محلے کی خفیہ بیٹھک میں رات کے وقت انتہائی خفیہ میٹنگ ہو رہی تھی۔ اس میٹنگ کی صدارت میاں لچھن کے اکلوتے ہونہار اور چکنے چکنے پات باؤ کچھن کر رہے تھے جبکہ شرکاء اجلاس میں محلے کے نمبر ایک طوفانی و شیطانی ذہن کے مالک لڑکے شامل تھے۔ وہ اپنی حرکتوں اور انوکھے کارناموں کی وجہ سے محلے والوں سے گالیاں کھانے کی کم از کم ایک ایک سینچری مکمل کر چکے تھے۔ آج کے اس اجلاس میں مسئلہ انتہائی نازک صورتحال اختیار کر چکا تھا اور اس پر کسی متفقہ حل تک پہنچنا وقت کی اہم ضرورت تھی ورنہ وہ سب کچھ ہو سکتا تھا جو اب تک نہ ہوا تھا اور محلے کی اس خفیہ تنظیم کو زبر دست مالی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ یہ اہم میٹنگ گلی کے عین وسط میں ایک خالی مکان کی بیٹھک میں ہو رہی تھی۔ اس کے مکین دو ماہ قبل کراچی چلے گئے تھے۔ جبکہ اس کی چابی شریک محفل ایک رکن کے گھر والوں کے پاس تھی۔
وقت کم تھا اور فیصلہ جلد ہونا چاہئے تھا لیکن اب رات کے بارہ بج چکے تھے اور حتمی فیصلہ طے نہ پایا جا سکا تھا۔ در اصل کل محلے میں ایک بارات آ رہی تھی۔ اس بارات نے اسی مکان کے سامنے سے گزر کر گلی کے آخری سرے پر واقع ایک گھر میں جانا تھا۔ کھانے کا اہتمام اس بڑی گلی کے آخر میں دائیں طرف ایک ذیلی گلی میں واقع قدیم حویلی کے وسیع صحن میں کیا گیا تھا۔
اس سے قبل محلے بلکہ شہر میں جتنی بھی باراتیں وارد ہوئی تھیں۔ ان کی خبر باؤ کچھن اینڈ کمپنی کو بہت پہلے ہو جایا کرتی تھی یوں وہ کئی دن پیشتر بارات کو لوٹنے کی بہتر انداز میں منصوبہ بندی کرتے اور کامیابی سے ہمکنار ہوتے لیکن یہ شادی شہاب ثاقب کی طرح اچانک ہی نازل ہوئی تھی۔ جس کی خبر صرف دو روز قبل باؤ کچھن اینڈ کمپنی کو ہو پائی تھی۔ جس کی وجہ سے کوئی منصوبہ تیار کرنے میں انہیں سخت دشواری کا سامنا تھا کہ اس اچانک صورتحال سے کس طرح نمٹا جائے۔ اس میں باؤ کچھن اینڈ کمپنی کا بھی کوئی قصور نہ تھا۔ لڑکی والوں کا گھرانہ ایک ماہ قبل ہی اس محلے میں کرائے دار کی حیثیت سے آیا تھا۔ ان کا تعلق ایک قریبی گاؤں سے تھا۔ چونکہ لڑکی اور لڑکا ایک ہی گھر میں پلے بڑھے تھے اس لئے بارات آنے کے شوق میں لڑکی والے ایک دو ماہ کے لئے شہر آ گئے تھے۔ چونکہ اس محلے میں وہ نئے نئے آئے تھے اور محلے کی عورتوں سے بھی اتنی جان پہچان نہ تھی اس لئے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ شادی سے صرف دو روز قبل شام کو لڑکی والوں نے اہل محلہ کو اس سازش سے آگاہ کرتے ہوئے از راہ مروت ہر گھر سے ایک ایک فرد کو کھانے کی دعوت دی تھی۔ باؤ کچھن اینڈ کو جو اپنی قبل از وقت معلومات حاصل کرنے میں ماہر سمجھی جاتی تھی، سٹپٹا کر رہ گئی۔ پہلی دفعہ ان کے ذرائع سراغ رسانی نا کام ثابت ہوئے تھے۔
اس اچانک صورتحال پر تفصیلی بحث، اپنی کوتاہیوں کے اعتراف، کانا پھوسی اور جاسوسی سے منسلک منجھے سمجھے جانے والے افراد کی کھنچائی کرنے اور کل بارات کی آمد پر واضع لائحہ عمل کی تیاری کے لئے خفیہ بیٹھک میں اجلاس شام سات بجے سے جاری تھا۔ سخت گرمی، حبس، پنکھے کی عدم موجودگی اور پانی کی قلت کے باوجود شرکاء اجلاس کے جوش و خروش میں کمی نہ آ رہی تھی۔ وہ ہمہ تن گوش اپنی اپنی ذمہ داری کا تعین کر رہے تھے۔ اسی عالم میں رات کے بارہ بج گئے۔ ابھی تک چند تجاویز ہی زیر بحث آئیں جبکہ بہت سے معاملات کا حل تلاش کرنا باقی تھا۔ ایک تجویز یہ آئی کہ محلے اور ارد گرد سے دس بارہ کتے پکڑ کر اس بیٹھک میں بند کر دئے جائیں۔ جب بارات گلی سے گزرے تو انہیں چھوڑ دیا جائے۔ بھوکے پیاسے خوفزدہ کتے بھونکتے ہوئے ایک دم باہر کو نکلیں گے تو بھگدڑ مچ جائے گی۔ اسی دوران دولہا میاں کے گلے سے ایک دوہار آسانی سے توڑے جا سکیں گے۔ لیکن یہ تجویز اس وجہ سے مسترد کر دی گئی کہ اتنے کم وقت میں دس بارہ کتوں کا بندوبست کیسے اور کہاں سے کیا جائے۔ اپنے محلے کے سارے کتے تو میونسپل کمیٹی کی کتا مار مہم کی نذر ہو چکے تھے۔ دوسری تجویز بھی اس لئے نا قابل عمل تھی کہ بارات دن دیہاڑے آ رہی تھی۔ البتہ جن تجاویز کو حتمی شکل دی جا سکی وہ یہ تھیں۔
٭:۔ باؤ کچھن اینڈ کمپنی کے افراد دولہا میاں کو گھیرے میں لے کر ویلیں لوٹیں۔ جو شخص ویلیں لٹانے کی کوشش کرے اس کا ہاتھ بلند ہونے سے پہلے ہی اس سے نوٹ اچک لئے جائیں گے۔
٭:۔ تھوڑے فاصلے پر جا کر دو لڑکے ویلیں لوٹنے کے بہانے دولہا میاں کے قدموں میں جا گریں اور سب سے نیچے لٹکتے ہار کو کھینچ لیں گے۔
٭:۔ اگر ہار کھینچنے میں ابتدائی طور پر کامیابی نہ ہو تو دولہا میاں کا آخر تک پیچھا کیا جائے گا۔
٭:۔ جتنے بھی فقیر اور فقیرنیاں مانگنے کے لئے آئیں۔ ان سے اپنا حصہ پہلے طے کر لیا جائے۔ صرف انہی فقیروں اور بھکاریوں کو مانگنے کی اجازت دی جائے جن سے سودا طے ہو چکا ہو۔
٭:۔ نائی کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی جائے۔ بادام، پستہ، گری چھوہارے و دیگر میوہ جات بمع مصالحہ جات جو ہاتھ لگیں انہیں محفوظ مقام پر پہنچایا جائے۔
٭:۔ مرغ روسٹ کی ایک پرات یا گوشت کی ایک پرات بمع زردہ پلاؤ محفوظ مقام پر پہنچائی جائے۔
باقی تمام معاملات کو حالات اور خدا کے سارے چھوڑ کر نصف شب کے بعد باؤ کچھن اینڈ کمپنی کا اجلاس ختم ہو گیا۔
دوسرے دن باؤ کچھن اینڈ کمپنی نے اپنے منصوبے کے آغاز میں لڑکی والوں کو ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں لیکن اس پہلے مرحلے پر انہیں سخت مایوسی بلکہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ لڑکی والوں نے ان کاموں کے لیے گاؤں سے اپنے رشتہ داروں کی کھیپ منگوا رکھی تھی جو منہ اندھیرے ہی اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔ باؤ کچھن اینڈ کمپنی کو کرنے کے لئے کوئی کام نہ بچا تھا۔ بارات کو ٹھہرانے کے لئے گلی کے آغاز میں ہی شامیانے لگوا کر دیہاتی رسم کے مطابق چار پائیاں اور کھیس بچھا دیئے گئے تھے۔ شامیانوں میں اتنی جگہ چھوڑ دی گئی تھی کہ ایک آدمی آسانی سے گزر سکے۔
گرمی صبح سے ہی اپنا زور دکھا رہی تھی۔ ایک بجے کے قریب بارات آئی تو باؤ کچھن اینڈ کمپنی نے منصوبے کے اگلے مرحلے پر کام کرنے کے لئے ضروری اقدامات مکمل کر لئے۔ بارات گلی کے سامنے سڑک پر سو گز کے فاصلے پر اتری۔ خواتین اور بوڑھے تو جلدی سے گزر کر شامیانوں اور لڑکی کے گھر پہنچ گئے، تاہم نوجوانوں کی ٹولی، چند بزرگ اور ایک دو خواتین دولہا کی حفاظت پر مامور تھیں۔ جونہی دولہا کار سے برآمد ہوا۔ اسے بنانے سنوارے کا عمل شروع ہوا۔ نوجوانوں کا خیال تھا کہ شہر میں آ کر صرف نوٹوں کے ہار اور پھولوں کے ہار گلے میں رہیں۔ جبکہ بزرگوں کا خیال تھا کہے ہ دولہا ہے کوئی میت نہیں جس کے گلے میں پھولوں کے ہار ہی ہوں گے۔ دیہاتی رسم کے مطابق دولہا کو کلے والی ٹوپی پہنائی جائے گی۔ ایک بزرگ کا خیال تھا کہ دو دلہا شاہدولہ کا چوہا نظر آ رہا ہے اسے کلے والی ٹوپی ضرور پہنائی جائے تاکہ اس کی بد صورتی کچھ تو کم ہو۔ نوجوانوں نے جب دیکھا کہ ان کی دال گلتی نظر نہیں آ رہی۔ انہوں نے دولہا میاں کو بازو سے پکڑا اور سڑک کے ایک طرف لے گئے جہاں سوئی گیس والوں نے پائپ بچھانے کے لئے یوں کھدائی کر رکھی تھی جیسے نہر کھود کر گئے ہوں۔ کیونکہ گلی کی نالی ایک جگہ سے ٹوٹ چکی تھی اور اس کا سارا پانی اس نہر میں بھر چکا تھا۔ گلی میں داخل ہونے کے لئے لکڑی کے تختے رکھے گئے تھے۔ مگر اردگرد اس قدر کیچڑ تھا۔ کہ ذراسی غفلت اس نہر میں غوطہ زن کر سکتی تھی۔
نوجوان دولہا میاں کو نہر کے قریب لے گئے تو بزرگوں نے اسے اپنی بے عزتی سمجھا۔ باؤ کچھن اینڈ کمپنی اس تاک میں تھے کہ کب دولہا میاں گلی میں داخل ہوں اور وہ اپنی کار روائی کریں۔ باجوں والے الگ منتظر تھے کہ کب نوجوانوں اور بزرگوں میں کوئی سمجھوتہ ہو تاکہ ویلیں اکھٹی کی جا سکیں۔ ایک جہاندیدہ بزرگ ہاتھ میں کلے دار پگڑی پکڑے دولہا میاں کی طرف بڑھے تو نوجوانوں نے ان کے دفاع کے لئے نشستیں سنبھال لیں۔ ان بزرگ نے نوجوانوں کا حصار توڑ کر دولہا کے سر پر پگڑی رکھنے کی کوشش کی تو دولہا میاں خود ہی پیچھے کی طرف سرکے۔ ان کا قدم پیچھے ہٹنا تھا کہ پاؤں پھسل گیا اور وہ غڑاپ سے سوئی گیس والوں کی کھودی ہوئی نہر میں گر پڑے۔ وہ بزرگ تو کلے سمیت غائب ہو گئے لیکن دولہا میاں کا سواستیاناس ہو گیا۔ دولہا میاں پانی اور کیچڑ میں بری طرح لتھڑ چکے تھے۔ کیچڑ سے نوٹوں کے ہار یوں لگنے لگے جیسے جوتوں کے ہار ہوں۔ بڑی مشکل سے انہیں نکالا گیا۔ ایک تانگے والے کو روک کر اسے حمام تک لے جانے کی درخواست کی گئی۔ اس نے جب ایک نوجوان کو یوں کیچڑ میں شرابور دیکھا تو وہ اس کا کچھ اور ہی مطلب سمجھا۔ اس نے کہا ’’باؤ جی میں مردار چیزیں تانگے پر نہیں بٹھاتا۔ سارا دن بو آتی رہتی ہے۔‘‘ اور تانگہ بھگا کر لے گیا۔ ایک دوسرے تانگے کو روکنے کی کوشش کی گئی، مگر کوچوان سے پہلے گھوڑے کی نظر دولہا پر پڑ گئی۔ وہ شاید اسے بھوت سمجھا اور سر پٹ بھاگنے لگا۔ بالآخر ایک تانگے والا راضی ہو گیا اور جیسے تیسے حمام تک پہنچے، اتفاق سے ایک دوست اپنے ساتھ کپڑوں کا ایک اضافی جوڑا لے آیا تھا۔ دولہا میاں کو وہی جوڑا پہنایا گیا۔ جوتا صاف کیا گیا اور دوبارہ تانگے میں بیٹھ کر گلی کے سرے پر اتر گئے۔ مگر وہاں تو کہرام مچا ہوا تھا شامیانہ اکھڑ چکا تھا۔ کچھ عورتیں اس جگہ بین کر رہی تھیں جہاں دولہا میاں غرق نہر ہوئے تھے۔ جب انہوں نے دولہا کو تانگے سے اترتے دیکھا تو سب کہرام ختم ہو گیا۔ پتہ چلا کہ کسی نے افواہ اڑا دی تھی کہ دولہا میاں سوئی گیس والوں کی نہر میں ڈوب گئے ہیں۔ کچھ بزرگ قریبی فوجی چھاؤنی سے فوجی غوطہ خور لینے چلے گئے تھے۔ دولہا کی آمد پر شامیانے کو دوبارہ سیدھا کیا گیا۔ باؤ کچھن اینڈ کمپنی دولہا میاں کی خالی گردن دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ وہاں نوٹوں کے ہار کی جگہ ایک زریں ہار تھا۔ باؤ کچھن کی یہ دوسری شکست تھی۔ اب ان کا زیادہ تر انحصار ویلیں لوٹنے پر تھا۔ مگر معلوم ہوا کہ عورتوں کے بین کے شور میں باجے والے بھی جا چکے ہیں۔ انہوں نے عورتوں کو گلی سے بین کرتے نکلتے دیکھا تو وہ ویلوں کو بھول کر بغیر سوچے سمجھے واپس چلے گئے تھے۔ دولہا میاں کے دوستوں نے ویلوں کا پروگرام بھی منسوخ کر دیا۔
دولہا میاں کو شامیانے میں چار پائی پر بیٹھا دیا گیا۔ چند ہی لمحے بعد دودھ پلائی کے لئے بلایا گیا۔ دولہا میاں بڑی شان سے چلتے شامیانے سے نکلے اور ایک طرف جو تھوڑی سی جگہ چھوڑی گئی تھی وہاں سے گزر کر جانے لگے ابھی وہ چند قدم ہی چلے تھے کہ ایک مکان کے پرنالے سے زبردست ریلا آیا جو ایک دفعہ پھر انہیں گل و گلزار کر گیا۔ دولہا میاں نے اوپر منہ اٹھا کر صورت حال سمجھنے کی کوشش کی ہی تھی کہ گندگی کے دوسرے ریلے نے ان کے منہ پر نقش کاری کر دی۔ دولہا میاں کبھی کپڑوں کو اور کبھی شکل کو دیکھتے جا رہے تھے۔ اتنے بڑے سانحے کا علم جب اس پر نالے کے گھر والوں کو ہوا تو وہ باہر نکلے اور دست بدست تمام حضرات سے معافیاں مانگنے لگے۔ مگر معافی سے دولہا میاں غسل تو نہیں فرما سکتے تھے۔ لوگوں نے ایک دفعہ پھر دولہا میاں کو تماشا بنا لیا۔ دلہن کی دو سہیلیاں اور دولہا کی سالی صاحبہ دودھ کا گلاس پکڑے کھڑی کی کھڑی رہ گئیں۔ کسی نہ کسی طرح ایک دفعہ پھر دولہا میاں کو حمام میں لایا گیا۔ لیکن اب کے حمام والے نے دولہا میاں کے اندر داخلے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ پہلے ہی آپ لوگوں نے اتنا گند ڈال دیا تھا کہ سارے گاہک بھاگ گئے ہیں۔ تاہم اس کی منت سماجت کی گئی تو اس شرط پر راضی ہوا کہ ایک فینائل کا ڈبہ بھی لا کر دیا جائے۔ دولہا میاں نے غسل تو کر لیا مگر کپڑوں کا مسئلہ تھا ایک دوست نے فی سبیل اللہ اپنی خدمات پیش کیں اور دولہا کو اپنا لباس پیش کر دیا۔ وہ خود جانگیہ پہن کر چنپی کے بہانے حجام کی دوکان پر بیٹھ گیا۔ ان کے جانے کے بعد اس نے دولہا کے کپڑے دھو کر حجام کی دوکان کے باہر سوکھنے کے لئے لٹکا دیے۔
دولہا میاں دودھ پینے کے لئے ایک دفعہ پھر اپنے سسرال کی چوکھٹ پر آ گئے۔ دروازے پر اور عین اوپر چھت پر دلہن کی سہیلیوں کا جھرمٹ تھا۔ وہ دولہا میاں کی سخت جان پر حیرت زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ دلہن کی قسمت پر رشک کر رہی تھیں جس نے اسے بیٹھے بیٹھائے اتنا اچھا فرمانبردار شوہر عطا کیا تھا جو اس قدر مصیبتوں کے باوجود شادی پر ڈٹا ہوا تھا۔
دولہا میاں کی اکلوتی سالی ہاتھ میں دودھ کا گلاس پکڑے کھڑی تھی۔ دولہا میاں چوکھٹ پر پہنچے۔ سلام عرض کیا۔ ابھی وہ دودھ کا گلاس منہ کی طرف لے جا ہی رہے تھے کہ ایک بڑا سا کچا اُپلا ان کے عین سر پر آ کر گرا۔ دودھ کاگلاس چھوٹ کر دور جا گرا۔ دروازے اور چھت پر کھڑی سہیلیوں کے قہقہے چھوٹ گئے۔ گویا وہ اسی بات کی منتظر تھیں۔ ابھی دولہا میاں سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ دو تین مزید اُپلے دولہا میاں کے باڈی گارڈوں پر آ کر گرے جس سے ان کے جسم اور لباس بھی گل و گلزار ہو گئے۔ شہر والوں کے لئے یہ تجربہ نیا تھا۔ لیکن جس گاؤں سے یہ بارات آئی تھی وہاں یہ رسمیں عام تھیں۔ اس مقصد کے لئے خصوصی طور پر گوبر اور سہیلیوں کا گروپ گاؤں سے ہی آئے تھے۔ کیونکہ گوبر جیسی چیز تو شہر میں آنکھوں میں سرما ڈالنے کے لئے بھی نہیں ملتی۔ دولہا میاں اور ان کے باڈی گارڈ بھاگ کر واپس شامیانے میں آ کر چار پائیوں پر بیٹھ گئے اور کپڑے درست کرنے لگے۔ سخت گرمی، لو اور پسینے سے برا حال تھا۔ اس پر گیلے گوبر کی بُو نے لوگوں کو پریشان کر دیا۔
باؤ کچھن اینڈ کمپنی کی آمدن کا انحصار اب صرف اس بات پر تھا کہ کمیشن پر لائے گئے فقیروں اور بھکاریوں کو آگے لایا جائے۔ لیکن دولہا میاں کے عزیزوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ سوائے مسجد کو حسب توفیق دینے کے ان کے ہاں فقیروں اور بھکاریوں کو دینے کا قطعاً رواج نہیں ہے۔ یوں باؤ کچھن اینڈ کمپنی ہر طرح کے مالی نفع سے مایوس ہو کر اس جگہ چلی گئی جہاں کھانا کھلایا جانا تھا تاکہ گوشت اور زردہ پلاؤ والی پراتوں کو محفوظ مقام پر پہچانے کے انتظامات کے جائیں۔ جب وہ حویلی کے گیٹ پر پہنچے تو انہیں نہ صرف وہیں باہر روک دیا گیا بلکہ گاؤں سے آتی ہوئی نوجوانوں کی فوج کے سربراہ نے خبردار کیا کہ اگر ان فقیروں میں سے کسی کی شکل یہاں نظر آئی تو وہی سلوک کیا جائے گا جو وہ گاؤں میں چور کے ساتھ کرتے ہیں۔ باؤ کچھن اور اس کی فوج پیر پٹختے اس محلے سے ہی دور چلی گئی۔
اب ذرا پھر دولہا میاں کی طرف۔
اب نکاح کی باری تھی۔ دولہا میاں اور دیگر باراتی مولوی صاحب کا انتظار کرنے لگے۔ ایک سیانے کی تحقیق سے پتہ چلا کہ مولوی صاحب ایک جنازہ پڑھانے چلے گئے ہیں۔ انہیں آنے میں دیر لگ سکتی ہے۔ اس انکشاف پر پہلی دفعہ دولہا میاں کے ضبط کے بندھن ٹوٹتے دکھائی دیئے۔ مولوی صاحب کا انتظار دولہا میاں کے لئے قیامت سے کم ثابت نہیں ہو سکتا تھا۔ انہوں صبر کے تمام بندھن توڑتے اور تمام سماجی، خاندانی روایات کو منجی کے نیچے پھینکتے ہوئے بڑی منت سے، شکل ایسے بناتے ہوئے کہ شاید ابھی رو پڑیں گے، اپنے والد سے کہا: ’’چاچا! تم نے گاؤں میں عنایت مصلی کے بیٹے کا نکاح پڑھایا تھا۔‘‘
’’ہاں پتر‘‘ اس کے والد گرامی نے جواب دیا۔
’’اور چاچا تمہارے نکاح پڑھانے کے باوجود ان کی شادی ٹھیک ٹھاک نبھ رہی ہے۔‘‘ دولہا میاں بے تابی سے بولے۔
’’ہاں پتر۔‘‘ والد گرامی یوں بولے جیسے انہیں یہ سن کر دکھ ہوا ہو۔
’’تو پھر چاچا۔‘‘ آخر دولہا میاں اپنے مطلب پر آ گئے۔ ’’کیا میں عنایت مصلی کے بیٹے سے بھی گیا گزرا ہوں۔ تم میرا نکاح پڑھاؤ۔ لکھت پڑھت بعد میں ہوتی رہے گی۔‘‘
اور یوں دولہا میاں، اس کے دوستوں اور دیگر باراتیوں کے نیک مشورے پر والد گرامی نے نکاح پڑھایا۔ چھوہارے بانٹنے کے لئے اس شخص کی تلاش شروع ہو گئی جس کے پاس چھوہاروں کی تھیلی تھی۔ ایک باراتی نے انکشاف کیا کہ وہ تو اپنی بھینس نہلانے واپس گاؤں چلا گیا ہے۔ اتنے میں کھانے کے لئے آواز دی گئی۔ لوگ چھوہاروں کو بھول کر کھانا کھانے کے لئے یوں دوڑے جیسے کسی نے شامیانے میں بم رکھے جانے کی اطلاع دی ہو۔ دولہا میاں نے چارپائی سے پاؤں اتارے۔ نیچے دیکھا تو جوتا غائب تھا۔ نیا تلے دار جوتا غائب ہونے پر کہرام تو مچتا مگر باراتی کھانا کھانے کے لئے دوڑ چکے تھے۔ ایک دوست فوراً بازار گیا اور ربڑ کی چپل لے آیا جو کم از کم آج کے دن چمڑے کی لگ رہی تھی۔
حویلی کے صحن میں کھانے کا بندوبست کیا گیا۔ یہ بہت بڑا صحن تھا۔ جس کے عین وسط میں چند ماہ قبل تک پانی کی کھوئی تھی لیکن جب شہر میں سرکاری واٹر سپلائی شروع ہوئی تو اسے توڑ کر بند کیا جا رہا تھا۔ کھوئی (چھوٹا کنواں) کا گڑھا صرف تین چار فٹ گہرا رہ گیا تھا۔ اس کے کنارے کے بالکل اوپر قناتیں لگا کر کھا نے کا انتظام کیا گیا تھا جبکہ دوسری طرف دیگیں وغیرہ پکا کر رکھی گئی تھیں۔ جب لوگ کھانا کھانے کے لئے آئے تو دولہا میاں اور ان کے دوستوں کو کھوئی کے قریب میز الاٹ کیا گیا۔ تاکہ سب سے الگ آرام سے کھانا کھا سکیں۔ دولہا میاں اور ان کے دوستوں کو قطعاً علم نہ تھا کہ ایک قدم پیچھے تین چار فٹ گہرا گڑھا ہے۔
گاؤں سے لائے گئے نوجوان گوشت اور زردہ پلاؤ کی پراتیں بھر بھر کر میزوں پر رکھ رہے تھے۔ دولہا کے دوست گوشت کی ایک پرات چٹ کر گئے تو ایک نوجوان اس خالی پرات کو دوبارہ بھر لایا۔ اس نے جوش یا تیز رفتاری میں پرات کو اتنے زور سے میز پر رکھا، بلکہ مارا کہ پرات سے سالن کے چھینٹے اڑ گئے۔ دولہا میاں اور ان کے دوست اپنے بچاؤ کے لئے پیچھے ہٹے۔ دولہا میاں نے یہاں بھی قدم پیچھے کیا ہی تھا کہ غائب ہو گئے۔ اچانک قناعت کی دوسری طرف سے ہائے ہائے کے نعرے بلند ہونے لگے۔ قناعت ہٹا کر دیکھا تو دولہا میاں ٹانگ پکڑے زار و قطار روتے ہوئے دہائی دے رہے تھے۔ سب لوگ کھانا چھوڑ کر گڑھے کے گرد یوں جمع ہو گئے جیسے موت کے کنوئیں میں تماشہ دیکھ رہے ہوں۔ دو نوجوان گڑھے میں اترے۔ معلوم ہوا کہ دولہا میاں کی ٹانگ ٹوٹ چکی ہے۔ دولہا میاں جو مسلسل استقامت کا مظاہرہ کر رہے تھے آخر ٹانگ کے ہاتھوں مجبور ہو گئے۔ انہیں بڑی مشکل سے گڑھے سے نکالا گیا۔ اور قریبی ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ دلہن کی رخصتی چند دن تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ دو تین روز بعد دلہن والے مکاں خالی کر کے واپس گاؤں چلے گئے۔ آخری اطلاع آنے تک دولہا میاں کی ٹانگ ٹھیک ہو چکی تھی۔ البتہ ان کی چال تیمور لنگ سے ملتی جلتی تھی۔ پھر دلہن کے گھر کھانے کی دعوت رکھی گئی اور دلہن کی رخصتی کر دی گئی۔
باؤ کچھن اینڈ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ دولہا میاں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ان کی بد دعاؤں کا نتیجہ تھا۔ کیونکہ اس شادی پر انہیں ایک ٹیڈی پیسے کی آمدن نہ ہوئی بلکہ کمیشن پر لائے گئے بھکاریوں کو پلے سے دے کر رخصت کرنا پڑا کہ اس سودے کا اصول یہی تھا۔
( تیس روزہ ’’چاند‘‘ نومبر 1994)