گے‘‘۔
’’نہیں نہیں چوہیا یا بکری ہوں تمہارے دشمن۔ تم تو ما شاء اللہ بھینس کالونی سے آئی ہو‘‘۔ میاں لچھن مزید چہکتے ہوئے بولے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ میاں لچھن نے اپنے سسرالی گھر کو بھینس کالونی کا نام دے رکھا تھا۔ وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ شادی کے بعد جب پہلی دفعہ وہ اپنے سسرال گئے تو پتہ چلا کہ ان کی بیگم اپنے اسی کلو وزن کے باوجود ان سب میں سمارٹ ہے۔ لیکن ان کی ساس صاحبہ، تین چار سالیاں، اور کچھ دیگر قریبی رشتہ دار خواتین واقعی ’’بے تحاشا کھاتے پیتے‘‘ گھرانے کی لگتی تھیں۔ ان میں سے کسی کا وزن ایک سو کلوگرام سے کم نہ تھا۔ انہیں دیکھ کر میاں لچھن کے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’لگتا ہے میں بھینس کالونی میں آ گیا ہوں‘‘۔ وہ تو خیر ہوئی کسی نے سنا نہیں۔ ورنہ کوئی ایک بھینس انہیں اپنے پاؤں تلے روند دیتی تو میاں لچھن ساری عمر لاٹھی کے سہارے چلتے نظر آتے۔
’’لو جی دعا کرنا تو اچھی بات ہے۔ اللہ کریم قبول فرمائے۔‘‘ میاں لچھن بولے ’’تو پھر آج سے آپ نے نماز پابندی سے پڑھنے کا سوچا ہے؟‘‘۔
’’جی میں نے سوچا ہے کہ اس دفعہ میں بھی روزہ رکھوں گی؟‘‘ بیگم نے یوں کہا جیسے اعلانِ جنگ کر رہی ہوں۔
’’لیکن بیگم صاحبہ رمضان شروع ہونے میں ابھی پورا ایک ماہ باقی ہے‘‘۔
’’تو کیا ہوا۔ تیاری ابھی سے کریں گے تو روزہ رکھا جائے گا ناں‘‘۔
’’روزہ یا روزے؟ مگر کس خوشی میں؟۔ اس سے پہلے تو کبھی اس گھر میں ایسا نہیں ہوا۔ شادی کے دوسری دن تمہاری اماں نے سختی سے ہدایت کی تھی کہ دلہنیا کو ہر دو تین گھنٹے بعد کچھ نہ کچھ کھانے کی عادت ہے۔ میں تو آج تک انہی کی بات کا پالن کرتا آ رہا ہوں۔‘‘
’’میں روزہ رکھ کر دعا مانگوں گی۔ شاید اسی کی برکت سے میری گود دوسری بار ہری ہو جائے‘‘۔
’’بیگم ایک بات بتاؤ کیا تمہارا خاندان گرگٹ کی نسل سے بھی تعلق رکھتا ہے‘‘۔
’’کیا مطلب؟‘‘ بیگم صاحبہ کے چہرے پر ناراضگی اور غصے کے آثار نمودار ہونے لگے۔
’’بات در اصل یہ ہے کہ زندگی میں تم نے سوائے رنگ بدلنے کے اور کیا ہی کیا ہے۔ شادی سے پہلے تم ہاتھ پیلے ہونے کی دعا مانگا کرتی تھیں۔ شادی کے بعد اکثر غصے سے لال پیلی ہو جاتی ہو اور اب گود ہری کرنا چاہتی ہو۔ پھر اس کے بعد شاید تم‘‘۔
’’میں نے کہا ناں کہ میں روزہ رکھوں گی اور بس۔ اب میرا ارادہ کوئی نہیں بدل سکتا‘‘
’’اچھا جی تو وضاحت فرما دیجئے کہ کتنے روزے رکھیں گی۔ پورے رمضان کے یا کچھ کم؟‘‘
’’جی ابھی رمضان کا صرف ایک روزہ رکھنے کا پکا ارادہ ہے‘‘۔ بیگم صاحبہ فیصلہ کن انداز سے بولیں۔ ’’اب میرا ارادہ کوئی نہیں بدل سکتا‘‘۔
’’ویسے میرا خیال ہے اگر تم رمضان کے پورے روزے رکھو تو اللہ تمہاری دعا بھی ضرور سنے گا اوراس سے ہمارے گھریلو بجٹ میں پورے نصف تنخواہ کی بچت ہو سکتی ہے‘‘۔
’’اس کا مطلب ہے آپ کو میری بات کی سمجھ نہیں آئی‘‘۔ بیگم بولیں۔ میاں لچھن خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ جب گفتگو ان الفاظ پر آ جاتی ہے تو اس سے آگے کیا ہوتا ہے۔ پھر بات بیگم کے منہ سے نہیں نکلتی بلکہ وہ اپنے ہاتھوں سے سمجھاتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ بات منہ کی بجائے ہاتھوں سے سمجھانے کی نوبت آتی، میاں لچھن فوراً بولے:
’’بیگم ناراض نہ ہوں۔ میرے کہنے کا مطلب بلکہ مقصد یہ تھا کہ میرے لئے کیا حکم ہے۔ کیا مجھے بھی آپ کے ساتھ روزہ رکھنا پڑے گا‘‘۔
’’آپ روزہ رکھیں یا نہ۔ میں تو ضرور رکھوں گی۔ اللہ بخشے ابا میاں کو۔ اماں جب رمضان سے دو ماہ قبل روزہ رکھنے کا ارادہ کرتیں تو ابا میاں تین چار کلو بادام، میوہ، گری اور پستہ لے آتے۔ پھر اماں روز رات کو تھوڑے سے ایک کلو دودھ میں بھگو دیتیں اور صبح اس سے ناشتہ کرتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ بخشے ابا میاں اماں کا کتنا خیال رکھتے تھے‘‘۔
’’دو ماہ پہلے۔۔۔۔ اتنا سارا کھابا۔۔۔ دودھ‘‘۔ اب لچھن میاں کی جان نکلنا شروع ہو گئی۔ انہیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ طالبان یا داعش کی قید میں ہیں اور انہیں ٹکٹکی سے باند ھ کر سر پر ہتھوڑے سے ضربیں لگائی جا رہی ہیں۔ میاں لچھن کو جیسے چپ لگ گئی۔ لیکن ان کی بیگم سر جھکائے مسلسل اپنے ابا کی فضیلت اور اماں سے پیار کی کہانی بیان کرتے ہوئے کبھی کبھی کن انکھیوں سے میاں لچھن کی طرف بھی دیکھ رہی تھیں۔ پیار سے نہیں بلکہ ان کا رد عمل معلوم کرنے کے لئے۔ ایک روزے کے اتنے لوازمات کا سن کر میاں لچھن کے ہوش اڑتے جا رہے تھے۔
’’اور ناں۔۔۔۔ جس دن اماں نے روزہ رکھنا تھا۔ اللہ بخشے ابا میاں نے رات کو ہی رکشے والے کو پابند کر لیا تھا کہ سحری سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے آ جائے۔ انہوں نے سپیشل کچوریوں، پھینیوں دو کلو دودھ، آدھ کلو دہی، کا آرڈر دے رکھا تھا۔ بادام الگ سے بھگو کر رکھے ہوئے تھے۔ پھر اس دن اللہ بخشے ابا میاں اپنی دکان پر بھی نہیں گئے۔‘‘
’’بیگم آپ کی اماں حضور نے کس تاریخ کو روزہ رکھا تھا‘‘۔ میاں لچھن نے حواس قائم کرتے ہوئے پوچھا۔
’’اماں نے؟۔۔۔۔ ہاں اس دن رمضان کا بیسواں روزہ تھا‘‘۔ بیگم نے خاص انداز سے کہا۔
’’گویا وہ ایک روزے کے لئے پورے اڑھائی ماہ بادام، پستہ دودھ پر پلتی رہیں۔ اچھا تو آپ اپنا روزہ کب رکھیں گی‘‘۔
’’میرا ارادہ ہے میں ستائیسویں رمضان کو روزہ رکھوں۔ مبارک رات کا روزہ۔۔۔ اللہ ضرور قبول کرے گا۔ اور میری دعا ضرور قبول ہو گی‘‘۔
’’تو گویا آپ بھی پورا ڈیڑھ ماہ ایک روزے کی خاطر میری جمع پونچی پر ہاتھ صاف کرتی رہیں گی‘‘
’’جس دن اماں نے روزہ رکھا۔‘‘ بیگم نے میاں لچھن کی بات ان سنی کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی ’’اس دن ابا میاں دکان پر نہیں گئے۔ ادھر اماں روزہ رکھتے ہی اپنے پلنگ پر لیٹ گئیں۔ اُدھر اللہ بخشے ابا میاں پلنگ کے قریب کرسی کر کے بیٹھ گئے۔ اور اماں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں دلاسہ دیتے رہے۔ کچھ دیر بعد ہی اماں کو نیند آ گئی مگر مجال ہے جو ابا میاں ذرا بھی اونگھے ہوں۔ بس اماں کے ہاتھ پکڑ کر انہیں سہلاتے رہے۔ گھر میں جیسے کرفیو کا سماں تھا۔ بچوں کو حکم تھا کہ کوئی شور نہ کرے مبادا اماں کے آرام میں خلل پڑے‘‘
’’اور ابا شام تک ایسے ہی پلنگ سے چمٹے بیٹھے رہے‘‘۔
’’جی نہیں۔ اماں تو سارا دن ہی سوتی رہتیں لیکن جب دو گھنٹے بعد ہی بجلی چلی گئی تو گرمی کی وجہ سے اماں کی آنکھ کھل گئی۔ ابا میاں بہت پریشان ہوئے۔ فوراً گلی میں گئے۔ یہ تسلی کرنے کہ سارے محلے کی بجلی گئی ہے یا صرف ان کے گھر کا فیوز اڑ گیا ہے۔ انہوں نے دیکھا گلی کے سرے پر دو آدمی بجلی کے کھمبے پر چڑھے ہوئے ہیں۔ اور ایک نیچے کھڑا انہیں ہدایات دے رہا ہے۔ ابا میاں ان کے پاس گئے معاملہ پوچھا تو پتہ چلا بجلی کی تاریں تبدیل کی جا رہی ہیں۔ بجلی بحال ہونے میں کم از کم چار پانچ گھنٹے لگیں گے۔ ابا میاں واپس گھر آئے۔ اماں کا گرمی سے برا حال ہو رہا تھا۔ ابا میاں انہیں اپنے ہاتھ سے پنکھا جھل رہے تھے۔ لیکن اماں کو چین کہاں۔ گرمی سے پسینہ آیا تو پیاس لگنا شروع ہو گئی۔ ابا میاں نے گزشتہ شام بس تھوڑا سا کھایا تھا۔ اور سحری کے وقت تو کچھ بھی نہیں۔ وہ جو ڈھیر سارا مال بازار سے لائے تھے اماں کے لئے ہی کافی تھا۔ بس اماں کو کھاتا ہوئے دیکھتے رہے‘‘۔
بیگم کی داستان میاں لچھن کے اعصاب کو بری طرح گھائل کر رہی تھی۔ بیگم کچھ اور منصوبہ سازی کر رہی تھی اور میاں لچھن اندر ہی اندر گھلے جا رہے تھے۔ انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کسی بادشاہ کے دربار میں ایک خطرناک مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہیں۔ اور ان کے جسم سے آہستہ آہستہ کھال کھینچی جا رہی ہے۔ انہیں بیگم کے منصوبے سے فرار کا کوئی راستہ نظر نہیں آر ہا تھا۔ اب یہ بھی کوئی بات ہوئی صرف ایک روزے کے لئے ان کی ماں اڑھائی ماہ تک عیاشی کرتی رہے اور اب بیٹی ایک روزے کے لئے پورے ڈیڑھ ماہ ان کا خون چوستی رہے۔ میاں لچھن کا پیمانہ صبر لبریز ہوتا جا رہا تھا۔ لیکن بیگم کی داستان ابھی باقی تھی۔
’’ابھی دن کے گیارہ ہی بجے تھے۔ کہ اماں نے پلنگ سے اٹھنے کی کوشش کی۔ ابا نے انہیں سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ پیاس سے نڈھال ہو کر گر پڑیں۔ اللہ بخشے ابا کے منہ سے چیخ نکلی۔ گھر کے سب افراد ڈر کر پلنگ کے قریب اکٹھے ہو گئے۔ ابا میاں کی آنکھوں سے آنسے بہنے لگے۔ دوڑ کر فریج میں رکھے فریش جوس کا گلاس بھر کر لائے۔ اماں کے ہونٹوں سے لگایا۔ اماں کی آنکھیں ذرا سی کھلیں ’’میری بانو تمہارا روزہ ہو گیا۔ لو جوس پی لو۔ تمہارا روزہ ہو گیا‘‘ ابا میاں نے اماں کے سرکو سہارا دے کر اوپر کیا۔ اور اماں نے جوس کا گلاس ایک ہی سانس میں پی لیا تو ابا میاں کی بھی جان میں جان آئی۔ آدھے دن کا روزہ سہی لیکن اماں نے جو کوشش کی تھی اللہ بخشے ابا میاں اس پر بہت خوش تھے۔ اگر اس وقت ابا میاں، اماں کو جوس نہ پلاتے تو آج ہم ماں کے سائے سے محروم ہو چکے ہوتے‘‘۔
میاں لچھن کو تھوڑی تھوڑی سمجھ آنے لگی کہ ان کی بیگم کی اماں روزے کا بہانہ کر کے کیسے اپنے شوہر کی سادگی سے فائدہ اٹھا کر ان کو بے وقوف بناتی رہی تھی۔ اب یہی چال ان کی بیگم چلنے جا رہی تھی۔ ’’ما شاء اللہ آپ میں تو جان ہے آپ تو پورے دن کا روزہ رکھیں گی ناں؟‘‘۔ میاں لچھن نے انہیں پکا کرتے ہوئے کہا۔
’’اس وقت تو ابا تھے جنہوں نے اماں کا نصف دن تک خیال رکھا۔ آپ تو سارا دن دفتر میں ہوتے ہیں۔ اسی لئے میں نے اپنی اماں اور دونوں بہنوں کو بلا لیا ہے۔ وہ رمضان سے پندرہ دن پہلے آ جائیں گی۔ ان کے ہوتے ہوئے مجھے ستائیسویں کا روزہ رکھتے ہوئے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔۔۔ اللہ بخشے ابا۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’جہنم میں گئے تمہارے اللہ بخشے ابا میاں۔‘‘ میاں لچھن میں یک دم جان آ گئی۔ غصے سے ان کا چہرہ لال ہو گیا۔ بیگم لچھن نے انہیں نوسال میں اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا ’’تم نے ایک روزہ رکھنا ہے۔ اور میں ڈیڑھ ماہ تک تین بھینسوں کا خرچہ اٹھاؤں۔ خبردار جو تم نے روزے کی بات کی۔ آج سے تمہارا خرچہ بند۔ میں کل ہی تمہیں تمہاری ماں کے گھر چھوڑ آتا ہوں۔ وہاں سب تمہارا خیال رکھیں گے۔ جتنے دن کا مرضی روزہ رکھنا۔ میرے لئے اکیلا اللہ اور اکلوتا باؤ کچھن ہی کافی ہیں‘‘۔ میاں لچھن کو اس قدر غصے میں دیکھ کر بیگم لچھن اپنے سارے منصوبے بھول گئیں۔ میاں لچھن غصے میں گھر سے باہر چلے گئے۔ دوسرے دن میاں لچھن دفتر نہیں گئے۔ انہوں نے کار کرائے پر لی۔ اور بیگم کے معافی مانگنے اور اس یقین دہانی کے باوجود کہ وہ آئندہ روزہ رکھنے کا سوچیں گی بھی نہیں۔ انہوں نے بیگم کو مع باؤ کچھن کار میں بٹھایا اور انہیں بھینس کالونی یعنی سسرال چھوڑ آئے۔
(برقی مجلہ ارمغان ابتسام۔ مئی۔ جون۔ 2019)